اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
اگست اور ستمبر2021ء میں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
پنجاب میں پرائمری کلاسز میں ختم نبوت کے موضوع پروقتاًفوقتاً درس دیا جائے گا
گذشتہ قسط میں چیف ایگزیکٹو آفیسرڈسٹرکٹ سیالکوٹ کا ایک خط درج کیا گیا تھا جس میں پرائمری کلاسز میں ختم نبوت کے موضوع پر خاص زور دینے کی ہدایات درج تھیں۔اس خط کے حوالے سے مزید معلومات نیز اس کے مندرجات کا کچھ تجزیہ پیش ہے۔
٭…اس سے قبل پنجاب حکومت نے قرآن پاک کے مطالعہ کو ’’The Holy Quran Compulsory Study Act 2018‘‘ کے تحت علیحدہ مضمون کے طور پر لازمی قرار دیا تھا۔ اس مضمون کے لیے ہفتے میں تین سے چار پیریڈ مختص کیے جانے تھے اور تمام پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں اور مدارس کو اس ہدایت پر عمل کرکے اس کے مطابق انتظامات کرنے تھے۔اس کے علاوہ، ختم نبوت کا مضمون صرف میٹرک اور انٹرمیڈیٹ میں پڑھایا جاتا تھا، لیکن اب اسے پہلی جماعت سے نصاب کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔یہ حکم بظاہر صوبائی دارالحکومت لاہور کی ہدایات پر جاری کیا گیا تھا۔سب سے پہلے یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ عربی زبان صرف ایک مسلمان استاد پڑھائے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی، یہودی اور دیگر غیر مسلم بھی کیا یہ زبان نہیں بولتے۔ عرب میں اسلام کے آنے سے بہت پہلے یہ زبان موجود تھی۔ لہٰذا یہ حکم فرقہ وارانہ، نامناسب، غیر منصفانہ اور بے بنیاد ہے۔
٭…عربی زبان کے پیریڈ میں ختم نبوت کے عقیدہ کی تعلیم دینے کا کیا تعلق ہے؟ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اس کے سیکھنے میں کسی مذہبی عقیدے سے کوئی وابستگی نہیں ہونی چاہیے۔
٭…ہزاروں احادیث کے مجموعے میں سے صرف ایک حدیث ہی کیوں سکول میں آویزاں کی جائے؟ ختم نبوت کے مسئلہ پر متعدد احادیث پائی جاتی ہیں جو اس مسئلہ پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالتی ہیں۔کیوں نہ ان میں سے چنداحادیث کو آویزاں کیا جائے۔ مثال کے طور پر صحیح مسلم کی وہ حدیث جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ آنے والے مسیح کو چار بار نبی اللہ کہا۔
٭…کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں تقریباً سات سو شرعی احکامات ہیں اور احادیث میں اس سے بھی زیادہ ہوںگے۔ پھر حکام کو اسلامیات اور عربی کے 12 سال سے زائد عرصے میں طلباء کو بار بار پڑھانے کے لیے صرف ختم نبوت کا موضوع ہی کیوں مناسب لگتا ہے؟ پس ختم نبوت پر محض اسلامی تعلیمات دینے کے علاوہ کوئی نہ کوئی اور مقصد ضرور ہوگا اور اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
