ایک سادہ اور بے نفس خادمِ سلسلہ: چودھری عبدالغفور صاحب
(صداقت احمد طاہر۔ جرمنی)
مورخہ10؍اگست 2020ء کو ہمارے پیارے شفیق اور ہمدرد والد مکرم چودھری عبدالغفور صاحب آف Reutlingen جرمنی بعمر 74 سال وفات پا گئے۔ انَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
محترم والد صاحب مرحوم 1946ء میں موضع ننگل نزد قادیان پیدا ہوئے۔ آپ محترم دین محمد صاحب ننگلی کے بیٹے اور حضرت میاں کریم بخش صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔ آپ کے والد صاحب کو نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ میں بطور کارکن لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کے سسر محترم چودھری علی محمد صاحب مرحوم کارکن مجلس انصاراللہ مرکزیہ ربوہ اور کارکن دارالضیافت ربوہ رشتے میں آپ کے ماموں تھے اور یہ حضرت مولوی فتح دین صاحب مرحومؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔
1947ء میں ہمارے داد اجان ہجرت کر کے گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہوئے۔ والد صاحب مرحوم گوجرہ میں ہی پروان چڑھے اور تعلیم حاصل کی اور پھر واپڈا میں بطور SEپنڈی بھٹیاں میں ملازمت اختیار کی اور حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم کے آبائی گھر میں رہے۔ سروس کے دوران آپ کچھ عرصہ سرگودھا اور ساہیوال میں بھی رہے۔
ہمارے والد محترم ایک مخلص اور باوفا خادمِ دین، تبلیغ کے شیدائی، خلافت کے فدائی، سادہ اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ آپ جہاں بھی رہے جماعت کے ساتھ پختہ تعلق رکھا، خدمتِ دین میں پیش پیش رہے اور کئی ایک جماعتی خدمات کی توفیق پائی۔ ایک بار ایک ادارے نے جماعت کی ایک بڑی رقم دبا لی۔ اِس پر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے والد صاحب کو رقم کے حصول کےلیے کو شش کرنے کو کہا تو آپ نے پوری کوشش اور بھاگ دوڑ کر کے وہ رقم واپس حاصل کر لی جس پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے خوش ہو کر آپ کوانعام دینا چاہا تو والد صاحب نے عرض کیا کہ اُنہوں نے انعام کی غرض سے یہ خدمت انجام نہیں دی۔ 1980ءسے 1988ءتک آپ نےحیدر آباد میں ایک ٹیکنیکل کالج بڑی کامیابی سے چلایا۔ اِس دوران آپ نے خدام الاحمدیہ میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں اور وہاں قائد ضلع بھی رہے۔
1990ء میں والد صاحب جرمنی آگئے اور Reutlingenمیں رہائش پذیر ہوئے۔ یہاں آتے ہی فوراً جماعت سے رابطہ کیا اور جماعتی خدمات میں مصروف ہو گئے۔ آپ ایک پُرجوش داعی الی اللہ بھی تھےاور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک ماہ کےلیے تبلیغ کے سلسلہ میں Icelandمیں وقفِ عارضی کی بھی توفیق عطا فرمائی۔ آپ جوانی سے ہی نماز باجماعت کی پابندی کے علاوہ نمازِ تہجد بھی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ عبادت میں خشوع و خضوع اور رقت کی ایسی پُرکیف حالت ہوتی کہ دیکھنے والے کو رشک آتا کہ کاش ہمیں بھی ایسی عبادت نصیب ہو۔ آپ ‘‘دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو’’ کی عملی تصویر تھے۔ خود بھی تلاوتِ قرآنِ کریم کے عادی تھے اور اپنی اولاد کو بھی اِس کا عادی بنایا۔ اِسی طرح دوسروں کو بھی قرآنِ کریم پڑھاتے رہے۔ خلافت کے سچے عاشق اور فدائی تھے۔ خدمتِ دین کا ایسا چسکا تھا کہ اِس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ آخر وقت تک کسی نہ کسی رنگ میں خاموشی اور مستقل مزاجی سے خدمت کی توفیق پائی۔ جس شعبہ میں بھی رہے پوری دلجمعی سے کام کیا جس کی وجہ سے آپ کے افسران ہمیشہ آپ کے کام سے مطمئن اور خوش رہے۔
