خلافت احمديت کا زمانہ

حضرت خليفة المسيح الرابعؒ کے ايک ارشاد کي وضاحت

(برکات خلافت کم از کم ايک ہزار سال تک جاري رہيں گی)

حضرت خليفة المسيح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ايک ويڈيو کلپ آجکل بعض لوگ سوشل ميڈيا پر چلا رہے ہیں۔ جس میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کے مستقبل کے بارے میں فرماتے ہیں۔’’وہ ساری عمر ہمیشہ نہیں چلے گی۔ وہ آخر پہ تباہ ہو جائے گی۔ جیسا کہ رواج ہے کائنات کا سورج چڑھتا اور ڈوبتا بھی ہے۔ اس طرح یہ خیال کر لینا کہ احمدیت کا سورج ہمیشہ سر پے چڑھا رہے گا غلط خیال ہے۔اس کے بعد احمدیت کے جو خلفاء ہیں ایک عرصہ کے بعد وہ بھی دنیاوی خلفاء بن جائیں گے اس لئے رسول اللہ ﷺ نے وہاں پہنچ کر خاموشی اختیار کی۔ ‘‘(مجلس سوال و جواب بنگلہ احباب)

معلوم ہوتا ہے کہ جس کسی نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا اسے حضور ؒ کے دوسرے ارشادات کا علم نہ تھا ورنہ صرف اسے سوشل میڈیا پر بھیجنے سے غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے، صرف اس اقتباس سے ایک نادان یہ بدگمانی پیدا کر سکتا ہےکہ نعوذ باللہ اب خلافت اپنے مقام پر نہیں رہی۔حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اُس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جب دنیا کا اختتام ہونا ہے۔ اُس وقت دنیا بدترین لوگوں سے بھر جائے گی جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔خلافت احمدیہ کی برکات کا زمانہ کم از کم ایک ہزار سال پر محیط ہے اس کے بعد بگاڑ پیدا ہو گا تب قیامت آئے گی۔

برکات خلافت کم از کم ایک ہزار سال جاری رہیں گی

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت کے آغاز میں بڑے پرشوکت الفاظ میں اس مضمون کو بیان فرمایا۔فرماتے ہیں ’’اب آئندہ انشاء اللہ خلافت احمدیہ کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا۔جماعت بلوغت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظر میں۔اور کوئی دشمن آنکھ،کوئی دشمن دل، کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافت احمدیہ انشاء اللہ اسی شان کے ساتھ نشو نما پاتی رہے گی جس شان کےساتھ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی‘‘ (خطبہ جمعہ 18 جون 1982۔خطبات طاہر جلد اول :18)

حضورؒ نے ایک خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔(یہ ویڈیو کلپ بھی سوشل میڈیا پر آ چکا ہے )’’بعض احمدی یہ بھی لکھتے ہیں کہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلے گئے۔اس زمانے کا تقویٰ بھی ختم ہو گیا۔کمزوریاں جماعت میں آ گئیں۔اس لئے یہ ابتلا نہیں یہ سزا ہے۔ یہ بالکل جھوٹا اور شیطانی خیال ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب تک خدا تعالیٰ کامل غلبہ عطا نہیں کرتا۔اور آپ کے ذریعہ اسلام کو غیروں پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔خدا کی قدرت نمائی کا ہاتھ نہیں رکے گا اور نہیں تھمے گا اور نہیں ماندہ ہوگا۔یہ ہو نہیں سکتا کہ اس آخری عالمی غلبے کے بغیر خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ آپ سے پیچھے کھینچ لیا جائے… اس دوسری قدرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ دیا گیا ہے کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جاری رہے گی۔پس وہ لوگ جو ان وہموں میں مبتلا ہیں یا ان شیطانی وساس کا شکار ہو جاتے ہیں گویا خدا کی قدرت کا ہاتھ ہم سے کھینچ لیا گیا جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ قدرت ثانیہ جاری ہے۔اور جب تک اس قدرت کے ساتھ جماعت وابستہ رہے گی۔خدا کی قدرت جماعت کے ساتھ وابستہ رہے گی۔کوئی نہیں جو اس تعلق کو کاٹ سکے۔پس آپ کامل وفا کے ساتھ خدا کی قدرت ثانیہ کے ساتھ تعلق جوڑے رکھیں میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں اور خدا کی قسم کھا کر آپ سے کہتا ہوں کہ خدا کی قدرت کبھی بھی آپ سے پیوند نہیں توڑے گی۔ہرگز نہیں توڑے گی۔ ہرگز نہیں توڑے گی۔یہاں تک کہ اسلام کو کامل غلبہ نہ نصیب ہو جائے۔‘‘(ویڈیو کلپ خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سور ہ عصر کے اعداد میں دنیا کی عمر کی الہاماً خبر دی تھی اور بتایا گیاتھا کہ خیر اور شرکا زمانہ ایک ایک ہزار سال کا ہو گا اور یہ کہ آپؑ کی برکات کا زمانہ کم از کم ایک ہزار سال ہے۔ آپ علیہ السلام آخری ہزار سال کے سر پر مبعوث ہوئے آپؑ کے بعد کم از کم ایک ہزار سال کا زمانہ خیر اور برکت کا ہو گا، فرمایا۔ ’’اور پھر ساتواں ہزار خدا اوراس کے مسیح کا اور ہر ایک خیر و برکت اور ایمان اور صلاح اور تقویٰ اور توحید اور خدا پرستی اور ہر ایک قسم کی نیکی اور ہدایت کا زمانہ ہے۔ اب ہم ساتویں ہزار کے سر پر ہیں۔ اس کے بعد کسی دوسرے مسیح کو قدم رکھنے کی جگہ نہیں۔ کیونکہ زمانے سات ہی ہیں جو نیکی اور بدی میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس تقسیم کو تمام انبیاء نے بیان کیا ہے… اور دنیا میں کوئی پیشگوئی اس قوت اور تواتر کی نہیں ہو گی جیسا کہ تمام نبیوں نے آخری مسیح کے بارہ میں کی ہے۔ ‘‘ (لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 186)

یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے آپ کوکشفاً اور الہاماً سمجھایا آپ فرماتے ہیں۔ ’’ ھٰذَا مَا کَشَفَ عَلَیَّ رَبِّیْ ‘‘(خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ330) نیز فرمایا ’’سورہ عصر میں دنیا کی تاریخ موجود ہے جس پر خدا تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو خبر دی ہے ‘‘(الحکم جلد 6 صفحہ 25۔مورخہ 17جولائی 1902)

حضور کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی عام پیشگوئی نہیں بلکہ نہایت درجہ قوت اور تواتر سے بیان ہوئی ہے اور گذشتہ انبیاء نے بھی اس پیشگوئی کو بیان فرمایا ہے۔ پس ان عبارتوں کے ہوتے ہوئے کسی قسم کی بدگمانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ خلافت احمدیہ کو کم از کم ایک ہزار سال تک کوئی خطرہ نہیں۔

عددی غلبہ یا ظاہری غلبہ کا دور

ابھی تو ایک صدی مکمل ہوئی ہے۔ابھی تو ہم ابتلا کے دور سے گزر رہے ہیں۔ ابھی تو وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہونا باقی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بتائیں اور گذشتہ انبیاء بیان فرما گئے ہیں کہ دنیا ایک ہاتھ پر جمع کی جائے گی، توحید کا غلبہ ہو گا، شرک مٹ جائے گا، ظلم و ستم اور ہر قسم کا فتنہ فساد نابود ہو جائے گا،جنگ و جدل کا دور جاتا رہے گا اور امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا دور دورہ ہو گا۔ اللہ کے فضل سے دلائل و براہین کے اعتبار سے تو جماعت احمدیہ غلبہ پا چکی ہے لیکن عددی اورظاہری غلبہ بھی انشاء اللہ پہلی تین صدیوں کے اندر مقدر ہے اس کے بعد کم از کم سات سو سال کا دور امن و سکون اور پیار محبت کا ہو گا۔ جس کے بارے نبی کریم ﷺ نے خوشخبری دی تھی کہ لوگوں میں آپس کے کینےاور بغض اور حسد مٹ جائیں گے۔ اس قدر امن کا دور ہو گا کہ فرمایا حَتَّى تَرْتَعَ الْأُسُودُ مَعَ الْإِبِلِ، وَالنُّمُورُ مَعَ الْبَقَرِ، وَالذِّئَابُ مَعَ الْغَنَمِ، وَيَلْعَبَ الصِّبْيَانُ أَوِ الْغِلْمَانُ مَعَ الْحَيَّاتِ، لَا يَضُرُّ بَعْضُهُمْ بَعْضًا (مسند احمد مسند ابی ھریرہؓ حدیث نمبر:9630) یہاں تک کہ اونٹ شیروں کے ساتھ، چیتے گائے کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔یہ سب استعارہ ہے مراد یہ ہے کہ مکمل امن و سلامتی کا دور ہو گا۔پس کم از کم ایک ہزار سال تک احمدیت کی برکات دنیا پر سایہ کئے رکھیں گی۔

