اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو سلام کا طریق اپنانا چاہئے
ہر معاشرے میں ملنے جلنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں، اچھی طرح ملنے والے کو اچھے اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے، اچھے اخلاق والے جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر چہرے پر شگفتگی اور مسکراہٹ لاتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نہ پہچانتے ہوں تب بھی چہرے پر نرمی ہوتی ہے۔ اور جو اچھی طرح سے نہ ملے عموماً اس کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ بڑا بداخلاق ہے، کسی کام کے سلسلے میں اس کو ملنے گیا اور بڑی بداخلاقی سے پیش آیا، بڑے بیہودہ اخلاق کا مالک ہے، کام نہیں کرنا تھا نہ کرتا لیکن کم از کم مل تو اخلاق سے لیتا وغیرہ، اس قسم کی باتیں ہوتی ہیں۔ تو اس طرح کی باتیں، اچھے اخلاق سے نہ پیش آنے والے کے بارے میں دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ میں نے کہا۔ پھر مختلف معاشروں کے ایک دوسرے سے ملتے وقت مختلف حرکات کے ذریعے سے اظہار کے مختلف طریقے ہیں۔ کوئی سر جھکا کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی رکوع کی پوزیشن میں جا کے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، کوئی دونوں ہاتھ جوڑ کر، اپنے چہرے تک لے جا کر ملنے کی خوشی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر حال احوال پوچھ کے لوگ مصافحہ بھی کرتے ہیں۔ لیکن اسلام نے جو ہمیں طریق سکھایا ہے، جو مومنین کی جماعت کو، اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو اپنے اندر رائج کرنا چاہئے وہ ہے کہ سلام کرو۔ یعنی ایک دوسرے پر سلامتی کی دعا بھیجو اور پھر یہ بھی تفصیل سے بتایا کہ سلامتی کی دعا کس طرح بھیجو اور پھر دوسرا بھی جس کو سلام کیا جائے، اسی طرح کم از کم انہیں الفاظ میں جواب دے۔ بلکہ اگر بہتر الفاظ میں گنجائش ہو جواب دینے کی تو بہتر جواب دے۔ اس طرح جب تم ایک دوسرے کو سلام بھیجو گے تو ایک د وسرے کے لئے کیونکہ نیک جذبات سے دعا کر رہے ہو گے اس لئے محبت اور پیار کی فضا بھی تمہارے اندر پید اہو گی۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍ ستمبر ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۷؍ستمبر ۲۰۰۴ء)