اے کاش کہ جلدی لوٹ آئیں وہ دن وہ نظارے ربوہ میں
’’جلسہ سالانہ‘‘ کے حوالے سےدل میں محفوظ اپنی کچھ یادیں خاکسارقلم کی نوک پرلاکرکاغذ کے سینہ پر رقم کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے۔
’’جلسہ سالانہ‘‘ کا پاکیزہ تصور
جماعت احمدیہ میں ’’جلسہ سالانہ‘‘کاتصورنہایت پاکیزہ اوربے شمارخوشیوں کاباعث ہے۔ ان ایام کے آتے ہی دلوں میں ایک ارتعاش اورقلب وجگرمیں ایک جوش پیدا ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت اور روحانی برکتوں اورترقیات سے مالا مال یہ وہ عظیم الشان جلسہ ہے جس کی بنیاد حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے 27؍دسمبر 1891ء کو اپنے مقدس ہاتھوں سے رکھی۔مسجداقصیٰ قادیان میں ہونے والےاس تاریخی اور پہلے جلسہ میں 75مخلصین نے شرکت کی۔
آپ علیہ السلام نے جلسہ سالانہ کی اہمیت وفضائل اوراغراض ومقاصد بڑی تفصیل سےبیان فرمائے، جن کا لب لباب یہ ہے کہ یہ للّٰہی جلسہ خالص دینی اغراض کے لیےہے جس کے ذریعہ جماعت کے اندر خوف خدا، محبتِ الٰہی،عشقِ رسولﷺ وعشق قرآن، زہدوتقویٰ، نرم دلی، انکساری، راستبازی پیدا کرنا،نیز آپس میں میل ملاقات اور باہمی اخوت و ہمدردی، دینی مہمات میں سرگرمی،احباب جماعت کی تعلیم و تربیت اورغیروں میں تبلیغ کاایک نہایت مفیدذریعہ ہے۔
بچپن میں جلسے کی خوشیاں اوردلنشین ودلربانظارے
مجھے بچپن سے اپنے والدین اورعزیزواقا رب کے ہمراہ ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کا شوق تھااورجب سے ہوش سنبھالاہے ہمارے گھر میں ہمیشہ اس کاانتظاررہتاتھا اورجب بھی دسمبرکامہینہ آتاتوجلسے پرجانے کے لیے سب سے پہلے اباجان نامزدگی کرتے کہ اس سال گھربارکی نگرانی کون کرے گااورکون کون جلسے میں شرکت کے لیے ربوہ جائے گا۔اکثراوقات گھر میں صرف ایک یا دو افراد رہ جاتے اورباقی سب افراد جلسے میں شامل ہوتے۔ جس کا نام گھربارکی نگرانی کے لیے نامزدہوتا وہ افسردہ ہوکرغمگین صورت اختیارکرلیتاجبکہ جلسے پرجانے والوں کے چہروں پررونق آجاتی اوروہ پُرمسرت وجودبن کرخوشیوں سے پھولے نہ سماتےاوراپنے دوستوں کوفوراً خوشخبری سناتےکہ امسال جلسہ سالانہ پرجانے کے لیے میری باری ہے۔ ان دنوں ہرفردکی زبان پر اورہرگھرمیں یہی تذکرہ ہوتااوراباجان سےمنظوری ملنے کے ساتھ ہی جلسے کی تیاری شروع ہوجاتی۔
اکثراوقات تودسمبرکے آخری عشرے میں ’’بڑے دنوں‘‘ کی چھٹیاں ہوتیں لیکن اگرکہیں کسی بچے کوچھٹی نہ ہوتی تووہ بچے اپنے والدین کو ساتھ لے کر سکول سے چھٹی کاانتظام کرتے۔جلسہ سالانہ کاتصورصرف احمدیوں میں ہی نہ تھا بلکہ غیراحمدی بھی بڑے شوق سے ان دنوں کا انتظارکرتے اوراپنے واقف کاراحمدیوں کوکہتے رہتے کہ اپنے جلسے پرہمیں بھی ساتھ لے جانا۔
