محبتوں کا پیکر…خالہ صفیہ
[نوٹ:یہ مضمون دو سال قبل جون 2018ء میں لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں 27؍جون2020ء کو حد درجہ شکرگزار اور محبت کرنے والی خالہ صفیہ اس جہانِ فانی سے کوچ کرکے اپنے پیارے خدا کے حضور حاضر ہو گئیں جس کی رضا کے حصول کے لیے وہ تا زندگی کوشاں رہیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیۡہِ رَاجِعُوۡن۔
ہم ایک بہت پیار کرنے والے وجود اور ہمدرد دوست سے محروم ہو گئے مگر خدا تعالیٰ کی رضا میں راضی ہیں۔
خدا تعالیٰ پیاری خالہ صفیہ کو غریقِ رحمت کرے اور ان کے درجات بلندکرے۔ آمین]
خالہ صفیہ … ایک انتہائی مشفق وجود جنہیں دیکھ کر ایک گہری طمانیت اور سکون کا احساس ہوتا ہے، جن کی آنکھوں میں پیاراور زبان پر شکر گزاری کے الفاظ اور بھر پور دعائیں رہتی ہیں۔ اس پرکشش شخصیت میں اتنی اپنائیت ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی ان سے پرانا تعلق محسوس ہوتا ہے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ 1982ء میں ان کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :
’’آپ کا محبت بھرا اخلاص اور ایمان کی خوشبو سے بسا ہوا خط پیشِ نظر ہے۔ آپ میرا شکریہ ادا کررہی ہیں جب کہ میرا دل آپ سب کے لئے شکر سے لبریز ہے۔ دعا کے لئے جب اس میں تموّج پیدا ہوتا ہے تو چمکنے لگتا ہے…۔ شیخ صاحب کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کا ساتھ نصیب ہوا۔ اس وجہ سے ان کی فعال زندگی کی قدر اور بھی بڑھ گئی ہے اور آپ کی نیک اور اعلیٰ خوبیوں کو خدا تعالیٰ نے خوب رنگ لگایا ہے‘‘۔
خالہ صفیہ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم کی زوجہ محترمہ ہیں جو اپنی بیٹی فریدہ اور داماد محمد خواص کے ساتھ ورجینیا میں مقیم ہیں۔ مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کا تعارف محترم مولانا دوست محمد شاہد مؤرخِ احمدیت کی اس تحریر سے ہوجائے گا:
’’حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے رفیقِ خاص حضرت منشی محمد دین صاحب کے لختِ جگر مولانا شیخ مبارک احمد رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ و انچارج احمدیہ مشن انگلستان اور احمدیہ مشن امریکہ بھی ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ نے ایک منفرد اعزاز عطا فرمایا ہے کہ آپ 66سال تک دعوتِ اِلی اللہ کے قولی، لسانی، علمی اور روحانی جہاد میں والہانہ رنگ میں سرگرمِ ہیں اور اپنی عمر کے88سال طے کرنے کے باوجود جوانوں کی طرح نہایت فرض شناسی، اخلاص ودلسوزی سے دینی فرائض کی بجا آوری میں منسلک ہیں۔‘‘
تو بات ہورہی تھی خالہ صفیہ کی… ان کی عمر کے جس حصّے میں میری ملاقات ان سے ہوئی اس وقت ان کے قابلِ ذکر اور قابلِ تقلید ماضی کے خوبصورت نقوش ان کی گفتگو اور شخصیت سے تو ظاہر ہو سکتے تھے مگرمَیں ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ فکر سے کہنے لگیں ’’مَیں تو دعا کرتی ہوں کہ جماعت کی سب بچیوں کے رشتے اچھی جگہ پر ہوجائیں اور تمہارے بچوں کے لیے اور تمہارے لیے مَیں ہمیشہ دعا کرتی رہتی ہوں‘‘۔ مجھ سے ان کا کوئی پرانا تعلق تو نہیں ہے مگر کس طرح وہ مجھے یاد رکھتی ہیں۔ بہر حال میری خوش قسمتی ہے کہ ان کی محبت اور بے لوث دعاؤں کا حصّہ مجھے مل رہا ہے۔ پھر مجھے اندازہ ہوا کہ ان کی محبتوں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اتنا ہی پیار کا تعلق وہ سب کے ساتھ رکھتی ہیں۔ ایسے ہی نیک اور بابرکت بندوں کی دعاؤں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بہت سے لوگوں کی مشکلیں آسان کردیتا ہے۔ جب بھی ملاقات ہوتی تو مجھے ان سے پرانے قصّے سننا بہت اچھا لگتاجو کہ بہت ایمان افروز اور دلچسپ ہوتے۔
ایک دن کہنے لگیں کہ مَیں تو سب کچھ بھولتی جا رہی ہوں، پتہ نہیں کچھ یاد بھی رہے یا نہ رہے۔ تو مَیں نے کہا آپ انہیں لکھ لیں۔ کہنے لگیں کہ تم لکھ سکو تو لکھ لو۔ بہرحال کافی عرصہ سے میری یہ خواہش تھی کہ کبھی موقع اور وقت ملے تو پھر مَیں یہ کوشش کروں گی۔ چنانچہ مَیں نے لکھناشروع کیا تو کہنے لگیں کہ مَیں اتنی بڑی شخصیت تو نہیں جو میرے بارے میں لکھنا ہے۔ ان کی عاجزانہ طبیعت پر یہ گراں گزر رہا تھا۔ بہرحال وہ بولتی رہیں اور مَیں لکھتی رہی۔ ان کی باتیں سنتے سنتے ان کی شخصیت کا ایک پہلو چمکنے لگااور وہ تھا شکر گزاری۔ مَیں نے محسوس کیا کہ یہی وہ وصف ہے جس نے ان کی ذات کو اتنا خوبصورت بنا رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے جن شکر گزار بندوں کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا ہے یہ اس کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
ایک مرتبہ کہتیں کہ جب شیخ صاحب یعنی مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سے میری شادی ہوئی تو یہ میری اور ان کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی شادی سے تین بیٹیاں حبیبہ رشید، منصورہ لون اور بشریٰ حفیظ اور ایک بیٹا منور احمدتھے۔
میری پہلی شادی میرے تایا زاد سے ہوئی تھی جو کہ راولپنڈی میں رہتے تھے۔ وہ اکثر بیمار رہتے تھے۔ دس سال شادی رہی پھر ان کی وفات ہو گئی۔ ان سے میری ا یک بیٹی نعیمہ شبیر اور تین بیٹے شمیم احمد، نسیم احمد اور فہیم احمد تھے۔ شیخ مبارک احمد صاحب سے شادی کے بعد ہماری چھوٹی بیٹی فریدہ پیدا ہوئی۔ اس وقت شیخ مبارک احمد صاحب ایسٹ افریقہ میں رہتے تھے۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انہیں ربوہ بلا لیا۔ میری ان سے شادی 1966ء میں ہوئی۔
اس شادی کا ذکر مَیں شیخ مبارک صاحب کی کتاب ’’کیفیاتِ زندگی‘‘ سے ایک تحریر جو ’’انعام ‘‘کے نام سے ہے کرنا چاہوں گی۔ صفحہ نمبر 535 پر تحریر کرتے ہیں :
’’1965دسمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فضلِ عمر فاؤنڈیشن کا آغاز فرمایا…اس خدمت کے دوران خاکسار اس فاؤنڈیشن کا سیکرٹری تھا…فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹر اور وائس چیئر مین جو کہ کرنل عطاء اللہ صاحب اور چوہدری ظفراللہ خان صاحب تھے انہیں یہ خیال آیاکہ جو عطیہ جات اس فاؤنڈیشن کے لئے وصول ہوں گے حکومت ان پر ٹیکس وصول کرے گی۔ اس وقت اس ٹیم اور خاص طور پر خاکسار نے حکومت سے عطیہ جات پر ٹیکس نہ لگانے کی درخواست شروع کی۔ ایک عرصہ لگا مگر حکومت نے آخر کار ایک Notification جاری کردیا کہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد کے لئے جو عطیات جمع ہوں گے ان پر ٹیکس نہیں ہوگا۔‘‘
