الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ براہ کرم ان منتخب مضامین سے استفادہ کی صورت میں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اس کالم کا حوالہ ضرور دیں۔
حضرت ابودُجانہ ؓ انصاری
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8جون 2012ء میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کے قلم سے انصاری صحابی حضرت ابودُجانہؓ کے حالات و واقعات شائع ہوئے ہیں۔
حضرت ابودُجانہؓ کا نام سماک بن خرشہ تھا۔ بنوخزرج قبیلے سے تعلق تھا اور قبیلہ کے سردار حضرت سعدؓ بن عبادہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ والدہ حزمہ بنت ہرملہ تھیں۔ ہجرت سے قبل اسلام قبول کرنے کی سعادت عطا ہوئی۔ نبی کریم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو عتبہ بن غزوان کے ساتھ حضرت ابودُجانہؓ کی مواخات قائم کی۔
حضرت ابو دُجانہؓ کو رسول اللہ ﷺ کی معیت میں تمام غزوات میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ شجاعت اور مردانگی میں آپ کا ایک خاص انداز تھا۔ سرخ رنگ کی پٹی سر پر باندھ لیتے۔ غزوۂ اُحد میں جب کفّار کے حملہ کی تاب نہ لاکر بعض مسلمانوں کو مجبوراًپیچھے ہٹنا پڑا تو آنحضرت ﷺ کے ہمراہ ثابت قدم رہنے والے چند صحابہ میں آپؓ بھی شامل تھے۔ اُس موقع پرآنحضرت ﷺ نے موت پرصحابہ کی بیعت لی۔ ابودُجانہؓ بھی اُن صحابہ میں شامل تھے۔ اُحد میں دوبارہ جب گھمسان کا رَن پڑا تو آنحضرت ﷺ کا خاص دفاع کرتے ہوئے آپؓ شدید زخمی ہوگئے مگررسول اللہ ﷺ کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹے۔
اُحد کے معرکہ کا وہ حیرت انگیز واقعہ آپؓ ہی سے متعلق ہے جب آنحضرت ﷺ نے اپنی تلوار لہراتے ہوئے پوچھا تھاکہ کوئی ہے جو آج میری اس تلوار کا حق ادا کرے؟ صحابہؓ کے دلوں میں خواہش تو پیدا ہوئی مگر اس ذمہ داری کے احساس نے بولنے نہ دیا۔ آنحضرت ﷺ نے دوبارہ اپنی بات دہرائی تو اس پر ابودُجانہؓ نے ایک عارفانہ شان کے ساتھ آگے بڑھ کر عرض کیا:’یارسول ؐاللہ! مَیں یہ عہد کرتا ہوں کہ اس تلوار کا حق ادا کرکے دکھائوں گا۔‘ آنحضرت ﷺ نے آپ کاعزم و حوصلہ دیکھ کر تلوار آپؓ کے حوالہ کردی۔پھر ابودجانہؓ نے جرأت کرکے عرض کیا ’یارسولؐ اللہ! اس تلوار کا کیا حق مجھے ادا کرنا ہوگا؟‘ آپؐ نے فرمایا: یہ تلوار کسی مسلمان کا خون نہیں بہائے گی اور کوئی دشمن کافر اس سے بچ کے نہ جائے۔
ابودُجانہ ؓنے واقعۃً تلوار کا یہ حق ادا کرکے دکھادیا۔ وادی اُحدگواہ ہے کہ وہ تلوار کفار کی گردنوں اور کھوپڑیوں پرچلی اور خوب چلی۔ ابودُجانہ جب تلوار لہراتے اور ایسے رجزیہ گیت گاتے ہوئے میدانِ اُحد میں نکلے (جس میں تلوار کا حق ادا کرنے کا عہد تھا) اور پھر اکڑتے ہوئے صفوں میں جاکر کھڑے ہوگئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عام حالات میں بڑائی کا ایسا اظہار اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں لیکن آج میدان جنگ میں دشمن کے مقابل پر ابودُجانہ کے اکڑ کر چلنے کی یہ ادا خداتعالیٰ کو بہت پسند آئی ہے۔ حضرت ابودُجانہؓ نے اس تلوار کا حق ایسے ادا کیا کہ ولیم میور جیسے مستشرق کو بھی لکھناپڑا کہ ’’جب اپنی خود کے ساتھ سرخ رومال باندھے ابودُجانہ ؓ ان پراس تلوار کے ساتھ حملہ کرتا تھا جو اُسے محمد ؐنے دی تھی تو چاروں طرف گویا موت بکھیرتاجاتا تھا۔‘‘