جلسے پرجانے سے پہلے اپنے بستر، گرم کپڑے، جوتے اوردیگرسامان سفرکاباربارجائزہ لیتے کہ کوئی چیزرہ نہ جائے۔ اسی طرح امی جان تِلوں اورالسی وغیرہ کی پِنیاں بناکربیگ میں رکھ دیتیں کہ جلسے کے لیے لے کرجانی ہیں۔چنانچہ احمدی اورغیراحمدی، عورتیں اورمرد، چھوٹے اوربڑے سب اپنے بستراوردیگرسامان اٹھائے خراماںخراماں بسوں پرسوارہوجاتے۔جوش وخروش اور خوشی کایہ سماں آج بھی آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہاہے۔
جلسے سےایک یادودن پہلے ہمارے گاؤں سے بسوں کاقافلہ دعاکے ساتھ روانہ ہوتا۔راستے میں دیگردیہات اور شہروں سے بسوں اورکاروں پریہ قافلے مزیدبڑھتے جاتے اورچنیوٹ کاپل کراس کرتے وقت تک توربوہ جانے والی بسوں کی لائنیں لگی ہوتیں۔راستوں میں بسوں اورویگنوں پرجلسہ سالانہ ربوہ کے بڑے بڑے بینرزلگے ہوتے اوردرودیواربھی جلسے کے اشتہارات سے مزین ہوتے تھے۔ جونہی یہ قافلے ربوہ کی حدودمیں داخل ہوتے تویہاں کے برّ وبحرفلک شگاف نعروں سے گونج اٹھتے۔ربوہ اڈہ پرپہنچتے تواستقبالیہ گیٹ پرموجود ڈیوٹی دینے والے افراد اَھلاً وَّ سَھْلاً وَّ مَرْحَبَا کہہ کر معززمہمانوں کوخوش آمدیدکہتے اورخدام مہمانوں کاسامان بسوں سے اتارکرتانگوں وغیرہ پرلادتے اور انتظامیہ انہیں ان کی مقررہ رہائش گاہوں پرپہنچاتی۔چنانچہ مہمان اپنی رہائش گاہ پہنچ کرسامان اتارتے۔بعض لوگ اپنے عزیزواقارب اوردوستوں کے ہاں قیام کرتے اورکچھ لوگ جماعتی انتظام کے تحت لگائے گئے خیمہ جات اوردیگررہائش گاہوں میں۔ اکثرجگہوں پرنیچے پرالی بچھائی ہوتی جس کے اوپربسترڈال کرسونے کاانتظام ہوتاتھا۔ربوہ کی گلیاں، بازاراوردرودیوار ’’غریب دلہن‘‘کی طرح سجائے ہوتے۔ جگہ جگہ خوبصورت گیٹ، بینرزلگے ہوتے تھے جن پرآیات قرآنیہ، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت مسیح موعودعلیہ السلام اورخلفاء کے ارشادات لکھے ہوتے۔
جلسہ گاہ کی مارکی کے چاروں طرف شہتیروں کے ساتھ سیڑھیوں کی طرز پرعارضی سٹیپ بنائے ہوتے جہاں لوگ بیٹھ کرجلسہ سنتے اورسارے مناظردیکھتے تھے۔
جلسے کے دوران مقررین کی آوازکوتمام افرادتک پہنچانے کے لیے بانسوں کے اوپرجگہ جگہ سپیکرلگے ہوتے اوربعض لوگ تقریروں اورنظموں وغیرہ کوریکارڈ کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر اورکیسٹس لے کرآئے ہوتے تھے۔
جلسے کے دوران چلغوزے، مونگ پھلی، ریوڑیاں اورپنیاں وغیرہ کھاکرخوب محظوظ ہوتےاورروحانی غذا کے ساتھ جسمانی غذاسے بھی فیضیاب ہوتے۔
ویسے توسلسلے کے علماء کی تقاریراورنظم پڑھنے والوں کی آوازیں اورمنظوم کلام دلوں کومسحورکرتاتھالیکن جب خلیفۃالمسیح کے خطاب کاوقت آتاتوہرفردبشرہمہ تن گوش ہوکران پُرمعارف کلمات کوسنتااورسردھنتا اور سردی ہو یابارش، یہ دیوانے ہلنے کانام نہ لیتے۔ اس وقت نعرہ ہائے تکبیرسے فضاگونجتی اورکانوں میں رس گھولنے لگتی۔حضرت خلیفۃ المسیح کی قیادت میں نمازوں کالطف دوبالاہوجاتااوریوں محسوس ہوتاگویا یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا کی عملی تصویردل میں جاگزیں ہوجاتی۔
’’جلسہ سالانہ‘‘ مکانات میں برکت کاحصول