شیخ صاحب مزیدلکھتے ہیں : ’’جب یہ اطلاع حضور کو پہنچی تو انہوں نے خاص خوشی اور مسرّت کا اظہار فرمایا اور فرمایا شیخ صاحب مَیں آپ کو انعام دوں گا۔ یہ سن کر حضرت صاحب کی عنایت کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ کیا انعام دیں گے۔ فرمایا، تمہاری شادی کروادوں گا۔ میری پہلی بیوی مبارکہ بیگم فوت ہوچکی تھیں۔ کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ بہرحال صفیہ بیگم کا نام لیا اور ساتھ ہی کہا استخارہ کریں۔ صفیہ بیگم حضرت قاضی عبدالسلام بھٹی جو مدرسہ احمدیہ میں استاد تھے کی صاحبزادی تھیں جو جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ حضرت قاضی صاحب حضرت صاحب کے استاد بھی تھے۔ صاحبزادی طیبہ بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب حضرت صاحب کے درپے ایک بہت عرصہ سے تھیں ’’بھائی جان آپ نے یہ کام ضرور کرنا ہے کہ صفیہ کی شادی شیخ صاحب سے کروادیں ‘‘۔ صفیہ اور صاحبزادی طیبہ کا آپس میں سہیل پُنا تھا اور صاحبزادی امۃ ا لباسط اور صاحبزادی طیبہ بیگم صفیہ کی بہنیں بنی ہوئی تھیں۔ ہر دفعہ ان صاحبزادیوں نے ایک خاص شفقت کا سلوک ہم دونوں سے روا رکھا۔ خاندان کی بزرگ خواتین سے جب میری والدہ میری شادی کا ذکر کرتیں تو سب ایک زبان ہو کر صفیہ بیگم کا نام لیتیں … بہر حال استخارہ کا خواب اچھا نہ آیا۔ ایک ڈیڑھ مہینہ حضور خاموش رہے پھر فرمایا شیخ صاحب اب استخارہ کریں۔ چنانچہ خاکسارنے حضرت صاحب کے فرمان کی تعمیل میں دوبارہ استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ میری پہلی فوت شدہ بیوی مجھے خواب میں ملیں اور کہا اتنا صدقہ کرلو۔ اس پر حضور کو اطلاع دی کہ یہ خواب دیکھا ہے۔ حضرت صاحب فوری طور پر فرمانے لگے آج مَیں عصر کے بعد آپ کے نکاح کا اعلان کردوں گا، بتاؤ خطبہ میں کیا کہوں۔ یہ حضور کی خاص شفقت اور خواہش تھی اور حضرت صاحب نے اس عرصہ میں میرے لئے خاص دعا بھی کی اور خاندان کے بزرگ افراد اور خواتین نے اس فیصلہ کی اطلاع پا کر خوشی اور مسرّت کا اظہار فرمایا۔ حضرت صاحب نے نکاح کا اعلان فرمایا اور خاص جذبہ سے فرمایا ’’مَیں شادی کروا رہا ہوں ‘‘۔ ولیمہ میں بھی پیار سے شامل ہوئے۔ جب رخصتانہ پنڈی سے لے کر آیا تو سیّدہ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ نے پیغام بھیجا صفیہ مجھے آکر ملو۔ صفیہ بیگم ملنے گئیں۔ دریافت فرمایا کیا کیا لباس پہنایا ہے۔ وہ خاص لباس جو صفیہ بیگم نے پہنا ہوا تھا، دیکھا، بے حد خوش ہوئیں اور تسلی پا کر مطمئن ہو گئیں۔ حضرت نواب مبارکہ بیگمؓ نے صفیہ بیگم کو بلوا کر گلے لگایا، پیار کیا اور دعا دی…حضرت بانیٔ سلسلہ کے ایک صحابی کی پوتی، قاضی عبدالسلام جو خود حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اوراس عاجز کے استاد تھے کی بیٹی تھیں۔ اور قاضی عبدالسلام کی تحریک پر جب وہ نیروبی میں سیکرٹری دعوتِ اِلی اللہ تھے مرکز میں درخواست کی گئی کہ مربی منگوایا جائے۔ لمبا عرصہ نیروبی کے صدر بھی رہے اور خاکسار کے قیام میں خاص شفقت کا سلوک کیا اور اس عاجز کے کاموں میں خاص مددگار تھے، صفیہ بیگم ان کی صاحبزادی تھیں۔ اور حضرت صاحب کوصفیہ بیگم کے عین جوانی میں بیوہ ہوجانے کی وجہ سے خاص فکر مندی رہی اور اس موقع کی تلاش میں رہے کہ اس کی پھر سے شادی کا انتظام ہو جائے۔ بفضلِ خدا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ہمارے باہمی تعلقات کو خوشگوار دیکھ کر خوشی خوشی اس دنیا سے رخصت ہوئے…ایک غیرمعمولی فدائیٔ احمدیت اور امامت کی شیدائی خاتون خدا تعالیٰ نے مجھے نصیب کی۔ خاص عنایت اور دعاؤں کی برکت سے مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت صاحب کے توسّط سے یہ ’’انعام‘‘ نصیب کیا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام بزرگوں اور بزرگ خواتین کو جنہوں نے اس عاجز پر یہ احسان کیا اجرِ عظیم نصیب کرے، انہیں دنیاوی مسّرتوں سے نوازے…‘‘
(کیفیاتِ زندگی)
خالہ صفیہ نے اپنے بچپن کا زمانہ یاد کرتے ہوئے بتایاکہ میرا بچپن ایسٹ افریقہ میں گزرا۔ 1930ء میں جب مَیں صرف تین مہینے کی تھی تو میرے ابا کو ایسٹ افریقہ میں جاب مل گئی۔ بچپن میں مجھے یاد ہے جب مَیں چھ یا سات سال کی تھی ہر ہفتے الفضل کا ایک پیکٹ آیا کرتا تھا اور ابّاجان اس میں سے ہمیں خطبہ پڑھ کر سناتے تھے۔ سکول میں ہماری ٹیچر احمدی تھیں جن سے مَیں نے اردو سیکھی۔ پھرایک دن مَیں نے خطبہ خود ہی پڑھ لیا۔ ابّاجان نے مجھے اندر بلایا اور بہت خوشی کا اظہار کیا اور استانی سردار سے کہا کہ آج میرا سارا بوجھ اتر گیا ہے، صفیہ نے خود اخبار پڑھ لیا ہے۔ ہماری امّی بہت دعاگو تھیں۔ گھر کے کام کرتے، کھانے میں چمچہ چلاتے ہوئے دعائیں پڑھتی جاتی تھیں۔ پھر اکثر دُرِثمین کی نظم کے یہ دعائیہ اشعار دہراتی رہتیں
کر اِن کو نیک قسمت دے ان کو دین ودولت
حضرت مصلحِ موعودؓ نے ہی میرا نام تجویز فرمایا تھا۔ … حضرت مصلحِ موعودؓ نے ہی میری بسم اللہ کروائی جب مَیں چار سال کی تھی اور چھ سال کی عمر میں مَیں نے قرآن ختم کرلیا۔ بہت کمزور ہوا کرتی تھی۔ حضرت صاحبؓ نے فرمایا اسے شکار کا گوشت کھلایا کرو۔ مَیں چھ سال کی تھی جب میری دوسری بہن پیدا ہوئی۔ حضور سے ملاقات کے لیے بھی جاتے تھے۔
سیّدعبدالرزاق شاہ صاحب اور سیّد محموداللہ شاہ صاحب ہمارے ہمسائے ہوا کرتے تھے جو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ماموں تھے۔ وہ انسان کے روپ میں چلتے پھرتے فرشتے تھے۔ ہم انہیں چلتے پھرتے، وضوکرتے، نماز پڑھتے دیکھا کرتے تھے۔ ہماری امّی اکثر کھانا بنا کر ہمارے ہاتھ انہیں بھجوایا کرتی تھیں۔ خاص طور پر ماش کی دال اورپائے انہیں بہت پسند تھے۔ سیّد محموداللہ شاہ صاحب نے ہی میری آمین کروائی تھی۔ جب میری آمین ہوئی تو میری امّی نے شکّر پارے بنائے اور سب گھروں میں پڑیاں بنا کر بھجوائیں۔ میری امّی کانام مبارکہ اور میرے پڑدادا حضرت قاضی ضیاء الدین صاحبؓ تھے جو خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہوئے تھے۔ ان کا نام تاریخِ احمدیت میں بھی آتا ہے۔ ان کے دو بیٹوں قاضی عبداللہؓ اور قاضی عبدالرحیمؓ نے منارۃ المسیح کی تعمیر میں حصّہ لیا۔ میرے ابّا جان کا نام قاضی عبدالسلام صاحب تھاجو قاضی عبدالرحیمؓ کے بیٹے تھے۔ میری نانی کانام ویسے تو فاطمہ تھا مگر حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے ان کا نام ’’امۃ الرحمٰن‘‘ رکھاہوا تھا۔ میری نانی کی شادی کے جلد بعد نوعمری میں ہی ان کی طلاق ہوگئی تھی اور اس کے بعد انہیں حضرت مسیحِ موعودؑ کے گھر میں تین سال رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت مسیحِ موعودؑ نے بہت شفقت سے ان کا خاص خیال رکھا۔ حضرت امّاں جان اور حضرت مسیحِ موعودؑ کی محبت اور اعلیٰ اخلاق کے امۃ الرحمٰن صاحبہؓ (نانی جان) کو بہت سارے تجربات ہوئے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت امّاں جانؓ نماز پڑھ رہی تھیں تو امۃ الرحمٰن صاحبہؓ پنکھا جھل رہی تھیں۔ پھر جب انہوں نے نماز شروع کی تو حضرت امّاں جانؓ نے پنکھا جھلنا شروع کردیا۔ نماز ختم کرنے کے بعد امۃ الرحمٰنؓ نے گھبرا کر کہا ’’بی بی جی آپ ایسا کیوں کر رہی ہیں‘‘۔ اس پر حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا ’’امۃ الرحمٰن کیا تمہیں گرمی نہیں لگتی۔‘‘
پھر ایک اَور واقعہ ہماری نانی جانؓ نے بتایا کہ ایک دن وہ حضرت امّاں جانؓ کے کچن میں اور لڑکیوں کے ساتھ کام کروا رہی تھیں۔ چائے ڈالتے ہوئے حضرت امّاں جانؓ کی پسندیدہ پیالی ان کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی۔ نانی جانؓ بہت گھبرائیں اور باقی لڑکیاں بھی پریشان ہو کر بولنے لگیں۔ اسی دوران حضرت مسیحِ موعودؑ وہاں سے گزررہے تھے۔ آوازیں سن کرکچن میں تشریف لے آئے اور پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے؟ لڑکیوں نے بتا یا کہ امۃ الرحمٰنؓ سے پیالی ٹوٹ گئی ہے۔ جو جواب حضرت مسیحِ موعودؑ نے فرمایا وہ حکمت اور محبت سے بھر پور تھا۔ فرمانے لگے ’’ہماری پیالی تھی اور ہم سے ٹوٹ گئی۔‘‘
اپنے حالات زندگی بتاتے ہوئے خالہ صفیہ نے مزید بتایا کہ جب مَیں راولپنڈی سے ربوہ آگئی تو میرے بڑے بیٹے کو جو کہ اس وقت سولہ سال کا تھا کسی سلسلہ میں مجھ سے کچھ دیر دُور رہنا پڑا اور اس کی جدائی کا میرے دل پر بہت اثر تھا۔ شیخ صاحب کے بچے بھی تھے جو کہ اس وقت شادی شدہ تھے۔ بچوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک رکھا۔ شیخ صاحب نے ہمیشہ اور خاص طور پر اپنی وفات سے پہلے اس بات کا ذکر کیا کہ صفیہ تمہارے بچوں نے ہمیشہ میری بہت خدمت کی ہے۔
شیخ صاحب کی والدہ محترمہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے بچے تو فرشتے لگتے ہیں اور وہ ان کی خدمت کی بھی بہت قدر فرماتی تھیں۔ بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ مَیں نے بھی شیخ صاحب کی ہر خواہش کاخاص خیال رکھا۔ وہ دین کے کاموں میں انتہائی مصروف تھے۔ اس قدر کام ہوتا کہ طبیعت میں stressبھی ہو جاتا مگر مَیں صبر اور حوصلے کے ساتھ ان کا خیال رکھتی تھی۔ ان کے رشتہ داروں سے بھی اچھے تعلقات رہے۔ اب مَیں اپنی بیٹی فریدہ کے پاس رہتی ہوں اور وہ میری خدمت میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہے۔ شیخ صاحب کے بچوں نے بھی ہمیشہ میرا بے حد خیال رکھا اور ان کا میرے ساتھ حسنِ سلوک قابلِ تحسین ہے۔
