2017ء میں پاکستان میں احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی
ظالمانہ کارروائیوں کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار اور کوائف
مکرم چوہدری سلیم الدین صاحب ناظر امور عامہ پاکستان نے سال2017ءکے دوران احمدیوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر مبنی سالانہ رپورٹ پریس کوجاری کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سا ل احمدیوں کے خلاف جاری نفرت و تعصب کی لہر میں نمایاں اضافہ ہوا۔ جماعت احمدیہ پرمظالم اور ایذا رسانی کا طویل عرصے سے جاری سلسلہ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے۔ آپ نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل2017ءکے معاملے پر حکومت اور اپوزیشن نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لئے احمدیوں کے خلاف نفرت و تعصب کو ہوادی ۔ ختم نبوت کے حلف نامے میں لفظ حلف کی جگہ اقرار کی تبدیلی کو جواز بنا کر احمدیوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی کی گرد اڑائی گئی ۔
سال2015ءکے دوران متحدہ علماء بورڈ کی سفارش پر حکومت پنجاب نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر اور تما م جرائد کو ممنوع قرار دے دیا تھا جبکہ ایسی کوئی نشاندہی حکومت نہیں کر سکی کہ اس میں کونسا مواد شر انگیز ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں نفرت انگیز مواد کی موجودگی بعید از قیاس ہےکیونکہ جماعت احمدیہ کا تو ماٹو ہی ــ ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں ‘‘ ہے۔اس وقت عملی طور پر یہ صورتحال ہے کہ احمدیوں کے لئے بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تحریر فرمودہ کتب تک رسائی ناممکن بنا دی گئی ہے جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 20کی واضح خلاف ورزی ہے۔1913ءسے جاری جماعت احمدیہ کے ترجمان اخبار روزنامہ الفضل کی اب اشاعت بند ہے۔ جماعت احمدیہ کا کوئی جریدہ شائع نہیں ہو رہا جبکہ جماعت احمدیہ کے تمام جرائد پر واضح طور پر تحریر کیا جاتا ہے کہ یہ صرف احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہیں ۔
مکرم ناظر صاحب امور عامہ نے اردوذرائع ابلاغ کے حوالے سے بتایا کہ گزشتہ سال جماعت احمدیہ کے خلاف بے بنیاد اور شر انگیز پراپیگنڈہ پر مبنی 3936خبریں اور 532مضامین شائع کئے گئے۔جبکہ ذرائع ابلاغ کا فرض ہے کہ وہ کسی گروہ کے خلاف نفرت نہ پھیلائیں اور اگر کسی کے بارے میں کوئی خبر یا مضمون شائع ہونا ہو تو متاثرہ فریق کا موقف شائع کرنا بھی صحافتی ضابطہ اخلاق کا حصہ ہے۔تاہم کسی اخبار نے بھی احمدیوں کے موقف کو جگہ نہیں دی۔
آپ نے کہاکہ احمدیوں کے حوالے سے کی گئی امتیازی قانون سازی کو آڑ بنا کرحکومت نے انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔1984ءکے امتیازی قوانین بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہیں اور آئین پاکستان نیز قائداعظمؒکے تصور پاکستان کی روح کے منافی ہیں۔آپ نے بتایا 1984ء کے بد نام زمانہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کے جاری ہونے کے بعد سے اب تک احمدیوں کو سیاسی،سماجی اور قانونی طور پر منفی رنگ میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے جو ایک معاشرے کے افراد کے یکساں اور مساوی بنیادی حق کی نفی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان ا متیازی قوانین کے جاری ہونے کے بعد سے 31 دسمبر 2017ء تک264 احمدی محض دوسروں سے عقیدہ کے اختلاف کی بنا پرشہید کئے جا چکے ہیں۔ جبکہ 379احمدیوں پر قاتلانہ حملے کئے گئے۔ 27 مساجد کومسمارکیا گیا جبکہ 33کو انتظامیہ نے سر بمہر کر دیا ۔17 مساجد پرمخالفین نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا۔39 افراد کی تدفین کے بعد قبر کھود ڈالی گئی اور 66 احمدیوںکی مشترکہ قبرستان میں تدفین نہیں ہونے دی گئی۔
