حاصل مطالعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج کل پریس اور دوسرا الیکٹرونک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ جو ہے، اس پر مسلم اور غیر مسلم دنیا میں ایک موضوع بڑی شدت سے موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور یہ ہے ناموسِ رسالت کی پاسداری یا توہینِ رسالت کا قانون۔ ایک سچے مسلمان کے لئے جو حضرت آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اس کے لئے سخت بے چینی کا باعث ہے کہ کسی بھی رسول کی، کسی بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اہانت کی جائے اور اس کی ناموس پر کوئی حملہ کیا جائے۔ اور جب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا سوال ہو جنہیں خدا تعالیٰ نے افضل الرسل فرمایا ہے تو ایک حقیقی مسلمان بےچین ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی گردن تو کٹوا سکتا ہے، اپنے بچوں کو اپنے سامنے قتل ہوتے ہوئے تو دیکھ سکتا ہے، اپنے مال کو لٹتے ہوئے دیکھ سکتا ہے لیکن اپنے آقا و مولیٰ کی توہین تو ایک طرف، کوئی ہلکا سا ایسالفظ بھی نہیں سن سکتا جس میں سے کسی قسم کی بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہو۔…
مَیں تو آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی ہاتھ ڈالنے کی ہلکی سی بھی کوشش کرے گا تو وہ خدا تعالیٰ کے اس فرمان کہ
اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِءِ یْنَ(الحجر: 96)
یقیناً ہم استہزاء کرنے والوں کے مقابل پر تجھے بہت کافی ہیں، کی گرفت میں آجائے گا اور اپنی دنیا و آخرت برباد کر لے گا۔ میرے آقائے دو جہانؐ کا مقام تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی عزت و مرتبے کی ہر آن اس طرح حفاظت فرما رہا ہے کہ جس تک دنیا والوں کی سوچ بھی نہیں پہنچ سکتی۔ آپؐ کے مقام، آپؐ کے مرتبے، آپؐ کی عزت کو ہر لمحہ بلند تر کرتے چلے جانے کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں یوں فرمایا ہے۔ فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الاحزاب: 57)
کہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے سارے فرشتے نبی کریم پر درود بھیجتے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو صرف اور صرف آپؐ کو ملا ہے۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو کسی اَورنبی کی شان میں استعمال نہیں ہوئے۔ اور اس مقام کو اس زمانے میں سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے عاشقِ صادق نے سمجھا ہے اور ہمیں بتایا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍جنوری2011ء)
(مرسلہ:سید احسان احمد۔لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض دعائیں
فرمایا:
’’میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمنوں کو بھی باہر نہ رکھے جس قدر دعا وسیع ہو گی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا اور دعا میں جس قدر بخل کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور ہوتا جاوے گا‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 353)
٭…دشمنوں کے لیے دعا
’’اے میرے ربّ !ان لوگوں پر جو میری دشمنی کر رہے ہیں گرفت نہ فرما کیونکہ وہ مجھے نہیں پہچانتے اور نہ انہیں بصیرت حاصل ہے۔پس اے میرے ربّ! اپنی جناب سے ان پر رحم کر اور انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما۔‘‘
(روحانی خزائن جلد 20 اردو ترجمہ علامات المقربین صفحہ 90)
٭…مخالفین کے لیے دعا
’’پھر میں نے ان کی خاطر مبارک راتوں میں اس خیال سے قیام کیا اور راتوں کی گھڑیوں میں ان کے لئے دعائیں کیں تا کہ ان پر رحم کیا جائے…‘‘
(روحانی خزائن جلد 20صفحہ 123علامات المقربین اردوترجمہ صفحہ 100)
اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار
کاخر کنند دعوٰئ حب پیمبرؐم
٭…19؍اپریل 1904ء
فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کے لئے اور پھر قادیان کے لئے دعا کر رہا تھا تو الہام ہوا
(1) زندگی کے فیشن سے دُور جا پڑے ہیں۔
(2) فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا
فرمایا میرے دل میں ڈالنے کو میری طرف کیوں منسوب کیا گیا ہے۔اتنے میں میری نظر اس دعا پرپڑی جو ایک سال ہؤا بیت الدعاپر لکھی ہوئی ہے اور وہ دعا یہ ہے
یَا رَبِّ فَاسْمَعْ دُعَآئِیْ وَ مَزِّقْ اَعْدَآءَکَ وَ اَعْدَآئِیْ وَ اَنْجِزْ وَعْدَکَ وَانْصُرْ عَبْدَکَ وَاَرِنَااَیَّامَکَ وَشَھِّرْلَنَا حُسَامَکَ وَلَا تَذَرْمِنَ الْکَافِرِیْنَ شَرِیْرًا۔
اس دعا کو دیکھنے اور اس الہام کے ہونے سے معلوم ہؤا کہ یہ میری دعا کی قبولیت کا وقت ہے۔
پھر فرمایا :ہمیشہ سے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ اس کے ماموروں کی راہ میں جو لوگ روک ہوتے ہیں ان کو ہٹا دیا کرتا ہے…۔
(الحکم 24؍اپریل 1904ء صفحہ 1بحوالہ تذکرہ صفحہ426تا427)
(مرسلہ:انجینئر محمود مجیب اصغر)
ایک وقت آئے گا کہ جب تاریخوں میں واقعات پڑھے جائیں گے
