بدرسوم ۔گلے کاطوق
وحید احمد رفیق
قسط نمبر 6
متفرق رسوم
تقریب آمین
ایک بچی کی تقریب آمین پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
ــ’’آج کا روز بھی جسے ہم بہت اہمیت دیتے ہیں اس وجہ سے کہ ہمارے بچے نے قرآن کریم جو خدا تعالیٰ کی الہامی کتاب ہے اور آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی خدا کے فضل سے مکمل کرلی اور اس موقع پر کوئی تصنع ،کوئی بناوٹ اور بے معنی خوشی نہیں ہے۔بلکہ بچے سے قرآن ِ کریم کا ایک حصہ سن لیا،اجتماعی دعاکرلی اور چائے کے ساتھ کچھ مٹھائی وغیرہ کھالی۔
اس تقریب کا نہایت اہم اور ضروری حصہ دعاہے نہ کہ تحفے تحائف دینا او ر لینا اور یہی ہم اپنے بچے کو بھی سکھانا چاہتے ہیں۔آج بھی یہاں جو مہمان آئے ہیں وہ بھی بغیر تحائف کے آئے ہیں ۔یہ رسم ہم میں داخل ہونا شروع ہوگئی تھی اس لیے گزشتہ اسی قسم کے ایک موقع پر میں نے جماعت کو تحائف دینے پر اس وجہ سے پابندی لگادی تھی تاکہ ہماری سوسائٹی پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑنے شروع ہوجائیں۔کیونکہ یہ دیکھا گیاہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی رسوم جو بظاہر نقصان دہ نہیں لگتیںاور لوگ کہتے ہیں کہ بچے کو ایک چھوٹاساتحفہ دینے میں کون سی قباحت ہے،لیکن آہستہ آہستہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیںاندھیروں کی طرف دھکیل دیتی ہیںاور یہی چیز پھر تصنع میں تبدیل ہوجاتی ہے اور خواہ کوئی اسے برداشت کرسکے یانہ،وہ اسے ضروری سمجھنے لگ جاتے ہیں۔چنانچہ میں نے اس رواج کو مزید فروغ دینے پر پابندی عائد کردی اور مجھے یہ جان کر نہایت خوشی ہوئی کہ اس چھوٹی سی معصوم بچی نے جسے گزشتہ موقع پر تحفے دئے گئے ،ہنستے مسکراتے ہوئے واپس لوٹادیے۔لہٰذا بجائے اس کے کہ ہم بچوں کو تحائف وغیرہ جیسی رسوم میں ملوث کردیتے ان کی توجہ دعائوں کی طرف مبذول کروادی تاکہ وہ تحائف کی نسبت دعا کو زیادہ اہمیت دیں اور اس کی اہمیت کو سمجھنے لگیں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر وہ بے صبری سے تحفوں کی امید میں ہی لگے رہتے ہیں۔‘‘
(مشعل راہ جلد سوم ارشادات حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ صفحہ 231 )
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعاکرنا
مولوی سید محمود شاہ صاحب نے جو سہارنپور سے تشریف لائے ہوئے ہیں ۔حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حضو رجب آپ نماز مغرب سے فارغ ہوکر شہ نشین پر اجلاس فرماہوئے۔ یہ عرض کیاکہ میں نے آج تحفہ گولڑویہ اور کشتی نوح کے بعض مقامات پڑھے ہیں۔ میں ایک امر جناب سے دریافت کرنا چاہتاہوں اگرچہ وہ فروعی ہے ،لیکن پوچھنا چاہتاہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم لوگ عموماً بعد نماز دعامانگتے ہیں، لیکن یہاںنوافل توخیر دعا بعدنماز نہیں مانگتے۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا
’’اصل یہ ہے کہ ہم دُعا مانگنے سے تو منع نہیں کرتے اورہم خود بھی دعامانگتے ہیںاور صلوٰۃ بجائے خود دعا ہی ہے۔بات یہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ ہندوستان میں یہ عام بدعت پھیلی ہوئی ہے کہ تعدیلِ ارکان پورے طور پر ملحوظ نہیں رکھتے اور ٹھونگے دار نماز پڑھتے ہیں ۔گویاوہ نماز ایک ٹیکس ہے جس کاادا کرنا ایک بوجھ ہے ۔اس لیے اس طریق سے ادا کیاجاتاہے، جس میں کراہت پائی جاتی ہے ۔حالانکہ نماز ایسی شے ہے کہ جس سے ایک ذوق ،اُنس اور سُرور بڑھتاہے۔مگر جس طریق پرنماز ادا کی جاتی ہے اس سے حضور ِ قلب نہیں ہوتااور بے ذوقی اور بے لُطفی پیدا ہوتی ہے ۔میںنے اپنی جماعت کویہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضور ی پیدا کرنے والی نماز نہ پڑھیں ،بلکہ حضور ِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سُرور اور ذوق حاصل ہو۔ عام طور پر یہ حالت ہورہی ہے کہ نماز کو ایسے طور سے پڑھتے ہیں کہ جس میں حضور ِ قلب کی کوشش نہیں کی جاتی، بلکہ جلدی جلدی اس کو ختم کیاجاتاہے اور خارج نماز میںبہت کچھ دعا کے لیے کرتے ہیںاور دیر تک دعا مانگتے رہتے ہیں۔حالانکہ نماز کا(جومومن کی معراج ہے) مقصود یہی ہے کہ اس میں دعاکی جاوے۔ اور اسی لیے اُمُّ الْاَدْعِیَہْ، اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ دعا مانگی جاتی ہے۔ انسان کبھی خداتعالیٰ کاقرب حاصل نہیں کرتا۔ جب تک کہ اقام الصلوٰۃ نہ کرے۔ اَقِیْمُوْاالصَّلوٰۃَ اس لیے فرمایا کہ نماز گری پڑتی ہے۔ مگر جو شخص اقامُ الصلوٰۃ کرتے ہیں تو وہ اس کی روحانی صورت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو پھر وہ دعا کی محویت میں ہوجاتے ہیں۔نماز ایک ایسا شربت ہے کہ جو ایک بار اُسے پی لے اُسے فرصت ہی نہیں ہوتی اور وہ فارغ ہی نہیں ہوسکتا ۔ہمیشہ اس سے سرشار اور مست رہتاہے ۔اس سے ایسی محویت ہوتی ہے کہ اگر ساری عمر میں ایک بار بھی اسے چکھتاہے تو پھر اس کا اثر نہیں جاتا۔
مومن کو ہمیشہ اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت دعائیں کرنی چاہئیں۔مگر نماز کے بعد جو دعائوں کا طریق اس ملک میں جاری ہے وہ عجیب ہے ۔بعض مساجد میں اتنی لمبی دعائیں کی جاتی ہیں کہ آدھ میل کاسفر ایک آدمی کرسکتاہے۔ میں نے اپنی جماعت کوبہت نصیحت کی ہے کہ اپنی نماز کوسنوار و۔یہ بھی دُعاہے۔
کیاوجہ ہے کہ بعض لوگ تیس تیس برس تک برابر نماز پڑھتے ہیں پھر کورے کے کورے ہی رہتے ہیں ۔ کوئی اثر روحانیت اور خشوع وخضوع کا ان میں پیدا نہیں ہوتا۔اس کا یہی سبب ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں ۔جس پر خداتعالیٰ لعنت بھیجتاہے۔ایسی نمازوں کے لیے ویل(ہلاکت۔ناقل) آیا ہے ۔دیکھو جس کے پاس اعلیٰ درجہ کا جوہر ہو تو کیا کوڑیوں اور پیسوںکے لیے اسے پھینک دینا چاہیے ، ہرگز نہیں۔ اول اس جوہر کی حفاظت کااہتمام کرے اور پھر پیسوں کو بھی سنبھالے ۔ ا س لئے نماز کو سنوار سنوار کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ345 تا 346 )
تسبیح کرنا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’تسبیح کرنے والے کااصل مقصود گنتی ہوتاہے اور وہ اس گنتی کوپوراکرنا چاہتاہے۔ اب تم خود سمجھ سکتے ہوکہ یاتو وہ گنتی پوری کرے اوریاتوجہ کرے اور یہ صاف بات ہے کہ گنتی کوپوری کرنے کی فکرکرنے والا سچی توجہ کرہی نہیںسکتا۔ انبیاء علیہم السلام اور کاملین لوگ جن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کاذوق ہوتاہے اور جو اللہ تعالیٰ کے عشق میں فناشدہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے گنتی نہیںکی اورنہ اس کی ضرورت سمجھی ۔اہل حق تو ہروقت خداتعالیٰ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ان کے لیے گنتی کاسوال اور خیال ہی بے ہودہ ہے۔کیاکوئی اپنے محبوب کانام گِن کر لیاکرتاہے؟اگر سچی محبت اللہ تعالیٰ سے ہواورپوری توجہ الی اللہ ہو تو مَیں نہیںسمجھ سکتا کہ پھرگنتی کاخیال پیداہی کیوں ہوگا۔وہ تو اسی کے ذکر کواپنی رُوح کی غذا سمجھے گا…لیکن اگر محض گنتی مقصود ہوگی تو وہ اسے ایک بیگار سمجھ کر پورا کرناچاہے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 13)