اُحد سے واپسی پر حضرت علی ؓ نے جب اپنی تلوار حضرت فاطمہؓ کے حوالے کرکے کہا کہ یہ میری تلوار سنبھا لو اور دھوکر اسے رکھ دو کہ یہ تلوار کوئی ملامت والی تلوارنہیں، بلکہ قابلِ ستائش شمشیر ہے جس کے ذریعہ آج مَیں نے بھی حتی المقدور حق شجاعت ادا کرنے کی کوشش کی۔ آنحضرتﷺ نے یہ بات سن کر تائید کرتے ہوئے فرمایا: ہاں اے علی! واقعۃً تم نے آج جنگ کا حق ادا کردیا اور تمہاری تلوار نے بھی۔ مگر تمہارے ساتھ کچھ اَور لوگوں نے بھی تو یہ حق ادا کیا ان میں حارث بن الصمّہ بھی ہے، ان میں ابودُجانہ بھی شامل ہے۔
حضرت ابودُجانہؓ کی شہادت حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جنگ یمامہ میں ہوئی۔ اس جنگ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ جب مقابلہ ہواتو وہ خودایک باغ میں محصور تھا۔ درمیان میں ایک بہت بڑی دیوار حائل تھی۔ قلعہ کے دروازے بندتھے اور مسلمانوںکو کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کس طرح سے اس باغ کے اندر داخل ہوکر قلعہ کو فتح کریں۔ اس موقع پر ابودُجانہؓ کو ایک تدبیر سوجھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے میری تلوارسمیت اُٹھا کر اس باغ کے اندر پھینک دو۔ مسلمانوں نے ان کی اس خواہش کے مطابق انہیں دیوار کی دوسری طرف پھینک دیا لیکن اس کی وجہ سے اُن کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ اس کے باوجود آپ قلعہ کے بڑے دروازہ پرکھڑے ہوکر تلوار سے اُس وقت تک لڑتے رہے جب تک مسلمان اس دروازہ سے باغ کے اندر احاطہ میں داخل نہیں ہوگئے۔ پھر اندر جاکر مسیلمہ کذاب کو ہلاک کرنے والوں میں حضرت ابودجانہؓ بھی شامل تھے۔ آپؓ پھر بڑی جرأت سے لڑتے ہوئے شہیدہوگئے۔ یوں آپؓ نے آنحضرت ﷺ کی عطا فرمودہ تلوار کا حق حضوؐر کی وفات کے بعد بھی دکھا دیا۔
حضرت ابو دجانہؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ ایک دفعہ بیمار ہوئے تو چہرہ چمک رہا تھا۔کسی نے سبب پوچھا تو کہنے لگے کہ اپنے دو اعمال کی وجہ سے میرادل خوش ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ ان کو قبول کرلے۔ ایک تو یہ کہ مَیں کبھی کوئی لغو کلام نہیں کرتا، نہ کسی کے بارہ میں کوئی غیبت، نہ کوئی لغو بات، نہ کوئی لایعنی کلمہ اپنی زبان پر لاتا ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنا دل مسلمان بھائیوں کے لئے ہمیشہ صاف رکھتا ہوں اور کبھی کسی مسلمان کے لئے میرے دل میں کوئی کینہ اور بغض پیدا نہیں ہوا۔
حضرت ابودُجانہؓ کی شادی اپنے ننھالی خاندان میں آمنہ بنت عمرو سے ہوئی جن سے ایک بیٹے خالد پیدا ہوئے جن کی اولاد مدینہ اور بغداد میں آباد ہوئی۔
حضر ت میاں عبدالکریم صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21جون 2012ء میں مکرم منور احمد خورشید صاحب نے اپنے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کا ذکرخیر کیا ہے۔
حضرت میاں عبدالکریم صاحب کی پیدائش محترم علی احمد صاحب کے ہاں 1880ء کے قریب فتح پور ضلع گجرات میں ہوئی۔ پرائمری تک تعلیم اپنے گائو ں سے ہی حاصل کی اور کچھ عرصہ قریبی گائوں کے سکول میں معلّم بھی رہے۔ اسی لئے منشی یا میاں صاحب کے طور پر مشہور ہوگئے۔
آپ بچپن سے ہی نہایت نیک طبع اور سعید فطرت کے حامل تھے۔ ایک صاحبِ رؤیا و کشوف ولی اللہ بزرگ حضرت سید محمود احمد شاہ صاحب آپ کے ہمسایہ میں رہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے آسمان پر کچھ مخصوص ستاروں کی حرکات و سکنات کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ نشان ظہور مہدی کی علامات میں سے ہے۔ پھر ایک دن جب وہ کسی کام کی غرض سے قریبی قصبہ جلال پور جٹاں گئے تو دیکھا کہ کچھ لوگ بازار میں ایک آدمی کو بڑی بے رحمی سے زدو کوب کررہے ہیں۔ آپ کے دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ شخص کہتا پھرتا ہے کہ امام مہدی آگیا ہے۔آپ نے کہا کہ اس بے چارے کو کیوں مارتے ہو،اگر مارنا ہے تو اُسے جاکر مارو جس نے دعویٰ کیا ہے۔
