مغربی معاشرہ میں احمدی عورت کا لباس
‘‘…اس معاشرے میں آتے ہی جو پردے کی اہمیت ہے وہ نہیں رہی۔ وہ اہمیت پردے کو نہیں دی جاتی جس کا اسلام ہمیں حکم دیتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ احمدی عورت کو پردے کا خیال از خود رکھنا چاہیے۔ خود اس کے دل میں احساس پیدا ہونا چاہیے کہ ہم نے پردہ کرنا ہے، نہ یہ کہ اسے یاد کروایا جائے۔ احمدی عورت کو تو پردے کے معیار پرایسا قائم ہونا چاہیے کہ اس کا ایک نشان نظر آئے اور یہ پردے کے معیار جو ہیں ہر جگہ ایک ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ جلسہ پر یا اجلاسوں پر یا مسجد میں آئیں تو حجاب اور پردے میں ہوں، بازاروں میں پھر رہی ہوں تو بالکل اور شکل نظر آتی ہو۔ احمدی عورت نے اگر پردہ کرنا ہے تو اس لیے کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور معاشرے کی بدنظر سے اپنے آپ کو بچانا ہے اس لیے اپنے معیاروں کو بالکل ایک رکھیں، دوہرے معیار نہ بنائیں ۔ اور یہاں کی پڑھی لکھی لڑکیاں یہاں کی پرورش پانے والی لڑکیاں ان میں ایک خوبی بہرحال ہے کہ ان میں ایک سچائی ہے، صداقت ہے، ان کو اپنا سچائی کا معیار بہر حال قائم رکھنا چاہیے۔ یہاں نوجوان نسل میں ایک خوبی ہے کہ انہیں برداشت نہیں کہ دوہرے معیار ہوں اس لیے اس معاملے میں بھی اپنے اندر یہ خوبی قائم رکھیں کہ دوہرے معیار نہ ہوں۔ اپنے لباس کو ایسا رکھیں جو ایک حیا والا لباس ہو۔ دوسرے جو پردے کی عمر کو پہنچ گئی ہیں وہ اپنے لباس کی خاص طور پر احتیاط کریں اور کوٹ اور حجاب وغیرہ کے ساتھ اور پردے کے ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔
غیروں سے پردے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہر جگہ دیا ہوا ہے۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ خاوندوں کے دوستوں یا بھائیوں کے دوستوں سے اگر وہ گھر میں آجائیں تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ یا بازار میں جانا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے یا تفریح کے لیے پھرنا ہے تو پردہ چھوڑنے کی اجازت ہے۔ حیادار لباس بہرحال ہونا چاہیے اور جو پردے کی عمر میں ہے ان کو ایسا لباس پہنناچاہیے جس سے احمدی عورت پر یہ انگلی نہ اٹھے کہ یہ بے پردہ عورت ہے۔ کام پر اگر مجبوری ہے تو تب بھی پورا ڈھکا ہوا لباس ہونا چاہیے اور حجاب ہونا چاہیے۔ تو پردہ جس طرح جماعتی فنکشن پر ہونا ضروری ہے عام زندگی میں بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ’’
(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ یوکے 30 ؍جولائی 2005ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11مئی؍2007ء صفحہ 4)