اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں
اس زمانہ میں اگرچہ آسمان کے نیچے طرح طرح کے ظلم ہورہے ہیں۔ مگر جس ظلم کو ابھی مَیں ذیل میں بیان کروں گا۔ وہ ایک ایسا دردناک حادثہ ہے کہ دل کو ہلا دیتا ہے۔ اور بدن پر لرزہ ڈالتا ہے۔
اس امر کو باترتیب بیان کرنے کے لئے پہلے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کوطرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پاکر مجھے تبلیغ حق اور اصلاح کے لئے مامور فرمایا۔ اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ…اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سرپر پہنچ گئے تھے۔ تب مَیں نے اُس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کیلئے آنے والا تھا وہ میں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اُٹھ گیا ہے اُس کو دوبارہ قائم کروں۔ اور خدا سے قوت پاکر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں۔ اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دُور کروں اور پھر جب اس پرچند سال گزرے تو بذریعہ وحی الٰہی میرے پر بتصریح کھولا گیا۔ کہ وہ مسیح جو اس اُمّت کے لیے ابتداء سے موعود تھا۔ اور وہ آخری مہدی جو تنزّل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا۔ جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ وہ مَیں ہی ہوں۔ اور مکالمات الٰہیّہ اور مخاطبات رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی۔ ہر ایک وحی جو ہوتی ایک فولادی میخ کی طرح دِل میں دھنستی تھی اوریہ تمام مکالمات الٰہیّہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روز روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں۔ اور اُن کے تواتر اور کثرت اور اعجازی طاقتوں کے کرشمہ نے مجھے اِس بات کے اقرار کے لئے مجبور کیا کہ یہ اُسی وحدہٗ لاشریک خدا کا کلام ہے۔ جس کا کلام قرآن شریف ہے۔ اور مَیں اس جگہ توریت اور انجیل کا نام نہیں لیتا۔ کیونکہ توریت اور انجیل تحریف کرنے والوں کے ہاتھوں سے اس قدر محرّف و مبدّل ہوگئی ہیں کہ اب ان کتابوں کو خدا کا کلام نہیں کہہ سکتے۔ غرض وہ خدا کی وحی جو میرے پر نازل ہوئی ایسی یقینی اور قطعی ہے کہ جس کے ذریعہ سے مَیں نے اپنے خدا کو پایا۔ اور وہ وحی نہ صرف آسمانی نشانوں کے ذریعہ مرتبہ حق الیقین تک پہنچی۔ بلکہ ہر ایک حصہ اُس کا جب خدا تعالیٰ کے کلام قرآن شریف پر پیش کیا گیا۔ تو اس کے مطابق ثابت ہوا۔ اور اس کی تصدیق کے لئے بارش کی طرح نشان آسمانی برسے۔ انہیں دنوں میں رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کا گرہن بھی ہوا۔ جیسا کہ لکھا تھا کہ اس مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں سورج اور چاند کا گرہن ہوگا۔ اور انہیں ایّام میں طاعون بھی کثرت سے پنجاب میں ہوئی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں یہ خبر موجود ہے۔ اور پہلے نبیوں نے بھی یہ خبر دی ہے کہ ان دنوں میں مری بہت پڑے گی۔ اور ایسا ہوگا کہ کوئی گاؤں اور شہر اُس مری سے باہر نہیں رہیگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہورہا ہے۔ اور خدا نے اُس وقت کہ اِس ملک میں طاعون کا نام و نشان نہ تھا۔ قریباً بائیس برس طاعون کے پھوٹنے سے پہلے مجھے اُس کے پیدا ہونے کی خبر دی۔ پھر اس بارہ میں الہامات بارش کی طرح ہوئے اور تکرار اِن فقرات کا مختلف پیرایوں میں ہوا۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ3تا 4)