احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
(گذشتہ سے پیوستہ )مولوی غلام رسول صاحب قلعہ والے آپ کی سوانح میں حضرت غزنوی صاحب ؒ کی ہجرت کے ذکرکے بعد فرماتے ہیں کہ ’’ملک سوات میں آکراقامت اختیارکی اخوندعبدالغفورصاحب جو زہد اور ریاضت میں اس وقت ممتازتھے اور مجددیہ قادریہ کے طریق اورصوم الدہر کے ساتھ دم بھرنے والے۔پہلے تو نہایت عمدہ مروت کے ساتھ پیش آئے اوردلدہی اور دلداری کی آخرالامر جب آپ کے حاسدوں کا نوشتہ اخوندصاحب کوپہنچا توبلاتحقیق مروت کادامن کھینچ لیاکچھ مدت وہاں مبتلا رہ کرحضرت سیدمیرصاحب کوٹھہ والوں کے پاس تشریف لائے اور تبرکاًان کی بیعت سے شرف حاصل کیااوروہاں ہی اس نیازمندکے ساتھ آپ نے عنایت کی راہ سے بھائی چارہ ڈالا یہاں تک کہ حضرت سیدمیرصاحب نے پوری توجہ کے بعد فرمایا کہ صاحب زادہ کابلی اور مولوی صاحب کے درمیان کوئی علاقہ ہے جو مجھ سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔مولوی عبداللہ صاحب نے ظاہرکردیاکہ ہم اپنے درمیان عقداخوت رکھتے ہیں۔حضرت صاحب نے فرمایا الحمدللہ اسی طرح عقداخوت چاہیے کہ ایک دل سے دوسرے کے دل میں نورپہنچے اورحضرت صاحب شروع سے ایام صحبت کی انقطاع تک ایک ہی نہج اور دستور سے آپ کی تسکین خاطر میں کوشش کرتے رہے ہرچندحضرت صاحب کی امداد آپ کووطن پہنچانے اور علماء اور امیرکے درمیان تصفیہ کرادینے کے لئے آپ کے دل میں مرکوز تھی لیکن چونکہ حضرت صاحب کی جبلت ہی آہستگی اور سستی پرواقع ہوئی تھی۔اس سبب سے اس کام میں تاخیرہوگئی…حضرت صاحب کی ظاہرکوشش آپ کے بارے میں ظاہرنہ ہوئی یہانتک کہ گرمی کے موسم میں آپ نے حضرت صاحب سے سردملک میں جانے کی اجازت طلب کی اور منگل تھانہ میں رہنے کی تجویز کی فقیرنے بھی عرض کی کہ پہاڑوں اور افغانستان میں یہ اندیشہ ہے کہ جمعیت نہ ہوگی ہزارہ کاگردنواح جوانگریزوں کاملک ہے وہاں کسی کی کسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں ہے وہاں آپ کارہنا خوب نظر آتا ہے۔ فقیرکی التماس کوآپ نے قبول فرمایا اور حضرت نے آپ کورخصت دی تاکہ حیات گل کے پاس ایک سال سکندرپورکے باغ میں چھوٹی مسجدمیں رہے اوران کوتلقین کرتے رہے اوروہاں ہی امیرکاخط آپ کوپہنچا کہ تم جانواور علماء ہم تمہارے ساتھ کچھ چھیڑچھاڑ نہیں کریں گے۔پہلے اپنے وطن کوتیارہوکرنوشہرہ میں آئے صبح کے وقت اپنے دوستوں سے فرمانے لگے کہ یہاں سے شاہجہان آبادیعنی دہلی میں جانے کاپختہ ارادہ ہے کوئی شخص ہم کونہ روکے اورآپ یکہ میں سوارہوکرہفتہ میں لاہورپہنچے اور لوگوں کوفائدہ پہنچایا آپ کی صحبت دلوں کوکھینچ لیتی تھی اور انکساراورعاجزی کے دروازے دل میں کھولتی تھی۔پھراس جگہ سے امرتسرمیں حافظ محمود کے پاس مسجد باغوالی میں مشرف ہوئے…پھرامرتسرسے یکہ میں سوارہوکرآٹھ روزمیں دہلی پہنچے اورمولوی صاحب سیدنذیرحسین. ..کے مدرسہ میں آئے اورمیں نے آپ کے ساتھ بخاری کاسننا شروع کیا…یہاں تک کہ 1272ء میں رمضان کی سولہویں تاریخ دہلی میں غدرمچ گیا اور رفتہ رفتہ تمام ہندوستان میں پھیل گیا۔فقیرعیدفطرکی نمازپڑھ کررخصت ہوا اور لاہوری دروازہ کے بارہ شاہدرہ تک فقیرکے رخصت کرنے کے لئے آپ تشریف لائے…آپ تو جب دہلی ویران ہوگئی اور لوگ آوارہ ہوگئے راہداری لے کر امرتسر تشریف لائے اور حافظ محمودکی تربیت کے لئے کمر باندھی…اس جگہ سے ایک سال کے بعدرخصت ہوکراپنے وطن کوچلےگئے۔‘‘(سوانح عمری مولوی عبداللہ غزنوی مرحوم صفحہ 2 تا 21 و 28 تا 29)