ربوہ میں شیخ صاحب ناظر اصلاح و ارشاد اور سیکرٹری حدیقۃ المبشرین تھے۔ شیخ صاحب کے دو بھائی شیخ فضل صاحب اور شیخ بشیراحمد صاحب لاہور میں بڑے پیمانے پر کاروبار چلا رہے تھے۔ ایک بھائی شیخ شفیع احمد تھے جو پہلے افریقہ میں تھے اور پھر بعد میں لاہور آگئے۔ وہ بھی وہاں اپنا کاروبار کرتے تھے۔ اور ایک بھائی شیخ منیراحمد بھی جماعت کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
انجمن کے جن گھروں میں ہم رہتے تھے وہ چھوٹے تھے اور گھر کے افراد زیادہ تھے۔ واقفینِ زندگی تو خدا تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی محبت تھی کہ انہوں نے فرمایا کہ آپ کے دونوں بھائی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس قابل ہیں کہ آپ کو گھر بنوا کر دیں اور اس کا ذکر بھی حضرت صاحبؒ نے خود ہی دونوں بھائیوں شیخ فضل صاحب اور شیخ بشیر صاحب سے کردیا۔ انہوں نے شیخ مبارک صاحب اور ان کے بچوں کے لیے ایک کشادہ گھر ربوہ میں تعمیر کروادیا۔ شیخ صاحب چونکہ واقفِ زندگی تھے تو ان دونوں بھائیوں نے ساری زندگی ان کا بہت خیال رکھا اور عزّت بھی کی۔
پھر انہوں نے بتایا کہ شیخ صاحب کے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر ایک پنکھے کی مثال لی جائے تو اس کے پَر مشین سے چلتے ہیں تو اس صورت میں وہ مشین یہ مبارک اور منیر ہیں جن کی وجہ سے فضل اور بشیر کو خدا تعالیٰ نے یہ برکت دی ہے اور وہ کامیاب و کامران ہیں کیونکہ وہ اپنے واقفین بھائیوں کی مدد کرتے اور خیال رکھتے ہیں اور ساری زندگی انہوں نے ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔
ایتائے ذی القربیٰ کی یہ کیا خوبصورت مثال ہے اور اس میں بہت سے اہم پہلو ہیں کہ اگر مال دار لوگ اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کا خیال رکھیں اور ان کی مدد کرتے ہوئے ان کی عزّتِ نفس کا خیال بھی رکھیں، انہیں محسوس نہ ہونے دیں اور عاجزی اختیار کریں تو یہی رِحمی رشتے ہیں جن کا احترام اور تعلق ہمیں اسلام اور احمدیت سکھاتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لینے والے بھی بجائے شکر گزاری اور محبت کا سلوک رکھنے کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوکر دینے والے کے خلاف ہوجاتے ہیں اور حسد کے جذبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ یعنی یا تو رشتہ داروں کی ضرورتوں سے نظر اندازی کی جاتی ہے یا پھر لینے والے احساسِ کمتری کا شکار ہو کر ان پر حملے کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں لین دین اور ملنے جلنے کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اور رِحمی رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ خالہ صفیہ جس محبت سے ان کا ذکر کر رہی تھیں اور ان کے دل میں ان کا جو احترام اور شکر گزاری تھی وہ ان کے چہرے سے ظاہر ہو رہی تھی۔ واقعی وہ خدا تعالیٰ کی شکر گزار بندی ہیں۔ جیسا کہ جو خدا تعالیٰ کے بندوں کا شکر گزار نہیں وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں۔ خدا تعالیٰ ایسی شکر گزاری کی توفیق سب کو عطا فرمائے۔ آمین