اس زمانہ میں لوگ عادت اور رسم کے پابند ہیں
سائل الحمد شریف بے شک دعاہے مگر جن کو عربی کاعلم نہیں۔اُن کوتو دُعا مانگنی چاہیے۔
حضرت اقدسہم نے اپنی جماعت کوکہاہواہے کہ طوطے کی طرح مت پڑھو۔سوائے قرآن شریف کے جوربِّ جلیل کاکلام ہے اور سوائے ادعیہ ماثورہ کے جو نبی کریم ﷺ کامعمول تھیں ۔نماز بابرکت نہ ہوگی۔ جب تک اپنی زبان میں اپنے مطالب بیان نہ کرو۔اس لیے ہر شخص کوجوعربی زبان نہیں جانتا،ضروری ہے کہ اپنی زبان میں اپنی دعائوں کو پیش کرے او ر رکوع میں، سجود میں، مسنون تسبیحوںکے بعد اپنی حاجات کو عرض کرے۔ ایسا ہی التحیات میں اور قیام اور جلسہ میں ۔ اس لیے میری جماعت کے لوگ اس تعلیم کے موافق نماز کے اندر اپنی زبان میں دعائیں کرلیتے ہیںاور ہم بھی کرلیتے ہیں۔اگرچہ ہمیں تو عربی اور پنجابی یکساں ہی ہیں ۔ مگر مادری زبان کے ساتھ انسان کو ایک ذوق ہوتاہے ۔اس لیے اپنی زبان میں نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ اپنے مطالب اور مقاصد کو بارگاہ ربّ العزّت میں عرض کرناچاہیے۔ میں نے بارہا سمجھایا ہے کہ نماز کاتعہد کرو۔ جس سے حضو ر اور ذوق پیداہو۔ فریضہ تو جماعت کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔ باقی نوافل اور سُنن کو جیسا چاہو طُول دو۔ اور چاہیے کہ اس میںگریہ وبکاہو،تاکہ وہ حالت پیدا ہوجاوے جونماز کااصل مطلب ہے ۔ نماز ایسی شے ہے کہ سیّئات کو دُور کردیتی ہے۔جیسے فرمایااِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئاَ تِ (ھود115:) نماز کُل بدیوںکو دُور کردیتی ہے ۔حسنات سے مراد نماز ہے ،مگر آج کل یہ حالت ہورہی ہے کہ عام طور پر نماز ی کو مکاّر سمجھا جاتاہے ۔کیونکہ عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں ۔یہ اسی قسم کی ہے جس پر خدا نے واویلا کیاہے۔کیونکہ اس کا کوئی نیک اثر اور نیک نتیجہ مترتب نہیں ہوتا۔نِرے الفاظ کی بحث میں پسند نہیں کرتا۔ آخرمرکر خداتعالیٰ کے حضور جاناہے۔دیکھو ایک مریض جو طبیب کے پاس جاتاہے اور اس کا نسخہ استعمال کرتا ہے ۔اگر دس بیس دن تک اس سے کوئی فائدہ نہ ہو تو وہ سمجھتاہے کہ تشخیص یاعلاج میں کوئی غلطی ہے ۔ پھر یہ کیا اندھیر ہے کہ سالہا سال سے نمازیں پڑھتے ہیں، اور اُس کا کوئی اثر محسوس اور مشہود نہیں ہوتا۔میرا تو یہ مذہب ہے کہ اگر دس دن بھی نماز کو سنوار کر پڑھیں تو تنویر قلب ہوجاتی ہے۔مگر یہاں توپچاس پچاس برس تک نماز پڑھنے والے دیکھے گئے ہیں کہ بدستور رُو بدنیا اور سفلی زندگی میں نگونسار ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ وہ نماز وں میں کیا پڑھتے ہیں اور استغفار کیاچیز ہے۔اس کے معنوں پر بھی انہیں اطلاع نہیں ہے۔طبیعتیں دو قسم کی ہیں۔ایک وہ جو عادت پسند ہوتی ہیں ۔جیسے اگر ہندو کاکسی مسلمان کے ساتھ کپڑا بھی چُھو جائے تو وہ اپنا کھانا پھینک دیتاہے۔ حالانکہ اس کھانے میں مسلمان کا کوئی اثر سرایت نہیں کرگیا۔زیادہ تراس زمانہ میں لوگوں کایہی حال ہورہاہے کہ عادت اور رسم کے پابند ہیںاور حقیقت سے واقف اور آشنا نہیں ہیں۔جو شخص دل میں یہ خیال کرے کہ یہ بدعت ہے کہ نماز کے پیچھے دعانہیںمانگتے بلکہ نمازوںمیں دعائیں کرتے ہیں۔ یہ بدعت نہیں۔پیغمبر خدا ﷺ کے زمانہ میں آنحضرت ﷺ نے ادعیہ عربی میں سکھا ئی تھیںجو اُن لوگوںکی اپنی مادری زبان تھی اسی لیے ان کی ترقیات جلدی ہوئیں۔ لیکن جب دوسرے ممالک میں اسلام پھیلاتو وہ ترقی نہ رہی۔ اس کی یہی وجہ تھی کہ اعمال رسم وعادت کے طور پر رہ گئے۔ان کے نیچے جو حقیقت اور مغز تھاوہ نِکل گیا۔اب دیکھ لو مثلاً ایک افغان نماز تو پڑھتاہے ،لیکن وہ اثر نماز سے بالکل بے خبر ہے۔یاد رکھو رسم اور چیز ہے اور صلوٰۃ او ر چیز ۔صلوٰۃ ایسی چیز ہے کہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے قُرب کاکوئی قریب ذریعہ نہیں۔یہ قرب کی کنجی ہے ۔ اسی سے کشوف ہوتے ہیں۔ اسی سے الہامات اور مکالمات ہوتے ہیں۔یہ دعائوں کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔لیکن اگر کوئی اس کو اچھی طرح سمجھ کر ادانہیں کرتا۔تو وہ رسم اور عادت کاپابند ہے اور اس سے پیارکرتاہے ۔جیسے ہندو گنگا سے پیارکرتے ہیں۔ہم دعائوں سے انکار نہیںکرتے۔ بلکہ ہمارا تو سب سے بڑھ کر دعائوں کی قبولیت پر ایمان ہے ۔ جبکہ خدا تعالیٰ نے اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن 61:) فرمایاہے۔ہاں یہ سچ ہے کہ خداتعالیٰ نے نماز کے بعد دعاکرنافرض نہیںٹھہرایا۔اور رسول اللہ ﷺ سے بھی التزامی طور پرمسنون نہیں ہے۔آپ سے التزام ثابت نہیںہے۔اگر التزام ہوتا اورپھر کوئی ترک کرتا تو یہ معصیت ہوتی۔ تقاضائے وقت پر آپ نے خارج نماز میں بھی دعاکرلی اور ہمارا تویہ ایمان ہے کہ آپ ﷺکاسارا ہی وقت دعائوں میں گزرتاتھا۔لیکن نماز خاص خزینہ دعائوں کاہے جومومن کو دیاگیاہے۔اس لیے اس کافرض ہے کہ جب تک اس کو درست نہ کرے اور اس کی طرف توجہ نہ کرے۔کیونکہ جب نفل سے فرض جاتارہے توفرض کو مقدم کرناچاہیے۔اگر کوئی شخص ذوق اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھتاہے توپھر خارج نماز بے شک دعائیں کرے ہم منع نہیں کرتے۔ہم تقدیم نماز کی چاہتے ہیںاور یہی ہماری غرض ہے۔مگر لوگ آج کل نماز کی قدر نہیں کرتے اوریہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ سے بہت بُعد ہوگیا۔ مومن کے لیے نماز معراج ہے اور وہ اس سے ہی اطمینان ِ قلب پاتاہے ،کیونکہ نماز میںاللہ تعالیٰ کی حمد اوراپنی عبودیت کااقرار ، استغفار، رسول اللہ ﷺ پردرود ،غرض وہ سب امور جو روحانی ترقی کے لیے ضروری ہیں ،موجود ہیں۔ہمارے دل میں اس کے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔جن کو الفاظ پورے طور پر ادانہیں کرسکتے ۔بعض سمجھ لیتے ہیں اور بعض رہ جاتے ہیں۔ مگر ہمارا کام یہ ہے کہ ہم تھکتے نہیں۔کہتے جاتے ہیں۔ جو سعید ہوتے ہیں اور جن کو فراست دی گئی ہے وہ سمجھ لیتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ346 تا 348 )
ہرنماز کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعاکرناسنّت نبویﷺ سے ثابت نہیں
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں
’’…اس وقت امر واقعہ یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے اندر ہر قوم میں جس طرح نئی چیزیں نشوونما پاجاتی ہیں ۔جڑی بوٹیاں اور گھاس اُگ جاتی ہیں۔اسی طرح اُمتوں کے ساتھ بھی ہوتاہے ۔ رسم ورواج اُمتوں میں جڑپکڑجاتے ہیںاور بعد میں سمجھاجاتاہے کہ گویا عبادتوںکاحصّہ ہے۔ جماعت احمدیہ کا مسلک یہ ہے کہ دین حضور اکرم ﷺ پر کامل ہواتھا۔ اس لیے حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جو رسم ورواج عبادت کے تھے اُن پر ایک ذرّے کا بھی اضافہ نہیں کرنا۔میں اور مثالیں دیتا ہوں مثلاً ختم قرآن، مثلاً گیارہویں شریف، مثلاً رسول کریم ﷺ کے نام پر کھڑے ہوجانا،ان تمام باتوں میں سے ایک بھی آنحضور ﷺکے زمانے میں یا آپ کے خلفاءؓ اور صحابہ ؓ کے زمانے میں ثابت نہیں۔‘‘
سوال کرنے والی خاتون نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جُھک رہے ہیں بلکہ احترام اور آدمیت ہے۔
حضور نے اپنے استدلال کو جاری رکھا۔ فرمایا ’’کیا حضور اکرم ﷺ کا احترام آج کے مسلمانوں کو زیادہ ہے؟اُس زمانے کے مسلمانوںکوکم تھا؟یہ سوچئے، سُنئے مَیں کہتاہوںکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ
(ابودائود ،کتاب السنۃ،باب فی لزوم السنۃ)
تم پرمیری سنّت اورمیرے خلفاء راشدین کی سنّت فرض ہے۔
اب ایک بھی مثال ساری اسلام کی خلافت کی ساری تاریخ سے نہیں ملتی کہ آنحضور ﷺ کی عدم موجودگی میں صحابہؓ یاخلفاء حضور ﷺ کانام لینے پر کھڑے ہوا کرتے تھے۔اس لیے ہمارے نزدیک تو حضور ﷺ کاارشادہی قابلِ تعظیم اور قابلِ اطاعت ہے۔ جس کی عزت کرنی ہے ۔اُس کی عدمِ اطاعت کرکے تو عزت نہیں کی جاسکتی اور صحابہ نے اور خلفاء نے اپنے فعل سے ثابت کیا کہ یہ عزت کاطریق نہیں ہے۔یہ سنت کے خلاف ہے ۔ اس لیے ہم تو اسلام کے اُسی حصے پر کاربند رہیں گے اور اُسی کوکافی سمجھیں گے جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ سے ثابت ہے۔‘‘
(مجالس عرفان’’مجلس عرفان27 فروری1983 ء ‘‘شائع کردہ لجنہ اماء اللہ کراچی صفحہ28 تا30 )
ہاتھ اُٹھا کردعاکرنا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ایک مرتبہ سوال کیا گیاکہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا کس حد تک جائز ہے خاص طور پر نماز کے بعد؟
فرمایا’’آنحضرت ﷺ نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعانہیں کی ۔اس لئے یہ رسول کریم ﷺ کی کوئی سنت نہیں تھی سوائے اس کے کہ کوئی دعا کے لیے کہے کہ ہاتھ اٹھا لیں ورنہ نماز کے بعد استغفار کرتے تھے۔ سبحان اللہ وغیرہ پڑھ کر پھر گھر چلے جایا کرتے تھے۔ہاتھ اٹھانے کی رسم بعد کی بنی ہوئی ہے۔‘‘
(مجلس عرفان 14 جنوری 2000 ء روزنامہ الفضل 30 جولائی 2002ء)
سالگرہ منانا
ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا گیاحضور نے فرمایا تھاکہ سالگرہ نہیں منانی چاہیے اورمومن کو لغویات سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ لیکن اس تقریب کو اگر اس نیت سے دوسرے پر بوجھ ڈالے بغیر صرف بچے کی خوشی اور آپس میں محبت بڑھانے کے لیے منایاجائے توکیاپھر بھی یہ لغویات میں آئے گی؟
حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاــ’’یہ مختلف بہانے ہیں جونفس پیش کرتارہتاہے۔قرآن کریم میں آتا ہے نفس تمہارے لیے چیزیں خوبصورت کرکے دکھاتاہے اور یہ اس کی ایک مثال ہے۔جب ایک رسم کو بطور رسم کے ترک کرنا ہو ۔تو پھر انفرادی بحث نہیں رہا کرتی کہ کسی کی کیسی نیت ہے اور کیاہے۔شراب جب منع ہوئی تو اس لیے منع تھی کہ اس کے نتیجے میں انسان بہک جاتا تھااور صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں انسان بعض نمازوں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا لیکن آج کوئی یہ عذر تو نہیں کرسکتا کہ میں تو بہت تھوڑی پیوں گا اور بالکل نہیں بہکوں گا۔