ربوہ کے جلسے میں آنے والے مہمانوں کے لیے لوگ اپنے مکانات پیش کرتے اوران کی خوب آؤ بھگت کرتے۔ ہماری رہائش دارالصدرغربی قمرمیں اپنی پھوپھی جان کے گھرہوتی جومہمانوں سے کھچاکھچ بھراہوتاتھا۔تمام کمرے بیڈروم میں تبدیل ہوجاتے یہاں تک کہ سٹوراوربعض دفعہ کچن بھی بیڈروم بن جاتا جہاں پرالی ڈال کراس پراپنے بستربچھائے جاتے۔پھوپھی جان کہاکرتیں کہ جلسے پرمہمانوں کی وجہ سے ہمارے گھربارمیں بہت برکت پڑتی ہے۔
جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے قادیان دارالانوارمیں مکان بنایاتوبعض دوستوں نے کہاکہ یہ مکان جلسے کے مہمانوں کونہ دیاجائے، وہ خراب ہوجائےگا۔اس پرحضورنے فرمایاکہ میں تواس مکان کوآگ لگانے کے لئےتیار ہوں جس مکان کے متعلق میرے دل میں یہ خیال پیداہوکہ اگرمیں نے اسے خدمت دین کے لئے دیاتووہ خراب ہوجائے گا۔ چنانچہ حضورنے فرمایاکہ سب سے پہلے اس مکان کوجلسہ سالانہ کے لئے استعمال کروتاکہ ان کے ٹھہرنے کی وجہ سے اس میں برکت پیداہوجائے۔ (ماخوذ از خطبات محمودجلد 18صفحہ 622)
جلسہ سالانہ پرخلیفۃ المسیح کی قبولیت دعا کاایک نشان
جلسہ سالانہ 1981ء میں خاکساراپنے والدمحترم اور ایک تایازادبھائی مکرم حمیداللہ صاحب کے ہمراہ جلسے میں شامل تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہماری ملاقات کی باری تھی۔ہم مسجدمبارک سے گزر کر قصرخلافت تک ہم لائنوں میں کھڑے تھے۔سردی کی وجہ سے لکڑی کے کوئلوں کی انگیٹھیاں راستے میں جگہ جگہ رکھی ہوئی تھیں جن پرہاتھ سینک کرہم آگے بڑھ رہے تھے۔ والدصاحب کوشوق تھاکہ میراکوئی بیٹامربی بنے۔اس غرض کے لیے انہوں نے میرے بڑے بھائی کوتیارکیالیکن بعض وجوہات کی بنا پروہ پڑھائی مکمل نہ کر سکاتووالدصاحب نے مجھے کہاکہ اگرآپ حضور سے ملاقات کے وقت دعاکی درخواست کروگے کہ اللہ مجھے مربی بنائے تومیں تمہیں پتیسہ کھلاؤں گا۔(مجھے پتیسہ بہت اچھا لگتاتھا) چنانچہ ہم لائن میں لگ کرجب اس جگہ پہنچے جہاں حضورتشریف فرماتھے تومیں نے دیکھاکہ وہاں ایک کونے میں روپوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جوملاقات کرنے والوں کی طرف سے حضورکی خدمت اقدس میں بطور نذرانہ پیش کیے جاتے تھے۔ہم نے بھی حسب استطاعت حضورکی خدمت میں عاجزانہ تحفہ پیش کیا اورمیں نے مصافحہ کی سعادت حاصل کی اور پیارے حضورسے درخواست کی کہ میرے لیے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مربی بنائے۔ اس پرحضورنے دعادی اور ساتھ ہی آپ نے مجھے اپنے ساتھ چمٹالیا۔ میں نے بھی اس موقع کو غنیمت جان کر حضورکے مبارک وجودسے چمٹ کر برکات حاصل کیں۔ (ملاقات کے بعدوالدصاحب نے مجھے ایک کلوپتیسہ لے کردیا )
بہرحال جلسہ سالانہ کے مبارک موقع پرخلیفۃ المسیح کی دعاکے نتیجے میں نامساعدحالات کے باوجود مجھے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ ملا اور1989ء میں اپنے خاندان میں پہلا مربی بن کرمیدان عمل میں آنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس واقعہ پر سالہاسال گزرنے کے باوجودابھی تک اس کی یادیں دل میں تازہ ہیں۔
