رسول کریمﷺ کی مزاح کی حس
ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں درشتی اور سختی نہ تھی۔ آپؐ اپنے اصحابؓ اور اہل و عیال کے ساتھ لطف وکرم، محبت اور نرمی کا سلوک کرتے تھے۔ آپؐ اپنے ملنے والوں سے خندہ پیشانی سے پیش آتے، ان سے مسکرا کر بات چیت کرتے، ان کی ظریفانہ مجلسوں میں شریک ہوتے اور ان سے لطیف مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں آپؐ کے اس وصف کو یوں بیان فرماتا ہے کہفَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۔ (آل عمران :۱۶۰)پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو ان کے لئے نرم ہو گیا۔ اور اگر تُو تندخو (اور) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گِرد سے دُور بھاگ جاتے۔
ہمارے پیارے نبی کریمﷺ کی حس مزاح بہت لطیف تھی۔ آپؐ صاف ستھرا اور سچا مذاق فرماتے تھے۔آپؐ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچے مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔(الجامع الکبیر للسیوطی صفحہ ۱۴۲)
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاح اور بے تکلفی کی باتیں کرتے تھے۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی جلد اول صفحہ ۳۳۱ بیروت)
ایک دفعہ آپؐ نے پیار سے حضرت انسؓ کو یوں پکارا کہ’’اے دو کانوں والے‘‘ذرا ادھر تو آنا۔(شمائل الترمذی باب فی صفۃ مزاح رسول اللہؐ)
ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے آپؐ سے سواری کےلیے اونٹ مانگا تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس تو اونٹ کا بچہ ہے۔ اس صحابیؓ نے عرض کیا، حضورﷺ میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ فرمایا کہ اونٹ بھی تو اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ پھر آپؐ نے ایک اونٹ اس کے حوالے کر دیا۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المزاح ۴۹۹۸)
حضرت سفینہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپنا سامان مجھے پکڑا دیتا یہاں تک کہ میرے پاس بہت سا سامان جمع ہو گیا۔ نبی کریمﷺ نے یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے فرمایا کہ تم واقعی سفینہ ہو جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے۔ (عربی میں سفینہ کشتی کو کہتے ہیں۔)(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۲۲۱)
حضرت محمود بن ربیعؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے، ہمارے کنویں سے پانی پیا اور بے تکلفی سے میرے ساتھ کھیلتے ہوئے میرے اوپر پانی پھینکا۔(بخاری، کتاب العلم، باب متی یصح سماع الصغیر)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی ایک صفت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر خوش ہوتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا (يونس:۵۹)تُو کہہ دے کہ (ىہ) محض اللہ کے فضل اور اس کى رحمت سے ہے پس اس پر چاہئے کہ وہ بہت خوش ہوں۔
ہمارے پیارے نبی کریمﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بےحد مہربان تھے، ان کے ساتھ از راہ شفقت اور از راہ تفنن گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَحِيْمٌ (التوبة:۱۲۸)کہ آپؐ مومنوں کےلیے بے حد مہربان اور بار بار رحم کرنے والے ہیں۔
آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی کہ صحابہؓ میں بھی حس مزاح بیدار کر دی تھی۔ صحابہؓ بھی آپؐ کے ساتھ مزاح میں شریک ہوتے تھے۔
نبی کریمﷺ کی زندگی میں باقاعدہ تفریح و مزاح کا عنصر پایا جاتا تھا۔حضرت ابوطلحہؓ کا ایک باغ مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ حضورﷺ وہاں اپنے اصحابؓ کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے۔ تازہ کھجوریں نوش فرماتے، اس کے چشمے کا ٹھنڈا پانی پیتے اور کچھ وقت وہاں گزار کر خوش ہوتے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، سورۃ آل عمران باب لن تنالوا البر)
حضرت عوف بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمے میں تھے، میں نے سلام عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا کہ اندر آ جاؤ۔ میں نے خیمہ کے چھوٹے سائز کی وجہ سے عرض کیا کہ کیا سارے کا سارا ہی آ جاؤں۔ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں سارے کے سارے ہی آ جاؤ۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب ما جاء فی المزاح)
ایک دفعہ حضرت صہیبؓ رسول اللہؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضورﷺ کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی۔ آپؐ نے حضرت صہیبؓ کو بھی دعوت دی کہ شریک طعام ہوں۔ صہیبؓ روٹی کی بجائے کھجور زیادہ شوق سے کھانے لگے۔ رسول کریمﷺ نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے۔ اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ حضرت صہیبؓ نے از راہ تفنن عرض کیا، یا رسول اللہ!ﷺ میں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھا رہا ہوں۔ نبی کریمﷺ اس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے۔ اور اس صحابیؓ کی حاضر جوابی پر تبسم فرمانے لگے۔ (مسند احمد جلد ۴ صفحہ ۶۱ دار الکتاب العربی بیروت)
نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حس مزاح عطا فرمائی تھی، جس کی وجہ سے آپؐ نے اپنے صحابہؓ کی مشکل زندگی کو بھی بہت پُر لطف بنا دیا تھا۔پس مزاح، دل لگی اور تفریح، سنت نبویﷺ ہے۔ اس کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے البتہ ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارا مزاح کسی کی دل شکنی اور ایذا رسانی کا سبب نہ ہو۔اور نہ ہی اس میں جھوٹ شامل ہو۔
اللّٰھم صلّ علیٰ محمد و علیٰ آل محمد
(نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں علاوہ دیگر کتب کے ’’اسوۂ انسانِ کامل‘‘سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔)