نمائش مسجد ’’فتح عظیم‘‘ کی سیر
زمانہ گردش شب و روز کا نام ہےلیکن ان میں بعض ایام ایسے آتے ہیں جن کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جاسکتی بلکہ مدتیں گزرنے کے بعد بھی ان کا وہی اثر ہوتا ہے جیسا کہ وقوع پذیر ہونےپر ظہور میں آیا ہوتاہے۔ کیا ہم حِرا کی غار میں خدا کے رسولؐ کی عبادت بھول سکتے ہیں یا فتح مکہ کے نظارے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوسکتے ہیں؟نہیں نہیں ۔ کیا ہم حجة الوداع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تاریخی خطبہ ،جو اپنی مثال آپ ہے اور رہے گا ،کبھی نظر انداز کر سکتے ہیں؟ یہ ایام ماضی کا سرمایہ نہیں بلکہ حال میں بھی بھولے بھٹکوں کو راہ راست پر لاسکتے ہیں۔ ان کے اَن مٹ نقوش اس ماضی کو حال بنا دیتے ہیں اور ان کا ذکر حال کو مستقبل بنانےمیں ممد و معاون ہوتا ہے۔
ان ہی ایام میں چند تواریخ کل عالم کے لیے بشیر و نذیر کا حکم رکھتی ہیں۔ 23؍مارچ 1889ء کا وہ حسین دن تھا جب چالیس افراد نے دیوانہ وارحضرت مسیح موعودؑ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کا عہد کیا اور دنیائے اسلام میں ایک نئی توانائی نظر آئی اور اللہ تعالیٰ کا فرمودہ جملہ وعدوں کے پورا ہونے کا وقت نزدیک تر دکھائی دینے لگا۔ ابھی اس تقریب کو صرف گیارہ برس گزرے تھے کہ قادیان سے گیارہ ہزار کلومیٹر مغرب میں ایک بدقسمت معاند اسلام نے صیحون شہر کی بنیاد رکھی اور یکم جنوری 1900ء کو اس شہر کا نقشہ ہزاروں لوگوں کے سامنے بے نقاب کیا اور یہ نعرہ لگایا کہ اس صیحون شہر میں جو مسیح کی آماجگاہ ہے کوئی مسلمان نہ آسکے گا بلکہ میں دعا کرتا ہوں کہ عالم اسلام کا خاتمہ ہوجائے اور خدا کے رسول پر بھی بدزبانی کے ساتھ بددعائیں دیں۔ اور دو سال میں یہ شہر Zionمعرض وجود میں آیا۔ اس بدقسمت کو یہ علم نہ تھا کہ اس نے کس جری اللہ سے مڈبھیڑ کی ہے۔ ہرگز ہرگز اس خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنام مرزا غلام احمد کو یہ گوارا نہ تھا کہ کوئی شخص خدا کے رسولؐ کی اہانت کرے اور اسے کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے۔
اس عیسائی پادری کا نام جان الیگزینڈر ڈوئی تھا۔ جس نے اہانت اسلام کا بیڑا اٹھایا اور اپنے ہفتہ وار شمارے Leaves Of Healing میں اسلام اور بانیٔ اسلامﷺ پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے مگر کسی مسلمان کے سر پر جوں تک بھی نہ رینگی اور کسی نے اس کا جواب تو کجا اظہار افسوس تک نہ کیا۔ Healingکے نام پر ایذارسانی اس کا معمول بن گیا لیکن اسے یہ علم نہ تھا کہ دنیا کے دوردراز خطے میں اب بھی ایک عاشق رسولؐ رہتا ہے۔ جو یہ کہتا ہے:
دیکھ سکتا ہی نہیں مَیں ضعفِ دینِ مصطفیٰ
مجھ کو کر اے میرے سُلطاں کامیاب و کامگار
یہ مرد واحد نہ صرف اللہ کا پیغامبر تھا بلکہ تین لاکھ مرتبہ اسے گفتار یار کا موقع ملا۔ اور اس کا یہ شعر حرف بہ حرف پورا ہوا۔
وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم
اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار
1902ء اور پھر 1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ نے ڈوئی کو دعوت مباہلہ دی۔ اور اس کو ایک تحدی کے ساتھ یہ فرمایا کہ یہ میری زندگی میں ہی ہلاک ہوگا۔ آخر وہ دن 9؍ مارچ 1907ء آہی گیا جب یہ شدید معاند اسلام حضور اقدسؑ کی پیشگوئی کے مطابق مر گیا۔اس طور سے تاریخ احمدیت میں 9؍ مارچ 1907ء کا دن فتح عظیم کی نشان دہی کرتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس ماہ میں جماعت کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اسی ماہ کی چھ تاریخ کو ایک آریہ معاند لیکھرام اپنے انجام کو پہنچا اور اسی ماہ ڈوئی کی حسرتناک اورعبرتناک وفات ہوئی اور یہ اشعار پورے ہوئے۔