٭…اس ملک میں 97فیصدآبادی مسلمان ہے، اس خاص مسئلے پر اتنا وقت اور زور دینے کا کیا مقصد ہے؟ احمدی بھی ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں۔ فرق محض معنوی اور لطیف تشریح میں ہے۔ ظاہر ہے کہ حکام کا اپنا (سیاسی) ایجنڈا ہے، اور وہ نفرت انگیز مہم کے ذریعے کچھ ذاتی فائدے حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ فرقہ وارانہ اور انتہا پسند عناصر کے ذریعے بھڑکایاجا سکے۔اس بات کا کافی تجربہ ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں ختم نبوت کے مسئلے کے لیے مختص کیے گئے پیریڈز احمدی برادری کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے پر صرف کیے جاتے ہیں، جب کہ کسی احمدی کو اس معاملے پر احمدیوں کے عقیدے کی وضاحت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ الغرض پرائمری سکولوں کے نصاب میں ختم نبوت کا عنوان شامل کر کے نوجوان طلباء کو احمدیت اور اس کے بانی کے بارے میں غلط اور بے بنیاد معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔اس سے اسکولوں میں احمدی طلبہ کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہوتا ہے جو ان کے مسائل میں بہت اضافہ کرتاہے۔
احمدیوں کو مسجد میں عبادت سے روکا گیا
جوہر ٹاؤن، لاہور22؍اگست 2021ء: اس محلے میں احمدیوں کی مسجدکے خلاف گذشتہ چار سالوں سے احمدی مخالف سرگرمیاں چل رہی ہیں۔کارکنوں نے پولیس، ضلعی انتظامیہ، ہائی کورٹ سے رجوع کیا تاکہ احمدیوں کو یہاں عبادت کرنے سے روکا جائے۔اس مسئلے کو چند ملاؤں اور متعصبوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔اب مولوی احسان الحق نے پولیس کو خط لکھا ہے کہ یہاں عبادت ہوتی ہے جبکہ سابق ایس ایچ او نے طے کیا تھا کہ یہاںکے مکین ہی وہاں عبادت کریں گے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ احمدی نوجوان اس جگہ پر بندوقیں دکھاتے ہیں اور اونچی آوازیں لگاتے ہیں، 22؍اگست 2021ء کو پولیس اور سپیشل برانچ کے اہلکار چیک کرنے کے لیے نماز سنٹر میں آئے۔ جب گارڈ نے دروازہ کھولا تو ایس ایچ او نے احمدی صدر جماعت کو فوراً رپورٹ کرنے کو کہا۔ اس دوران سپیشل برانچ کے ایک اہلکار نے جوہر ٹاؤن میں جماعت احمدیہ کے مقامی صدر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے نماز سینٹر کا دورہ کیا اور اہلکار نے فون پر ایس ایچ او کو اطلاع دی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض امر نہیں ہے۔ بعد ازاں احمدیوں کے ایک وفد نے ایس ایچ او سے ملاقات کی جس میں ایس ایچ او نے کہا کہ سابق ایس ایچ او کے اس فیصلے پر عمل کیا جائے کہ صرف وہاں کے مکین ہی عبادت کریں گے کیونکہ کسی بھی تبدیلی کی صورت میں مخالفین ان کے خلاف ہو جائیں گے لہٰذاباہر سے کوئی بھی وہاں آکر عبادت نہ کرے۔
احمدی طالب علم کو یونیورسٹی میں دشمنی کا سامنا
کوئٹہ: اگست 2021ء: ایک احمدی طالبہ BUITEMS یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔ وہاں ان کے احمدیہ عقیدے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ ان کے ایک کزن حافظ ابراہیم نے جو یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتےہیں یونیورسٹی میں ان کے احمدیہ عقیدے کے بارے میں بات پھیلانی شروع کی۔ ابراہیم کے جماعت اسلامی اور ختم نبوت کی مختلف تنظیموں سے قریبی روابط ہیں۔ اس کے بعد جب وہ یونیورسٹی گئیں تو ان کی ساتھی طالبات نے انہیں راستے میں روکا اور ان کے کزن کی ان کے متعلق پھیلائی ہوئی باتوں کے حوالے سےان سے ان کے عقیدے کے بارے میں پوچھااور انہیں کلمہ پڑھنے کو کہا گیا جس پر انہوں نے کلمہ سنادیا۔پھر انہوں نے ان کا CNIC نمبر نوٹ کیا جس کے بعد ہی اسلامیات کے vivaکے لیے جانے دیا۔ اس واقعے کے بعد حالات معمول پر آگئے ہیں لیکن موصوفہ اپنے عقیدے کی بنا پردوبارہ نشانہ بنائے جانے کے خوف میں ہیں۔
