خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا
ہمیشہ یہ امر واقع ہوتا ہے کہ جو خدا کے خاص حبیب اور وفادار بندے ہیں۔ اُن کا صدق خدا کے ساتھ اُس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دنیا دار اندھے اُس کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس لئے ہر ایک سجادہ نشینوں اور مولویوں میں سے اُن کے مقابلہ کے لئے اُٹھتا ہے اور وہ مقابلہ اس سے نہیں بلکہ خدا سے ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعہ سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے، ایسے شخص کو چند جاہل اور بزدل اور خام اور ناتمام اور بے وفا زاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے… خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب اُس کے مُرسَلوں کے مقابل پر ایک اَور فریق کھڑا ہو جاتا ہے تو گو وہ اپنے خیال میں کیسے ہی اپنے تئیں نیک قرار دیں اُنہیں کو خدا تعالیٰ تباہ کرتا ہے اور اُنہیں کی ہلاکت کا وقت آ جاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جس غرض کے لئے اپنے کسی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے اُس کو ضائع کرے کیونکہ اگر ایسا کرے تو پھر وہ خود اپنی غرض کا دشمن ہو گا اور پھر زمین پر اُس کی کون عبادت کرے گا۔ دنیا کثرت کو دیکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ یہ فریق بہت بڑا ہے، سو یہ اچھا ہے۔ اور نادان خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ ہزاروں لاکھوں مساجد میں جمع ہوتے ہیں کیا یہ بُرے ہیں مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتا وہ دلوں کو دیکھتا ہے۔
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۷۱-۷۲)
خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے۔ شریر انسان کہتا ہے کہ مَیں اپنے مکروں اور چالاکیوں سے غالب آجاؤں گا اور مَیں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹا دوں گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اسے کہتی ہے کہ اے شریر میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصوبہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا کیا تُو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے۔
(کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلد ۷صفحہ ۶۷)