اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (قسط دوم )
اگست2020ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
احمدی پُر امن طریقے سے اپنے مذہب پہ عمل پیرا ہوتے ہیں اور عوام الناس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں
مضحکہ خیز پولیس مقدمہ اورعدالتوں میں اس پرکارروائی
پیر محل، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ (جولائی/اگست 2020ء):ایک احمدی فضل سعید صاحب نے عید الاضحی کے موقع پر قربانی کی اور گوشت تقسیم کیا۔ احمدی دشمن عناصر نے اس بات کی شکایت پولیس سے کردی جنہوں نے احمدیہ مخالف شق 298-Cکے تحت فضل سعید، آپ کے بھائی منور سعید اور آپ کے والد سعید احمد صاحب کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔ فضل سعید صاحب کو گرفتار کر کے قید کردیا گیا۔
واضح رہے کہ مخالفین کا ایسا کرنا سراسر ناجائز تھا کیونکہ قانون احمدیوں کو جانور قربان کرنے اور ان کا گوشت تقسیم کرنے سے نہیں روکتا۔ اس معاملےکو عدالت نے جس طرح دیکھا ، وہ عدالتوں میں احمدیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے ظالمانہ سلوک کا عکاس ہے۔
فضل سعید صاحب پیشے کے اعتبار سے سنار ہیں اور مارکیٹ میں آپ کے کاروباری مخالف بھی موجود ہیں۔ عید کے اگلے دن جب فضل سعید صاحب کراچی میں اپنے سسرال کو ملنے گئے ہوئے تھے تو مفتی عابد فرید نامی مقامی ملا اور ایک اور شخص نے آپ کے خلاف ’’غیر مسلم ہونے کے باوجود ‘‘عید پر قربانی کرنے اور گوشت تقسیم کرنے کی شکایت درج کرائی۔ اس کےبعد فضل سعید صاحب کے گھر کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی ہوا۔ ڈی ایس پی نے جب فضل سعید صاحب کو ٹیلی فون کیا، تو سعید صاحب نے ڈی ایس پی کو بتایا کہ اس وقت وہ گھر سے دُور ہیں۔ تاہم ڈی ایس پی نے اصرار کیا کہ فضل صاحب 13؍اگست کو لازماََ پیش ہوں اور جب مقررہ تاریخ کو فضل سعید صاحب پیش ہوئے تو ڈی ایس پی نے انہیں مطلع کیا کہ ان کے ، ان کے بھائی اور والد کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے۔ فضل سعید صاحب کو گرفتار کرکے ٹوبہ ٹیک سنگھ جیل منتقل کردیا گیا۔
ملزم نے ضمانت کے لیے درخواست دینے کے لیےمقامی بار کے سابق صدر عبدالجبار جٹ کو اپنا وکیل بنایا جس نے آخر وقت پر معذرت کرلی۔ علاقے کا کوئی دوسرا وکیل احمدی ملزم کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ چنانچہ ملزم کو وکیل کے لیے ضلعی ہیڈ کوارٹرز تک جانا پڑا۔ جس کے بعد سردار عجائب خان نے ملزم کی درخواستِ ضمانت عدالت میں دائر کی۔
عدالت نے فضل سعید کے بھائی منور سعید اور والد سعید احمد کی عارضی درخواست ضمانت 22؍اگست 2020ء کو منظور کرلی جبکہ فضل سعید صاحب کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی۔ منور سعید اور سعید احمد صاحب کی درخواستِ ضمانت پہ سماعت یکم ستمبر 2020ء کو ہونا تھی۔ لیکن یومِ مقررہ پر کمرہ عدالت کے باہر مُلاؤں کے ہجوم اور فساد کے دباؤ پر خالدبشیر، ایڈیشنل سیشن جج، نے حالات کے مدِ نظر دونوں ملزمان کی ضمانت مسترد کردی۔ فضل سعید صاحب کی درخواستِ ضمانت بھی قبول نہ کی گئی۔
احمدیوں کے ساتھ ایسا رویہ نہایت افسوس ناک ہے۔ احمدی پُر امن طریقے سے اپنے مذہب پہ عمل پیرا ہوتے ہیں اور عوام الناس کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتے ہیں لیکن بدلے میں انہیں جھوٹے مقدمات اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتی کہ عدالتیں بھی انہیں مقدمے کا فیصلہ آنے تک ضمانت نہیں دے سکتیں!
