جماعت احمدیہ برطانیہ کے 52 ویں جلسہ سالانہ 2018ء کی مختصر رپورٹ (6)
’احمدیت۔ امن کا حصار‘کے موضوع پر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت احمدیہ برطانیہ کی تقریر
جلسہ سالانہ کے موقعہ پر عالمی بیعت کی بابرکت اور اثر انگیز تقریب۔
اس سال دنیا بھر میں 129 ممالک سے 300؍اقوام سے تعلق رکھنے والے چھ لاکھ سینتالیس ہزار آٹھ صد انہتر(647,869) افراد کی احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت۔
نبی اکرم ﷺ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بننے کے لئے قرآن کریم میں مذکور تین بنیادی برائیوں فحشاء، منکر اور بغی سے بچنے کی نصیحت۔
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز اختتامی خطاب
نبی اکرم ﷺ کے اسوہ پر عمل کرتے ہوئے حقیقی مسلمان بننے کے لئے قرآن کریم میں مذکور تین بنیادی برائیوں فحشاء، منکر اور بغی سے بچنے کی نصیحت
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ولولہ انگیز اختتامی خطاب
جلسہ سالانہ کا تیسرا دن اتوار 5؍اگست 2018ء
(حصہ دوم)
ا س اجلاس کی چوتھی تقریر مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیر جماعت یُوکے کی ’احمدیت۔ امن کا حصار‘ کے موضوع پر انگریزی زبان میں تھی۔
مقرر موصوف نے کہا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اسلام کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو دوبارہ متعارف کروانا اور پوری دنیا کو امّتِ واحدہ بنانا تھا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں انسان اور اس کے گمشدہ خدا کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ حضور علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ جہاد بالسیف اب معطل ہےکیونکہ مذہب کی بنیاد پر اب کوئی جنگ نہیں لڑی جا رہی۔
مقرر موصوف نے گلوبل پِیس انڈیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خراب حالات کی وجہ سے 2017ء میں دنیا کو 14.76 ٹرلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوا۔ اور لگاتار چوتھے سال بھی دنیا میں امن و امان کی صورتِ حال بدتر ہوتی نظر آئی۔
مقرر موصوف نے اقوامِ متحدہ میں ویٹو کے ووٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے یوروپین پارلیمنٹ والے خطاب میں فرمایا تھا کہ ویٹو کا ووٹ دنیا میں قیامِ امن میں روک بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ کے تمام ممالک برابر نہیں رہتے ۔ نیز یہ کہ اس ووٹ کا استعمال ہر مرتبہ مظلوم کو ظلم سے بچانے کی خاطر نہیں کیا گیا۔ اکثر اوقات اس ووٹ کی وجہ سے ظالم کو ظلم و استبداد میں مدد دینے کا مکروہ فعل بھی سرزد ہوا۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
مقرر موصوف نے کہا کہ افسوس اس بات کا ہےکہ دنیا میں قیامِ امن کی بے انتہا کوششوں کے باوجود امن کا فقدان ہوتا چلا جا رہا ہے۔اور اس کی وجہ بھی مہدیٔ دوراں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرما گئے ہیں کہ دنیا اپنے خالق کو اور بعث بعد الموت کو بھلا بیٹھی ہے۔
مقرر موصوف نے کہا کہ اس دنیا کو ایک مخلص اور سچے لیڈر کی ضرورت ہے جو دنیا کو امن کی طرف لے جا سکے۔
مقرر موصوف نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے حوالہ سے بتایاکہ اصل اسلام کیا ہے۔ اور جب اسلام کی تعلیمات پر بہت حد تک عمل ہوتا تھا تو معاشرہ کس طرح جنت نظیر بن گیا تھا۔ اور مسلمانوں نے تحقیق اور تصنیف اور تجدید کے میدان میں بہت ترقی کی تھی۔اور اسلام کی تعلیمات کا بہترین نمونہ ہمیں حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء ﷺ کی ذاتِ بابرکات میں نظر آتا ہے۔
مقرر موصوف نے مشہور مستشرق خاتون کیرن آرمسٹرانگ کی کتاب سے بھی ایک حوالہ پیش کیا جس میں انہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی نشاندہی کی تھی۔
مقرر موصوف نے کہا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نوّے کے قریب کتب تصنیف فرمائیں اور ان کتابوں میں انسان کو اس کے خالق سے متعارف کروا کر اس سے تعلق استوار کرنے کی تعلیم دی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ انڈیا میں طاعون کے پھیلنے کے بعد جب لوگ دھڑا دھڑ مر رہے تھے تو بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو متنبہ کیا کہ اپنے خدا کو پہچانو اور میری جماعت میں شامل ہوکر حقیقی اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس جماعت میں داخل ہونے کی برکت سے طاعون سے محفوظ رکھے گا۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ احمدیت نے ’امن کا حصار‘ ہونے کا ثبوت دیا اور جو کوئی بھی اس جماعت میں سچے دل سے شامل ہوا، طاعون سے محفوظ رہا۔
مقرر موصوف نے مولوی محمد علی صاحب کے بخار میں مبتلا ہونے اور ان کے اس ڈر سے پریشان ہونے کہ انہیں طاعون نہ ہو گیا ہوکا واقعہ بیان کیا۔ نیز یہ بھی بیان کیا کہ کس طرح اللہ کے فضل اور مسیح پاک کے لمس کی برکت سے اس بگڑتے بخار کی حالت اچانک شفایابی سے بدل گئی اور مولوی محمد علی صاحب امن کے حصار کی برکت سے تندرست ہو گئے۔
مقرر موصوف نے حضرت مرزا برکت علی صاحب ؓ کے حوالہ سے 1905ء کے ہولناک زلزلہ کاذکر کیا کہ کس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہولناک زلزلہ آیا اور تمام احمدی اس زلزلہ میں جانی نقصان سے محفوظ رہے۔
اسی طرح مقرر موصوف نے عبدالکریم کے مشہور واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ جسے ایک باودلے کتے نے کاٹ لیا تھا۔ جب انہیں لاعلاج قرار دے دیا گیا اور کہا گیا کہ
nothing can be done for Abdul Karim
تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس نوجوان کی علمِ دین کے لئے کاوش سے متاثر ہو کر دعا میں لگ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس لا علاج مریض کو شفا سے نوازا۔
مقرر موصوف نے کہا کہ آج جماعت احمدیہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جماعت کے پاس خلافتِ احمدیہ کی صور ت میں عظیم الشان ، مخلص اور سچی لیڈرشپ موجود ہے۔ آج ہمارے درمیان حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز موجود ہیں جو 22؍ اپریل 2003ء کو مسندِ خلافت پر متمکّن ہوئے۔ آپ اس وقت سے اب تک دنیا میں قیامِ امن، باہمی بھائی چارے اور اسلام کی عالمگیر پُر امن تعلیم کا پرچار کر رہے ہیں۔ حضورِ انور دنیا کے بیشتر ممالک کے دورہ جات کر چکے ہیں اور بیشتر ممبرانِ پارلیمنٹ اور پالیسی میکرز سے مخاطب ہو چکے ہیں۔ حضورِ انور کی زندگی کا مشاہدہ کر کے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح خلافتِ احمدیہ ایک نعمت کی صورت ہم میں موجود ہے۔ حضورِ انور کی ذاتِ بابرکات از خود ایک ’امن کے حصار‘ سے کم نہیں۔ حضور پوری دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروا رہے ہیں۔ حضورِ انور نے 39ویں جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر فرمایاکہ خلافتِ احمدیہ کے قیام کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ دنیا کے لوگ اپنے خالقِ حقیقی کو پہچان لیں اور اس کے سامنے جھکنے لگیں نیز یہ کہ دنیا میں امن ، محبت اور بھائی چارہ کا دور دورہ ہو۔
اس اجلاس کی کارروائی 12بجکر 37منٹ پر ختم ہوئی ۔
عالمی بیعت
اس تقریر کے معًا بعد جلسہ گاہ میں عالمی بیعت کی تقریب کے لئے دنیا بھر سے تشریف لانے والے مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے متعدد زبانیں بولنے والے نومبائع احمدی ودیگر احمدی ایک ترتیب کے ساتھ بیٹھنے لگے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک بج کر 10منٹ پر مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘ کی دعا دیتے ہوئے سٹیج کے سامنے کشادہ جگہ پر تشریف فرما ہوئے۔
عالمگیر بیعت کا بابرکت سلسلہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے1993ء میں شروع فرمایا تھا۔ اس لحاظ سے اس سال جلسہ سالانہ یوکے پر ہونے والی 25 ویں عالمگیر بیعت کی تقریب منعقد ہوئی۔اس خصوصی تقریب کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا ایک متبرک کوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔
بیعت لینے سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اِ مسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک سو انتیس ممالک سے تقریبا تین سو قوموں سے تعلق رکھنے والے چھ لاکھ سینتالیس ہزار آٹھ سو انہتر افراد نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو قبول کرنے کی توفیق پائی اور احمدیت میں باقاعدہ طور پر شمولیت اختیار کی۔ الحمد للہ رب العالمین۔
