چودھری محمد علی صاحب (نمبر19)
(گذشتہ سے پیوستہ )اسی زمانے میں ایک بار آدھی رات کے وقت مجھے میاں صاحب کا بلاوا آگیا۔ وہ اس وقت شیخ بشیر احمد ایڈووکیٹ کی کوٹھی پر تشریف رکھتے تھے۔ میں وہاں پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک اطلاع کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ ممتاز دولتانہ کی صدارت میں ایک میٹنگ ہوئی ہے جس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ مرزا بشیرالدین محمود احمد یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے گھر کی تلاشی لی جائے اور کوئی بہانہ بنا کر آپ کو گرفتار کرلیا جائے۔ مجھے حضور کے نام ایک خط لکھ کر دیا گیا جس میں تحریر تھا کہ حضور مجھے فوری طور پر شرفِ ملاقات بخشیں، وجہِ ملاقات زبانی عرض کی جائے گی۔
جب میں وہاں پہنچا تو فجر کی نماز کا وقت ہونے والا تھا لیکن کوئی حضور کو جگانے پر تیار نہ ہوا۔ میں نے سوچا کہ آپ نماز پر تشریف لائیں گے تو اس وقت ملاقات کرلوں گا لیکن یہ موقع بھی کسی وجہ سے ضائع ہوگیا۔ حضور فجر کی نماز کے بعد کچھ دیر آرام فرمایا کرتے تھے چنانچہ جب میں نے نماز کے بعد ملنے کی کوشش کی تو کوئی کارکن حضور کو میرا پیغام پہنچانے پر آمادہ نہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ ہاں! جب آپ ناشتے پر آئیں گے تو عرض کردیا جائے گا۔ بہرحال نوبجے کے قریب حضور نے یاد فرمایا۔ ناشتہ فرش پر لگا ہوا تھا اور آپ ننگے سر اور ننگے پائوں تشریف فرما تھے۔ میری طرف دیکھا تو مسکرا کر کہنے لگےچودھری صاحب! بیٹھیں۔ باتیں تو ہوتی رہیں گی، پہلے ناشتہ کرلیں۔ میں اس اطلاع کی وجہ سے جو میرے پاس تھی سخت فکرمند تھا چنانچہ میں نے ساری بات جلدی جلدی حضور کے گوش گذار کر دی جسے سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ آپ نے کچھ اور باتیں بھی کیں جن کا مفہوم یہ تھا کہ ہمیں کسی تلاشی کی کیا فکر ہو سکتی ہے، آخر ہم نے کیا کیا ہے جو بلاوجہ پریشان ہوں۔شیخ بشیر احمد سے کہیں کہ وہ بھی فکرمند نہ ہوں، حکومت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
حضور کے ساتھ ملاقات سے فارغ ہوکر میں پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں جا بیٹھا۔ کچھ دیر کے بعد باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مرزا عزیز احمد دوڑے چلے آ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اتنے عرصے میں حضور نے ضروری ا یکشن لے بھی لیا تھا کیوں کہ آپ فرمائے جا رہے تھے ایہہ سب تُوں کروایا اے۔ میں دوڑا آریاواں۔ کی کہہ دتّا اے تُوں؟ میں نے سنا ہے کہ اس کے بعد حضور کے گھر کی تلاشی ہوئی تھی۔
۱۹۵۳ء کے مارشل لا سے پہلے کی بات ہے۔ درد صاحب بعض دفعہ مجھے بند لفافے بھیجا کرتے تھے جن میں کچھ کرنسی نوٹ ہوتے تھے۔ اس وقت تک انڈین کرنسی پاکستان میں چل رہی تھی البتہ اس پر حکومت پاکستان کا ٹھپّہ ہوتا تھا۔ ہر لفافے کے کونے پر ایک نمبر لگا ہوتا تھا۔ حکم یہ تھا کہ یہ لفافے کھولے نہ جائیں نہ ان کا حساب رکھا جائے لیکن جب مجھے معلوم ہوا کہ ان لفافوں میں کرنسی نوٹ ہوتے ہیں تو میں نے ان کا حساب رکھنا شروع کر دیا۔ درد صاحب کے دستخط سے چِٹیں آیا کرتی تھیں جن پر وہی نمبر درج ہوتے تھے جو اِن میں سے بعض لفافوں پر لکھے ہوتے تھے۔ ہدایت یہ تھی کہ بغیر کوئی سوال پوچھے اس نمبر والا لفافہ حاملِ رقعہ کو دے دیا جائے۔ یہ رقم چودھری غلام نبی گلکار جو آزاد کشمیر کے پہلے صدر تھے کو یا بعض مخالفین کو پہنچائی جاتی تھی۔ میرے ہاتھ کا لکھا ہوا سارا حساب کتاب اسی سیف میں پڑا تھا جس میں یہ لفافے رکھے جاتے تھے۔ جب مارشل لا والوں نے چھاپہ مارا تو انہوں نے یہ سیف بھی کھولا اور تمام کاغذات ہمراہ لے گئے۔ بعد میں میاں صاحب گرفتار کرلیے گئے۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ میاں صاحب کی گرفتاری اسی حساب کتاب کی وجہ سے ہوئی ہے جو میں رکھا کرتا تھا۔ میں تو سوچ سوچ کر پاگل ہوگیا لیکن خدا کا احسان ہے بعد کے حالات و واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس گرفتاری کا اس حساب کتاب سے کوئی تعلق نہ تھا۔
تعلیم الاسلام کالج، لاہور کا اپنے ماحول میں خدا کے فضل سے بہت اچھا اثر تھا اور لوگ اس کے بارے میں عمومی طور پر اچھی رائے رکھتے تھے۔ میں سمجھتا ہوںیہ سب کچھ میاں صاحب کی شخصیت کی بدولت تھا ورنہ ہم تو کسی شمار قطار میں نہ تھے۔ مجھے یاد ہے ۱۹۵۴ء میں لاہور میں شدید سیلاب آیا۔ اس وقت ظفرالاحسن لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ وہ میاں صاحب کے کلاس فیلو رہ چکے تھے۔ ممکن ہے انہوں نے فوج کو بتایا ہو کہ تعلیم الاسلام کالج کے پاس اپنی کشتیاں ہیں اور ان کے چلانے والے بھی موجود ہیں چنانچہ فوجی حکام کی طرف سے میاں صاحب سے کہا گیا کہ اگر کالج انہیں کشتیاں مہیا کرسکتا ہو تو یہ ایک مہربانی متصوّر ہوگی۔ عید آرہی تھی اور لوگ ادھر ادھر ہورہے تھے چنانچہ میاں صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میں کالج کے لڑکوں کو ساتھ لے جائوں اور جب تک کام ختم نہ ہو وہیں رہوں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے عید بھی مقامِ ڈیوٹی پر ہی ادا کرنا ہوگی۔
اس وقت تک مجھے خطبہ دینے یا نماز کی امامت کرانے کا کبھی موقع نہیں ملا تھا اس لیے ذہنی طور پر خود کو اس کام کے لیے تیار نہ پا رہا تھا چنانچہ میں نے عرض کی کہ مجھے خطبہ دینا نہیں آتا۔ آپ نے پوچھاسورت فاتحہ آتی ہے؟ میرے جواب پر میاں صاحب فرمانے لگے قرآن شریف کا کوئی اور حصہ بھی یاد ہے؟ میں نے اقرار میں سر ہلایا تو آپ نے پوچھادرود شریف آتا ہے؟ میرے اقرار پر آپ مسکرائے۔ یہ ایک ایسی مسکراہٹ تھی جس پر انسان دل و جان سے فدا ہوجاتا ہے۔ آپ نے فرمایاتو پھر مشکل کیا ہے؟میں تقریریں کرنے کا عادی اس وقت تھا نہ اب ہوں۔ یہ درست ہے کہ میں کالج میں لیکچرر رہا ہوں لیکن لیکچر خطبے سے بالکل مختلف چیز ہوتی ہے۔ بہرحال میں نے عید کی نماز پڑھائی اور خطبہ بھی دیا۔ اتفاق سے مسعوددہلوی اس تقریب میں موجود تھے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ خطبہ کیسا تھا لیکن انہوں نے شاید میرا دل رکھنے کے لیے اس خطبے کی بہت تعریف کی۔
لاہور کے لوگ بے حد مخیر ہیں۔ ان کی طرف سے لڑکوں کی جو سیلاب کے دنوں میں ڈیوٹی دے رہے تھے بہت خدمت کی جاتی تھی۔ پلائو، زردے اور قورمے کی دیگیں پک کر آتی تھیں جو سب کھاتے تھے تاہم جب لوگوں کو پتا چل گیا کہ یہ لڑکے احمدی ہیں تو ان کا انداز بدل گیا تاہم فوجی حکام ہمارے کام سے بے حد مطمئن تھے چنانچہ حالات معمول پر آنے کے بعد جنرل اعظم ہمارے کالج آئے اور انہوں نے ہوسٹل کا معائنہ بھی کیا۔ خداتعالیٰ کا احسان ہے وہ خوش ہوکر واپس گئے۔اس موقع پر ہم نے وہی کراکری استعمال کی جس کا ذکر مرزا وسیم احمد کی شادی کے موقع پر فضلِ عمر ہوسٹل کی طرف سے دعوت کے ضمن میں آچکا ہے۔جنرل اعظم یہ سیٹ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ یہاں لڑکوں کو اتنی اعلیٰ کراکری میں کھانا دیاجاتا ہے۔
ایک بار بعض امریکن یونیورسٹیز کے پریذیڈنٹس نے ہمارے کالج کا دورہ کیا۔امریکہ میں یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ کا بڑا رتبہ ہوتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کسی یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ سے ملنے جائیںاور وہ صدرِ امریکہ سے ملاقات کے لیے گیا ہوا ہو تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ پریذیڈنٹ سے ملنے گیا ہے بلکہ صدرِامریکہ کا نام لے کر کہا جائے گا کہ پریذیڈنٹ اُن سے ملنے کے لیے گیا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی یونیورسٹی کا پریذیڈنٹ بُش سے ملنے گیا ہوا ہے تو کہا جائے گا کہ The President has gone to see Mr. Bush وہاں اتنا احترام ہے ان کا۔ سو کچھ پریذیڈنٹ آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے خطاب کرنا تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس اجلاس کی صدارت کرنا تھی۔ اس زمانہ میںپہچاننے والے حضورکا مقام خوب پہچانتے تھے۔ پھر تو جھوٹ کا کاروبار شرو ع ہو گیا اور ہم اس معاملہ میں بالکل بے بس ہو گئے۔ اس موقع پر اتنا رش ہوگیا کہ ڈی اے وی کالج کا پورا ہال اور گیلریاں تک بھر گئیں۔ حاضرین میں کالجز کے پرنسپلز، پروفیسرز، ایڈووکیٹس اور ججز شامل تھے۔ ہمیں پہلے ہی ڈر تھا کہ جگہ تنگ ہو جائے گی چنانچہ ہم نے اپنے لڑکوں کے بیٹھنے کے لیے ایک چھولداری گراسی پلاٹ میں لگارکھی تھی۔ انہیں وہاں بیٹھنا پڑا۔
میرے پاس سید کرامت حسین جعفری بیٹھے تھے۔ میرا ان سے پہلا تعارف اس وقت ہوا تھا جب میں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا اور میں موگا کے جلسہ سیرت النبی میں تقریر کے لیے انہیں مدعو کرنے کی خاطر امرتسر میں ان کے زیرتعمیر مکان پر جاکر ملا تھا۔ انہوں نے تو مجھے نہیں پہچانا لیکن میں نے انہیں پہچان لیا اور اسی حوالے سے اپنا تعارف کرایا۔ بعد میں ان سے بڑا تعلق رہا۔ شریف آدمی تھے۔ گورنمنٹ کالج، لائلپور کے پرنسپل رہے۔ لاہور میں بھی تعلق رہا اور ایک بار وہ ربوہ بھی آئے تھے۔ مجھے کہنے لگے چودھری صاحب! آپ میری ایک درخواست مان سکتے ہیں؟ میں نے کہاحکم کریں۔ کہنے لگےہم مرزا صاحب (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانؓی)کی یہ شہرت سن کر آئے ہیں کہ وہ بڑے زبردست مقرر ہیں لیکن کیا وہ انگریزی میں بھی تقریر کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں کرلیتے ہیں۔ کہنے لگےتو پھر میری ایک درخواست ہے۔ آپ ان سے جاکر کہیں کہ باقی لوگ بھلے انگریزی میں تقریریں کرتے رہیں وہ اردو میں ہی بولیں کیونکہ ہم صرف انہیں سننے کے لیے آئے ہیں۔ ان سے میری بے تکلفی تو نہ تھی لیکن میں نے کہا شاہ صاحب! آپ کیسی بات کر رہے ہیں؟ابھی تک کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو حضور کو یہ کہہ سکے کہ وہ اردو میں تقریر کریں یا انگریزی میں۔ میں ان سے یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں؟حضور کی مرضی ہے وہ جس زبان میںچاہیں تقریر کریں۔ کہنے لگے بڑا افسوس ہے۔ آپ ہماری اتنی سی بات نہیں مان سکتے۔ میں نے کہا مجھے افسوس ہے میں آپ کی یہ خواہش واقعی پوری نہیں کرسکتا۔