شکر گزاری تو خالہ صفیہ کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف ہے۔ ایک مرتبہ مَیں ان سے ملاقات کے لیے گئی توایک معمولی سا تحفہ ایک کمبل نما شال ان کی خدمت میں پیش کی تو اس کے بعد کوئی ملاقات ایسی نہ تھی کہ انہوں نے اس کا ذکر نہ کیا ہو اور اس کے فائدے نہ گنوائے ہوں۔ مَیں اپنی جگہ شرمندہ ہوتی تھی کہ اتنی چھوٹی سی چیز اور وہ اس کے لیے اس قدر شکر گزار ہیں۔
خالہ صفیہ کی زندگی کی داستان آگے چلتی رہی…بتاتی ہیں کہ ربوہ میں پندرہ سال رہنے کے بعد حضورؒ کے حکم سے1979ء میں شیخ صاحب کی تقرری لندن میں ہوگئی۔ لندن میں ہماری خوش قسمتی تھی کہ دو خلفاء کی خدمت کا موقع ملا۔ حضرت چودھری سر ظفراللہ خان صاحبؓ کا فلیٹ بھی مسجد سے قریب تھا۔ ان کے لیے مَیں سُوپ بنا کر بھیجتی تھی اور پلاؤ وغیرہ بھی بچوں کے ہاتھ بھجوا دیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ بھی آنے جانے والے معزّز مہمانوں، پارلیمنٹ کے ممبران اور جماعت کے مہمانوں کی خدمت کا موقع ملتا اور اس میں مجھے بہت خوشی کا احساس ہوتا۔
1982ء میں سپین کی مسجد کے افتتاح پر جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ تشریف لائے تو اس دورہ کے اختتام پر انہوں نے شیخ مبارک صاحب کوجو لکھا وہ قابلِ ذکر ہے۔ شیخ صاحب اپنی کتاب ’’کیفیاتِ زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے دورہ کو ہر لحاظ سے کامیاب بنایا اور قوّتِ عمل میں ترقّی دی۔ امید ہے آپ پہلے سے بڑھ کر دعاؤں اور حکمت اور محنت سے جماعت کو ایک سے ایک بڑھ کر مقام تک لے جانے میں کوشاں رہیں گے۔ سارے قافلے والے آپ کے بےحد خلوص سے متأثر ہوئے ہیں۔ آپ کی بیگم صاحبہ اور ان کی ساری بہنیں ماشاء اللہ اخلاص کا عملی اور اعلیٰ مرقّع ہیں۔ نہایت ہی عمدہ تربیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں۔ ان کے اخلاص کا اثر ان کی نسلوں پر گہرا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سارا خاندان ہی احمدیت کا عاشق اور فدائی ہے۔‘‘
(12؍اکتوبر1982ء)
یہاں یہ بھی ذکر کر دوں کہ جب حضور خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اپنے پہلے دورہ پر لندن شریف لائے تو اس فلیٹ میں ہی آپ کا قیام ہوا جس میں ہم رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے خاکسار کی اہلیہ اور عزیزہ بیٹی فریدہ سلّمہا اللہ تعالیٰ نے حضور اور آپ کی بیگم صاحبہ اور صاحبزادیوں کی خدمت اور تواضع میں برکت محسوس کی… یکم جنوری 1984ء میں عاجز کو یاد فرمایا اور لکھا ’’عزیزہ فریدہ کے لئے تھوڑا سا سوہن حلوہ اور اس کی امّی کے لئے اچار کی بوتل بھجوا رہا ہوں۔ دونوں کو بہت محبت بھرا سلام…‘‘
(کیفیاتِ زندگی، صفحہ342)
لندن میں جہاں شیخ صاحب خدمتِ دین میں بے انتہا مصروف تھے وہاں خالہ صفیہ نے بھی اپنے آپ کو اسی طرح خدمت میں وقف کر رکھا تھا اور سب کا ہر طرح سے خیال رکھتی تھیں۔ جب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبیل انعام لینے کےلیے سویڈن تشریف لے جانا تھا تو خالہ صفیہ نے ان کے لباس کی تیاری میں ان کی مدد کی اور محترم شیخ صاحب نے اپنی پگڑی ان کی خدمت میں پیش کی۔