عبداللہ غزنوی ؒصاحب کی اولاد
آپ کے 12بیٹے اور15بیٹیاں تھیں ، جن میں سے بیشتر نے اہل حدیث کی طرف ہی اپنا میلان رکھا ، بیٹوں کے نام یہ ہیں: مولانا محمد، عبداللہ، احمد، عبد الجبار، عبدالواحد، عبدالرحمٰن، عبدالستار، عبدالقیوم، عبد العزیز، عبد الحیٔ،عبدالقدوس، عبدالرحیم۔
محمد بن عبداللہ غزنوی نے تفسیر جامع البیان پر عربی میں حاشیہ لکھا جو میاں فیروز الدین مرحوم (ساکن جموں) نے چھپوایا اور کتاب مفت تقسیم ہوئی۔ محمد بن عبداللہ غزنویؒ کے صاحبزادے مولانا عبد الاول اور عبدالغفورتھے۔عبدالاول نے مشکوٰۃ المصابیح اور ریاض الصالحین کا اردو ترجمہ کیا اور حواشی لکھے۔(ماخوذ از حضرت مولانا داؤد غزنویؒ از سید ابو بکر غزنوی صفحہ 233 تا 234)(ہندوستان میں اہلحدیث کی دینی خدمات صفحہ46،40،39 تالیف امام خان نوشہرویؒ)یہاں خاکسارایک بات لکھنے سے اپنےآپ کوروک نہیں پارہاکہ خدائے علیم و قدیرکی تقدیریں بھی عجیب ہوتی ہیں، اس کے اپنے مصالح ہوتے ہیں۔فرشتے بھی اس کی باتوں کے رازدارنہیں ہوتے،اس کے بھیدوں کی سارکسی کوبھی نہیں ہوپاتی۔اس مربی و صانع کے عجیب کام ہوتے ہیں کہ ’’ گرچہ بھاگیں جبرسے دیتاہے قسمت کے ثمار‘‘ایسے نیک اور مردصالح کے یہ جوان بیٹے،پسران نوح ثابت ہوئے۔اوران میں سے کسی کوبھی مامورزما نہ پرایمان لانے کی توفیق نہ ملی۔بلکہ بعضوں نے تو خداکے اس فرستادے اور مامور پرسب وشتم کرتےہوئے اپنی بدقسمتی کی تاریکیوں میں ایسا اضافہ کیا کہ خداکے اس فرستادے کی تکذیب وتکفیرسے مزیدبڑھے اور سب وشتم تک اترآئے اور یوں ایمان لانے کے نورسے محروم رہتے ہوئے اپنے آپ کوتاریکیوں اوراندھیروں کے ایسے گہرے سمندرمیں دھکیل دیا کہ آج ان کاکوئی نام لیوانہیں صرف کتابوں کی سیاہ تحریروں میں یہ نام دیکھے جاسکتے ہیں اور یہ لوگ اس آیت کے مصداق بن گئے اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰٮہَا ؕ وَمَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ(النور:41)انہوں نے اپنے آپ کواس نورسے محروم کرلیاجو اللّٰہ نور السموت والارض کی طرف سے آسمانوں سے اتراتھا۔اور شایدکہ یہ نوشتہ ٔ تقدیرہی تھاکہ جسے ان کے صالح باپ نے اپنے مرنے سے پہلے ہی کاتب تقدیرکی کتاب میں پڑھ لیاتھا۔چنانچہ حضرت اقدس بانئ سلسلہ احمدیہ جو حضرت عبداللہ غزنوی ؒ سے ملنے ان کے پاس تشریف لے جایاکرتے اور وہ خودبھی گاہے قادیان آجایاکرتے تھے۔آپ علیہ السلام اپنی ایک تحریرمیں فرماتے ہیں:’’ازانجملہ بعض مکاشفات مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم ہیں جو اس عاجز کے زمانہ ظہور سے پہلے گذر چکے ہیں۔چنانچہ ایک یہ ہے کہ آج کی تاریخ ۱۷؍جون ۱۸۹۱ءسے عرصہ چارماہ کاگذرا ہے کہ حافظ محمد یوسف صاحب جو ایک مرد صالح بے ریا متقی اور متبع سُنّت اور اوّل درجہ کے رفیق اور مخلص مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ہیں وہ قادیان میں اس عاجز کے پاس آئے اور باتوں کے سلسلہ میں بیان کیا کہ مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے کشف سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا مگر افسوس کہ میری اولاد اس سے محروم رہ گئی۔