مکرم چودھری ناصر احمد صاحب نیشنل آڈیٹر جرمنی لکھتے ہیں :
‘‘مکرم چودھری عبدالغفور صاحب کے ساتھ حیدرآباد سندھ میں ایک لمبا عرصہ جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ مرحوم بہت سی خوبیوں کے مالک، مخلص اور نیک انسان تھے۔ باوجود ذاتی مصروفیت کے جماعتی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ اجلاسات اور وقارِ عمل میں بروقت حاضر ہوتے۔ چندہ ہمیشہ بر وقت ادا کرتے۔ مرحوم دھیمے مگر پر اثر انداز میں بات کرتے تھے۔ اِنہیں مجلس خدام الاحمدیہ میں قائد ضلع کے طور پر بھی خدمت کا موقع ملا۔ ’’
مکرم اکرام اللہ چیمہ صاحب نیشنل سیکرٹری وصایا لکھتے ہیں :
‘‘حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک برائے نئی وصایا (2004ء) کے بعد دفتر وصایا میں کام بہت زیادہ تھا اور کثیر تعداد میں احباب جماعت کی وصیت کی درخواستیں وصول ہو رہی تھیں۔ اِس ضرورت کے وقت مکرم چودھری عبدالغفور صاحب وقفِ عارضی کےلیے دفتر وصایا میں تشریف لائےاور اپنے آپ کو بطور طوعی کارکن خدمت کےلیے پیش کیا۔ وقفِ عارضی کے دوران نہایت جانفشانی سے کام کرتے رہے اور زیادہ کام ہونے کی وجہ سے دفتر میں ہی قیام بھی کر لیتے۔ شعبہ ہٰذا میں وقفِ عارضی کے دوران جوبھی کام ان کے سپرد کیا گیااُس کو نہایت ذمہ داری سے سر انجام دیتے رہے۔ جماعتی املاک کا اتنا احساس تھا کہ دفتر میں جماعتی سٹیشنری بڑی احتیاط سے استعمال کرتے تاکہ جماعتی نقصان نہ ہو اور کبھی ان اشیاء کو اپنے ذاتی مقاصد کےلیے استعمال نہیں کیا۔ بہت ملنسار اور منکسرالمزاج انسان تھے۔ خلافت سے بے پناہ محبت اور اطاعت کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریقِ رحمت کرے۔ آمین۔ ’’
مکرم عبدالرحمٰن مبشر صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ جرمنی لکھتے ہیں :
‘‘مکرم چودھری عبدالغفور صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جن میں سب سےنمایاں پہلو اُن کا جماعتی خدمت کا شوق تھا جو اُن کو جنون کی حد تک تھا۔ آپ نےمجلس انصاراللہ میں ناظم علاقہ اور زعیم مجلس کے طور پر نہایت خلوص، احساسِ ذمہ داری اور لگن کے ساتھ کام کیا۔ مجلس انصاراللہ کی خدمت کے ساتھ ساتھ تحریک جدید کے آخری مہینوں میں وقفِ عارضی کر کے فرانکفرٹ آ کر سالہا سال خدمت کرتے رہے۔ اِن کی خدمات دیکھ کر دل سے دعا نکلتی تھی کہ خدا تعالیٰ سب احمدیوں کو جماعتی خدمات کی ایسی روح عطا فرمائے۔ آمین’’
محترم راجہ احتشام الحق صاحب سابق لوکل امیر اوفن باخ تحریر کرتے ہیں :
‘‘خاکسار قبولِ احمدیت کے بعد جن بزرگوں کے زیرِ تربیت رہا اُن میں مرحوم چودھری عبدالغفور صاحب بھی شامل ہیں۔ اپنی ذاتی توجہ اور اخلاص سے محترم چودھری صاحب خاکسار کی تربیت میں پیش پیش رہے۔ ’’
مکرم بشارت احمد خان صاحب ممبر قضابورڈ جرمنی لکھتے ہیں :
‘‘مرحوم خود بھی حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھےاور دوسروں کو بھی اِس کی تحریک کرتے۔ آپ نماز باجماعت اور تہجد کے پابند تھے۔ آپ موصی تھے اور چندہ جات کی ادائیگی میں کبھی سستی نہیں کی۔ تحریکات میں بھی اپنی توفیق سے بڑھ کر حصہ لیتے۔ ’’
محترم ڈاکٹر محمود احمد صاحب نیشنل سیکرٹری امورِ عامہ جرمنی لکھتے ہیں :