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار
سنّت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے
تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار
Zionکے سنگ بنیاد کے سو سال بعد جماعت احمدیہ امریکہ کو یہ توفیق ملی کہ 2000ء میں وہ Zionکے شہر میں ایک تقریب کر ے جس کا نام ہے Messiah 2000۔اس موقعہ پر Carthageکالج کے وسیع ہال میں جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں دو ہزار کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی۔ اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے اس موقع پر اپنا پیغام بھی بھیجا۔
اس کے بعد اب ڈوئی کی وفات کے115سال بعد یکم اکتوبر 2022ء کو دنیا نے اس فتح عظیم کی ایک نئی تجلی مشاہدہ کی جب ہمارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد فتح عظیم کا افتتاح فرمایا۔ اس محفل میں شہر صیحون کا مرکزی نمائندہ جو Mayorکہلاتا ہے نے خطاب کیا اور کہا کہ آج میری زبان حیرت سے بند ہے کہ ہم مرزا مسرور احمد صاحب کے شکریہ کے لیے کچھ عرض کر سکیں۔ سب باشندگان صیحون کی جانب سے میں آپ کو اس شہر صیحون کی کنجی پیش کرتا ہوں۔
یہ وہی شہر تھا کہ اس کی بنا پر اس کے بانی نے یہ کہا تھا کہ کوئی مسلمان اس میں نہیں رہے گا اوراب یہ انقلاب رونما ہوا کہ اسی شہر نے حضور انور کو اس شہر کی کنجی پیش کی ۔ سچ ہے۔
دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پا کے شُہرۂ عالَم بنا دیا
اس خوبصورت مسجد فتح عظیم کے ساتھ ایک مستقل نمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس نمائش کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک صدی پرانا نشان آسمانی ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے اور نمائش کے ملاحظے کے بعد یہ احساس ہو کہ درحقیقت یہ نشانِ آسمانی حقیقی معنوں میں فتح عظیم ہے۔
آج ساری دنیا میں جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوتے ہیں اور سینکڑوں مقامات پر 1891ء کے جلسہ سالانہ کی یاد دہرائی جاتی ہے۔ اس موقع پر جو نعرۂ تکبیر کے ہمراہ دیگر نعرے بلند کیے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے:’’غلام احمد کی جے‘‘۔ یہ الہامی فقرہ ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس رؤیا کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے:’’پھر دیکھا کہ میرے مقابل پر کسی آدمی نے یا چند آدمیوں نے پتنگ چڑھائی ہے اور وہ پتنگ ٹوٹ گئی اور مَیں نے اس کو زمین کی طرف گرتے دیکھا۔پھر کسی نے کہاغلام احمد کی جےیعنی فتح۔‘‘(بدر جلد 6نمبر29مورخہ18؍جولائی1907 صفحہ4الحکم جلد 11نمبر 25مورخہ 17؍جولائی 1907ء صفحہ 2)
ڈوئی کی وفات 9؍مارچ 1907ء کو ہوئی اور وہ حضورؑ کی پیشگوئی کے مطابق مرا تھا۔ یہ وہ شخص تھا کہ جس کی دولت اور شہرت دنیا میں عروج پر تھی اور چند سال میں حسرت ناک وفات سے دوچار ہوا اور یہ رؤیا پورا ہوا۔ ’’غلام احمد کی جے‘‘
یہ اس فتح عظیم کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر حضورؑ نے حقیقة الوحی میں پیش کیا۔