تین احمدیوں کے خلاف مقدمہ اور گرفتاری
چک 422 گ۔ب ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ : ایک احمدی نوجوان اور ایک غیر احمدی لڑکی باہمی رضامندی سے گھر سے فرار ہوگئے۔ ایسا فعل پاکستانی معاشرے میں اورنہ ہی قانون میں جائز ہے۔ لڑکی کے والد نے پولیس کو شکایت کر کے لڑکے کے خلاف تعزیراتِ پاکستان 579کے تحت پولیس سٹیشن صدر، گوجرہ میں مقدمہ درج کرادیا۔
تاہم زیادتی کرتے ہوئے لڑکی کے والد نے لڑکے کے ساتھ ساتھ دیگر تین اور احمدی نوجوانوں کے نام بھی لکھ دیے جن کا اس سارے معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ ان احمدی نوجوانوں کے نام طاہر نعمان، وقار احمد ، اور آکاش احمد ہیں۔ واضح رہے کہ ان تینوں نوجوانوں میں کسی ایک کا بھی اس فرار کے جھگڑے میں کسی قسم کا کوئی کردار نہیں ہے۔
لڑکی کے والد نے ان احمدی نوجوانوں کے نام بعض شرپسند مُلاؤں کے ایما پر لیے ہیں جو اب احمدیوں کے خلاف مزید نفرت انگیز ریلیاں نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ لڑکے کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خلاف بھی اس فعل کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔
بہرحال پولیس نے نامزد تین معصوم احمدی نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے اور یہ سار ی کارروائی مذہب کے نام پر تفریق کی ایک مثال ہے۔
پشاور میں احمدیوں کے لیےبڑھتے خطرات
حیات آباد، پشاور (ستمبر 2020ء):ایک احمدی آفاق احمد صاحب کے گھر کے گیراج میں ایک شاپر پھینکا کیا گیا جس میں ایک پتھر ، گولی اور کاغذ کے ٹکڑے پر یہ ’’پیغام‘‘ درج تھاکہ ’’گستاخ واجب القتل ہے‘‘
یاد رہے کہ آفاق احمد کے دادا جان کو 2008ء میں احمدی ہونے کی وجہ سے قتل کردیا گیا تھا۔ان کے خاندان کا تعلق سنگو گاؤں سے ہے اور ان کی اس علاقے میں ایک معقول زمین ہے۔ اسی دباؤ کے تحت آفاق احمد کے والد کو ان کی والدہ کے ہمراہ یوکے ہجر ت کرنا پڑی تھی۔ ان کے بھائی آصف سجاد صاحب کو بھی اپنی فیملی کے ہمراہ یہ علاقہ چھوڑنا پڑا تھا۔
احمدی کو گھر سے نکال دیا گیا
جوہر ٹاؤن، لاہور (اگست 2020ء): لاہور کی رہائشی ایک احمدی فیملی کو صرف احمدی ہونے کی وجہ سے گھر چھوڑنے کا کہہ دیا گیا۔ منور احمد صاحب ، جو کہ مغربی افریقہ میں مقیم ہیں، کی فیملی جوہر ٹاؤن لاہور میں رہائش پذیر تھی۔ مالک مکان نے فیملی کو جتنا جلدی ہوسکے گھر چھوڑنے کا کہا کیونکہ اس پر محلے کے دیگر افراد کا بہت سخت دباؤ ہے۔ مالک مکان نے مزید بتایا کہ پشاور والے واقعہ (جس میں ملزم کو کمرہ عدالت میں قتل کردیا گیا تھا ) کے بعد اس پر مقامی افراد اور نزدیکی مدرسہ کی طرف سے احمدی کرائے داروں کو نکالنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا جارہا تھا۔
درخواستِ ضمانت مسترد!
لاہور (ستمبر 2020ء):بعض طلباء واساتذہ جامعہ احمدیہ کے خلاف سوشل میڈیا پر قرآنی آیات بھجوانے کی پاداش میں 12؍نومبر 2019ء کو سائبر کرائم قوانین کے تحت FIRنمبر 2019/152 کے ضمن میں احمدی مخالف تعزیراتِ پاکستان 298-C، توہین مذہب کی شق 295-A, ،295-B، PECA-11، اور تعزیرات پاکستان نمبر 120-B، 109، اور 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیاتھا۔ اس مقدمہ میں وقار احمد صاحب کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
مجسٹریٹ ذوالفقار باری نے 8؍اپریل کو ان کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی۔ مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جس کو 25؍اگست 2020ء کو ایڈیشنل سیشن جج مصباح نے سنا ۔ سماعت کے اختتام پر یکم ستمبر 2020ء کو جج نے درخواست ضمانت مسترد کردی۔
نارووال میں حالات مزید کشیدہ ہوتے ہیں
ضلع نارووال (اگست 2020ء): پچھلے ماہ (جولائی 2020ء) کی رپورٹ میں خبر دی گئی تھی کہ بدو ملہی سے تعلق رکھنے والا ایک احمدی لڑکا اپنے غیر احمدی چچا کے ورغلانے پر اپنے احمدی والد سے دُور کردیا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ وہ لڑکا کسی طرح بھاگ کر اپنے والدین سے آن ملا جس کے بعد غیر احمدی رشتہ داروں نے اُسے اغوا کرلیا۔ کیس 25؍اگست 2020ء کو سماعت کے لیے مقرر ہے البتہ لڑکے کے گھروالے اپنی اور اپنے احمدی بچے کی حفاظت کے حوالے سے بہت تشویش مند ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جبراََ تبدیلی مذہب کا مقدمہ بھی ہے۔
قلندرآباد کی ایک مسجد میں باہر سے ایک مُلاّ بلوایا گیا تھا جس نے جمعہ کے دوران احمدیوں کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز اور نفرت پر مبنی زبان کا استعمال کرتے ہوئے مقامی افراد کو احمدیوں کے خلاف اقدامات پر ابھارا۔اس پر احمدیوں نے پولیس کو شکایت کی۔
پولیس نے فریقین کو بلوا کر ایک معاہدے پر دستخط کروائے جس کے تحت دونوں گروہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں کریں گے اور نہ ہی مستقبل میں باہر سے کسی کو بلوایا جائے گا۔
عہدی پور کے علاقے چینیکےمیں ایک نیا نماز سنٹر قائم کیا گیا تھا۔ ایک نامعلوم مخالف بغیر اجازت کے یہاں داخل ہوا اور تصاویر کے ساتھ ساتھ احمدیہ لٹریچر بھی اُٹھا کرلے گیا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کتب کو احمدیوں کے خلاف مقدمات سازی میں استعمال کیا جائے گا۔
لدھر کرم سنگھ میں مخالفین نے احمدیوں کی قبروں کے کتبوں کی تصاویر لے کر پولیس کو شکایت درج کرادی۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