ارتداد اختیار کرنے والوں کی خدمات کو تاریخ احمدیت سے حذف کر دینا مناسب نہیں
سوال:ایک دوست نے ’’فتاویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام‘‘ کے Revised ایڈیشن کے بارے میں تحریر کیا کہ اس کتاب کے پبلشر فخر الدین ملتانی صاحب نے چونکہ ارتداد اختیار کر لیا تھا اس لیے ان کے نام اور ان کے تحریر کردہ دیباچہ کو اس ایڈیشن سے حذف کر دینا چاہیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 26؍ نومبر 2018ء میں اس کا جماعتی اقدار و روایات کے مطابق نہایت خوبصورت درج ذیل جواب عطافرمایا:
جواب:مذکورہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ پر مشتمل ہے او رفخر الدین ملتانی صاحب نے 1935ء میں اسے مرتب کیا تھا۔ یہ کتاب جماعتی لٹریچر میں کافی عرصہ استعمال ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس میں کتابت اور حوالہ جات کی بہت زیادہ غلطیاں تھیں۔
چنانچہ کتابت اورحوالہ جات کی غلطیوں کو اس نئے ایڈیشن میں درست کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ اس کتاب کے پبلشر اور مؤلف فخرالدین ملتانی صاحب تھے، اب اگر ہم ان کے نام اور ان کے تحریر کردہ دیباچہ کو اس نئے ایڈیشن میں سے حذف کردیں تو یہ درست بات نہیں ہو گی۔ کیونکہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض رفقاء جو حضور کی وفات کے بعد اپنی ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے جماعت سے الگ ہو گئے تھے لیکن انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں مختلف کاموں میں جماعت کی خدمت کی توفیق پائی اور ان کے نام تاریخ احمدیت میں شامل ہیں۔ آپ کی اس تجویز کے مطابق تو پھر ہمیں ان سب احباب کے نام اور ان کی خدمت کو بھی تاریخ احمدیت سے نکال دینا چاہیے۔ لیکن یہ بات جماعتی اخلاقیات اور روایات کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ پر مشتمل’’ فقہ المسیح‘‘کے نام پر بھی ایک کتاب شائع ہو چکی ہے جس میں ’’فتاویٰ حضرت مسیح موعود‘‘سے بھی زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور فتاویٰ شامل کر دیے گئے ہیں۔