پھر حضرت شاہ صاحب اُس شخص کو قریبی ہوٹل پر لائے اور لسّی پیش کی۔ پھر پوچھا کہ یہ امام مہدی والا کیا قصہ ہے۔ وہ شخص احمدی تھا۔ اُس نے حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے بارے میں آپ کو بتایا۔ آپ تو پہلے سے ہی اس نورکی تلاش میں سر گرداں تھے۔چنانچہ واپس آکر اپنے چند مریدوں کو بغرض تحقیق قادیان بھجوادیا جو فتح پور ضلع گجرات سے پاپیادہ قادیان گئے۔ انہوںنے واپس آکر اپنی سمجھ کے مطابق حالات و واقعات بیان کئے تو کچھ عرصہ بعد شاہ صاحب نے خود قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف پایا اور 313 خوش نصیب صحابہ میں شامل ہوگئے۔ قادیان سے واپس آکر آپؓ نے اپنے احمدی ہونے کا اعلان کیا تو مولویوں کی شدید مخالفت سے خائف ہوکر اکثر پیروکاروں نے آپؓ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ تاہم جن چند دوستوں نے احمدیت قبول کرلی اُن میں حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ بھی شامل تھے۔
1903ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ کے گاؤں سے چالیس میل کے فاصلہ پر واقع شہر جہلم تشریف لائے تو آپؓ نے دستی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ احمدیت سے برگشتہ کرنے کے لئے آپؓ کو پہلے سمجھایا گیا اور پھر ہر قسم کی سختی روا رکھی گئی تاہم آپؓ ثابت قدم رہے۔ آپؓ اپنی جماعت میں امام الصلوٰۃ رہے اور عرصہ دراز تک سیکرٹری مال کے طور پر بھی خدمت کی سعادت حاصل کی۔
ایک دفعہ آپؓ کی زمینوں پر ایک مخالف نے اپنے جانور چھوڑ دیئے۔ آپؓ کے پوچھنے پر وہ مخالف کہنے لگا کہ مرزائی کافر ہیں اور اُن کی فصلیں تباہ کرنا کارثواب ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر تمہارے دین کی یہی تعلیم ہے تو پھر میں تمہیں اس سے منع نہیں کروں گا۔ یہ کہہ کر آپؓ چلے گئے تو اُس شخص نے نادم ہوکر نہ صرف اپنے مویشی آپؓ کے کھیتوں سے نکال لئے اور آپؓ سے معافی مانگی بلکہ عمربھر آپؓ کا احترام بھی کیا۔ نیز اُس کے سب بچوں نے حضر ت میاں صاحبؓ سے ہی دینی تعلیم حاصل کی۔
حضرت میاں صاحبؓ کی پہلی بیٹی چند ماہ کی عمر میں وفات پاگئی تو احمدی احباب نے بچی کو مقامی قبرستان میں دفنادیا لیکن رات کو مخالفین نے قبر اکھاڑ کر نعش کو قبر سے باہر پھینک دیا۔ احباب جماعت اکٹھے ہوئے اور دوبارہ تدفین کردی مگر اس مکر وہ فعل کو دہرایا گیا۔اس پر قریبی پولیس سٹیشن میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ وہاں سے ایک سکھ پولیس آفیسر نے موقع پر آکر حالات کا جائزہ لیا اور شرپسندوں کو سخت سزا دینے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد احمدیوں نے تیسری بار اس بچی کو سپر دخاک کیا۔
حضرت میاں عبدالکریم صاحبؓ نہایت متّقی اور تہجدگزار تھے۔ غیراحمدی بھی آپؓ کا بہت احترام کرتے اور ایمانداری، تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں آپؓ کی مثال دیا کرتے تھے۔ آپؓ کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ جب اپنے جانور باہر لے جاتے تو اُن کے منہ باندھ لیتے تاکہ راہ چلتے وہ کسی کی فصل پر منہ نہ ماریں۔
