حضرت حکیم مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کاحضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ابتدائی تعارف اور وار فتگی
صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں میں سے وہ اوّل نمبر پر ہے
٭…’’وہ میرے رب کی آیت میں سے ایک آیت ہے‘‘
٭…’’مجھ کو اس کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی کہ گویا جدا شدہ عضومل گیا‘‘
٭…’’اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے‘‘
یہ بابرکت الفاظ جو سیدنا حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی قلم مبارک سے نکلے ان کا مصداق وہ بابرکت وجود ہے جو برصغیر کی تاریخ میں حکیم الامت حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نورالدین کےنام سے خوب متعارف ہے۔ آپ کی سعادت اور خوش بختی ہے کہ آپ کے بارے میں حضرت امام الزمان مہدی دوراں علیہ السلام کی زبان اور قلم سے وہ کلمات جاری ہوئے جو واقعی بے مثل اور انتہائی قابل رشک ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اعزاز اور سعادت بھی عطا فرمائی کہ آپ کو مسیح الزمان کے خلیفہ اول کے طور پر چھ سال تک جماعت احمدیہ عالمگیر کی قیادت اور راہنمائی کی توفیق ملی۔ ذٰلک فضل ا للّٰہ یؤتیہ من یشاء
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کا ابتدائی تعارف اور تعلق کیسے پیدا ہوا
یہ ایک ایمان افروز داستان ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب اللہ تعالیٰ نے احیائے اسلام کے لیے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو چن لیا اور آپ کو خواب میں ایک خوبصورت باغ دکھایا گیا کہ تو اس باغ کا مالی ہے۔ یہ وہ دور تھا جس میں آپ نے خدمت اسلام پر کمربستہ ہوتے ہوئے اسلام کے دفاع میں اپنی معرکہ آراءکتاب براہین احمدیہ شائع فرمائی جس نے دردمندان اسلام کے دل میں ایک نئی زندگی پیدا کردی کہ اب اس کی حفاظت اور دفاع کرنے والا وجود سامنے آگیا ہے۔ ایک طرف خدا تعالیٰ نے اس محیی کو پیدا کیا اور دوسری طرف سعید فطرت لوگوں کے دلوں میں اس محافظ اسلام کی محبت پیدا کرنی شروع کردی اور وہ جو ابھی اس مبارک وجود کے ظہور سے بےخبر تھے ان کے دلوں میں تجسس اور تلاش کی لو لگادی گئی۔ وہ ہر طرف تلاش کرنے لگے کہ وہ موعود وجود جس کے ہاتھ پر اسلام کا غلبہ دورِ آخرین میں مقدر ہے….کون ہے اور کہا ں ہے؟
سچائی کی فطرت رکھنے والے ان محبان اسلام میں ایک مبارک وجود حضرت مولانا حکیم نورالدین ؓ کا تھا۔ جو اس بات کی سچی تڑپ رکھتے تھے او ر اس کے لیے دعا گو تھے کہ خداتعالیٰ انہیں ایسا شخص دکھا دے جو دین اسلام کی تجدید کرنے اور اسلام کی طرف سے دشمنوں کے حملوں کا دفاع کرنے والا ہو۔ آپؓ فرماتے ہیں:’’مجھے نہایت طلب اور جستجو تھی اور میں صادقوں کی ندا کا منتظر تھا۔ اسی اثناء میں مجھے حضرت السید الاجل اور بہت ہی بڑے علامہ اس صدی کے مجدد مہدی الزماں مسیح دوران اور مؤلف براہین احمدیہ کی طرف سے خوشخبری ملی۔ میں ان کے پاس پہنچا تا حقیقت حال کا مشاہدہ کروں۔ میں نے فوراً بھانپ لیا کہ یہی موعود حکم و عدل ہے اوریہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تجدید دین کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ میں نے فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور لبیک کہا اور اس عظیم الشان احسان پر اس کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ میں گِر گیا۔ اے ارحم الراحمین خدا! تیری حمد، تیرا شکر اور تیرا احسان ہے۔ پھر میں نے مہدی الزمان کی محبت کو اختیار کرلیا اور آپ کی بیعت صدق دل سے کی یہانتک کہ مجھے آپ کی مہربانی اور لطف و کرم نے ڈھانپ لیا اور میں دل کی گہرائیوں سے ان سے محبت کرنے لگا۔ میں نے انہیں اپنی جائیداد اور اپنے سارے اموال پر ترجیح دی بلکہ اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور والدین اور اپنے سب عزیز و اقارب پر انہیں مقدم جانا۔ ان کے علم و عرفان نے میرے دل کو والہ و شیدا بنا لیا۔ اس خدا کا شکر ہے جس نے میرے لئے ان کی ملاقات مقدر فرمائی اور یہ میری خوش بختی ہے کہ میں نے انہیں باقی سب لوگوں پر ترجیح دی اور میں ان کی خدمت کے لئے اس جاں نثار کی طرح کمر بستہ ہوگیا جو کسی میدان میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ پس اس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھ پر احسان فرمایا اور وہ بہتر احسان کرنے والا ہے۔‘‘(حیاتِ نور صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲)
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہوکر آپ نے کیا پایا؟ اس کا مختصر ذکر آپ کے ایک عربی قصیدہ میں ملتا ہے جس کے دو شعروں کا ترجمہ ہے:
’’بخدا جب سے میں نے حضرت اقدسؑ سے ملاقات کی ہے آپؓ کے فیض کی برکت سے میں نے رشد و ہدایت میں بہت ترقی حاصل کی ہے اور اِس احمد (یعنی مسیح موعود) کو پہچان کر مجھے اُس احمدؐ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان کا پتہ لگا اور قرآن شریف کے کئی مشکل مقامات تھے جو مجھ پر واضح نہ تھے لیکن آپ نے مجھ پر اُن کو روشن کردیا اور اس وجہ سے میں روحانی طور پر بیدار ہوگیا۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس زندگی بخش اور انقلاب آفریں رابطہ کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے جب پہلی مرتبہ۱۸۸۴ءمیں مخالفین اسلام کے لیےنشان نمائی کی دعوت پر اشتہار عام شائع فرمایا تو خدائی نصرت سے ایک اشتہار حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کو بھی ریاست جموں و کشمیر کے وزیر ا عظم کے ذریعہ سے مل گیا۔اس اشتہار نے عملاً آپ کی زندگی میں انقلاب پیدا کردیا۔ اس کی پرلطف اور ایمان افروز تفصیل حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے اپنے الفاظ میں پیش کرتا ہوں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں: ’’فوراً اس اشتہار کے مطابق…..تحقیق کے واسطے قادیان کی طرف چل پڑا۔ اور روانگی سے پہلے اور دوران سفر میں اور پھر قادیان کے قریب پہنچ کر قادیان کو دیکھتے ہی نہایت اضطراب اور کپکپا دینے والے دل سے دعائیں کیں۔ جب قادیان پہنچا تو جہاں میرا یکہ ٹھہرا وہاں ایک بڑا محراب داردروازہ نظر آیا۔ جس کے اندر چار پائی پر ایک بڑا ذی و جاہت آدمی بیٹھا نظرآیا۔میں نے یکہ بان سے پوچھا کہ مرزا صاحب کا مکان کونسا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے اس رشائل مشبہ داڑھی والے کی طرف جو اس چار پائی پر بیٹھا تھا، اشارہ کیا کہ یہی مرزا صاحب ہیں۔مگر خدا کی شان! اس کی شکل دیکھتے ہی میرے دل میں ایسا انقباض پیدا ہوا کہ میں نے یکے والے سے کہا کہ ذرا ٹھہرو میں بھی تمہارے ساتھ ہی جاؤں گا اوروہاں میں نے تھوڑی دیر کے واسطے بھی ٹھہرنا گوارہ نہ کیا۔اس شخص کی شکل ہی میرے لئے ایسی صدمہ دہ تھی کہ جس کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں۔ آخر طوعاً و کرہاً اس (مرزا امام الدین) کے پاس پہنچا۔میرا دل ایسا منقبض اور اس کی شکل سے متنفر تھا کہ میں نے السلام علیکم تک بھی نہ کہا کیونکہ میرا دل برداشت ہی نہیں کرتا تھا۔ الگ ایک خالی چار پائی پڑی تھی۔ اس پر میں بیٹھ گیا اور دل میں ایسا اضطراب اور تکلیف تھی کہ جس کے بیان کرنے میں وہم ہوتا ہے کہ لوگ مبالغہ نہ سمجھیں۔ بہر حال میں وہاں بیٹھ گیا۔ دل میں سخت متحیر تھا کہ میں یہاں آیا کیوں ؟