جلسہ پر ایک پرانی خواب کاپوراہونا
مربی بننے کے بعدمیری پہلی تقرری احمدآبادجنوبی ضلع خوشاب میں ہوئی۔ایک دن میں قریبی جماعت کھائی کلاں کے دورے پر تھا تورات کوخواب میں دیکھاکہ حضرت خلیفۃ المسیح ایک وفد کے ساتھ مسجد کی طرف جارہے ہیں۔میں بھی اس وفدکے ہمراہ مسجدکی طرف جاتاہوں۔راستے میں حضورکسی کام کے لیے رک جاتے ہیں اورمجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ جاکراذان دیں میں ابھی آتاہوں۔چنانچہ میں خواب میں ہی مسجدمیںجاکراذان دیتاہوں اورتھوڑی دیربعدحضورتشریف لے آتے ہیں۔
میری اس خواب پر لمباعرصہ گذرگیا۔ بعض بزرگوں سے اس خواب کی تعبیرپوچھی توانہوں نے بتایاکہ اس میں یہ پیغام ہے کہ آپ تبلیغ اورتربیت کے کام کریں۔ کیونکہ اذان کے پہلے حصہ میں ایمان کے اعلان اورتبلیغ کاذکرہے اوردوسرے حصہ میں نمازاورتربیت کاذکرہے۔ چنانچہ میں اپنی استطاعت کے مطابق یہ دونوں کام کرنے کی کوشش کرتارہا۔
2005ء میں مجھے مسیح پاک کی مقدس بستی قادیان جانے کاشرف حاصل ہوا۔اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی تشریف لائے تھے۔ ایک دن میں مغرب کی اذان سے پہلے مسجدمبارک میں تیسری صف میں بیٹھاتھاکہ وہاں کی انتظامیہ کے ایک دوست کچھ بے چین نظروں سے کسی کوڈھونڈرہے تھے۔آخرجب انہیں مطلوبہ شخص نہ ملاتوکہنے لگے کہ آپ میں سے کوئی اذان دے سکتاہے ؟اس پرمیں نے ہاتھ کھڑاکردیا۔ انہوں نے مجھے بلاکرکہاکہ کیا آپ نے کبھی اذان دی ہے۔میں نے کہاپاکستان میں اذان بندہے لیکن مجھے آتی ضرورہے۔ اس پرکہنے لگے دیکھ لینا، حضورانورنے سننی ہے۔میں نے کہاآپ فکرنہ کریں،اللہ فضل فرمائے گا۔ چنانچہ ان کے کہنے پرمیں نے قادیان کی مسجدمبارک میں مغرب کی اذان دینے کی سعادت حاصل کی۔ اذان کے دوران مسجدمبارک جیسے مقدس مقام اورخلیفۃ المسیح جیسے امام کاخیال آتاتوآوازمیں ایک رقت پیداہوجاتی تھی۔ بہرحال اذان دینے کے بعدمیں تیسری صف میں اپنی جگہ بیٹھنے کے لیےجانے لگاتوانہوں نے کہاکہ آپ حضورانورکے پیچھے پہلی صف میں بیٹھیں، آپ نےاقامت بھی کہنی ہے۔ چنانچہ جب حضورانورتشریف لائے توان کے ساتھ سلسلے کے بزرگان تھے۔میں نے پہلے نمازمغرب کے لیےاقامت کہی اورپھرعشاء کی نمازکے لیے۔نمازوں کے بعد بہت سے بزرگان اوردوستوں نے مجھے مبارک باددی اورجلسے میں شمولیت کی برکت سے میری سولہ سال پہلے کی خواب ظاہری رنگ میں بھی پوری ہوگئی۔ اس پرمیں اللہ تعالیٰ کاجتنابھی شکراداکروں کم ہے۔فالحمدللہ علیٰ ذالک
’’جلسہ سالانہ‘‘صداقتِ احمدیت کا ایک عظیم نشان
