قرآن مجید کی وحی اور آنحضرت ﷺ کے روحانی مشاہدات کا ایک نمونہ
(1)
قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی رؤیت اورمشاہدہ کا کئی جگہ ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ سورۃ التکویر میں چند ایک مہتم بالشان آنے والے انقلابات کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے۔وَلَقَدْ رَاٰہُ بِالْاُفُقِ الْمُبِیْنِ (التکویر24:) یقینا آپ ان باتوں کو دیکھ چکے ہیں ایسے افق (یعنی بلند مقام)سے جو کھلے طور پر دکھانے والا ہے۔
اسی طرح سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاَوْحیٰٓ اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰیo مَا کَذَبَ الفُؤَادُ مَارَاٰی o اَفَتُمٰرُوْنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی o
(النجم11: تا 13)
لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی۔ (النجم19:)
پس اس نے اپنے بندے کو وحی کی جوکی۔ دل نے جو دیکھا اس میں غلطی نہیں کھائی۔ کیا تم اس سے ان باتوں کے متعلق شک وشبہ کرتے اورالجھتے ہو جنہیں وہ دیکھ رہا ہے۔
اپنے ربّ کے بہت بڑے نشانات وہ یقیناً دیکھ چکا ہے۔
ان آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ تجلّیات وحی کے جو کلام کی صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئیں آپؐ کو روحانی آنکھوں سے بھی ان کے بارے میں مشاہدہ کرایا گیا تھا ۔
آپؐ کے اس قسم کے مشاہدات کا نمونہ سورہ کہف اورسورہ مریم کی آیات بینات کے تعلق میں پیش کیا جاتا ہے۔
ذیل میں پہلے ان دونوں سورتوں کے مضمون کا خلاصہ پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مشاہدات کو بیان کیا جائے گا اوراس سلسلہ اخبار غیبیہ سے تعلق رکھنے والی دیگر سورتوں اورصحف سابقہ کی پیشگوئیوں کا ذکر بھی بطور مزید وضاحت کے کیا جائے گا۔
سورہ کہف کا موضوع
سورہ کہف کے شروع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہٖ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلَ لَّہٗ عِوَجًا o قَیِّمًا لِّیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیْدًا مِّنْ لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًا o مَّاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًاo وَّ یُّنْذِرَ الَّذِیْنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا۔ (الکھف2: تا 5)
ترجمہ: یعنی سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے یہ کتاب اپنے بندہ پر نازل کی اوراس میں کسی قسم کا ٹیڑھا پن نہیں رکھا۔سیدھی اورصحیح طور پر رہنمائی کرنے والی ہے تاکہ اپنے حضور سے نہایت ہی سخت خطرہ کے متعلق آگاہ کرے اوران مومنوں کو بشارت دے جو اعمال صالحہ بجالاتے ہیں کہ ان کے لئے ایک ایسا اجر ہے جس وہ میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اوران لوگوں کو بدانجام سے ڈرائے جنہوںنے کہا کہ خدا نے ایک بیٹا اختیار کیاہے۔‘‘
گویا اس کتاب کے نازل کرنے کی غرض یہ ہے کہ مومنوں کو نہایت شدید خطرہ سے آگاہ کیا جاوے اوریہ بشارت دی جاوے کہ ان کی محنت کا بدلہ ضائع ہونے والا نہیں بلکہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اور عیسائیوں کو ان کے باطل عقیدہ کے برے انجام سے خوف دلایا جائے کہ ان کا ساختہ پر داختہ بوجہ عمل صالح نہ ہونے کے تباہ وبرباد کردیا جائے گا۔ یہ خلاصہ ہے سورہ کہف کی پہلی چھ آیات کا۔
سورہ مریم کا موضوع
سورہ مریم میں بھی اسی بأس شدید،بشارت اورفتنہ ء عیسائیت کی شدت اوراس کی کامل تباہی کا ذکر کیا گیاہے۔