‘‘ (ازالہ اوہام ،روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 479)مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے ایک بیٹے عبدالواحدغزنوی دامادحضرت خلیفۃ المسیح الاول حکیم مولانانورالدینؓ تھے:حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفۃ المسیح الاول نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی شادی حضرت مولوی عبداللہ صاحب غزنویؒ کی بزرگی کی وجہ سے ان کے بیٹے مولوی عبدالواحد صاحب کے ساتھ کر دی۔ مگر افسوس کہ اپنے اَور بھائیوں کی طرح عبدالواحدصاحب بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے شدید دشمن رہے بلکہ ایک دفعہ جب یہ آپؓ سے ملاقات کرنے کے لیے قادیان آئے تو آپؓ کے اصرار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ملنے چلے گئے۔ جب حضرت اقدس مسجد مبارک میں ان سے باتیں کرنے لگے تو حضرت مولوی صاحبؓ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ حضرت اقدسؑ کی کسی بات کا جواب نہیں دیتے تھے اور جلدی جلدی زبان ہلاتے جاتے تھے چنانچہ جب ان سے بعد ملاقات دریافت فرمایا کہ تم اُس وقت کیا پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ سورہ کہف کی پہلی دس آیتیں پڑھ رہا تھا۔ حضرت اقدس نے جب یہ بات سُنی تو بہت مُسکرائے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی یہ بیٹی جو عبدالواحدصاحب کے ساتھ بیاہی گئی تھیں ان کانام امامہ تھا۔یہ بڑی لائق اور تعلیم یافتہ تھیں۔ اردو، فارسی اور پشتو سے خوب واقف تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ان صاحبزادی کی اولاد دو لڑکوں اور دو لڑکیوں پر مشتمل تھی۔ بڑے لڑکے کا نام محمد ابراہیم اور چھوٹے کا نام محمد اسماعیل تھا۔ لڑکیوں کے نام آمنہ اور خدیجہ تھے۔ یہ صاحبزادی حضرت امامہؓ 1897ء میں مرض دق میں مبتلا ہو کر قادیان میں فوت ہو گئی تھیں اور ان کا بڑا لڑکا محمد ابراہیم بھی اسی مرض سے 1910ء میں وفات پا گیا تھا۔(بحوالہ حیات نور صفحہ 78-79)اپنی اسی صاحبزادی سے متعلق ایک دفعہ آپ نے مولوی عبدالجبار صاحب غزنوی کو لکھا تھا کہ ’’اگر آپ سوچو تو عبدالواحد کو اپنی لڑکی امامہ رحمہا اللہ کا نکاح تمہارے والد ماجد کی محبت کا ہی ثمرہ تھا۔‘‘(حیات نور صفحہ 230)
حضرت صاحبزادی امامہ صاحبہؓ اپنے پیچھے دو لڑکے اور دو لڑکیاں چھوڑ کر 26/ اگست 1898ء کو بروز جمعۃ المبارک بعمر 26، 27 سال فوت ہوئی تھی۔ فانا للہ و انا الیہ راجعون۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے رضا بالقضا کا شاندار نمونہ دکھلایا۔ حضرت اقدس بھی شریک جنازہ تھے۔ گور پر پہنچ کر حضرت مولوی صاحب موصوف نے حاضرین کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’یہ ہے انسان کا خاتمہ جس کے لئے وہ حسد، بغض، کینہ، جھوٹ اور فریب کو اختیار کرتا ہے۔‘‘ (حیات نور صفحہ229 – 230)
مولانا عبدالواحد صاحب کی اولاد میں سے مولانا اسماعیل غزنوی اپنے حلقے میں معروف ہوئے، مولانا اسماعیل غزنوی سعودی عرب کے ملک عبدالعزیز بن آلِ سعود کے وزیر رہے ہیں،آپ کے واسطہ سے سعودی عرب کے اور نجد کے علماء اور موحدینِ ہند کے مابین خاصے تعلقات قائم ہوگئے۔ یہاں تک کہ اس مناسبت سے پھرسے لفظ وہابی موحدین ہند پر آ گیا، اب یہ لوگ لفظ وہابی سے زیادہ گریز نہ کرتے تھے۔ کیونکہ سعودی تعلقات سے ان کی ایک نسبت آلِ شیخ سے قائم ہوچکی تھی۔ اِس دور میں غزنوی حضرات جماعت میں ایک ممتاز گروہ بن کراُبھرےاور ایک دور تک جماعتِ اہلِ حدیث کی قیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