آئیے اب اس نمائش کی طرف چلتے ہیں جو مسجدفتح عظیم کے ساتھ تیار کی گئی ہے۔ اس نمائش کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعارف۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف اور متعدد احسانات کا اعادہ ۔ قرآن کریم کی عظمت اور تراجم کا ذکر۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں غیر مسلموں کی آرا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسیح و مہدی کی آمد کی بابت پیشگوئیاں ۔ حضرت مسیح موعودؑ کا تعارف، تعلیمات اور پیشگوئیاں۔ معاندین اسلام بالخصوص ڈوئی کا تعارف۔ ڈوئی کے نوادرات کی نمائش۔ ڈوئی کے مہلک بیانات اور اسلام دشمنی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی دعوت مباہلہ اور اس کی تمام جہان میں اشاعت اور 160 اخبارات کی نمائش جن میں چودہ وہ اخبارات ہیں جو ڈوئی کی وفات کے بعد منظر عام پر آئے۔یہ تمام تراشے دنیا کے مختلف ممالک سے جمع کیے گئے ہیں جن میں آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ، ایشیا، یورپ، کینیڈا اور امریکہ شامل ہیں۔
2۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ جب زائر اس نمائش میں داخل ہو اور اس کی مکمل سیر کے بعد باہر آئے تو اس کے دل و دماغ میں یہ بات گھر کر جانی چاہیےکہ اسلام سچا مذہب ہے اور حضرت مسیح موعودؑ اپنے دعویٰ میں باطل نہیں۔
3۔ہر احمدی کے دل میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کے جذبات از سر نو اجاگر ہوجائیں اور حضرت مسیح موعودؑ کے مشن سے ایک محبت اور اخلاص پیدا ہو۔
4۔ ایک مزید مقصد یہ ہے کہ ان معلومات کو تبلیغ کے ذریعے غیر مسلموں تک پہنچایا جائےجو اسلام سے متعارف ہوں۔اب ذیل میں ان امور کی نشاندہی کی جائے گی جو کہ اس نمائش کی زینت ہیں۔
طریق پیشکش
یوں تو مجموعی طور پر پوسٹرز ، بینرز، تصاویر سے نمائش کو مزین کیا جاتا ہے لیکن اس نمائش میں پیشکش کی مندرجہ ذیل نئی اشکال پیش کی گئی ہیں۔
(1)VIDEOLOOPING۔اس طریق میں کمرے میں 9ٹی وی سکرینز اس مقصد کے لیے لگائی گئیں ہیں کہ Videoکا مواد ایک سے دوسری اسکرین پر جاری رہے اور تسلسل قائم رہے۔ زائرین اس دوران TVپر دو تین منٹ کے وقفے سے تمام پیش کردہ مواد کو مشاہدہ کر سکیں۔ نمائش کا سارا مواد ان دس حصوں پر مشتمل تسلسل کے ساتھ پیش کیا گیاہے۔
(2)ایک Vertical TVایسا بھی تھا جس میں ڈوئی کے بارے میں چودہ تراشے محفوظ ہیں اور ہاتھ کے اشارے سے وہ باری باری سامنے آتے ہیں اور زائرین دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔
(3)ایک اورVertical TVمیں حضرت مسیح موعودؑ کی عبارات اسی طریق پر یعنی ہاتھ کے ہلانے سے باری باری پڑھی جاسکتی ہیں۔
(4)ایک بڑی مشین Kioskجو Touch Screenہے اس میں ڈوئی کے مباہلے کے بارے میں دستیاب شدہ 160؍تراشے بذریعہ ملک اور بذریعہ ریاست کے جو نقشے ہیں نظر آتے ہیں ان کو انگلی سے چھونے سے وہ جملہ تراشے سامنے 53انچ اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ جو اس ریاست میں 1902ء سے 1909ء تک شائع ہوئے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے بعض ممالک شامل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے Dotsسے ان علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
(5)اس نمائش کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس Kioskکے ساتھ والی دیوار پر 7×7فٹ کا ایک فریم ہے جس میں Boston Heraldمورخہ 23؍جون 1907ء آویزاں کیا گیا ہے جو اپنے عظیم سائز کی وجہ سے کئی فٹ دور سے پڑھا جاسکتا ہے اور جس کی شہ سرخی یہ ہے۔ Great‘‘۔ ’’Is Mirza Ghulam Ahmad اور اس کے ساتھ والی دیوار پر حضور اقدسؑ کی اصل شبیہ جو قد آدم ہے آویزاں کی گئی ہے۔ اور اس تصویر کے نیچے ایک خوبصورت شیشے کے Caseمیں وہ تمام اصلی نوادرات رکھے ہیں جو حضورؑ کی پیشگوئیوں دربارہ طاعون، زلزلہ، کسوف و خسوف کے نشانات پیش کر رہی ہیں۔ مثلاً طاعون 1902ء کی اخباری سرخیاں اور تراشے ، زلزلہ سان فرانسسکو کے اخباری تراشے اور ایک Astronomy Bookجس میں دو سائنسدان Telescopeکے ذریعے خسوف وکسوف 1895ء کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
حضور علیہ السلام کی قد آدم تصویرسے ملحقہ ایک اور TV Screenپر ہاتھ کے اشارے سے متحرک وہ چودہ تراشے پیش کیے گئے ہیں جن میں حضورؑ کی کامیابی کا تذکرہ درج ہے۔ ان میں Nebraskaریاست کے اخبار کے دو تراشے ہیں ایک 1903ء کا جس میں مباہلہ کی اطلاع ہے اور ایک 1907ء کا جس میں ایڈیٹر نے پرانی اشاعت کے حوالے سے اس کے انجام کی خبر دی کہ ڈوئی پیشگوئی کے مطابق مرگیا۔یہ وہ ریاست ہے جس میں کوئی احمدی نہیں رہتا اور کبھی یہاں جماعت قائم نہیں ہوئی۔ اس کا اس طرح خبر شائع کرنا محض الٰہی تائید ہے اور متعصب لوگوں کے لیے ایک کھلا نشان۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 27؍ستمبر 2022ء کواس نمائش کامعائنہ فرمایا۔ ڈوئی کے نوادرات مشاہدہ کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرعون کے بدن کی حفاظت کرے گا اور اس سے یہ نشان زندہ جاوید ہوگا۔ آپ نے ان نوادرات کو جمع کر کے اس نشان الٰہی کو محفوظ کر لیا۔
ہماری ٹیم کے کسی فرد کے ذہن میں یہ بات نہ آئی تھی اور یہ سن کر دل حمدِ الٰہی سے معور ہوگیا۔ الحمد للہ
حضرت مسیح موعودؑ کے استعمال شدہ کوٹ کو بھی ایک خوبصورت شیشے کے Caseمیں Displayکیا گیا تھا۔ حضور انور چند منٹ تک کوٹ کو دیکھتے رہے اور پھر فرمایا غالباً پشاور سے حضورؑ کو یہ تحفہ بھجوایا تھا۔ یہ کوٹ حضرت مرزا شریف احمد صاحب ؓ کی پوتی کی ملکیت تھا اور منظور الرحمان صاحب لے کر آئے تھے۔
ایک گلاس کیس میں Literary Digestکا 1903ء کا ایک اولین نسخہ پیش کیا گیا اور یہ عرض کی گئی کہ یہ پہلا نسخہ ہے جو ہمیں دستیاب ہوا ہے۔ حضورؑ نے اس تراشے کا خلاصہ چوتھے نمبرپر اپنی کتاب حقیقة الوحی میں شائع فرمایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی Review Of Religionsکی اردو اشاعت جس میں اس مباہلے کا ذکر ہے دکھایا گیا۔اس پر حضور انور نے دریافت کیا کہ یہ ریویو کہاں سے حاصل کیا گیا ہے۔
حضور انور پچیس منٹ تک اس نمائش کامعائنہ کرتے رہے۔ اور اپنے دورے میں تین مرتبہ باہر سے آنے والے مہمانان کو توجہ دلائی کہ جانے سے قبل اس نمائش کو ضرور دیکھیں۔چنانچہ 1500سےزائد افراد نے یہ نمائش دیکھی۔ الحمد للہ
مسجد فتحِ عظیم کے ساتھ منارۃ المسیح کی تعمیر
فتحِ عظیم مسجد کی تکمیل میں ابھی منارۃ المسیح کے نام پر ستر70 فٹ منارہ کی تعمیر باقی ہے۔ اس دورہ میں حضورِ اقدس نے اس کا سنگِ بنیاد بھی رکھا۔
ابتدا میں انتظامیہ کی جانب سے اس منارہ کو چالیس فٹ تک بلند کرنے کی اجازت دی گئی۔ چنانچہ جماعت نے مزید درخواست دی کہ اس منارے کو ستر70 فٹ تک بلند تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس پر شہر کے افسران نے ایک میٹنگ کی اور یہ فیصلہ کیا کہ یہ اجازت دے دی جائے۔ چنانچہ سماعتِ درخواست کے بعد ان کے چیئرمین نے صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ یوکے دیا بکر صاحبہ کی درخواست پر یہ تبصرہ کیا کہ ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے اس شہر میں تعمیرِ مسجد کی۔ آپ نے ہم سے ستر70 فٹ منارے کی اجازت طلب کی ہے ۔ ہم بخوشی یہ اجازت دیتے ہیں۔ اور اس شعر میں مضمر پیشگوئی پوری ہوئی؎ہمارے کر دیے اونچے منارے
یہ تمام کارروائی اس شعر کی مصداق ہے:
خود کنی و خود کنانی کار را
خود دہی رونق تو آں بازار را
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک ارشاد کے پیش نظر محترم امیر صاحب امریکہ سے اس منارے کی تعمیر کے لیے مولانا ذولفقار علی خان صاحب گوہرؓ کے خاندان کی جانب سے اس منارے کا خرچ اٹھانے کی اجازت حاصل کی گئی اور اب خاندانِ گوہر کے پچاس افراد مل کر اس کارِخیر میں حصہ لینے کی توفیق پا رہے ہیں۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
٭…٭…٭