سورہ کہف میں فرمایاتھا۔ کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاھِھِمْ۔ (الکھف6:) یعنی بہت خطرناک بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے یعنی یہ کہ خدا کا بیٹا ہے۔
اور سورہ مریم میں فرمایا۔ تَکَادُالسَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ھَدًّاo اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا (مریم91:۔92) یعنی ’’قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہوجائے اورپہاڑ گرپڑیں اس لئے کہ انہوںنے رحمن کے لئے بیٹا تجویز کیا ہے۔‘‘
یہ الفاظ سورہ کہف کی مذکورہ بالاآیت کی تفسیر ہیں۔یعنی ان کا ولد اللّٰہ پکارنا اتنی خطرناک بات ہے کہ اس سے زمین وآسمان میں عنقریب ایک تہلکہ برپا ہوجائے گا۔
اسی طرح سورہ کہف کی ابتدائی آیات میں جس تبشیرو انداز کو تمثیلاً بیان کیاگیا ہے سورہ مریم کو اسی پر ختم کیا گیا ہے۔فرماتا ہے
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاo فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّاo وَکَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْنٍ ھَلْ تُحِسُّ مِنْھُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَوْ تَسْمَعُ لَھُمْ رِکْزًاo (مریم97: تا 99)
یقینا وہ جو ایمان لائے اورجنہوںنے اچھے عمل کئے عنقریب رحمن ان کے لئے محبت کا سامان مہیا کرے گا۔ ہم نے اس (پیشگوئی ) کو تیری زبان سے آسان کردیا ہے تاکہ تُو متقیوں کو بشارت دے اورایسی قوم کو اس کے بدانجام سے آگاہ کرے جو ضدی (اورکفرپر مصر)ہے۔ہم نے کئی قومیں ان سے پہلے ہلاک کیں۔ کیا تو ان میں سے کسی کو دیکھتا یا ان کی آہٹ پاتا ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کو پیش آنے والی بأس شدید کی خبر جو سورہ کہف میں دی گئی ہے اس کی نوعیت کو سورہ مریم کے پہلے چار رکوع میں واضح کیا گیا ہے ۔
موعودہ بشارت کی نوعیت
نیز یہ بتایا گیا ہے کہ موعود ہ بشارت رحمت خاصہ کی صورت میں ظاہر ہوگی جس کا نام نبوت ہے۔چنانچہ اس سورت کو ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا (مریم3:) سے شروع کرکے اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس قسم کی رحمت کا سلوک حضرت زکریاؑ ، حضرت مریمؑ،حضرت ابراہیم ؑ اورحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا تیرا رب ویسا ہی سلوک رحمت تجھ سے بھی کرے گا۔
سورہ مریم کے پہلے چار رکوع میں ربّانی سلوک رحمت خاصہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت زکریاؑ کو اپنے بعد ناخلف وارثوں کے ہاتھوں ورثہ نبوت برباد ہونے کا جب خوف دامنگیر ہوا اورانہوں نے بڑے کرب وکراہ سے دعا کی جو قبول ہوئی اورانہیں ایک بیٹا یحییٰ دیا گیا جو نبی تھے۔ جب بنی اسرائیل غیر قوموں کے ہاتھوں پامال کئے گئے اوران کا شیرازہ پراگندہ ہوگیا تو حضرت مریم کا انتخاب ہوا اورانہیں حضرت عیسیٰؑ عطا ہوئے تا وہ بنی اسرائیل کی بگڑی بنائیں۔اسی طرح جب توحید دنیا سے ناپید ہوگئی اورحضرت ابراہیمؑ کو فکر دامنگیر ہوئی تو انہیں حضرت اسمعیلؑ، حضرت اسحاقؑ اورحضرت یعقوب اولاد عطا کی گئی۔اورجب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم سے کچھ عرصہ کے لئے جدا ہوئے تو ان کی غیرحاضری میں ان کے بھائی ہارونؑ کو ان کا جانشین بنایا گیا اور ان اولو العزم انبیاء کو جو جانشین دیے گئے۔ ان میں سے ہر جانشین خلعت نبوت سے کم وبیش سرفراز کیا گیا اوررحمت مخصوصہ اللہ تعالیٰ کی صفت الوھابسے ظہور میں آئی ۔ (صفت وہابیت کا ذکر قرآن مجید میں تئیس جگہ وارد ہوا ہے اوریہ عجیب بات ہے کہ ان میں سے اٹھارہ جگہ میں صالح بیوی اورصالح اولاد اورتین جگہ منصب نبوت کے عطا کئے جانے کاذکر ہے ۔ اس توارد سے ظاہر ہے کہ صفت وہابیت کا تعلق نیک ذریت اورنبوت کی نعمت سے مخصوص ہے ۔)