اس کے بعد حضورِ انور بیعت کے الفاظ پڑھتے اور تمام حاضرینِ جلسہ یہاں پر اور دنیا بھر کے احمدی لائیواس بابرکت تقریب میں شامل ہوتے ہوئے اپنی اپنی مساجد، سنٹرز اور گھروںمیں حضورِ انور کی اقتدا میں یہ الفاظ دہراتے رہے۔ پہلے حضورِ انورنے عربی عبارت کے بعد انگریزی میں عہدِ بیعت دہرایا اور مختلف زبانوں کے مترجمین ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے رہے۔ جبکہ دوسرے مرحلہ پر حضورِ انور نےعربی عبارت کے بعد صرف اردو میں الفاظِ عہدِ بیعت دہرا کر حاضرین و ناظرین و سامعین سے بیعت لی۔
عالمی بیعت کے بعد تمام احباب نے حضور کی اقتدا میں اپنے مولیٰ کریم کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا اور یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔ حضور انور نے نمازِ ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں اورپھر اپنے دفتر واپس تشریف لے گئے۔
اختتامی اجلاس
جلسہ سالانہ برطانیہ کے تیسرے روز بعد دوپہر کے اجلاس کے آغاز سے قبل محترم امیر صاحب جماعت احمدیہ برطانیہ کی زیرِ صدارت معزز مہمانوں کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ محترم معید حامد صاحب یُو کے نے سورۃ الاخلاص کی تلاوت کرنے کی سعادت حاصل کی۔
تلاوتِ قرآنِ کریم کے بعد محترم امیر صاحب نے مختلف ممالک سے تشریف لانے والی ممتاز شخصیات میں سے بعض کو دعوتِ خطاب دی۔
جن معزز مہمانوں نے اس سیشن میں تقاریر کیں ان میں کونسلر سٹیو ماسٹرسن ، (Councillor Steve Masterson (Mayor of Rushmoor, کونسلر برنَڈیٹ خان (Councillor Bernadette Khan, Mayor of Croydon), پروفیسر ڈاکٹر محمد صالح تاج الدین (Professor Dr. Muhammad Saleh Tajuddin, Lecture in Alauddin Islamic State University Indonesia), مسٹر برنارڈ جوزِف (Mr. Bernard Joseph Wagner , Mayor of the City of Belize), امیر الدین محمود (Ameer Ud Din Muhammad, Mayor of Comoros Island), کونسلر تھایالان(Councillor Thayalan, Mayor of Kingston), ڈاکٹر رامی رانگھڑ(Dr Rami Ranger (CBE), آرماھ زولو جالاہ (Armah Zolu Jallah, Member of that Senate of Liberia), مسٹر سٹیو ن (Steven, Member of provincial Parliament, Peace Village Canada), عزت مآب پال سکَالی (Rt. Hon. Paul Scully, MP for Sutton and Cheam & Vice Chair of APPG Ahmadiyya Muslim Community), عزت مآب سر ایڈورڈ ڈیوی(Rt. Hon. Sir Edward Jonathan Davey, MP for Kingston and Surbiton)شامل ہیں۔ آخری مقرر کو حضرت امیر المومنین کی مبارک موجودگی میں اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
تمام مقررین نے جماعت کی امن پسند تعلیمات کو سراہا۔ جماعت کے ماٹو ’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘ کی تعریف کی اور اکثر نے ذکر کیا کہ احمدی دنیا میں جہاں بھی موجود ہیں معاشرہ کا صحتمند حصہ ہیں اوراپنے ملک اور علاقہ کی ترقی کے لئے بے لوث خدمات پیش کرنے والے ہیں۔ مقررین نے ذکر کیا کہ اسلام دہشت گرد اور شدّت پسند مذہب نہیں اور اس بات کو جماعتِ احمدیہ کے نمونہ سے خوب خوب واضح کیا جا سکتا ہے۔
ان تقاریر کے بعد جلسہ کے اختتامی اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہؤا۔ مکرم راشد بن خطاب صاحب (کبابیر) نے سورۃ النحل کی آیا ت 91 تا 98 کی تلاوت کی اور محترم عطاء المومن زاہد صاحب (استاد جامعہ احمدیہ یو کے) نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا بیان فرمودہ اردو ترجمہ پیش کیا۔
اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا عربی قصیدہ مکرم فرج عودہ صاحب نے ترنّم کے ساتھ پڑھنے کی سعادت پائی۔ اس عربی قصیدہ کا اردو ترجمہ مکرم محمد طاہر ندیم صاحب کوپڑھنے کی سعادت ملی جو درج ذیل ہے:
مَیں صادق اور مصلح ہوں۔ اور میری دشمنی زہر اور میری صلح سلامتی ہے۔مَیں باغ ہدایت ہوں۔ میری طرف وہ چشمہ آتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا۔میری روح خدا کی تقدیس کے لئے ایک کبوتر ہے۔ یا بلبل ہے جو خوش آوازی سے بول رہی ہے۔مَیں تمہارے پاس بے وقت نہیں آیا۔ مَیں اس وقت آیا کہ ایک اندھیری رات تھی۔دین کی ولایت بباعث قحط کے جو غالب آگیا۔ خالی ہوگئی بعد اس کے جو وہ ایک باغ کی طرح تھی۔کیا وہ قوم باقی ہے جو ہمارے دین کی خدمت کریں۔ اور کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ دین کو کس طرح مسمار کیا جاتا ہے۔سو خدا نے مجھے بھیجا تاکہ مَیں اُس کے دین کو زندہ کروں۔ یہ سچ ہے پس کیا کوئی ہے جو اطاعت کرے۔مخالف کی کوشش ہمارے امر میں باطل ہے۔ یہ خدا کی تلوار ہے جس میں رخنہ نہیں ہوسکتا۔
بعد ازاں مکرم مرتضیٰ منّان صاحب (طالبعلم جامعہ احمدیہ جرمنی) نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے منظوم کلام ’بڑھتی رہے خدا کی محبت خدا کرے‘ میں سے چند اشعار مترنّم پڑھ کر سنائے۔
امن انعام کا اعلان
اس کے بعد مکرم رفیق احمدحیات صاحب امیر جماعت یُوکے نے امن انعام کا اعلان کیا جسے Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace کہا جاتا ہے۔ یہ انعام جماعت احمدیہ یُوکے کے زیر انتظام منعقد ہونے والی امن سمپوزیم کے موقع پر دیا جاتا ہے۔ مکرم امیر صاحب نے کہا کہ یہ انعام 2009ء سے دیا جا رہا ہے اور دنیا بھر میں امن کو فروغ دینے کے لئے منتخب شخصیات کو دیا جاتا ہے۔امسال ڈاکٹر Fred Mednick صاحب کو یہ انعام دیا جائے گا۔ ڈاکٹر فریڈ میڈنِک اساتذہ کی بین الاقوامی تنظیم Teachers Without Borders کے بانی ہیں۔ آپ کو Ahmadiyya Muslim Peace Prize جماعت احمدیہ یُوکے کے زیر انتظام امن سمپوزیم 2019ء کے موقع پر دیا جائے گا۔
تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء میں میڈلز اور اسناد کی تقسیم
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے دست مبارک سے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے درج ذیل طلباء میں میڈلز اور اسناد تقسیم فرمائیں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی خطاب
اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اختتامی خطاب فرمایا۔
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سورۃ النحل آیت 91کی تلاوت کی۔ اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:
اس آیت کے پہلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کے امن و سکون اور سلامتی کے لئے اور تباہی سے بچنے کے لئے تین بنیادی باتیں فرمائی ہیں۔ یعنی عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربیٰ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کی تفصیل مَیں گزشتہ سالوں کے خطابات میں بیان کر چکا ہوں۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ نے اپنے خطاب میں اس آیت کے دوسرے حصہ میں موجود نواھی یعنی الفحشاء، المنکر اور البغی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قرآنِ کریم کی دیگر آیات ، احادیثِ نبویہ اور ارشادات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں ان نواہی کی مختلف اقسام، ان سے بچنے کے طریق، ان میں پڑنے کے نقصانات اور ان سے بچنے کے فوائد بیان فرمائے۔ حضورِ انور کے اس خطاب کا مکمل متن انشا ء اللہ آئندہ الفضل انٹرنیشنل کے کسی شمارہ کی زینت بنے گا۔
خطاب کے بعد حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کے ساتھ اس اجلاس کا باقاعدہ اختتام فرمایا۔
دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اعلان فرمایا کہ اس سال اس جلسہ میں 115 ممالک سے اڑتیس ہزار پانچ سو دس (38,510) افراد شامل ہوئے۔ گزشتہ سال یہ تعداد 37,393 ہزار تھی۔
بعد ازاں جماعت احمدیہ یُوکے کے زیر انتظام مختلف گروپس نے عربی، انگریزی، پنجابی، اردو، فارسی اور بنگلہ زبانوں میں قصائد، دینی نغمات اور ترانے پیش کئے۔
اس کے بعد حضور انور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر جلسہ گاہ سے تشریف لے گئے اور احباب کرام کچھ دیر تک پر جوش اسلامی نعروں کے ساتھ اپنے جوش و خروش اور امامِ وقت سے اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے رہے۔
اس طرح جلسہ سالانہ برطانیہ کی کارروائی انتہائی خیر و برکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
٭…٭…٭