تقریریں شروع ہوئیں۔ ان صدور میں سے ایک کے اجداد میں کوئی کالا بھی تھا۔ اس نے بھی تقریر کی اور وہ تقریر یہ تھی کہ ہمارا آئین تو ہمیں سب حقوق دیتا ہے لیکن سوسائٹی نے ہمیں ہمارے حقوق نہیں دیے۔ اس نے کچھ واقعات سنائے۔ اس کے بعد حضور کی تقریر ہوئی جس دوران حضور رو پڑے لیکن کمال یہ ہے کہ حضور کے ساتھ پورا ہال بھی رو رہا تھا۔ کرامت حسین جعفری بھی رو رہے تھے۔ حضور کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ کے بزرگوں کا مسلمانوں پر ایک بہت بڑا احسان ہے جس کا حق وہ کبھی ادا نہیں کرسکتے۔ جب رُوئے زمین مسلمانوں پر تنگ ہوگئی تو آپ کے اجداد نے انہیں پناہ دی۔ مسلمانوں نے ان کا یہ احسان کبھی نہیں بھلایا۔ انہوں نے مشرق بھی فتح کیا اور مغرب بھی فتح کیا، شمال بھی فتح کیا اور جنوب بھی فتح کیا لیکن جب حبشہ کے پاس سے گذرے تو ادب کے ساتھ گذر گئے۔ اگر آپ کے معاشرے نے آپ کو آپ کے حقوق نہیں دیے تو ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ہاں! اگر آپ مسلمان ہوجائیں تو میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ آپ کے پورے حقوق آپ کو ادا کیے جائیں گے۔
تقسیم سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ عام طور پر انگریزی میں گفتگو نہیں فرماتے تھے۔ایک بار میں نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے جواباً کہااگر قیامِ پاکستان سے پہلے میں انگریزی میں گفتگو کرتا تو مخالفین کو اعتراض کا موقع مل جاتا کہ میں یہ حربہ اپنے حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کررہا ہوں لیکن ہم ایک مذہبی جماعت ہیں جس کا واسطہ مغربی ماحول سے بھی پڑنا ہے لہٰذا ہمیں انگریزی آنی چاہیے اور اسی لیے اب میں نے حسبِ ضرورت انگریزی میں بات چیت شروع کر دی ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پہلے پہل کالج کے داخلہ فارم اور ہوسٹل میں رہائش کی درخواست پر تصویر نہیں لگائی جاتی تھی لیکن بعد میں دونوں مواقع پر تصویر مہیا کرنا ضروری قرار دے دیا گیا۔ تصویر لینے کی تجویز میری تھی۔
میں آپ کو کیسے بتائوں کہ میاں صاحب طلبہ سے کتنا پیار کرتے تھے۔ جب انٹرویو ہوتا تو آپ ہر بچے سے کھڑے ہوکر ہاتھ ملاتے۔ جب وہ انٹرویو ختم کر کے واپس جانے لگتا تو کھڑے ہو کر اسے رخصت کرتے۔ انٹرویو کے دوران مجھے اکثر ساتھ بٹھا لیتے تھے۔ ایک بار میں نے کہا کہ آپ طلبہ کے ساتھ اٹھ کر ملنے کا تکلف نہ کیا کریں۔ آپ نے کہااسے تکلّف نہیں کہتے اور پھر حدیث پڑھی اَکْرِمُوْا اَوْلَادَکُمْ۔ آپ کو ہر لڑکے کا نام زبانی یاد ہوتا تھا۔ بعض دفعہ کوئی لڑکا دور سے آرہا ہوتا اورفوری طور پر پہچانا نہ جاتا تو آپ مجھ سے پوچھتے کہ اس کا نام کیا ہے۔ میں کہتا کہ میری نظر کمزور ہے، اسے قریب آنے دیں تو پہچان پائوں گا۔ جب قریب آجاتا تو ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے مجھ سے پھر اس کا نام دریافت کیا ہو۔ قریب آنے والے لڑکے کو اس کے نام سے پکارتے۔ بعد میں جب فوٹو لگنے شروع ہوگئے تو میں فوٹو سامنے رکھ کر ان کے نام یاد کیا کرتا تھا۔ رہے میاں صاحب تو بچوں کے ساتھ ان کی دلچسپی بلکہ اُنس اور محبت کا یہ عالم تھا کہ انہیں دیکھتے ہی ان کا نام یاد ہو جاتا۔