اس لیے مجھے اس کانقصان نہیں ہے۔بلکہ قرآن کریم فرماتاہے اس کے فوائد بھی ہیں ۔تو میں کیوں نہ صرف فوائد سے استفادہ کروں اور نقصان سے بچارہوں ۔تو یہ محض نفس کے بہانے ہیں ۔جب ایک عمومی حکم جاری کیاجاتا ہے تو سب کو اس سے رکنا چاہیے۔ورنہ یہ رسمیں پھر سراُٹھائیں گی اور آگے پھیل جائیں گی۔پھر ان کے بدپہلو نمایاں ہوتے جائیں گے۔میں نے جوبات سمجھائی تھی وہ پتا نہیں کیوں ان کو سمجھ نہیں آرہی ۔میں نے کہاتھاکہ آنحضرت ﷺ کی پیدائش کا دن نہ آپ نے منایا نہ صحابہ نے نہ خلفاء کی پیدائش کا دن منایاگیا۔آپ شاید یہ عذر کریں کہ اُس زمانے میں یہ باتیں تھیں نہیں ۔پھر یہ زمانہ آگیا۔اس میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بطور حَکَم کے تشریف لائے ۔سنت کو اپنے عمل میں زندہ کرکے دکھایا۔ اب تو وہ زمانہ ہے جبکہ یہ رسمیں منائی جارہی ہیں۔آپ کی کیوں برتھ ڈے نہیں منائی گئی۔کیوں خلفاء میں سے کسی کی برتھ ڈے نہیں منائی گئی۔مجھے تو یاد بھی نہیں ہوتا کہ آج برتھ ڈے ہے ،کبھی کسی کا فون آجائے اتفاق سے، تو پتا چلتاہے۔ تو یہ فضول باتیں ہیں۔خوشیوں کے اور بھی طریقے ہیں۔آمین منانے کا کتنا اچھاطریق رائج ہوا ہے۔ یہ سنت حسنہ ہے جو دین میں داخل ہوئی ہے ۔ اس سنت حسنہ سے فائدہ اٹھائیں ۔بچوں میں قرآن کریم کا شوق ہوگا۔اور وہ جب سج دھج کے تیار ہوکے قرآن پڑھنے آئیں گے ،پھر آپ دعوت کریں تو آپ کے سارے شوق اچھی طرح پورے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے فضول باتوں کے لیے فضول بہانے نہ بنائیں۔ ‘‘
(مجلس عرفان 6 مئی 1994 ء روزنامہ الفضل 5 اکتوبر 2002 ء )
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویریں بنانے کو بطور پیشہ اپنانا
’’… بایں ہمہ مَیں ہرگزپسند نہیں کرتاکہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنالیں۔کیونکہ اسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیداہوجاتی ہیںاور شرک تک پہنچتی ہیںاس لیے مَیںاپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتاہوںکہ جہاںتک اُن کے لیے ممکن ہو ایسے کاموں سے دستکش رہیں۔ بعض صاحبوںکے مَیںنے کارڈدیکھے ہیںاور اُن کی پُشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ مَیں ایسی اشاعت کاسخت مخالف ہوںاورمَیںنہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ایک صحیح اور مفید غرض کے لیے کام کرنا اَور اَمر ہے اور ہندوئوںکی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریںجابجادرودیوار پر نصب کرتے ہیںیہ اَور بات ہے۔ہمیشہ دیکھاگیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک (یعنی شرک کی طرف لے جانے والے۔ناقل) ہو جاتے ہیںاوربڑی بڑی خرابیاںان سے پیدا ہوتی ہیں۔ جیسا کہ ہندوئوں اور نصارٰی میں پیدا ہوگئیں اور مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ جوشخص میرے نصائح کو عظمت اور عزّت کی نظر سے دیکھتا ہے اور میرا سچا پَیرو ہے وہ اِس حُکم کے بعد ایسے کاموں سے دستکش رہے گاورنہ وہ میری ہدایتوںکے برخلاف اپنے تئیںچلاتاہے اور شریعت کی راہ میں گستاخی سے قدم رکھتاہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصّہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 365 تا 367)