جب یہ ایک ہزار سال مکمل ہوں گے تو اس کے بعد جب اللہ چاہے گا وہ آخری گھڑیاں بھی آن پہنچیں گی جب اشرار الناس پیدا ہوں گے جن پر قیامت برپا ہو گی۔لیکن وہ اتنا معمولی عرصہ ہو گا جس کو باقاعدہ زمانہ یا عہد نہیں کہا جا سکتا اسی لئے نہ آنحضورﷺ نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کو زمانوں میں شمار کیا ہے۔ تمام گذشتہ انبیاء اور تمام نبیوں کےسردار ﷺ نے وضاحت سے خبر دی کہ دنیا کا آخری دور خلافت علی منہاج النبوۃ کا دور ہو گا۔آپﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماً اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون سمجھا دیاکہ آپ کا زمانہ ایک ہزار سال پر مشتمل ہے یعنی آپ کی برکت سے جاری ہونے والی خلافت کا بابرکت سایہ دنیا پر کم از کم ایک ہزار سال تک ممتد رہے گا۔ اس کے بعد بگاڑ ہو گا اور دنیا کا اختتام ہو جائے گا۔اس بگاڑ کے زمانہ میں خلافت ملوکیت میں بدل جائے گی یا اس وقت کے خلفاء کی نافرمانی کے نتیجے میں قیامت آ جائے گی۔ یہ مستقبل کی باتیں ہیں جن کے بارے حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب اور کیسے ہو گا۔

پیشگوئیوں پر ایمان بالغیب ہوتا ہے

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آئندہ کے بارے میں جب تک اللہ تعالیٰ حتمی طور پر خبر نہ دے کوئی شخص بھی اس کے بارے یقین سے نہیں بتا سکتا کہ پیشگوئی کب اور کیسے پوری ہو گی۔ پیشگوئیاں کا مضمون ان کے پورا ہونے کے بعد پوری طرح کھلتا ہے اس سے پہلے صرف اندازے ہوتے ہیں،احتمالات ہوتے ہیں۔ مثلا حضرت خدیجہ ؓ کی وفات کے بعد نبی کریم ﷺ کو شادی کی ضرورت تھی آپ یقینا ً دعا بھی کر رہے ہوں گے اور آپ کو صحابہؓ بھی مشورہ دے رہے تھے اسی اثنا میں آپ نے رویا دیکھی جو بعد میں حضرت عائشہ ؓکو بتائی کہ میں نے تمہیں دو بار خواب میں دیکھا۔ ایک شخص نے رومال دکھایا اور بتایا کہ یہ آپ کی زوجہ ہیں۔ میں نے کھول کر دیکھا تو تمہاری تصویر تھی تو میں نے کہا۔ إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِيُمْضِهِ (بخاری کتاب النکاح باب نکاح الابکار ) کہ اگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ضرور پوری ہو جائے گی۔اس فقرہ سے یہ مراد تو نہیں ہو سکتی کہ یہ خواب نعوذ باللہ اللہ کی طرف سے نہیں تھی بلکہ یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ اگر اللہ نے اس کو اسی ظاہری شکل میں پورا کرنا ہوا تو حضرت عائشہ ؓ سے شادی ہو جائے گی اور اگر اس کے اور کوئی مجازی معنی ہیں تو پھر اور رنگ میں پوری ہو گی۔