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’امریکہ کا ایک پریذیڈنٹ تھا اس کے دل میں غلامی کی رسم کے خلاف خیال پیدا ہوا اور اس نے ایک مسودہ قرار دیا کہ جس میں غلامی کی رسم کی ممانعت کا اعلان کیا۔ لیکن امریکہ کہ جس کی تمام دولت کا انحصار غلاموں پر تھا اس کے رؤسا نے فیصلہ کے خلاف آواز اٹھائی اور انہوں نے کہا کہ ہماری ریاست علیحدہ کر دو۔پریذیڈنٹ نے کہا جب تم پہلے شامل ہوچکے ہوئے ہو تو اب تم علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ آخر نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ چھڑ گئی۔ جس میں پہلے تو پریذیڈنٹ کے مقابل فریق کا پلہ بھاری رہا کیونکہ وہ لوگ بوجہ زمیندار کے مضبوط تھے لیکن آخر پھر پریذیڈنٹ کو ہی کامیابی حاصل ہوئی اور اسے دوسرے علاقہ پر فتح حاصل ہوئی اور دوسروں کا لیڈر مارا گیا اور پریڈیذنٹ کی قوم نے بڑے بڑے افسروں نے بڑے جلوس نکالنے کا ارادہ کیا۔ اور اس میں پریذیڈنٹ کو بھی بڑی شان کے ساتھ نکالنے کا ارادہ کیا۔ بڑے بڑے لوگ ایک شاندار جلوس نکالنے کی تیاریاں کر چکے تو پریذیڈنٹ کو بلایا۔ اس نے کہا یہ جلوس کیسا؟ افسروں نے جواب دیا کہ آپ کے لئے جلوس نکالنا چاہتے ہیں۔ تو اس نے جواب دیا کہ جب میں حبشیوں کو غلام بنانا پسند نہیں کرتا تو اپنے بھائیوں کو کیسے غلام بنا سکتا ہوں۔ یہ دوسرے لوگ میرے بھائی ہیں۔ جس طرح میں نے ملک کی خدمت کی اسی طرح انہوں نے بھی اپنے خیال میں ملک کی خدمت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں ایک محبت کی رو چل گئی اور پھر تمام ملک ایک ہوگیا۔
پھر اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود کی تازہ مثالیں موجود ہیں جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ کا مقابلہ کیا۔ دوست جانتے ہیں دشمنوں نے گھماروں کو آپ کے برتن بنانے سے سقوں کو پانی دینے سے بند کر دیا۔ لیکن پھر جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے۔ تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے۔ کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خوامخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر دوستوں نےکہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہیئے۔ جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نےحضرت صاحب کے پاس آکر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو۔ انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے تو حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں۔ مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا پھر مرزا صاحب نے معاف ہی کر دیا۔
کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ بے شک آج دنیا اس کو محسوس نہیں کرتی ۔ لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب تاریخوں میں واقعات پڑھے جائیں گے تو یہی واقعات لاکھوں آدمیوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے۔ آج اگر پچاس آدمیوں پر اس واقعہ کا اثر ہے تو کل ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں ہزاروں آدمیوں پر یہ واقعات اثر کریں گے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 10صفحہ 276تا277)
(مرسلہ:انور شہزاد)
ہندوستان نبوت کا دارالخلافہ ہے
مولانا قاری محمدطیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند تحریر فرماتے ہیں:
’’ہندوستان نبوت کا دارالخلافہ ہے،یہا ں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام تشریف لائے حضرت شیث علیہ السلام دوسرے رسول تھے جو اس سرزمین پر وارد ہوئے ان کی قبر شریف کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اجودھیا میں ہے۔‘‘
حضرت مولانا محمد میاں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
( 1) انسانیت کا دارالخلافہ ہندوستان ہے۔
(2) چوں کہ خلیفہ نبی تھا جس کے پاس حضرت جبرئیل تشریف لایا کرتے تھے لہٰذا سرزمین ہند سب سے پہلے آفتاب نبوت کا مشرق بنا۔
(3) اسی سرزمین پر سب سے پہلے حضرت جبرئیل کا نزول ہوا۔
(4) ابن سعد نے طبقات میں نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے جسم کا خمیر ’’وجنی‘‘نامی علاقے کی خاک سے بنایا ہے۔ لہٰذا ہندوستان کو یہ شرف حاصل ہے کہ سب سے پہلے نبی … کا خمیر یہیں کی خاک سے بنایاگیا اور حضرت آدم تمام انسانوں کے ابوالآباء تھے اس لیے جملہ انبیاء اور تمام انسانوں کے روحانی اور مادّی اصل واصول کا خمیر ہندوستان ہی سے بنایا گیا، توالد و تناسل کے اصول پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جملہ انبیاء ،اولیاء اور صلحاء کرام علماء ومشائخ کااوّلین عنصر اسی خاک پاک سے وجود پذیر ہوا ۔‘‘
( ماخوذ از: اسلام میں دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے ساتھ حسنِ سلوک۔ تحریر مولانا شوکت علی قاسمی بستوی ، استاذ دارالعلوم دیوبند وناظم عمومی رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ ۔ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430ھ مطابق مئى – جون 2009ء)
غالباًاسی میں اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت تھی کہ ہفتم ہزار کے خلیفہ آدم نے بھی ’’جری اللہ فی حلل الانبیاء ‘‘ بن کر بمطابق پیشگوئی حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ دمشق کے مشرق میں واقع اسی سرزمین ہندوستان میں ظہورفرمانا تھا۔
چنانچہ حضرت مرزا غلام احمدقادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں
میں کبھی آدمؑ کبھی موسیٰؑ کبھی یعقوبؑ ہوں
نیز ابراہیمؑ ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
(مرسلہ: طارق احمدمرزا۔ آسٹریلیا)
٭…٭…٭