سورہ مریم کے پہلے چار رکوع پڑھیں۔ آپ ان میں دو باتیں باربار دہرائی ہوئی پائیں گے صفت وہابیت و رحمت اورایسے جانشینوں کا ذکر جنہیں منصب نبوت عطا کیا گیا ۔ ملاحظہ ہوں آیات۔
فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا۔ (مریم6:)
لِاَھَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّا۔ (مریم20:)
رَحْمَۃً مِّنَّا۔ (مریم22:)
جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ (مریم31:)
وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ ویَعْقُوْبَ۔ وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّاo وَھَبْنَا لَھُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا۔ )مریم50:۔51)
وَھَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا اَخَاہُ ھٰرُوْنَ نَبِیًّا۔ (مریم54:)
صفت وہابیت و رحمت اورمنصب نبوت والی خلافت کا یہ تکرار صاف طور پر بتلاتا ہے کہ سورہ مر یم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ مسلمانوں کے بگڑنے اوربیرونی حملوں سے جب شدید خطرہ پیدا ہوگا تو اس یاس انگیز خطرے والی گھڑی میں آپؐ کے مقدس ورثہ کو سنبھالنے کے لئے اسی قسم کی رحمت کا ظہورصفت وہابیت کے ماتحت ہوگا۔
سورہ مریم اورسورہ کہف کا باہمی تعلق بلحاظ دوعظیم الشان پیشگوئیوں کے
یہ امر کہ آیا فی الواقع سورہ مریم کی آیات بینات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی قسم کی بشارت کی خبردی گئی ہے۔اس سورۃ کے پانچویںرکوع کی آخری آیات سے بالکل ظاہر وواضح ہوجاتا ہے جہاں مذکورہ بالا انبیاء علیہم السلام کے ساتھ رحمت خاصہ کے سلوک کا ذکر کرنے بعد فرماتا ہے۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ وَّمِنْ ذُرِّیَّۃِ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْرَائِیْلَ وَمِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّبُکِیًّاo فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاo اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ شَیْئًا o جَنّٰتِ عَدْنِ الَّتِیْ وَعَدَ الرَّحْمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیْبِ اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَأْتِیًّاo (مریم59: تا 62)
یعنی یہ وہی ہیں جن پر انبیاء میں سے انعام کیا ۔ آدم کی ذریّت سے بھی اور ان سے بھی جنہیں نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا اور ابراہیم اوراسرائیل کی ذریّت سے بھی اور ان سے جنہیں ہم نے ہدایت کی اورجن کو ہم نے چن لیا ہے۔اورجب رحمٰن کی آیتیں ان پرپڑھی جاتی ہیں تو وہ سجدہ بجالاتے اور روتے ہوئے گرپڑتے ہیں۔پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ہوئے جنہوں نے نماز ضائع کردی اورشہوتوں کے پیچھے لگ گئے عنقریب وہ کج روی کا بدلہ پائیں گے۔مگر جنہوں نے توبہ کی اورعمل صالح بجالائے وہ جنت میں داخل ہوں گے اوران سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ہمیشگی کے وہ باغات جن کا وعدہ رحمٰن اپنے بندوں سے غائبانہ کرچکا۔اس کا یہ وعدہ یقینا پور اہوکر رہے گا۔
رحمت الٰہیہ کے چار قسم کے انعامات مذکورہ بالا آیات سے مندرجہ ذیل تین باتیں واضح ہوتی ہیں۔
اولؔ یہ کہ رحمت الٰہیہ کی چار قسموں (صالحیت ۔ صدیقیت۔شہیدیت اورنبوت) میں سے آیات مذکورہ بالا میں صرف انعام نبوت کا ذکر کیاگیاہے۔
سورہ نساء کی آیت 70 میں منعم علیہ گروہ کے چار درجے بیان کئے گئے ہیں۔فرماتا ہے:
وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ یعنی جس نے اللہ اورمحمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں اور صدیقوں اورشہیدوں اورصالحین کے ساتھ کیا ہی عمدہ ان کی رفاقت ہوگی۔ (یہاں شہید سے مراد وہ شخص ہے جس کا ایمان مشاہدہ والا ہو۔ یہاں مقتول فی سبیل اللہ مراد نہیں)
سورہ مریم میں جب انعام یافتہ گروہ کا ذکر فرمایا تو ان چاردرجوں میں سے صرف ایک ہی درجہ یعنی نبیوں والے درجہ کا ذکر کیا اورباقی تین درجوں کو نظرانداز کردیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ سورہ مریم کی آیات میں نبوت والی رحمت خاص ہی مقصود بالذات ہے نہ کوئی اوررحمت۔
اولوالعزم انبیاء کے چاردور اوران میں رحمت مخصوصہ کا ظہور
دوئم۔ یہ کہ سورہ مریم کی مذکورہ بالا آیت میں چار دوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔حضرت آدمؑ کا دور، حضرت نوحؑ کا دور ،حضرت ابراہیمؑ اوراسرائیل کا دور، اورچوتھا دور مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا والے گروہ کا۔اورہردور میں ہر گروہ کی ذریّت میں سلسلہ نبوت قائم کرنے کا ذکر ہے۔
تیسراؔ دورجو حضرت ابراہیمؑ اوراسرائیل سے چلا اورپھر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو صاحب شریعت نبی تھے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جو اُن کے تابع اور غیرتشریعی نبی تھے ختم ہوگیا۔
اس کے بعد چوتھا دَورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کی اُمّت کا شروع ہوتا ہے۔ یہی وہ چوتھا دور ہے جو جملہ مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا سے مراد ہے۔ اس دور کے متعلق بھی ان الفاظ میں اسی طرح نبی جانشین بنائے جانے کا وعدہ مضمر ہے۔ اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح انبیاء مذکورہ بالا کے لئے ایسے نبی خلفاء مبعوث کئے گئے تھے جنہوںنے شدید خطرہ کی حالت میں ان کے روحانی ورثہ نبوت کو محفوظ کیا اور ان کی امتوں کو سنبھالا اور آپ کا ورثہ نبوت بھی خطرناک حالات پیدا ہوجانے پر اسی قسم کے نبی جانشین بھیج کر محفوظ کیا جائے گا۔
سورہ مریم کی محوّلہ بالا آیت پر ایک دفعہ پھر نظر ڈالیں ۔مِنْ ذُرِّیَّۃِ اٰدَمَ کے بعد وقفہ ہے۔ آدم کے بعد وقفہ ہے۔ذریت ابراہیم واسرائیل پر پھر وقفہ ہے ۔ یہ وقفے بلاوجہ نہیں۔ہر وقفہ دور نبوت پر دلالت کرتا ہے۔بنی اسرائیل کا دور جب ختم ہوا تو لامحالہ چوتھا دور جو شروع ہونے والا تھا آیت کے چوتھے ٹکڑے یعنی وَمِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا میں اُمّت محمدؐیہ کا دور ہی مراد ہوسکتا ہے۔اس لئے ظاہر ہے کہ اس چوتھے دور میں بھی جو دور محمدؐی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں نبوت سے سرفراز ہونے والے جانشینوں کی بعثت کی بشارت مذکور ہے۔ اوریہی وجہ ہے کہ جب آپؐ نے اُمّت محمدؐیہ کے لئے ابن مریم کے نازل ہونے کی بشارت دی تو آپؐ نے فرمایا وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ یعنی تمہارے امام تم میں سے ہوں گے نہ غیراُمّت سے۔
اب آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ صاف الفاظ میں سورہ مریم کی آیات میں اُمّت محمدیہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ جب یہ اُمّت شدید خطرہ سے دوچار ہوگی اورا س کے لئے اس کا مستقبل تاریک ہوجائے گا تو خدائے وہاب غیب سے اس کی نجات کا سامان علیٰ منہاج نبوت کرتا رہے گا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام ؓ کی محنت کو ضائع نہیں ہونے دے گا بلکہ ان کی محنت کا بدلہ دائمی ہوگا۔
امت محمدیہ ہی آخر الامم ہے جو انعام نبوت کے لئے چنی گئی ہے