محکمات اور متشابہات

قرآن کریم نے آیات کی دو اقسام بیان کی ہیں ایک محکمات جنکا مضمون خوب واضح اور روشن ہے۔ اور ایک متشابہات جنکا مضمون اس طرح واضح نہیں بلکہ کچھ اشتباہ کے پردے میں ہوتا ہے۔فرمایا فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ (آل عمران :8) جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ متشابہ کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کیا جا سکے۔ تمام پیشگوئیوں پر نظر ڈال کر یہ بات محکم اورقطعی ہے کہ احمدیت کی برکات کا دور کم از کم ایک ہزار سال تک ممتد ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا اللہ تعالیٰ ہی اسکی حقیقت کو جانتا ہے ہم صرف قیاس کر سکتے ہیں جیسے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے گذشتہ تاریخ مذاہب اور قانون قدرت پر قیاس کرتے ہوئے اپنا خیال ظاہر فرمایا کہ جیسے سورج نکلنے کے بعد ڈوبتا بھی ہے اسی طرح خلافت بھی زوال پذیر ہو گی۔ یہ بھی احتمال ہے کہ آخری خلیفہ کی نافرمانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دنیا کو تنبیہ کروائے لیکن دنیا کی بداعمالیوں اور انکار کے نتیجے میں بالآخر صور پھونکا جائے اور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے۔ ہمیں چاہئے کہ جو پیشگوئیوں کا محکم حصہ ہے اس پر کامل یقین رکھیں اور جو متشابہ حصہ ہے اس پر ایمان بالغیب لائیں کیونکہ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللّٰهُ اسکی حقیقت کا صرف اللہ تعالیٰ کو علم ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ مضمون بھی بیان فرمایا ہے کہ دنیا کے اختتام پر عین آخری وقت میں پھر ایک مثیل مسیح کا نزول ہو گا جو دنیا کو ڈرائے گا اور دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔

مسیح علیہ السلام کے تین مثالی ظہور

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ مسیح کی روحانیت تین مرتبہ دنیا میں نازل ہو گی۔ پہلی مرتبہ جب انکی وفات کے چھ سو سال بعد یہود کے بہتان بہت بڑھ گئے اور عیسائیوں نے بھی انکو خدا بنا لیا تو مسیح کی روحانیت نے جوش دیکھایا تب نبی کریم ﷺ کا ظہور ہوا۔ دوسری مرتبہ اس زمانہ میں جب عیسائیت نے دجالیت کا روپ دھار کر ساری دنیا میں شرک پھیلا دیا تو مسیح کی روح نے پھر جوش مارا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ آپ کی برکت سے شرک مٹ جائے گا اور توحید کا غلبہ ہو گا۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ کم از کم ایک ہزار سال خیر و برکت اور امن و سلامتی کے گزریں گے تب پھر عیسائیت کے فتنے پھیل جائیں گےاور شرک عود کر آئےگا آپ علیہ السلام فرماتے ہیں۔’’یہ وہ دقیق معرفت ہے کہ جو کشف کے ذریعہ سے اس عاجز پر کھلی ہے اور یہ بھی کھلا کہ یوں مقدر ہے کہ ایک زمانہ کے گزرنے کے بعد کہ خیر اور صلاح اور غلبہ توحید کا زمانہ ہو گا۔پھر دنیا میں فساد اور شرک اور ظلم عود کرے گا۔ اور بعض بعض کو کیڑوں کی طرح کھائیں گے۔ اور جاہلیت غلبہ کرے گی۔ اور دوبارہ مسیح کی پرستش شروع ہو جائے گی اور مخلوق کو خدا بنانے کی جہالت بڑے زور سے پھیلے گی اور یہ سب فساد عیسائی مذہب سے اس آخری زمانہ کے آخری حصہ میں دنیا میں پھیلیں گے۔ تب پھر مسیح کی روحانیت سخت جوش میں آ کر جلالی طور پر اپنا نزول چاہے گی تب ایک قہری شبیہ میں اس کا نزول ہو کر اس زمانہ کا خاتمہ ہو جائے گا تب آخر ہوگااور دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی‘‘(آئینہ کمالات اسلام۔روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 346)

اس اقتباس سے بھی واضح ہے کہ

• ایک لمبے زمانے تک خیر اور صلاح اور غلبہ توحید کا دور چلے گا جو ایک ہزار تک ممتد ہے

• اس دوران عیسائیت کا شرک عملاً نابود ہو جائے گا عیسائی برائے نام ہوں گے

• اس کے بعد آخیرزمانہ میں جب دنیا کا خاتمہ مقدر ہے عیسائی مذہب پھر اچانک ترقی کرے گا اور پھر فساد اور شرک اور ظلم بڑے زور سے پھیل جائے گا