تصویر بنانا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰنے ایک مرتبہ ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصویر سے متعلق سوال پر درج ذیل جواب ارشاد فرمایا ’’جہاں تک مسئلہ کاتعلق ہے وہ تو واضح ہے کہ وہ تصویر جو حرام اور منع ہے وہ شرک والی تصویر یں ہیں ۔ورنہ تو حضرت سلیمان کے حالات سے پتہ چلتاہے کہ تصویریں بنائی جاتی تھیں۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کی تصویر ایک لپٹے ہوئے کپڑے میں دکھائی گئی اور جبرئیل نے کھول کر دکھایاکہ یہ وہ بچی ہے جو آپ کے لئے مقدر ہے۔تو اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایاکہ اگر اللہ کا یہی منشاء ہے تو وہ ضرور میرے عقد میں آئے گی۔چنانچہ ایسے ہی ہوا۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑی تفصیل سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ آئندہ خطرے پیدا ہوسکتے ہیں کہ ان تصویروں کاناجائز استعمال ہو ۔ آپ نے فرمایاکہ بعض لوگ کوئی کارڈ شائع کرتے ہیں ۔ اس زمانہ میں بھی یہی رواج ہوگیاتھا۔کارڈ کے پیچھے ایک میری تصویر لگا دیتے ہیں۔جو مجھے بالکل پسند نہیں ۔اس کو عام اشتہاری رنگ دینا ناجائز ہے اور ضرورت سے زیادہ عزت کامقام دے کر گھروں میں ایسی جگہ لٹکانا جس سے تعظیم کے غلط خیالات پیدا ہوں وہ بھی پسند نہیں کرتا ۔ ایک موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر یہ خطرات ہیں جن کا بعض لوگوں نے اظہار کیاہوگا۔توپھر تو بہتر ہے کہ اس کو صندوق میں بند کرکے رکھ دو ۔اور اگر کوئی آئے اورضرورت مند ہو کہ میرے چہرے کو دیکھے اور شناخت کرے تو اس کو دکھادیاکرو۔پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھانے کا اصل مدعا یہ ہے کہ آپ کو دیکھنے والی آنکھیں جو پہچان رکھتی ہیں ۔جن میں ایک شناخت کا مادہ ہے وقتاً فوقتاً دیکھ لیا کریں اور جہاں دین کی تعلیم کا تعلق ہے وہاں کبھی کبھی آپ کا چہرہ سامنے نظر آجائے تو مضمون کے ساتھ مطابقت کھاتاہے۔لیکن یہ مطلب نہیں کہ اسے مستقلاً ایک نعوذ باللّٰہ من ذالک ایک بت کی طرح چسپاں کردیاجائے ۔ چنانچہ بہت سی ویڈیوز ایسی مجھے ملیں جن میں جماعتوں نے مسلسل تصویر سامنے رکھی ہوئی تھی ۔ بلکہ بعض جماعتوں نے اپنی طرف سے اس میں فنی ایجادیں کرکے دکھایا ہے کہ تصویر آگے بڑھ رہی ہے ،پیچھے ہٹ رہی ہے ۔ان کو میں نے بالکل Reject کردیاایسی تصویروں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔پس مفہوم کو سمجھیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کھل کے روشنی ڈالی ہے۔اس کے مضمون کو ذہن نشین کرکے اس سے متصادم ہوئے بغیر جو دلچسپیاں پیدا کرسکتے ہوں بے شک کریں ۔ لیکن تصویر کو اس لیے پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ خیالات کسی غلط طرف مائل ہوں ۔
اس تصویر میں اور عام تصویر میں فرق ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصویر کے ساتھ جو احترام کا گہرا تعلق ہے وہ آپ کی ذات سے منسلک ہے جو تصویر کی طر ف منتقل ہوجاتا ہے اور اس ذات کے احترام کی وجہ سے احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ آئے گئے کی تصویریں روز مرہ دکھائی جاتی ہیں ۔کیا فرق پڑتا ہے۔کسی کے دماغ کے گوشے میں بھی ذہن نہیں جاسکتا کہ اس کے ساتھ انسان سے بالا احترام وابستہ ہونے کا خطرہ ہے ۔ پس جماعت کو ہرممکن احتیاط اس میں کرنی ہوگی اور کرنی چاہیے ۔ جذبات کی بات تو ٹھیک ہے ۔بڑا اچھا لگتاہے کہ تصویریں دیکھی جائیں ۔جو پیارا وجود ہے اس کا چہرہ سامنے آئے۔مگر جذبات پر عقل کو بہرحال فوقیت حاصل ہے اور مذہب کو عقل پر بھی فوقیت حاصل ہے ۔اس لیے مذہبی تقاضوں کو ہم کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کرسکتے۔‘‘