حضرت سید محمود احمد شاہ صاحبؓ کی زندگی میں اُن کے ہاں روایتی طور پر تعلیم القرآن کا فیض جاری تھا۔ اُن کی وفات کے بعد یہ سلسلہ حضرت میاں صاحبؓ کے ہاں منتقل ہو گیا اور آپؓ کی وفات کے بعد آپؓ کی بہو (راقم الحروف کی والدہ) محترمہ عنایت بیگم صاحبہ کی نگرانی میں یہ سلسلہ جاری رہا۔ قریباً ایک صدی میں ہزاروں بچوں نے بلاتفریق مذہب و عقائد قرآن پاک اور بنیادی دینی تعلیم اسی درسگاہ میں حاصل کی۔
انکا ؔ۔ جنوبی امریکہ کا ایک قدیم قبیلہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21 جون 2012ء میں جنوبی امریکہ کے قدیم قبیلے انکاؔ (Inca) کا تعارف اور طرز بودباش سے متعلق معلومات پیش کی گئی ہیں۔
بحرالکاہل کے کنارے پر آباد یہ جنوبی امریکہ کا ایک قدیم قبیلہ ہے جس کے لوگ 11ویں صدی عیسوی میںجنوب مشرق کی طرف سے پیرو (Peru) میں داخل ہوئے۔ یہ سورج کی پرستش کیا کرتے اور اپنے مُردوں کی لاشوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے کوئی خاص مصالحہ لگا کر دفن کرتے تھے۔ فن تحریر سے وہ لوگ قطعی ناآشنا تھے لیکن فن تعمیر، برتن سازی اور کپڑے بننے میں اچھی مہارت رکھتے تھے۔ ان کے فن تعمیر کے نمونے آج بھی پیرو میں کھنڈرات کی شکل میں موجود ہیں۔
1200ء میں ان جنگجو ؤں نے جنوبی پیرو میں ایک طاقتور بادشاہت کی بنیاد رکھی۔ 1438ء میں انکاؔ سلطنت وجود میں آئی ۔ ابتدائی دَور میں پیرو ،بولیویا اور ایکویڈور اسی سلطنت کے حصے تھے۔ 16ویں صدی کے آغاز پر انکاؔ سلطنت مشرقی بحر الکاہل سے پیراگوئے اور دریائے ایمیزون تک پھیل گئی ۔ بعدازاں یہ ایکویڈور کے جدید کیوٹو کے علاقہ سے چلّی کے دریا مالے تک وسعت اختیار کر گئی ۔ یہ وسیع و عریض سلطنت ایک مذہبی حکومت تھی ۔ یہ لوگ فن معماری، انجینئرنگ اور کپڑا سازی میں ماہر تھے اور اپنے شہنشاہ کو خد اکی طرح مقدّس مانتے تھے۔
انکاؔ سلطنت کے پاس سونے و چاندی کے بڑے وسیع ذخائر تھے۔ اس دولت کے لالچ نے یورپی قوموں کو اپنی طرف کھینچا ۔ چنانچہ 1527ء میںہسپانوی مُہم جُو فرانسسکو پیزا رو اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ پیرو کے شمالی ساحل پر انکاؔ کے شہر Tumbesپر لنگر انداز ہوا۔ 15نومبر 1532ء کو پیرو میں واقع انکاؔ کا بادشاہ ’’آتاہوا لپا‘‘ اپنے چار ہزار غیر مسلح ساتھیوں کے ساتھ پیزاروؔ سے ملنے آیا۔ ان غیرمسلح امریکن انڈینوں کو اُس مکار یورپی نے پہلے عیسائیت کی دعوت دی۔ جب آتا ہوا لپانے عیسائیت کو ردّ کر کے انجیل کو زمین پر پھینکا تو پیزا رو کے حکم پر نہتے امریکیوں کو قتل کرکے اُن کے شہنشاہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعدازاں انکاؔ بادشاہ سے اُس کی رہائی کے بدلے کثیر سونا حاصل کر کے بھی اُسے رہا نہ کیا گیا بلکہ عیسائیت قبول کرنے کے باوجود اُسے قتل کر دیا گیا۔
فرانسسکو پیزارو 180آدمیوں کے ساتھ دوبارہ پیرو آیا۔ اس دفعہ اُس کے ساتھ ہسپانوی فوجوں کا ایک دستہ بھی تھا۔ اس فوج کی مدد سے پیز ارو نے انکاؔ سلطنت پر حملہ کرکے اُن کے شہنشاہ ’’اٹانالپا ‘‘ کو قتل کردیا اور اُس کے سونے کے ذخیرہ پر قبضہ کرلیا۔ 1533ء میں اُس نے پیرو کے بیشتر علاقے بآسانی فتح کر لئے جن میںانکاؔ دارالحکومت Cuscoبھی شامل تھا۔ 1535ء میں پیزا رو نے دریائے رماک کے کنارے ایک شہر کی بنیاد رکھی جسے ’’بادشاہوں کا شہر ‘‘کا نام دیا گیا۔ یہی شہر بعد میں لیما (Lima) کہلایا جو جنوبی امریکہ میںہسپانوی حکومت کامرکز بنا۔