میاں صاحب کا حسنِ اخلاق ہر طالب علم کو متاثر کرتا تھااور ان کی یہ محبت احمدی اور غیراحمدی طلبہ کے لیے یکساں تھی۔ بعض تو عمر بھر کے لیے اس محبت کے اسیر ہوجاتے۔ مجھے یاد ہے پرانے غیرازجماعت طالب علموں میں ایک لڑکے کا نام محمد بُوٹاتھا۔ لڑکے اسے اس کے نام کی وجہ سے چھیڑاکرتے تھے۔ اگرچہ وہ بڑا اچھا اتھلیٹ تھا لیکن اس کا رنگ پکا تھا چنانچہ لڑکے مذاق سے کہا کرتے تھے کہ یہ بوٹا نہیں، کیکر کا بوٹا ہے۔ اس نے ہمارے ہی کالج کے ذریعہ ایم ایس سی کی۔ پھر وہ اِریگیشن ریسرچ میں چلا گیا۔ ایک بار جب کہ کالج ربوہ منتقل ہو چکا تھا میاں صاحب کے نام اس کا خط آیا۔ اس نے لکھا تھا کہ میرا نام محمد بوٹاہے چنانچہ میں جہاں جاتا ہوں لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں لہٰذا میں نے اپنا نام بدلنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ میں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں آپ جیسا شفیق انسان مجھے آج تک کوئی نہیں ملا لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ اپنا نام ناصر احمد رکھ لوں۔ آپ مجھے اس بات کی اجازت دے دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔
میاں صاحب سینیٹ کے ممبر تھے اور سینیٹ کا ممبر بلحاظ عہدہ اکیڈیمک کونسل کا ممبر بھی ہوتا ہے۔ ایک بار اکیڈیمک کونسل کا اجلاس ہو رہا تھا اور غالباً ہیلی کالج آف کامرس کا کوئی جھگڑا تھا۔ شاید کوئی پرچہ آئوٹ آف کورس آگیا تھا۔ جس وقت میٹنگ میں یہ ایجنڈا آئٹم زیرغور آیا تو باہر ڈیڑھ دو سو لڑکے اکٹھے ہوکر نعرے لگانے لگے۔ آپ نے کسی سے کہا کہ جا کر لڑکوں کو چپ کرائو تو وہ اس بات پر آمادہ نہ ہوا۔ اسے لڑکوں کے ہاتھوں اپنی بے عزتی کا خوف تھا۔ تب آپ نے فرمایا اچھا میں چلا جاتا ہوں۔ میں اپنی بے عزتی کروالیتا ہوں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے معاملہ فہمی کی نعمت سے سرفراز فرمایا تھا چنانچہ آپ باہر نکلے اور ان لڑکوں کو بلا کر پوچھا کہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا ہمیں اس کونسل سے انصاف کی امید نہیںہے۔ آپ نے پوچھا کیا کسی ایک ممبر سے بھی آپ لوگوں کو انصاف کی امید نہیں ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، کسی ایک سے بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا مجھ سے بھی نہیں؟ کہنے لگے آپ اکیلے ہمارے لیے کیا کرسکتے ہیں؟ فرمایا میں آپ کی ناجائز مدد تو واقعی نہیں کرسکتا لیکن اگر میں آپ سے یہ وعدہ کرلوں کہ میں آپ کی جائز مدد ضرور کروں گا تو کیا آپ یہ نعرہ بازی بند کردیں گے؟ انہوں نے کہا جی ہاں۔ ہم باہر انتظار کریں گے۔ پہلے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر آچکا ہے کہ حضور نے جو فیصلہ کروایا وہ ان حالات میں بالکل درست تھا۔ اس میں کچھ سختی بھی تھی اور کچھ نرمی بھی تھی۔ اب آپ خود ہی بتائیے لڑکے کیسے بھول سکتے ہیں ایسے شخص کو!
ایک دفعہ یونیورسٹی گرائونڈز میں پنجاب یونیورسٹی کی کھیلیں ہو رہی تھیں۔ میاں صاحب ایک اِیونٹ (غالباً ہَیمرتھرو یا جیولِن تھرو) کے جج تھے لیکن جہاں یہ اِیونٹ ہونا تھا وہاں کچھ لڑکے دھرنا دیے ہوئے تھے۔ یونیورسٹی سپورٹس کے موقع پر کچھ پروفیسروں کو مارشل بنا یا جاتا ہے اور ڈِسپلَن کا قیام ان کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میاں صاحب نے ایک مارشل سے کہاان لڑکوں کوو ہاں سے اٹھائیں ورنہ ہمارا اِیونٹ لیٹ ہو جائے گا۔ اس نے کہا میں نے ان سے اپنی بے عزتی نہیں کروانی۔ آپ کو پتا ہے یہ کس کالج کے لڑکے ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھا میں چلا جاتا ہوں۔ آپ ان کے درمیان جا بیٹھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں۔ کچھ دیر کے بعد آہستگی سے کہنے لگےیہاں ایک اِیونٹ ہونا ہے، کیا خیال ہے ہم یہاں سے اٹھ نہ جائیں۔ لڑکے چھلانگیں مارتے ہوئے دوسری طرف چلے گئے۔ یہ تھی آپ کی ہَینڈلنگ۔
اجازت ہو تو میں ایک ذاتی بات بھی کرلوں۔پہلے میں ’’چودھری‘‘نہیں کہلاتا تھا۔ وہ تو بعد میں شروع ہوا ہے۔ میرے سات پردادے تھے۔ ان کی بے شمار نسلیں تھیں۔ ان میں سے کچھ چودھری کہلاتے تھے لیکن ہمارا گھر چودھری نہیں بلکہ مہر یا میاں کہلاتا تھا۔ جب پارٹیشن ہوئی تو لوگ مجھے ملنے کے لیے لاہور آتے تھے۔ رشتہ داروں اور گائوں کے لوگوں کے لیے یہ بہت بڑی بات تھی کہ ان کا ’’مُنڈا‘‘لاہور میں ہے چنانچہ جس کو کوئی کام ہوتا وہ کالج پہنچ جاتا اور کہتا کہ اسے ’’میاں صاحب‘‘سے ملنا ہے۔ یہ پوچھے بغیر کہ اسے کون سے میاں صاحب سے ملنا ہے اسے سیدھا رتن باغ بھجوا دیا جاتا۔ جب وہ رتن باغ پہنچتا تو اس سے سوال ہوتا کہ اس نے کون سے میاں صاحب سے ملنا ہے۔ وہ کہتا وڈّے میاں صاحب نوں ملنا اے چنانچہ انہیں حضرت مرزا بشیر احمد سے ملادیا جاتا۔
ایک بار تو حد ہی ہوگئی۔ میرے کچھ عزیزوں نے گائوں میں زمین خریدی لیکن مخالفین نے ان کے ساتھ جھگڑا ڈال دیا۔ ان کی لڑائی ہوئی اورایک یا دو آدمی قتل ہوگئے۔ وہ سفارش کرانے کے لیے لاہور آگئے۔ مجھے ڈھونڈتے پھر رہے تھے اور جب انہوں نے بتایا کہ وہ ’’وڈّے میاں صاحب ‘‘سے ملنا چاہتے ہیں تو دفتر والوں نے ان کی ملاقات حضور سے کرادی۔ انہوں نے حضور کو دیکھتے ہی کہا کہ ہم جن میاں صاحب کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں وہ تو کوئی اور ہیں لیکن حضور نے ان کی بات توجہ سے سنی اور فرمایامیں آپ کی سیشن جج کے پاس تو سفارش نہیں کر سکتاالبتہ اس سے اوپر کہہ سکتا ہوں۔ اگرچہ حضور کا مطلب واضح تھا میں دعا کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کرم فرما دے گا لیکن انہوں نے اس کا مطلب نہ جانے کیا لیا اور خوش خوش واپس چلے گئے۔ غالباً اسی الجھن سے بچنے کے لیے لوگوں نے مجھے ’’چودھری‘‘کہنا شروع کردیا۔
