اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا
(تحریر حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ۔ حرم حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ)
[نوٹ : جامعہ نصرت ربوہ کا اِجرا ہوا۔ اس کی پہلی کلاس میں خاکسار کی بڑی بہن مکرمہ امۃ الرشید صاحبہ بھی شامل تھیں۔ انہیں حضرت سیدہ مہر آپا کی کلاس فیلو ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دوران تعلیم کے ایک واقعہ نے آپ کو اس قدر متاثر کیا کہ ایک مضمون لکھ ڈالا۔ یہ تحریر ہمارے لیے ایک اعزاز ہے اور اس سے جامعہ نصرت کے درس و تدریس کے انداز پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ قارئین کی خدمت میں پیش ہے]
’’میں ماضی کے دھندلکوں میں گھوم رہی تھی…ان دھندلکوں میں مجھے ایک چوکھٹ پر’’اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘سنہری اور روپہلی حروف میں چمکتا ہوا نظر آیا… میں ٹھٹکی… میں نے غور کیا…یہ حسین الفاظ اپنی آب وتاب کے ساتھ نمایاں ہوتے گئے…میں نے دماغ پر زور ڈالا…کہ یہ حسین اور روح پرور کلمات میں نے کسی مومن کی زبان سے سنے تھے…یہ کس قدر حسین لمحات تھے؟بظاہرمحدود…مگر معنی کے لحاظ سے کس قدر وسیع اور کس قدر قوی تھے…مجھے یاد آیا…مجھے یاد آیا…اوراس یادکے آتے ہی…میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب آمڈ پڑا… کیونکہ اس سہانی یاد کے ساتھ ایک ایمان افروز واقعہ وابستہ تھا…
غالباً 53ء میں ہم لوگ فورتھ ایئر میں تھے…یہ ہمارے کالج کا پہلا بیچ تھا جس نے بی۔ اے کا فائینل امتحان دینا تھا…چونکہ اس کالج کا ابتدائی دَور تھا…حالات زیادہ سازگار اور تعلیمی ترقی کے لئے ممد و معاون نہ تھے جیسا کہ ابتداء میں ہوا کرتا ہے…پورا اسٹاف میسر نہ تھا۔ کبھی انگلش مضمون کا وقت تو کبھی اردو مضمون کا …کبھی عربی کا اور کبھی فارسی کا… دو چار دن اس مہربان سے درس و تدریس ہوا…تو دو چار دن کے لئے اُس مہربان سے…غرض اِس راہ میں ہمارے لئے کوئی باقاعدگی نہ تھی …مگر یہ پہلا بیچ …یہ کلاس اپنے اندر کمال اعتماد رکھنے والی اور علمی ذوق رکھنے والی تھی۔ باوجود اس کے کہ اسے صحیح راہنمائی حاصل نہ تھی اپنے طور پر بہت محنتی تھی…پڑھائی میں، کھیلوں میں اور کالج کے دیگر کاموں میں یہ کلاس بہت دلچسپی لیا کرتی …یہ کلاس اِس معاملہ میں تشنہ کام رہی کہ کاش انہیں بروقت ایسے راہنما ملیں جو باقاعدگی کے ساتھ انہیں منزل مقصود کی طرف چلائیں …مگر ایک لمبے عرصے تک یہی ہوتا رہا…سو اِن حالات کا جو نتیجہ عموماً ہوا کرتا ہے ظاہر ہے…چند سٹوڈ نٹس کسی نہ کسی مضمون میں کچھ کمزور رہ گئیں … جن میں سے ایک سٹوڈنٹ امۃ الرشید سلمہا اللہ بھی تھیں ان کا انگلش مضمون نسبتاً کچھ کمزور تھا…
جوں جوں وقت گزرتا گیا…اور ہم لوگ امتحان کے قریب آتے گئے…ہمارے رہنماؤں کی طرف سے ہمیں تلقین ہوتی…ہمیں توجہ دلائی جاتی …ہم لوگ جو کمزور تھے بجائے اس کے کہ زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور اس شکایت کو دور کریں۔ سوچ بچار میں لگ جاتے کہ پھر کیا کِیا جائے…یا زیادہ سے زیادہ دل ہی دل میں یہ طے کر بیٹھتے کہ اس کے فائینل میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے…اس بُری حالت سے…اور اس برتے پر بڑی مشکل تھی کہ ہم امتحان میں کودیں۔ خصوصاًمیری تو بُری حالت تھی…مگرایک لڑکی جو کہ میرے لئے بہترین مثال تھی…باوجود بار بار توجہ دلانے کے بھی…اُن کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی…انہیں اتنی دفعہ اور اس قدرزور دار الفاظ میں توجہ دلائی جاتی کہ اگر ان کی جگہ میں ہوتی تو کب کا معاملہ ختم کر چکی ہوتی…کئی دفعہ تو صاف طور پر اساتذہ کی طرف سے کلاس میں کہا گیاکہ انگلش میں پاس ہونا ان کے لئے ناممکن ہے اور اس کلاس میں سب سے زیادہ اسی مضمون کی دقت ہوا کرتی ہے…وہ یہ وارننگ سُن کر…بڑے اطمینان اور کامل توکل کے ساتھ کہہ دیتیں …’’اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘میں نے اکثر و بیشتر…بار بار ان کی زبان سے یہ کلمات سُنے…میں اُن کے اس قدر پختہ ایمان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی…ایک دن تو میری حالت ایسی تھی کہ آنکھوں میں آنسو تھے…اور میں نے امۃالرشید کا ہاتھ پکڑ کر کہا…عزیزہ !آپ ضرور کامیاب ہو جائیں گی…میرا دل گواہی دیتا ہے کہ جس ایمان اور توکل کے ساتھ’’اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘کا کلمہ اپنی زبان سے ادا کرتی ہیں وہ ایمان آپ کو انشاء اللہ اس منزل پر کھڑا کر دے گا جس منزل کے لئے آپ جدوجہدکر رہی ہیں …وہ آپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا…آپ کی ثابت قدمی قابل رشک ہے…
ساعتیں …دنوں میں …دن ہفتوں اور مہینوں میں گزرتے چلے گئے…امتحان کے صبر آزما لمحات آئے اور گزر گئے…نتیجہ کا اعلان ہوا…بفضلہ تعالیٰ تمام کلاس پاس تھی… اور امۃالرشید سلمہا اللہ نے کلاس میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی…کلاس حیران تھی…یہ تھا خوبصورت اور شیریں پھل اسی کامل ایمان اور تقویٰ کا جوا س مخلوق نے اپنے خالق پر کیا…وہ اس خالق کے فضلوں اور وسیع رحمتوں سے بدگمان نہ تھیں …انہیں اعتراف تھا کہ وہ ضرور کمزورہیں …مگر اس سے کسی عنوان انکار نہ تھا کہ وہ ایسے خالق کی مخلوق ہیں جو بڑا غالب …بڑا قوی…اور بڑا مہربان ہے…سو جب اس خالق نے اپنے بندے کا ایمان اس قدر بڑھا ہوا اور بے مثال دیکھا…تو پھر توفیق خداوندی نے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا…اور نہ صرف ان کو کامیابی کا منہ دکھایا بلکہ کلاس میں سیکنڈ پوزیشن بھی دے دی۔
آؤ!ہم اس چھوٹی سی لڑکی سے ایمان و توکّل کا درس حاصل کریں …آؤ ہم اس رنگ میں رنگین ہو جائیں …تا ہماراہاتھ بھی توفیق خدا وندی بڑھ کر تھام لے…تاہم بھی اس کے بے حساب انعامات سے نوازے جائیں …اور اس طرح پر اپنی منزل مقصود کو حاصل کریں اور اس محبوب پر بدگمانی نہ کریں …
یہ عزیزہ …محترمی عبدالرحیم صاحب درویش قادیان کی صاحبزادی تھیں۔ جن کے اِس پُر یقین رویّے نے مجھے اس قدر متاثرکیا کہ اپنے جذبات حوالۂ قلم کرنے پر مجبور ہوئی…اﷲکرے ہم میں وہی ایمان…وہی توکّل پیدا ہو جائے جس کا مظاہرہ انہوں نے کیا…آج وہی لڑکی یعنی امۃالرشید بی اے بی ٹی ہیں۔ اورنصرت گرلز سکول میں ٹیچر لگی ہوئی ہیں …اﷲتعالیٰ انہیں دین و دُنیا کی ترقی کے انتہائی مقامات پر پہنچائے۔ اور ان کا گفتار و کردار آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ ہدایت بنے…آمین۔ ‘‘
(مطبوعہ مصباح ربوہ جولائی 1987ء)
٭…٭…٭