ایسے اضطراب اور تشویش کی حالت میں اس مرزا نے خود ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں۔میں نے نہایت روکھے الفاظ اور کبیدہ دل سے کہا کہ پہاڑ کی طرف سے آیا ہوں۔ تب اس نے جواب میں کہا کہ آپ کا نام نور الدین ہے؟ اور آپ جموں سے آئے ہیں؟ اور غالباً آپ مرزا صاحب سے ملنے آئے ہوں گے؟بس یہی لفظ تھا جس نےمیرے دل کو کسی قدر ٹھنڈا کیا اور مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص جو مجھے بتا یا گیا ہے مرزا صاحب نہیں ہے۔میرے دل نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ میں اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں اگر آپ مجھے مرزا صاحب کے مکانات کا پتہ دیں تو بہت ہی اچھا ہوگا۔ اس پر اس نے ایک آدمی مرزا صاحب کی خدمت میں بھیجا اور مجھے بتایا کہ ان کا مکان اس مکان سے باہر ہے۔ اتنے میں حضرت اقدس نے اس آدمی کے ہاتھ لکھ بھیجا کہ نماز عصر کے وقت ملاقات کریں۔ یہ بات معلوم کر کے میں معاً اُٹھ کھڑا ہوا۔‘‘
’’چنانچہ آپ اس وقت سیڑھیوں سے اُترے۔ تو میں نے دیکھتے ہی کہا کہ یہی مرزا ہے اور اس پر میں سارا ہی قربان ہو جاؤں۔‘‘
’’حضرت اقدس تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میں ہوا خوری کے واسطے جاتا ہوں کیا آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ چنانچہ آپ دور تک میرے ساتھ چلے گئے اور مجھے یہ بھی فرمایا کہ امید ہے کہ آپ جلد واپس آجاویں گے۔حالانکہ میں ملازم تھا اور بیعت وغیرہ کا سلسلہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ میں پھر آگیا اور ایسا آیا کہ یہیں کا ہورہا۔‘‘(حیاتِ نور صفحہ ۱۱۵تا ۱۱۶)
روایت میں آتا ہے کہ حضرت مولانا نور الدین صاحب نے اپنی اس پہلی ملاقات میں ہی حضرت اقدس مسیح پاک علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیاکہ حضور میری بیعت قبول فرمائیں۔ حضرت اقدس نے جواباً فرمایا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت اور حکم نہ ہو میں اس بارےمیں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اس پر حضرت مولانا کی پاک اور نورانی فطرت وفورِ محبت سے بول اٹھی اور آپ نے بصد ادب عرض کیا کہ پھر حضور یہ منظور فرمالیں کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا حکم آیا تو سب سے پہلے اس عاجز کو بیعت کرنے کا شرف عطا فرمائیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا ٹھیک ہے انشاءاللہ وقت آنے پر آپ کو ہی سب سے پہلے بیعت کرنے کا موقع دیا جائے گا۔
وقت آنے پر حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے اپنے اس وعدہ کو خوب یاد رکھا اور حاجی الحرمین مولانا حکیم نور الدین ؓ کو یہ تاریخی شرف نصیب ہوا کہ آپ نے دورِ آخرین میں حضرت امام مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر سب سے پہلے بیعت کر کے اول المبائعین کا تاریخ سازاعزازپایا۔