یہاں میں یہ بھی ذکر کردوں کہ عمر رسیدہ احمدی بزرگان حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو بھی میاں ہی کہتے تھے چنانچہ بتایا جاتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نئے نئے خلیفہ منتخب ہوئے تو ایک روز حضرت قاضی امیر حسین، رفیق حضرت مسیح موعودؑآدھی رات کے وقت ملنے کے لیے آگئے اور بتانے لگے کہ ان کے ایک بیٹے کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہیڈماسٹر نے بلاوجہ مارا ہے۔ ان دنوں حضرت مولوی محمد دین ہیڈماسٹر تھے اور قاضی امیر حسین چاہتے تھے کہ حضور ان کے پاس چل کر اس مارپیٹ کی وجہ دریافت کریں۔ حضور نے فرمایا ٹھیک ہے۔ صبح تحقیق کریں گے۔اس پر وہ کہنے لگے نیک بختا! منڈے نُوں ماریا وے اوہنے۔ سویر تے کیوں چھڈداایں؟ تو ہُنڑے چل محمد دین دے کول۔ اگرچہ حضور خلیفہ وقت تھے لیکن قاضی امیر حسین کا اپنا مقام تھا چنانچہ حضور اسی وقت لالٹین پکڑ کر ساتھ چل پڑے۔ حضرت مولوی محمد دین نے بے وقت حضور کو اپنے گھر پایا تو حیران ہوئے اور فرمانے لگےحضور! آپ اس وقت؟ حضور نے کہا مولوی صاحب!ان کا بیٹا کہتا ہے کہ آپ نے اس کو مارا ہے۔ مولوی صاحب نے کہامیں نے تو اس کو نہیں مارا۔ تب حضور نے کہا قاضی صاحب !اب آپ بتائیں۔ کہنے لگے میاں نیک بختا! مینوں کی پتا۔ بھاویں اوہنے جھوٹ ای ماریا ہوئے۔
کالج کی ربوہ منتقلی
تعلیم الاسلام کالج تقریباً سات سال تک لاہور میں رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈی اے وی کالج کے کھنڈرات کو ایک عمدہ قابلِ استعمال عمارت میں تبدیل کیا جا چکا تھا۔ کالج کے طلبہ باقی کالجوں کے طلبہ کے مقابلہ میں نہ صرف تعلیمی میدان میں بہتر نتائج دکھا رہے تھے بلکہ مختلف کھیلوں میں بھی اپنی کارکردگی کی دھاک بٹھا رہے تھے۔ یُو او ٹی سی میں کالج کے طلبہ نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور روئنگ میں اس کالج کی ٹیم یونیورسٹی چیمپئن کا درجہ حاصل کرچکی تھی۔ اگرچہ ۱۹۵۳ء کے ہنگامے جماعت اور تعلیم الاسلام کالج کے لیے بے حدپریشان کن ثابت ہوئے حتیٰ کہ اس کے پرنسپل کو جرمِ ضعیفی میں کئی ماہ کی قید بھی کاٹنا پڑی لیکن اس کے بعد معاملات تسلی بخش نہج پر چل رہے تھے۔ ایسے میں تعلیم الاسلام کالج کی ربوہ منتقلی کا فیصلہ اُن لوگوں کے لیے جو کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت لاہور کی دُھنی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اسے چھوڑ کر ایک بے آب و گیاہ جنگل میں جا ڈیرہ لگانا قرینِ مصلحت نہیں ناقابلِ فہم تھا۔ اس کے برعکس حضرت خلیفۃ المسیح الثّانیؓ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دُوراندیشی کی نعمت سے نواز رکھا تھا خوب سمجھتے تھے کہ اس کالج کا ربوہ منتقل ہونا کتنا ضروری ہے چنانچہ حضور کے فیصلے کے تحت ہی یہ کالج ربوہ منتقل ہوا۔