آپ نے کہا کہ ملک میں عموماً اور پنجاب اور سندھ میں خصوصاًایسا شر انگیز لٹریچر کھلے عام شائع کر کے تقسیم کیا جارہا ہے جس میں احمدیوں کے سماجی و معاشی بائیکاٹ سے لے کر قتل تک کی ترغیب دی جارہی ہے جس کے نتیجے میں متعدد ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ سرکاری انتظامیہ کی اس ضمن میں معنی خیز خاموشی کا حکومتی سرپرستی کے سوا اور کیا مطلب لیا جاسکتا ہے؟
آپ نے بتایا کہ سال 2017ءکے دوران بھی ربوہ میں،جہاں 95%احمدی آباد ہیں احمدیوں کو کسی قسم کے اپنے مذہبی اجتماع یا جلسہ کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہاں تک کہ احمدیوں کو کھیلوں کے پروگرام کھلے عام منعقد کرنے کی آزادی نہیں۔جب کہ معاندین احمدیت کو کھلے عام اجازت ہے کہ وہ ربوہ سے باہر کے افراد کو ربوہ میںجمع کر کے جب چاہیں،ہاں چاہیں،جلسہ کریں اور ربوہ میں جلوس نکالیں۔ چنانچہ احمدی مخالف تنظیموں نے ربوہ میں آکر جلسے کئے اور ان میں احمدیوں کے خلاف کذب اور افتراء پر مبنی شر انگیز تقاریر کی گئیں اور اشتعال پیدا کیا۔ ایسے عناصر کے خلاف حکومت کی طرف سے کسی قسم کی قانونی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
مکرم چوہدری سلیم الدین صاحب نے تعلیمی میدان میں احمدیوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا ذکر کرتے ہوئےکہا کہ70ءکی دہائی میں حکومت وقت نے تعلیمی ادارے قومیالئے تھے جن میں جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارے بھی شامل تھے۔ ڈی نیشنلائزیشن کی پالیسی کے نفاذکے بعد جماعت نے سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق خطیر رقم سرکاری خزانے میں اپنے تعلیمی اداروں کی واپسی کے لئے جمع کرائی۔مگرحکومت نے آج تک جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارے واپس نہیں کئے جبکہ اسی پالیسی کے تحت متعدد تعلیمی ادارے ان کے اصل مالکان کو واپس ہو چکے ہیں۔
آپ نے کہا کہ پاکستان میں احمدیوں کے خلاف مذہبی انتہا پسند عناصر اور حکومت کے اتحاد سے مذہبی تعصب اور عناد کی بنا پر نفرت و حقارت پھیلانے اور اشتعال انگیزی کی مذموم مہم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔جس کے نتیجہ میں احمدیوں کی جان،مال اور عزت اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں رہی۔ احمدی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیئے گئے ہیں اور مخالف ببانگ دہل نعرہ زن ہیں کہ اپنا عقیدہ چھوڑو یا ملک چھوڑ دو۔یہاں تمہاری زندگی کا قافیہ تنگ کر دیں گے۔تم کینسر ہو ،باغی ہو اور تم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے ،اور اس ایجنڈا پر بڑی مستعدی سے پیشرفت جاری ہے۔
گزشتہ سال2017ءبھی اس سیلاب بلا میں تندی اور تیزی کا ثابت ہوا اور سال 2018ءکوسرکاری سطح پر ایک مہم جوئی کے لئے ختم نبوت کا سال قرار دیا گیا۔
[پاکستان میں جماعت کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں دن بدن شدّت آ رہی ہے۔ سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس پہلو سے احباب جماعت کو بار ہا خصوصی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔احباب سے درخواست ہے کہ رمضان المبارک کی خصوصی دعاؤں میں پاکستان اور دیگر ممالک میں مظلوم احمدیوں کے لئے خاص طور پر درد اور الحاح کے ساتھ دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں جماعت کی حفاظت فرمائے۔ شریروں کے شر انہیں پر الٹادے اور انہیں اپنی کڑی گرفت میں لے کر جماعت احمدیہ کے حق میں اپنی قدرت کے زبر دست نشان ظاہر فرمائے ۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔اَللَّھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان فرمائے کہ احمدی پاکستان میں اور دنیا کے ہر ملک میں آزادی کے ساتھ اور امن و عافیت کے ساتھ اپنے تمام دینی و دنیاوی حقوق و فرائض کی انجام دہی کی توفیق پائیں۔ آمین۔(مدیر)]