احمدیہ مسجد خطرے میں
پیر کوٹ، ضلع حافظ آباد؛ اگست 2021ء: کچھ عرصے سے احمدیوں کے مخالفین میناروں اورمحراب کے مسائل پر پنجاب کے اضلاع حافظ آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ننکانہ صاحب، شیخوپورہ، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں پولیس کے ذریعے وسیع پیمانے پر احمدی مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ 24؍اگست کو ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPO) کے دفتر کے ایک اہلکار نے پیر کوٹ میں مقامی احمدیہ مسجد کا دورہ کیا، فوٹو کھنچوائے، اور احمدیوں سے کہا کہ وہ مسجد میں کلمہ نہیں لکھ سکتے۔ مقامی جماعت کے صدر نے انہیں بتایا کہ یہ تحریر بہت پہلے لکھی گئی تھی۔ ڈی ایس پی نے 26؍اگست کو احمدیہ جماعت کے مقامی نمائندوں کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ وہ اپنی مسجد سے کلمہ مٹا دیں۔ احمدیوں نے اسے بتایا کہ گاؤں میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کوئی اور راہ نکالنے کے لیے دو دن کا وقت مانگا۔
کوئٹہ میں احمدیوں کو ہراساں کیا گیا
کوئٹہ، اگست 2021ء: محمد طارق کو ایک طویل عرصے سے شبانِ ختم نبوت گروپ کی طرف سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔ اس سے قبل اسی گروہ نے ان کے بھائی کو کوئٹہ سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ اب وہ طارق کے خلاف سرگرم ہیں۔ وہ ان کے کاروبارکی جگہ پر آئے اور انہیں احمدیہ مخالف لٹریچر دے کر احمدیت سے کنارہ کشی اختیار کرنے کا کہا۔ عرفان برق اور سید انیس احمد (منظور چنیوٹی کے طالب علم) جیسے احمدی مخالف ملّا بھی طارق سے ملے اور انہیں ہراساں کیا۔انہوں نے طارق کے محلے کی مسجد کا دورہ کیا اور مکینوں کو ان کے خلاف مشتعل کیا۔ نتیجۃً انہیں علاقے میں بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ مخالفین ان کے مالک مکان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ طارق کو مکان سے نکال دیں۔ اب وہ ایسے گھر کی تلاش کر رہےہیں جہاں وہ شفٹ ہو سکیں۔ایک مقامی مخبر نے طارق کو بتایا کہ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے اس کی وجہ سے وہ تناؤ اور بے سکونی کا شکار ہیں۔
احمدیہ سینٹر کو نشانہ بنایا گیا
کمباسر، ضلع تھرپارکر؛ اگست 2021ء: پٹیل کھیتومل کو علاقے کےجماعت احمدیہ کے سینٹر کے نگران کے طور پر رکھا گیا تھا کیونکہ زمین ان سے خریدی گئی تھی۔اسی علاقے کے دو احمدی اساتذہ کے خلاف ایک پرانے مقدمے کے مدعی ملوک دل نے پولیس کو درخواست دی کہ احمدیہ سینٹرکا نگران اسے اپنی زمین میں کاشت کے لیے داخل ہونے نہیں دے رہا۔ احمدیوں کی تحقیق کرنے پر یہ شکایت جھوٹی نکلی۔تنازعہ بنیادی طور پر پانی کے بارے میں تھااور شکایت کنندہ کی شکایت کی وجہ اس کی اس سینٹر سے تعلق رکھنے والے دو اساتذہ کے خلاف ناکام شکایت تھی۔پس یہ شکایت بے بنیاد ہے کیونکہ واضح ہے کہ درخواست گزار احمدیہ مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے ۔