چودھری محمد علی نے ایم ٹی اے کو اپنے انٹرویوز میں کالج کی لاہور سے ربوہ منتقلی کے فیصلے کا پس منظر بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس فیصلہ پر عمل درآمد رکوانے کے لیے مختلف لوگوں کی طرف سے کی جانے والی کوششیں کیوں بارآور ثابت نہ ہو سکیں۔ آئیے یہ سب باتیں موصوف کی زبانی ہی سنتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ’’ڈی اے وی کالج کا کیمپس بہت بڑا تھا اگرچہ یہ پورے کا پورا ہمارے قبضہ میں نہیں تھا۔ یہ کالج گورنمنٹ کالج اور ویٹرنری کالج کے سامنے اور ایس ایس پی آفس کے قریب واقع تھا چنانچہ ہمارے بعض بزرگوں کا خیال تھا کہ اسے لاہور سے منتقل نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے الفاظ دہرائے جائیں تو وہ کہا کرتے تھے کہ ہم لاہور کی دُھنّی پر قابض ہیں، اسے ہرگز ہرگز چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔ کئی لوگ کہتے تھے کہ اس کالج کو ربوہ منتقل کرنے کی بجائے ربوہ میں ایک نیا کالج کھول لیا جائے۔ اکثر پروفیسروں کی رائے بھی یہی تھی کہ کالج کسی اور جگہ منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ کئی لحاظ سے دُوررس نتائج کا حامل ہوسکتا تھا اور اس کے تائید کنندگان اور مخالفین دونوں کے پاس بڑے مضبوط دلائل تھے چنانچہ جب یہ فیصلہ ہونے والا تھا تو ہم نے میاں صاحب سے درخواست کی کہ وہ ہمارے ساتھ حضور کے پاس چلیں۔ میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ میاں صاحب نے آخر وقت تک ہم پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اس بارے میں حضور کا منشا کیا ہے اور فرمایامیں آپ کے ساتھ چلا تو جائوں گا لیکن وعدہ نہیں کرتا کہ ضرور آپ کی تائید کروں گا۔ بعد میں پتا چلا حضور یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر ہمارا کالج مزید ایک سال بھی لاہور میں رہ گیا تو ہماری نسل برباد ہو جائے گی حالانکہ اس زمانے کے لوگ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کالج کے گیٹ کے اندر لاہور کا نہیں بلکہ قادیان والا ہی ماحول تھا تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ خلیفہ وقت معاملات کو جس نظر سے دیکھتا ہے یا اپنے دل میں جماعت کے لیے جو درد رکھتا ہے وہ درد کوئی اور محسوس ہی نہیں کر سکتا۔ یہ بھی امرِواقعہ ہے کہ خلیفہ وقت کے فیصلے اس کی ذاتی صوابدید پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اس کی تار اوپر ملی ہوتی ہے اور اسے قدم قدم پر خداتعالیٰ سے راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ یوں بھی حضور کی منشا کے خلاف کوئی فیصلہ نہیںہوسکتا تھا لہٰذابالآخر سب کو ہار ماننا پڑی۔ (باقی آئندہ)