قلب کو میرے نور و ضیا بخش دے
رات دن ذکر کی بس ادا بخش دے
مجھ کو توفیقِ حمدو ثنا بخش دے
تُو تو مالک ہے ارض و سما کا خدا
میرے افکار کو تُو جلا بخش دے
سر نگوں میں رہوں تیرے در پر سدا
اپنے گھر کا مجھے آسرا بخش دے
آگہی کی کروں منزلیں طے خدا
قلب کو میرے نور و ضیا بخش دے
جتنا تُو نے دیا اُس پہ راضی رہوں
شکر کی مجھ کو مولا ادا بخش دے
تجھ سے مانگوں سبھی کا بھلا میں خدا
میرے ہونٹوں کو حرفِ دعا بخش دے
عالمِ بیکسی کی جو تصویر ہیں
سب مریضوں کو یاربّ شفا بخش دے
ڈھانپ لے میرے عیبوں کو جو اے خدا
اپنی رحمت کی بس وہ ردا بخش دے
دور کر دے، مرے غم جو مجھ سے خدا
ایک ایسا تُو دستِ دعا بخش دے
کر کے نیچی نگہ میں چلوں ہر گھڑی
میری آنکھوں کو شرم و حیا بخش دے
سب رہیں امن سے دنیا میں یا خدا
سارے عالم کو ایسی فضا بخش دے
ایک پل بھی کرے بے وفائی نہ وہ
دوست ایسا کوئی با وفا بخش دے
تیری رحمت کے سائے میں بشریٰ رہے
اپنی شفقت کی مجھ کو نوا بخش دے
(بشریٰ سعید عاطف ۔ مالٹا)