’’جلسہ سالانہ‘‘جماعتِ احمدیہ کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے جوکہ ایک چھوٹے سے جلسہ سے شروع ہو کر اب دنیا کے بہت سارے ممالک میں پھیل چکاہے۔ یہی وہ جلسہ ہے جوملک وحدودکی قیودسے نکل کرہندوپاک کے علاوہ تمام براعظموں تک وسعت اختیارکرچکاہے۔ برطانیہ، جرمنی، امریکہ، افریقہ وغیرہ دنیاکے مختلف ممالک اورمختلف اقوام کے ہزارہا احمدی اورغیراحمدی ان جلسوں میںشامل ہورہے ہیں جوایک امام کے تابع ان جلسوں کی برکات سے فیضیاب ہوتے ہیں۔یہ جلسہ ہائے سالانہ درحقیقت ان پیشگوئیوں کے پوراہونے کا عظیم نشان ہے جس کے متعلق بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں۔ یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمۂ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں طیارکی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات اَنہونی نہیں۔عنقریب وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ اس مذہب میں نہ نیچریت کا نشان رہے گا اور نہ نیچر کے تفریط پسند اور اَوہام پرست مخالفوں کا، نہ خوارق کے انکار کرنے والے باقی رہیں گے اور نہ ان میں بیہودہ اور بے اصل اور مخالفِ قرآن روایتوں کو ملانے والے، اور خدا تعالیٰ اس اُمتِ وَسط کے لئے بَین بَین کی راہ زمین پر قائم کر دے گا… جس کے کان سننے کے ہوں سنے۔ مبارک وہ لوگ جن پر سیدھی راہ کھولی جائے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ 341تا 342)ہم نے وہ دن بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں جب مسجداقصیٰ ربوہ میں ہونے والے 1983ء کے جلسہ سالانہ میں پونےتین لاکھ سے زیادہ نفوس جمع تھے۔اوراگراس وقت ساری دنیامیں شامل ہونے والے جلسوں میں شاملین کی تعدادکو جمع کیاجائے تویہ تعدادہزاروں سے نکل کراب لاکھوں سے بھی تجاوزکرچکی ہے۔
ربوہ کی بستی منتظر ہے!
قیام پاکستان سے لے کر1983ء تک ربوہ کی سر زمین اوراس کے بے آب وگیاہ میدان، دریااورپہاڑ ان مبارک اورعظیم جلسوں کی یادیں لیےہوئے ہیں اوران جلسوں میں خلفائےمسیح موعودسے بالمشافہ دیدکی لذت اور ایمان افروز خطابات اور بزرگان سلسلہ کی پرمعارف تقریریں دلوں میں جاگزیں ہیں۔وہ نظارہ کتنا شاندار ہو گا کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح ربوہ کی پیاسی سر زمین پر بنفس نفیس رونق افروز ہوں گے اور علم و عرفان کے جام ایک بار پھرلنڈھائے جائیں گے۔چشم تصور میں ان دنوں کے خیال سے ربوہ کی بستی کا دل جہاں فرحت اور انبساط کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے وہاں قطراتِ محبت سے اس بستی کی آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں اور یہ بستی اپنے سارے دل اور ساری جان کے ساتھ بزبان حال یہ پکار اٹھتی ہے کہ
عرفان کی بارش ہوتی تھی جب روز ہمارے ربوہ میں
اے کاش کہ جلدی لوٹ آئیں وہ دن وہ نظارے ربوہ میں
خداکرے کہ وہ وقت جلد لوٹ آئے جب ربوہ میں جلسہ سالانہ کی رونقیں دوبارہ بحال ہوں اورہمیں ایک دفعہ پھر وہ یادگاردن اورحسین نظارے میسرہوں جوقلوب واذہان کومعطرکرنے والے اورایمان وایقان کوترقی دینے والے ہیں۔آمین