سورۃ الانعام کی آیات 90 رکوع 10 میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ بنی اسرائیل کی ناقدری اور ناشکرگزاری پر نبوت کی نعمت آئندہ مسلمانوں کو سپرد کی گئی ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے:
اُولٰٓئک الَّذِینَ اٰتَینٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْ بِھَا ھٰؤُلٰٓائِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْمًا لَّیْسُوْا بِھَا بِکٰفِرِیْنَ۔ یعنی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اورحکمت اورنبوت عطا کی۔اگر یہ اس کی ناقدری کریں تو ہم یقیناً ایک ایسی قوم کو اس کا متولّی بناچکے ہیں جواس کی ناقدری کرنے والے نہیں۔
اور سورۃ الحج کی آخری آیت میں فرماتا ہے :
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰـکُمْ ۔۔۔(الآیۃ۔)
یعنی اللہ کی خاطر جہاد کر و جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو(اس غرض کے لئے)چن لیا ہے۔
دونوں آیتیں نص صریح ہیں کہ آئندہ کے لئے جس قوم کو نبوت اورعظیم الشان جہاد کے لئے چنا گیا ہے وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ہی اُمّت ہے ۔ خیر الامم کا لقب اس کو اسی امتیاز کی وجہ سے دیا گیا ہے۔پس سورہ مریم کی آیت مِمَّنْ ھَدَیْنَا وَاجْتَبَیْنَا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اورکوئی اُمّت مراد نہیں ہوسکتی۔ اسی اُمّت خیر البشر میں سے آئندہ کے لئے اُمّتی اورتابع نبی چنے جانے کا وعدہ سورہ مریم کی آیات مذکورہ میں آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے کیا اورفرمایا گیا ہے اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مأْتِیًّا (مریم62:)یہ وعدہ ضرور پورا ہوگا۔ پر یہ وہ بشارت عظمیٰ ہے جس کا ذکربأس شدید سے آگاہ کرنے کے بعد سورہ کہف کی دوسری آیت میں اورپھر سورہ مریم کے آخر میں متقیوں سے کیا گیا ہے اوراس عظیم الشان بشارت کے پیش نظر سورہ مریم کی محوّلہ بالا آیات میں فرمایا گیا ہے کہ عبادالرحمن یہ بشارت دینے والی آیات سن کر سجدہ بجالاتے ہیں ۔یہ قرینہ اورسیاق کلام مزید دلیل ہے جو اس بات کا قطعی فیصلہ کرتی ہے کہ سورہ مریم کی آیات میں اُمّت محمدیہ کے لئے ہی بشارت دینا مقصود بالذات ہے۔یہ بات بے جوڑ سی معلوم ہوتی ہے کہ نبی جانشین تو مبعوث ہوں غیروں میں اور سجدہ شکر ہم بجالاتے پھریں!!
مسلمانوں کے فساد کے بعد توبہ کا موقع دیے جانے کا وعدہ
تیسری بات جس کا سورہ مریم کی محولہ بالا آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کا نالائق ہوجانا،ان کانمازیں ضائع کرنا او ر شہوات نفس کا پیرو ہوجانے کی خبر ہے ۔ اوریہ کہ اس حالت میں بھی انہیں توبہ واصلاح کا پھر دوبارہ موقع دیا جائے گا اوران کو جنات عدن کا وارث کیا جائے گا۔ دیکھیے! کس وضاحت سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
جَنّٰتِ عَدنٍ الّتِیْ وَعَدَ الرَّحمٰنُ عِبَادَہٗ بِالْغَیبِ اِنَّہٗ کَانَ وَعْدُہٗ مَأْتِیًّا۔ (مریم62:)
یہ دائمی جنتوں کا وعدہ جو ضرور پورا ہونا ہے اور جس کے متعلق اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ وعدہ قبل از وقت غائبانہ مسلمانوں سے کیا جاچکا ہے دراصل یہ وہی وعدہ ہے جس کا ذکر سورہ کہف کی آیت وَیُبَشِّرَ المُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا حَسَنًاo مَّاکِثیْنَ فِیْہِ اَبَدًا۔ (الکھف3-4)
میں کیا گیا ہے۔ عدن کے معنی بھی دائمی اور مَاکِثِیْنَ فِیْہِ اَبَدًا کا بھی مفہوم دوام پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی یہ کہ مومنوں کی محنت کا بدلہ ایسا ہوگا کہ وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔ان کی محنت کو دوام حاصل ہوگا۔ بَأْسٍ شَدِیْدٍ کی وجہ سے جو وقفہ پیدا ہوگا وہ عارضی ہوگا۔ خدا تعالیٰ اس خطرہ کو دور کرے گا اوران کی حفاظت کا انتظام کیا جائے گا اورامت محمدؐیہ برباد ہونے سے بچائی جائے گی۔