• تب مسیح کا ایک بار پھر مثالی ظہور ہو گا۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ موعود آخری خلیفہ ہو گا یا اس کے علاوہ کوئی اور ہو گا، اس کے بارے ابھی کچھ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا

• اس کے ظہور کےفوراًبعد دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔صور پھونکا جائے گااوربنی نوع انسان کی صف لپیٹ دی جائے گی

پس ان تمام پیشگوئیوں، رویا کشوف پر نظر ڈالنے سے یہ بات تو قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کا آخری بابرکت دور احمدیت کا دور ہے جو ایک ہزار سال پر ممتد ہو گا۔اس کے بعد کوئی نیا دور نہیں ہے۔ اس کے بعد قیامت آئے گی

اشرار الناس کا زمانہ

احادیث میں ذکر ہے کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی۔ فرمایا وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ (ابن ماجہ کتاب الفتن بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ)کہ قیامت سب سے برے شریرترین لوگوں پر آئے گی۔اشرار الناس کا زمانہ ایک ہزار سال کے بعد کا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ انتہائی مختصر زمانہ ہو گا اسی لئے نبی کریم ﷺ نے جب امت کے ادوار کا تفصیلی ذکر فرمایا تو آخری دور خلافت علیٰ منہاج النوۃ کا بیان فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے شروع ہوا اوراب آپ کی بابرکت خلافت کے ذریعہ جاری و ساری ہے۔ ثُمَّ سَکَتَ اس کے بعد راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ خاموش ہو گئے۔ (مسند احمد حدیث نعمان بن بشیر حدیث نمبر 18430)اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا ذکر فرمایا تو اسکا زمانہ تا قیامت بیان فرمایا۔ آپ ؑفرماتے ہیں’’وہ دائمی ہے جس کاسلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا ‘‘ فرمایا۔’’جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی ‘‘(رسالہ الوصیت۔روحانی خزائن جلد 20 صفحہ305۔306)

اشرار الناس کا زمانہ اتنا قلیل ہے کہ اسکو کسی نے بھی باقاعدہ زمانوں یا عہدوں میں شمار نہیں کیا۔ ممکن ہے کہ وہ پچیس تیس سال ہو یا چالیس سال کا ہو۔ بلکہ چالیس سال کا توروایات میں ذکر بھی ملتا ہے۔ کعب سے روایت ہے کہ ستخرب الأرض قبل الساعة بأربعين سنة (التذكرة بأحوال الموتى باب خراب الأرض والبلاد)کہ قیامت سے چالیس سال قبل دنیا فساد سے بھر جائے گی اور روحانیت سے ویران ہو جائے گی۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنا زمانہ ہو گا۔ حدیث نواس میں لکھا ہے کہ۔جب اس خیر و برکت کے دور سے مسلمان گزر رہے ہوں گے اور اللہ قیامت کا ارادہ کرے گا تو مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے ایسی خوشبودار ہوا گزارےگا جو مومنوں کی روح قبض کر لے گی اور بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے۔جو گدھوں کی طرح بدکاری کریں گے۔ان پر قیامت آئے گی۔(مسلم کتاب الفتن باب ذکر دجال)در منثور کی روایت ہےکہ پھر تیس سال عورتیں بانجھ ہو جائیں گی یعنی کوئی مومن بچہ پیدا نہ ہو گا بلکہ سب بدکار پیدا ہوں گے وہ شرار الناس ہیں جن پر قیامت برپا ہو گی۔ (در منثور سورہ انعام زیر آیت لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا)

پس اشرار الناس کا زمانہ بہت قلیل ہے۔پیشگوئیوں کے مطابق باقاعدہ آخری زمانہ، خیر و برکت کا زمانہ، جسے خلافت علی منھاج النبوۃ کا دور کہا گیا ہے وہ کم از کم ایک ہزار سال پر محیط ہو گا۔ جس میں خیر و برکت اور امن و سلامتی کی تمام پیشگوئیاں پوری ہوں گی۔ شیطان کی حکومت مٹ جائے گی، دنیا سےشرک، فساد،جنگ و جدال اور ظلم و ستم کا خاتمہ ہو گا۔ ہر طرف توحید، امن و سلامتی اور پیار محبت کی فزا قائم ہو گی۔ تمام دنیا خلیفۃ المسیح کے ہاتھ پر جمع ہو گی اور اسلام کا جھنڈا پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا پر لہرانے لگے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button