الغرض اس پہلی ملا قات کے بعد حضرت مولانا واپس جموں چلے گئے۔ خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ دلوں کا ربط دمبدم بڑھتا چلا گیا۔ باہم ایسے گہرے تعلقات پیدا ہوئے کہ حضرت اقدس کے خاص معتمدین میں شامل ہوگئے اور ہر اہم معاملہ کی آپ کو اطلاع دی جاتی اور مشورہ بھی لیا جاتا۔ دوسری طرف حضرت مولانا نے اپنے آپ کو حضرت اقدسؑ کے قدموں میں ڈال دیا اور جانی و مالی و لسانی خدمات میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ حضرت اقدس نے باقی افراد جماعت کے لیے ان کو ایک مثال کے طور پیش کرتے ہوئے اس دلی خواہش کا اظہار فرمایا کہ کاش جماعت کا ہر فرد اس نور الدین کے رنگ میں رنگین ہو جائے۔ آپؑ نے فرمایا:؎
چہ خوش بودے اگر ہر یک زِ امت نورِدیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نورِ یقیں بودے
حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہونے پر حضرت مولانا کی قلبی کیفیت اور خوشی کا کسی قدر ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس جگہ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جب حضرت مسیح الزمان علیہ السلام کو نور الدین جیسا گوہر آبدار ملا تو آپؑ کے قلب اطہر کے جذبات کا کیا عالم تھا۔ آپؑ نے فرمایا:’’جب سے میں اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے مامور کیا گیا ہوں اور حیّ و قیوم کی طرف سے زندہ کیا گیا ہوں دین کے چیدہ مددگاروں کی طرف شوق کرتا ہوں اور وہ شوق اس شوق سے بڑھ کر ہے جو ایک پیاسے کو پانی کی طرف ہوتا ہے اور میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور میں چلا تا تھا اور کہتا تھا کہ اے میرے رب ! میرا کون ناصر و مددگار ہے۔ میں تنہا اور ذلیل ہوں۔ پس جبکہ دعا کا ہاتھ پے در پے اُٹھا اور آسمان کی فضا میری دعا سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو قبول کیا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا جو میرے مددگاروں کی آنکھ ہے اور میرے ان مخلص دوستوں کا خلاصہ ہے جو دین کے بارے میں میرے دوست ہیں۔ اس کا نا م اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے۔وہ جائے ولادت کے لحاظ سے بھیروی اور نسب کے لحاظ سے قریشی ہاشمی ہے جو کہ اسلام کے سرداروں میں سے اور شریف والدین کی اولاد میں سے ہے۔ پس مجھ کو اس سے ایسی خوشی ہوئی گویا کوئی جد اشدہ عضومل گیا اور ایسا سرور ہو ا جس طرح کہ حضرت نبی کریم ﷺ حضرت فاروقؓ کے ملنے سے خوش ہوئے تھے۔
اور جب وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے ملا اور میری نظر اس پر پڑی تو میں نے اس کو دیکھا کہ وہ میرے رب کی آیات میں سے ایک آیت ہے۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ میری دعا کا نتیجہ ہے جس پر میں مداومت کرتا تھا اور میری فراست نے مجھے بتا دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے۔‘‘(ترجمہ از آئینہ کمالات اسلام طبع اوَّل صفحہ ۵۸۱۔۵۸۲)
پھر فرماتے ہیں:’’میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجے کا صدیق جو راستباز اور جلیل القدر فاضل ہے اور باریک بین اور نکتہ رس، اللہ تعالیٰ کے لئے مجاہدہ کرنے والا اور کمال اخلاص سے اس کے لئے ایسی اعلیٰ درجے کی محبت رکھنے والا ہے کہ کوئی محبّ اس سے سبقت نہیں لے گیا‘‘(ترجمہ از حمامۃ البشریٰ صفحہ ۱۶)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولانا نور الدین رضی اللہ عنہ کے مناقب اور خدمات کے بارےمیں اپنی متفرق کتب میں جو کلمات تحریر فرمائے ہیں ان کو پڑھ کر دل رشک کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے۔ مختصر مضمون میں ان سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا تا ہم حضرت مولانا کی اپنے آقا و مطاع حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ محبت اور وارفتگی سے متعلق چند امور کا ذکر کرتا ہوں۔