(مجلس عرفان 11 مئی1994 ء روزنامہ الفضل 16 اپریل 2003ء)
تعویذگنڈے کروانا
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مجلس سوال وجواب میں اس پر گفتگو فرمائی،جو درج ذیل ہے’’ہزار دفعہ یہ گفتگو جماعت میں مختلف وقتوں میں علماء کے ذریعہ بھی اور خلفاء کے ذریعہ بھی سامنے آچکی ہے ۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریروں میں بھی ہے ۔یہ اس طرح بات کررہی ہیں جس طرح نئی بات ہوتی ہے۔ تعویذ گنڈہ وغیرہ کو دستور زندگی بنالینا حد سے زیادہ جہالت ہے اورتمام دینی معاشرہ کی روح اس سے تباہ ہوجائے گی ۔ اصل دعاہے۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تیرہ سوسال کی جو رسوم کے خلاف ایک عظیم جہاد فرمایا اور دین حق کو اس کی اصل صورت پہ بحال کرنے کے لیے بہت بڑی جدوجہد فرمائی ہے ۔ یہی دراصل حقیقی مجددیت ہے ۔ اسی کانام مہدویت ہے اور اس کے نتیجے میں اب جماعت جو اُبھر کر اور نِکھر کر دنیا کے سامنے آئی ہے اس کا مرکزی نقطہ دعا ہے۔ اس کی ساری زندگی اس کے تمام اعمال اور تمام کامیابیاں اس کی تمام کاوشیں اس کے غم وفکر کے علاج دعامیں ہیں۔اور دعا کو چھوڑ کرتعویذ گنڈے کی طرف جانا حد سے زیادہ جہالت ہے ۔ یہ تاریک زمانے کی پیداوار باتیں ہیں۔اور ایسی قوموں کو دعا سے ہٹاکرجادومنتر وغیرہ کی طرف منتقل کردیتی ہیں۔یہ کَہہ دینا کہ رسول اکرم ﷺ نے دم کی اجازت دی۔یہ ایک بالکل الگ بات ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایسا ہرگز یہ کوئی معاشرہ نہیں تھا۔دعاہی کا معاشرہ تھا۔ اور جس دم کی بات کرتے ہیں اس میں سورۃ فاتحہ بطور دعا استعمال ہوتی ہے۔اور وہ اب بھی اسی طرح جائز ہے۔فاتحہ کو دعاکے طور پر آپ چاہے پانی پر پڑھ کے دم کریں اورنفسیاتی لحاظ سے اس کو برکت کے لیے دے دیں ۔اس حد تک تو کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن تعویذ گنڈے کی جویہ بات کررہی ہیں یا کررہے ہیں جو بھی لکھنے والا ۔یہ تو بہت خطرناک بیہودہ رسم ہے۔جو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جانے والی ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے آنے کے مقاصد کے بالکل برعکس تحریک ہے۔بالکل برعکس جماعت کارُخ موڑنے والی بات ہے۔ ‘‘
(مجلس عرفان 4 نومبر1994 ءروزنامہ الفضل 4 دسمبر 2002 ء )
27 رجب اور 15 شعبان کی راتوں میں عبادات
سوال ہوا کہ ان راتوں میں سنت رسول سے کیا ثابت ہے۔ ان دونوں راتوں میں رسول کریم ﷺ معمول سے زیادہ عبادت کرتے تھے یاعام معمول کے مطابق؟
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’رسول کریم ﷺ کی عبادت کاجہاں جہاں ذکر ملتاہے میں نے بڑے غور سے دیکھاہے اس میں کسی خاص دن کی عبادت کاذکر نہیں ۔ بلکہ بعض مرتبہ پوری پوری رات آپ اٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے اور آپ کے پائوں بھی متورّم ہوجایاکرتے تھے۔یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے۔آنحضرت ﷺ کی سنت پر اگر عمل کرناہوتو پورا نہ بھی کھڑاہوسکیں تو راتوں کاکچھ حصہ کھڑا ہونا ضروری ہے۔‘‘
( روزنامہ الفضل 20 جنوری 2001 ء )
(باقی آئندہ)