جنّات عدن سے مراد
جنّات عدن سے مراد یقیناً مسلمانوں کی وہ دینی اوردنیوی بادشاہت ہی ہے جو عیسائی قوموں کے منصوبوں اورجنگوں کی وجہ سے ایک عرصہ تک مسلمانوں سے چھن جانے والی تھی۔ لفظ بَأْسٍ کے معنی خطرہ کے بھی ہوتے ہیں اورجنگ کے بھی۔ اس چھنی ہوئی بادشاہت کے بحال کئے جانے کی بشارت کھلے الفاظ میں سورہ کہف میں بھی دی گئی ہے۔ فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًـاo اُولٰٓئِکَ لَھُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَھَبٍ وَّیَلْبَسُوْنَ ثِیَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اسْتَبْرَقٍ مُتَّکِئِیْنَ فِیْھَا عَلَی الأَرٰٓئِکِ نِعْمَ الثَّوَابُ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۔ (الکھف31-32:)
وہ جو ایمان لائے اورنیک عمل کیے ہم یقیناً ان لوگوں کی محنت جو عمل میں اعلیٰ درجہ کی ہیں ضائع نہیں کریں گے ۔ وہی جن کے لئے جَنّٰتِ عَدْن ہوں گے۔ان کے ماتحت نہریں جاری ہوں گی۔وہ سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے اورسبز نفیس دیبائیں ریشمی لباس پہنیں گے۔تختوں پر گائو تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اوریہ کیا ہی اچھا بدلہ ہے اورکیا ہی اچھی آسائش کی جنتیں ہوں گی۔
اس آیت میں جس قسم کے لباس کا ذکر کیا گیا ہے وہ شاہانہ پہناوا ہے۔قدیم زمانہ میں رواج تھا کہ تخت نشینی کے وقت بادشاہوں کو سونے کے کنگن پہنائے جاتے تھے اورریشمی لباس ان کے زیب تن ہوتا اورتخت پران کے لئے گائو تکیہ رکھا جاتا۔ اس لئے اس آیت کا پیرایہ بیان بطور استعارہ کے ہے اوراس سے مراد بادشاہت ہے۔ فرعون اپنی بادشاہت کے متعلق جب فخر کرتا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طعنہ دیتا ہے لَو لَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَھَبٍ (الزخرف54:) یعنی کیا اسے سونے کے کنگن ڈالے گئے ہیں؟ اس سے بھی اس کی یہی مراد ہے کہ یہ شخص بادشاہی سے محروم ہے۔سورۃ الدہر میں الفاظ مُتَّکِئِیْنَ فِیھَا عَلَی الْـأَرٰٓئِکِ (الدھر14:) نیز سُنْدُس اور اِسْتَبْرَق وغیرہ جو وارد ہوئے ہیں ان سے بھی بادشاہت ہی مراد ہے ۔ چنانچہ فرماتا ہے۔اِذَا رَأَیْتَ ثَمَّ رَأَیْتَ نَعِیْمًا وَّ مُلْکًا کَبِیْرًا (الدھر21:) یعنی اگر تو دیکھے تو وہاں بہت بڑی نعمت اوربہت بڑی بادشاہت دیکھے گا۔ چنانچہ سورۃ الدہر میں مسلمانوں سے مُلْکاً کَبِیْرًا (الدھر21:) کا ایک وعدہ فرمایا گیا ہے وہ صحابہ کرامؓ سے پورا کیاگیا اور سورہ کہف اورسورہ مریم میں بادشاہت کا دوسرا وعدہ ہے جو پہلی بادشاہت چھن جانے کے بعد ان سے پورا ہونے والا ہے۔
یہ امر کہ آیا ان دونوں سورتوں میں فی الواقع آئندہ کی دوسری بادشاہت مراد ہے جو دجال کی تباہی کے بعد مسلمانوں کو دی جانی ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تصریح سے بھی ثابت ہے کہ آپؐ نے سورہ کہف کی آیات کو فتنہ دجال سے مخصوص فرمایا اورظاہر ہے کہ دجال کا ظہور اوراس کا غلبہ آخری زمانہ میں مقدر ہے ۔ نیز یہ امر سورہ مریم کے چوتھے رکوع کی آخری آیت اورپانچویں رکوع کی ابتدائی آیت سے بھی واضح ہے جہاں فرشتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں: وَمَانَتَنَزَّلُ اِلَّابِاَمْرِ رَبِّکَ لَہٗ مَابَیْنَ اَیْدِیْنَا وَمَاخَلْفَنَا وَمَا بَیْنَ ذٰلِکَ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا (مریم65:)کہ ہم یہ بشارت اللہ تعالیٰ کے حکم سے لائے ہیں اسی کا ہے جو اس وقت ہمارے سامنے موجود ہے اورجو ہمارے پیچھے ہوگا اورجو ان کے درمیان ہونے والا ہے۔ وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا اورتیرا رب بھولنے والا نہیں۔ اوراس کے بعد معاً فرماتا ہے: وَیَقُولُ الْاِنْسَانُ ئَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا (مریم67:) کہ انسان تعجب سے کہتا ہے کہ جب میں مرجائوں گا تو پھر زندہ نکالا جائوں گا۔کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم نے اس کو پہلے بھی بنایا تھا جب کہ وہ کچھ نہیں تھا۔سو تیرے رب ہی کی قسم ہم ان کو (یعنی ناخلف مسلمانوں کو ) شیطانوں (سرکش قوموں ) کے ساتھ جنگ کے لیے اکٹھا کریں گے اورپھر وہ جہنم کے اردگرد زانو کے بل گرائے جائیں گے۔
سورہ مریم میں سورہ کہف والے بَأْسٍ شَدِیْدٍ کا حوالہ
سورہ مریم کی محوّلہ بالا آیات میں لَنَحْشُرَنَّھُمْ وَالشَّیٰطِیْنَ (مریم69:) کے الفاظ سے جس حشر کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہی ہنگامہ جنگ ہے جس کا ذکر سورہ کہف کی اس آیت میں ہے:
وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّحَشَرْنٰھُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْھُمْ اَحَدًا (الکھف48:)
حشرؔ کے معنی جنگ کے لئے اکٹھا کرنا۔اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اورتو ساری زمین کو لڑائی کے لئے صف آرا دیکھے گا اور ہم ان عیسائی قوموں کو جنگ کے لئے اکٹھا کریں گے اوران میں سے کسی کو بھی پیچھے نہیں رہنے دیں گے۔اس محشر کا رزار کے ذکر کو سورہ مریم کی مذکورہ بالا آیت میں دہرایا اوربتلایا گیا ہے کہ ناخلف مسلمانوں کو بھی انہی سرکش قوموں کے ساتھ اس عالمگیر ہنگامہ میں شریک کیا جائے گا۔ سورہ کہف میں ان جنگوں کو ایسی آگ قرار دیا گیا ہے جس کی قناتیں عیسائی اقوام کی چاروں طرف سے گھیرنے والی ہوں گی۔فرماتا ہے ۔ وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِھِمْ سُرَادِ قُھَا وَاِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآئٍ کَالْمُھْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَآئَ تْ مُرْتَفَقًا۔(الکھف30:) یعنی یہ کہو کہ یہ بات تمہارے رب کی طرف سے اٹل ہے پس جو چاہے مانے جو چاہے انکار کرے۔ یقینا ًہم نے ان ظالموں کے لئے ایسی آگ تیار کی ہے جس کی قناتیں ان کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی۔اوراگر وہ مدد طلب کریں گے تو ان کی مدد بھی ایسے ہی پانی سے کی جائے گی جو کھولتے ہوئے تانبے کا سا ہوگا جو ان کے چہروں کو جھلس دے گا۔اورپھر اس آگ کو سورہ کہف کے پانچویں رکوع میں حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآئِ (الکھف41:) کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی آگ جو آسمان سے گرائی جائے گی۔فرماتا ہے کہ جب انہیں اپنے انگور رستان کے متعلق یہ گمان پیدا ہوگا کہ یہ کبھی تباہ ہونے والا نہیں وَیُرْسِلَ عَلَیْھَا حُسْبَانًا مِّنَ السَّمَآئِ فَتُصْبِحَ صَعِیدًا زَلَقًا (الکھف:41) تو اللہ تعالیٰ آسمان سے آگ بھیجے گا جو اسے چٹیل میدان بنادے گی۔گویا کہ زمین میں روئیدگی تھی ہی نہیں۔
سورۃ مریم کے آخری رکوع میں بھی ان ظالم اقوام کی مکمل تباہی کا ذکر کھلے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ یہ خلاصہ ہے سورہ کہف اورسورہ مریم کے موضوع کا۔ یہ دونوں سورتیں ہم معنی اورمترادف ہیں۔ ایک میں انذار کے پہلو کو زیادہ نمایاں کیاگیا اوردوسر ی میں بشارت کے پہلو کو۔
(ماخوذ از ماہنامہ الفرقان۔ جنوری1953ء)
(باقی آئندہ)