لندن سے ایک رشتہ دارخاتون صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امۃ الباسط صاحبہ سے ملیں اور بتایا کہ خالہ صفیہ پر بہت بوجھ ہے اور بہت کام ہے۔ انہوں نے تو ان کی ہمدردی میں یہ کہا مگر جب خالہ صفیہ کو اس بات کا علم ہوا تو سخت ناراض ہوئیں۔ پھر انہوں نے ان دونوں کو خط لکھا کہ مجھے تو کوئی شکایت نہیں، جب کوئی مہمان آتا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے اور یہ میرا فرض بھی ہے۔ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ نے فرمایا کہ مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی ہے اور ایک واقفِ زندگی کی بیوی کا یہی رویہ ہونا چاہیے۔
لندن میں قیام کے دوران خالہ صفیہ کی بیٹی نعیمہ شبیر صاحبہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں ایک سویٹر تحفۃً پیش کیا۔ اگلے دن حضورؒ وہ سویٹر پہن کر مسجد تشریف لائے اور خالہ صفیہ سے فرمایا کہ دیکھو مَیں نے تمہاری بیٹی کا تحفہ استعمال کیا ہے۔
لندن کا وقت خالہ صفیہ کے لیے بہت یادگار اور قابلِ ذکر تھا کہ وہاں بہت بابرکت شخصیات کی خدمت اور ان کے قریب رہنے کا موقع ملتا رہا۔ 1983ء میں احبابِ جماعت نے بہت دعاؤں کے ساتھ آپ کو وہاں سے امریکہ کے لیے رخصت کیا۔ امریکہ آکر بھی خالہ صفیہ مسلسل شیخ صاحب کے ساتھ ساتھ خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ افریقن اور امریکن نو مبائعات خواتین جن میں سعیدہ لطیف صاحبہ، حمیدہ حلیم صاحبہ، شکوریہ نوریہ صاحبہ اور سمیعہ لطیف صاحبہ تھیں جنہیں آپ اردو سکھاتی تھیں اوران کے ساتھ بہت محبت کا سلوک روا رکھا۔
مکرم شیخ صاحب 1991ء تک جماعت کی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں آپ کی ریٹائرمنٹ ہوئی لیکن اس کے بعد بھی آپ اپنے طور پر دین کی خدمت میں مصروف رہے۔
خالہ صفیہ نے بہت سے خطوط مجھے دکھائے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بہت پیار ومحبت سے ان کے نام لکھے تھے جن سے خالہ صفیہ کی شخصیت کا عکس نظر آتا ہے۔ میرا دل رشک کے جذبات سے بھر گیا کہ ان پر خدا تعالیٰ کی کس قدر عنایات تھیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے اسی طرح کے ایک خط سے ایک اقتباس پر اس مضمون کو ختم کرتی ہوں۔ حضورؒ نے فرمایا:
’’کتنے خوش نصیب ہیں ہمارے پیارے شیخ صاحب جنہیں خدا تعالیٰ نے اتنی مخلص اور رہِ مولیٰ میں فدا ہونے والی، ہر نیک کام میں مددگار اور معین اور رفیق بیوی عطا کی ہے۔ اور آپ بھی تو کم خوش نصیب نہیں جنہیں ایک عظیم مجاہدِ اسلام کی رفاقت نصیب ہوئی…
آپ کے خطوط ملتے ہیں تو دل چاہتا ہے کہ ہر خط کا جواب اپنے ہاتھ سے دوں مگر میری مجبوریاں حائل ہیں۔ آج آپ کو یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ لکھوائے ہوئے خطوط پر بھی دل آزردہ نہ ہو…
مکرم شیخ صاحب کو نہایت محبت بھرا سلام اور پیاری فریدہ بیٹی کو سلام اور پیار
خدا حافظ والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد‘‘
٭…٭…٭