٭… حضرت مولانا صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت، محبت، فدائیت اور وارفتگی میں عدیم النظیر مقام رکھتے تھے۔مسیح پاکؑ کے ایک اشارہ پر اپنا شہر، اپنا وطن، کاروبار اور تمام املاک چھوڑ کر قادیان میں آبسے اور پھر کبھی بھی اپنے وطن کا خیال تک دل میں نہ آنے دیا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے: اگر کوئی شخص ہزار روپیہ روزانہ بھی مجھے دے تو پھر بھی میں حضرت صاحب کی صحبت چھوڑ کر قادیان سے با ہر جانے کے لیے تیار نہیں۔
٭…حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی مبارک عادت تھی کہ آپ کمال ادب اور احترام سے حضرت اقدسؑ کی مجلس میں آتے اور خاموشی سے اکتساب فیض فرماتے۔ حضرت مولوی صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے جو کچھ پایا ہے جو کچھ سیکھا ہے اپنے پیارے مطاع و امام سے سیکھا اور پایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’لوگ اکسیر اور سنگ پارس تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ میرے لئے تو حضرت مرزا صاحب پارس تھے۔ میں نے ان کو چھوا تو بادشاہ بن گیا۔‘‘نیز ایک موقع پر فرمایا:’’میں نے آپ کی صحبت میں یہ فائدہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑگئی …یہ سب مرزا صاحب کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا۔‘‘
٭ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ہرارشاد بلکہ اشارہ اور خواہش کی فی الفور تعمیل آپ کا نمایاں وصف تھا۔ آپؑ نے حضرت مولانا کے بارےمیں فرمایا ہے: ’’وہ ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘
٭…آپ کی والہانہ اطاعت اور وارفتگی کی مثال فی الفور دہلی کے سفر پر روانہ ہوجانا ہے۔
۲۳؍ اکتوبر ۱۹۰۵ءکو حضرت اقدس علیہ السلام ام المومنین رضی اللہ عنہا کو آپ کے خویش و اقارب سے ملانے کے لیےدہلی تشریف لے گئے۔ ابھی دہلی پہنچے چند دن ہی ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ بیمار ہوگئے۔ اس پر حضور کو خیال آیا کہ اگر مولوی نورالدین صاحب کو بھی دہلی بلا لیا جائے تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحب کو تار دلوادیا۔ جس میں تار لکھنے والے نے امیجی ایٹ(immediate) یعنی بلاتوقف کے الفاظ لکھ دیے۔ جب یہ تار قادیان پہنچا تو حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس خیال سے کہ حکم کی تعمیل میں دیر نہ ہو۔ اسی حالت میں فوراً چل پڑے۔ نہ گھر گئے نہ لباس بدلا نہ بستر لیا۔ اور لطف یہ کہ ریل کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ گھروالوں کو پتہ چلا تو انہوں نے ایک آدمی کے ہاتھ کمبل تو بھجوادیا مگر خرچ بھجوانے کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور ممکن ہے گھر میں اتنا روپیہ ہوبھی نہ۔ آپ جب بٹالہ پہنچے تو ایک متمول ہندورئیس نے جو گویا آپ کی انتظار ہی کر رہا تھا، عرض کی کہ میری بیوی بیمار ہے۔ مہربانی فرما کر اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیجئے۔ فرمایا میں نے اس گاڑی پر دہلی جانا ہے۔ اس رئیس نے کہا۔ میں اپنی بیوی کو یہاں ہی لے آتا ہوں۔ چنانچہ وہ لے آیا۔ آپ نے اسے دیکھ کر نسخہ لکھ دیا۔وہ ہندو چپکے سے دہلی کا ٹکٹ خرید لایا۔اور معقول رقم بطور نذرانہ بھی پیش کی۔ اور اس طرح سے آپ دہلی فوراً پہنچ کر حضرت اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔
٭…آپ کی غیر معمولی بے لوث ارادت اور وارفتگی کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جا سکتا ہے:
’’۱۹۰۱ یا ۱۹۰۲ءکی بات ہے کہ ایک دن نواب صاحب کے اہلکار حضرت مولوی صاحب کے پاس آئے جن میں ایک مسلمان اور ایک سکھ تھا اور عرض کیا کہ نواب صاحب کے علاقہ میں لاٹ صاحب آنے والے ہیں۔ آپ ان لوگوں کے تعلقات کو جانتے ہیں۔ اس لئے نواب صاحب کا منشا ہے کہ آپ ان کے ہمراہ وہاں تشریف لے جائیں۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا میں اپنی جان کا مالک نہیں۔ میرا ایک آقا ہے۔ پھر ظہر کے وقت وہ اہلکار مسجد میں بیٹھ گئے۔جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تو انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ حضور نے فرمایا۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ہم مولوی صاحب کو آگ میں کو دنے یا پانی میں چھلانک لگانے کے لئےکہیں تو وہ انکار نہیں کریں گے لیکن مولوی صاحب کے وجود سے ہزاروں لوگوں کو فیض پہنچتا ہے۔ قرآن و حدیث کا درس دیتے ہیں۔اس کے علاوہ سینکڑوں بیماروں کا ہر روز علاج کرتے ہیں۔ ایک دنیاداری کے کام کے لئےہم اتنا فیض بند نہیں کرسکتے۔ اس دن جب عصر کے بعد درس قرآن مجید دینے لگے تو خوشی کی وجہ سے الفاظ منہ سے نہ نکلتے تھے۔فرمایا۔مجھے آج اس قدر خوشی ہے کہ بولنا محال ہے اور وہ یہ کہ میں ہر وقت اس کوشش میں لگا رہتا ہوں کہ میرا آقا مجھ سے خوش ہوجائے۔ آج میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام ہے کہ میرے آقا نے میری نسبت اس قسم کا خیال ظاہر کیا کہ اگر ہم نور الدین کو آگ میں جلائیں یا پانی میں ڈبودیں تو پھر بھی وہ انکار نہیں کرےگا۔‘‘(حیاتِ نور صفحہ ۱۸۶۔۱۸۷)
٭…حضرت ڈاکٹر میر محمداسماعیل صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے زمانہ کے جس قدر آدمی ہیں۔ سب کو حضور علیہ السلام سے اپنے اپنے طریق پر محبت تھی مگر جس قدر ادب و محبت حضور خلیفہ اول ؓ کو تھی۔ اس کی نظیر تلاش کرنی مشکل ہے۔ چنانچہ ایک دن میں حضرت مولوی صاحب کے پاس بیٹھا تھا۔وہاں ذکر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی دوست کو اپنی لڑکی کا رشتہ کسی احمدی دوست سے کرد ینے کے لئے کہا مگر وہ دوست راضی نہ ہوا۔اتفاقاً اس وقت مرحومہ امۃ الحی صاحبہ جو اس وقت بہت چھوٹی تھیں کھیلتی ہوئی سامنے آگئیں۔ حضرت مولوی صاحب اس دوست کا ذکر سن کر جوش سے فرمانے لگے، مجھے تو مرزا کہے کہ اپنی لڑکی نہالی کے لڑکے کو دے دو۔ تو میں بغیر کسی انقباض کے فوراً دے دوں گا۔ یہ کلمہ سخت عشق و محبت کا تھا۔ مگر نتیجہ دیکھ لو کہ بالآخر وہی لڑکی حضور علیہ السلام کی بہو بنی اور اس شخص کی زوجیت میں آئی جو خود حضرت مسیح موعود ؑکا حسن واحسان میں نظیر تھا۔‘‘(حیاتِ نور صفحہ ۱۸۷۔۱۸۸)
یہ چند نمونے، سینکڑوں مثالوں میں سے منتخب کر کے اس جگہ درج کیے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ کو ایسا صدق ووفا عطا فرمایا تھا جو اپنے عہد میں یقیناً بے مثال اور سب پر فائق تھا۔ خود حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے:’’ صدق و صفا اور اخلاص اور محبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں میں سے وہ اوّل نمبر پر ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ مسیح پاک علیہ السلام کےاس عاشقِ صادق کو آخرت میں بھی آپؑ کے قدموں میں جگہ نصیب ہو اور آپؓ کے جذبۂ صدق و وفا اور اطاعت وارفتگی کے یہ شاندار نمونے ہمیشہ عشّاق اسلام کے ایمانوں کو تازگی عطا کرتے رہیں۔ آمین
٭…٭…٭