‘‘مکرم چودھری عبدالغفور صاحب مرحوم 80کی دہائی میں حیدرآباد آئے اور لطیف آباد میں ایک ٹیکنیکل کالج کھولا۔ اُس وقت خاکسار حیدرآباد میں بطور نائب امیر خدمت کرنے کی توفیق پا رہا تھا۔ مرحوم جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے۔ کچھ عرصہ بعد میں مرحوم قائد مجلس خدام الاحمدیہ لطیف آباد منتخب ہو گئے۔ آپ بہت فعال قائد مجلس تھے اور خدام کی رہ نمائی کرتے رہے۔ ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں قائد ضلع حیدر آباد مقرر کر دیا گیا اور اِس حیثیت سے آپ نے خدام کو سرگرم رکھا۔ اِسی دَور میں لطیف آباد کی مسجد میں مکرم فیض احمد درانی صاحب بطور خادم مسجد خدمت کررہے تھے۔ ایک موقع پر وہ سخت علیل ہو گئے اور بستر تک محدود ہو گئے۔ اِس موقع پر مکرم چودھری عبدالغفور صاحب مرحوم اور مکرم چودھری نعیم احمد صاحب نے اُن کی بڑی خدمت کی۔ اُن کو نہلانا دھلانا، بال کاٹنا، کھانا کھلانا اور اِس طرح کے دوسرے امور سر انجام دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریقِ رحمت کرے۔ آمین’’
محترم مقصود احمد علوی صاحب سابق ریجنل امیر ورٹم برگ تحریر کرتے ہیں :
‘‘محترم چودھری عبدالغفور صاحب کو ہم نے ہمیشہ کسی نہ کسی …حیثیت سے خدمت کرتے ہی پایا۔ خاکسار جب ریجن ورٹم برگ میں ریجنل امیر تھا تو یہ ریجن کی ایک بڑی جماعت Reutlingen کے صدر تھے۔ اِس جماعت میں خاکسار کی رشتہ داری کی وجہ سے جماعتی پروگرامز کے علاوہ بھی جانا ہوتا تھا اِس لیے اِن سے اکثر ملاقات رہتی اور اِن کی فیاضانہ میزبانی کا بھی لطف اٹھانے کا موقع ملتا۔ آپ پروگرامز میں نہایت ذمہ داری سے اچھے انتظامات کرنے والے، ہنس مکھ، خوش خلق اور نفیس طبیعت کے مالک انسان تھے۔ آپ خوش لباس بھی تھے اور پروگرامز میں اکثر پینٹ کوٹ کے ساتھ میچ کرتی ہوئی ٹائی لگایا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مجھے بھی اِس کی ڈبل اور سنگل ناٹ لگانی سکھائی تھی۔ ہم نے اُنہیں کبھی بلند آواز سے گفتگوکرتے یا قہقہے لگاتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ دھیمے لہجے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ گفتگو کرتے۔ مزاح کی حس بھی تھی۔ لطائف سنتے سناتے اور ہنستے مسکراتے تھے۔ اُن کا ہنستا مسکراتا چہرہ آج بھی خاکسار کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور اپنے پیاروں کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور پسماندگان کو اُن کی نیکیاں اپنانے اور جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ’’
ہمارے والد صاحب مرحوم صاحب ِکشف ورؤیا بھی تھے۔ خلافتِ خامسہ کے آغاز پر آپ نے ایک مبشر خواب دیکھا جو آپ نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کو لکھ کر بھجوایا۔ حضور اقدس نے اُسی خط پر اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا : ‘‘الحمد للہ مبارک رؤیا ہے’’ اور نیچے اپنے دستخط ثبت فرمائے۔
الغرض ہمارے والد صاحب ایک با وفا، مخلص، بےلوث خدمتِ دین کرنے والے انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کی جدائی پر رشتے داروں کے ساتھ ساتھ ہر جاننے والا بھی مغموم اور دلگیر ہے۔ شفیق باپ ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک مثالی شوہر بھی تھے۔ ہم نے کبھی آپ کو گھر میں جھگڑتے یا ناراض ہوتے نہیں دیکھا۔ آپ نے ہماری والدہ محترمہ سے ہمیشہ نیکی اور محبت کا سلوک کیا۔ آپ نے پسماندگان میں ایک بیوہ، تین بیٹے، تین بیٹیاں، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔
14؍ اگست 2020ء کو فرانکفرٹ کے قبرستان (Süd Friedhof) میں آپ کی تدفین (امانتاً) عمل میں لائی گئی اور مربی سلسلہ محترم طاہر احمد صاحب نے دعا کرائی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والد مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے، آپ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے اور ہمیں اُن کی نیکیاں زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