توہین رسالت قانون کے تحت مقدمہ درج
بہاولپور، 24؍ستمبر2021ء: ایک ستر سالہ احمدی اصغر علی کلر کے خلاف توہین رسالت قانون PPC 295-C کے تحت ایف آئی آر نمبر 651کے ساتھ مقدمہ درج کیا گیا۔ 24؍ستمبر 2021ء کو تھانہ بغداد الجدید میں جامعہ سعیدیہ ماڈل ٹاؤن بہاولپور کے سربراہ حافظ جاوید مصطفیٰ کی شکایت پر انہیں گرفتار کر کے بہاولپور جیل بھیج دیا گیا۔ اصغر علی کلر احمدی ہیں اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ نہیں جانتے کہ ان کا موبائل آئی ڈی کیسے استعمال ہوا۔ ان کا موبائل فون فرانزک ٹیسٹ کے لیے پولیس کے پاس ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمدی مخالف عناصر اپنے مذہبی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دھوکا دہی، جھوٹ اور فریب میں ملوث ہونے سے بھی باز نہیں آتے۔
من گھڑت پولیس مقدمہ درج
بدوملہی،ضلع نارووال۔6؍ستمبر2021ء:جماعت اسلامی یوتھ ونگ بدوملہی نے بدوملہی بازار میں دو پینافلیکس لگائے جن پر لکھا تھا ’’قادیانی دنیا کے بدترین کافر ہیں‘‘۔مقامی احمدی عہدیدارنے پولیس کو اس کی اطلاع دی۔7؍ستمبر 2021ءکو کچھ نامعلوم افراد نے اس گروپ کے ایک غیر احمدی ذوالقرنین پر حملہ کیا۔ مخالفین نے اس حملے کا الزام ایک احمدی نوجوان رضی اللہ پر لگایا اور پولیس میں دفعہ(337A(i) 337F(iiiاور34کے تحت ان کے اور تین دیگر افرادکے خلاف ایف آئی آر درج کروائی حالانکہ زخمی نوجوان بازار میں ادھر ادھر گھومتا ہوا پایا گیا۔
پنجاب پولیس نے 40قبروں کے کتبوں کو شہیداور احمدیہ مسجد سے مقدس تحریرات کو مٹا دیا
تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ۔9؍ستمبر 2021ء: مخالفین کی طرف سے احمدیہ مسجد کےداخلی دروازے پر لکھی گئی دعاؤں کے خلاف ایک رپورٹ پر پولیس نے اس مسجد پر چھاپا مارا اور ایک احمدی مشتاق احمد کو اپنے ساتھ تھانے لے گئی۔ مخالفین کی طرف سے ریکارڈ کی گئی دعا کی ایک ویڈیو انہیں وہاں دکھائی گئی نیز انہیں کہا گیا کہ وہ احمدیوں کی قبروں کے کتبوں پر موجود تحریرات کو بھی ہٹا دیں۔ مشتاق احمد نے مشورے کے لیے کچھ وقت مانگا۔ چنانچہ موصوف نے اس واقعہ کی اطلاع جماعت احمدیہ کی انتظامیہ کودی جنہوں نے پولیس کو مطلع کیا کہ احمدی دعاؤں کو نہیں ہٹائیں گے اور نہ ہی کسی شہری کو ایسا کرنے کی اجازت دیں گےلیکن پولیس اسے ہٹا دیتی ہے تو احمدی مزاحمت نہیں کریں گے۔ بعد ازاں شام تقریباً ساڑھے9بجے پولیس کی دو گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں اور دعاؤں کو مرکزی دروازے سے ہٹا دیا۔ پھر وہ قبرستان گئے،جہاں انہوں نے احمدیوں کی 40 قبروں کے کتبے شہید کیے اور ملبہ اپنے ساتھ لے گئے۔ گو یہ ایک ناقابل یقین بات معلوم ہوتی ہے تاہم یہ بالکل سچ ہے۔
(مرتبہ: ’اے آر ملک‘)
٭…٭…٭