صداقت کے دلائل اور مہدیٔ منتظر
مجھے ان لوگوں(مخالفین۔ناقل) کی حالت پر رحم اور افسوس آتاہے کہ یہ کیوں غور نہیں کرتے اور منہاجِ نبوت پر اس سلسلے کی سچائی کو نہیں سمجھتے۔ وہ دیکھتے کہ اس قدر نصرتیں اور تائیدیں جو اللہ تعالیٰ کر رہا ہے کیا یہ کسی مفتری اور کذّاب کوبھی مل سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں۔ کوئی شخص نصرتِ الٰہی کے بغیر اس قدر دعویٰ کب کرسکتا ہے۔ کیا وہ تھکتا نہیں؟ اور پھر اللہ تعالیٰ مفتری کے لیے اس قدر غیرت نہیں دکھاتا کہ اسے ہلاک کرے؟ بلکہ اس کو مہلت دیتا جاتا ہے اور نہ صرف مہلت بلکہ اُس کی پیشگوئیوں کو بھی سچا کر دیتا ہے اور دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں جو اس کی مخالفت کرتے ہیں اسی کی تائید کرتا ہے اور اسی کو فتح دیتا ہے۔ انسانی حکومت کے مقابلہ میں اگر کوئی شخص افتراء کرتا ہے اور جھوٹی حالت بنا کر کہے کہ میں عہدیدار ہوں تو وہ پکڑا جاتا ہے اور اس کو سخت سزا دی جاتی ہے لیکن کیا تعجب کی بات نہیں کہ ایک مفتری اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا جاوے تو پھر نشان بھی دکھاتا جاوے اور اسے کوئی نہ پکڑے۔ براہینِ احمدیہ کی اشاعت کو بیس برس کے قریب ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ گائوں میں بھی ہم کوکوئی شناخت نہیں کرتا تھا۔ گائوں والے موجود ہیں۔ خود مولوی محمد حسین جس نے اس کتاب پر ریویو لکھا زندہ موجود ہے اُس سے پوچھو کہ اس وقت کیا حال تھا۔ ایسے وقت خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فوج درفوج لوگ تیرے پاس آئیں گے۔
یَاْ تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَـجٍّ عَـمِیْقٍ
دور دراز سے تیرے پاس لوگ آئیں گے اور تحائف آئیں گے۔ پھر یہ بھی کہا کہ لوگوں سے تھکنا مت۔ اب کوئی سوچے اور دیکھے کہ خدا تعالیٰ کے یہ وعدے کس طرح پورے ہوئے ۔ ان فہرستوں کو گورنمنٹ کے پاس دیکھ لے جو آنے والے مہمانوں کی مرتب ہوکر ہفتہ وار جاتی ہیں۔ اور ڈاک خانہ اور ریل کے رجسٹروں کی پڑتال کرے جس سے پتہ لگے گا کہ کہاں کہاں سے تحائف اور روپیہ آرہا ہے اور قادیان میں بیٹھ کر دیکھیں کہ کس قدر ہجوم اور انبوہ مخلوق کا ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی طرف سے بشارت اور قوت نہ ملے تو انسان تھک جاوے اور ملاقاتوں سے گھبرا اُٹھے۔ اُس نے یہ الہام کیا کہ گھبرانا نہ۔ ویسے ہی قوت بھی عطا کی ۔کہ گھبراہٹ ہوتی ہی نہیں اور ایسا ہی انگریزی، اردو،عربی، عبرانی میں بہت سے الہامات ہوئے جو اُس وقت سے چھپے ہوئے موجود ہیں اور پورے ہورہے ہیں۔ اب خدا ترس دل لے کر میرے معاملہ پر غور کرتے تو ایک نور ان کی رہبری کرتا اور خدا کی رُوح ان پر سکینت اور اطمینان کی راہیں کھول دیتی۔ وہ دیکھتے کہ کیا یہ انسانی طاقت کے اندر ہے جو اس قسم کی پیشگوئی کرے؟ انسان کو اپنی زندگی کے ایک دم کا بھروسہ نہیں ہوسکتا تو یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ تیرے پاس دُور دراز سے مخلوق آئے گی اور ایسے زمانے میں خبر دیتا ہے جبکہ وہ محجوب ہے اور اس کو کوئی اپنے گائوں میں بھی شناخت نہیں کرتا۔ پھر وہ پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس کی مخالفت میں ناخنوں تک زور لگایا جاتا ہے اور اس کے تباہ کرنے اور معدوم کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی مگراللہ تعالیٰ اس کو برومند کرتا اور ہر نئی مخالفت پر اس کو عظیم الشان ترقی بخشتا ہے۔ کیایہ خدا کے کام ہیں یا انسانی منصوبوں کے نتیجے؟ اصل یہی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب۔ مولویوں نے مخالفت کے لیے جہلاء کو بھڑ کایا اور عوام کو جوش دلایا، قتل کے فتوے دیئے، کُفر کے فتوے شائع کئے اور ہر طرح سے عام لوگوں کو مخالفت کے لئے آمادہ کیا مگر کیا ہوا؟ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور تائیدیں اَور بھی زور کے ساتھ ہوئیں۔ اُسی کے موافق جو اُس نے کہا تھا ’’دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا مگر خدا تعالیٰ اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔‘‘
جو مولوی مخالفت کے لئے شورمچاتے اور لوگوں کو بھڑکاتے ہیں یہی پہلے منبروں پر چڑھ کر رو رو کر دعائیں کیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اب مہدی کا وقت آگیا۔ لیکن جب آنے والا مہدی آیا تو یہ شور مچانے والے ٹھہرے اور اسی مہدی کو مُضِلّ اور ضالّ اوردجّال کہا اور یہاں تک مخالفت کی کہ اپنے خیال میں عدالتوں تک پہنچا کر اس سلسلہ کو بند کرنا چاہا۔ مگر کیا وہ جو خدا کی طرف سے آیا ہے وہ ان لوگوں کی مخالفت سے رُک سکتا ہے اور بند ہوسکتا ہے؟ کیا یہ خدا تعالیٰ کا نشان نہیں؟ اگر یہ اب بھی نہیں مانتے توآدمؑ سے لے کر اس وقت تک کوئی نظیر دو کہ اس طرح پر بیس برس پہلے ایک آنے والے زمانہ کی خبر دی اور پھر ایسی حالت میں کہ لوگوں نے اس پیشگوئی کو روکنے کی بہت کوشش کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور لوگوں کا کثرت کے ساتھ رجوع ہوا۔ کیایہ نشان کم ہے اس کی نظیر دکھائو۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 18۔21۔ ایڈیشن 1984ء)