اکرامِ ضیف
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۷؍دسمبر ۱۹۲۰ء )
حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میںاحباب جماعت کو جلسہ پر آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ جلسہ سالانہ یوکے کی مناسبت سے قارئین کے استفادہ کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورؓ نے فرمایا:
میں نے ایک جمعہ چھوڑ کر اس سے پہلے جمعہ میں نصیحت کی تھی کہ ہمارے قادیان کے دوست جلسہ کے کام میں منتظمین کی مدد کریں۔ چونکہ اب جلسہ قریب آگیا ہے۔ اور اگلا جمعہ قریباً جلسہ کے دنوں میں ہی ہوگا۔ کیونکہ عموماً جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے لوگ پہلے سے یہاں پہنچ جایا کرتے ہیں۔ اس لیے میں جلسہ کے انتظام کے دوسرے پہلو کے متعلق احباب کو نصیحت کرتا ہوں۔
ہر دفعہ یہاں کوشش کی جاتی ہے کہ ہر طرح مکمل انتظام ہو مگر پھر بھی کچھ نقص رہ جاتے ہیں۔اور مہمانوں کی خاطر و مدارات ایسی نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہیئے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اتنے بڑے اجتماع کا انتظام ایک دو مہمانوں کے انتظام کی طرح نہیں ہو سکتا۔اور اس تعداد کے لحاظ سے جو قادیان میں رہنے والے احمدیوں کی ہے۔ یہ مشکل بھی ہے۔ اتنا بڑا انتظام حکومت کر سکتی ہے۔ کیونکہ اس کا تسلط وسیع علاقہ پر ہوتا ہے اور اسے سینکڑوں آدمی کام کرنے کے لیے مہیا ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس چھوٹے سے گاؤں میں ہمارے پاس اتنے کمرے بھی نہیں جن میں ہم اچھی طرح مہمانوں کو ٹھہرا سکیں۔ ہمیں مجبوراً دس دس بیس بیس آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں رکھنا پڑتا ہے، لیکن اگر ہم زیادہ جگہ مہیا نہ کر سکیں۔ تو ہم پر الزام نہیں۔ کیونکہ جو شخص اپنے مہمان کو دال روٹی مہیا کر سکتا ہے۔ اگر وہ یہی اپنے مہمان کے سامنے حاضر کر دیتا ہے تو اس پر ہرگز الزام نہیں آئے گا کہ اس نے کیوں مہمان کے لیے پلاؤ مہیا نہیں کیا، بلکہ
وہ شخص خدا کے نزدیک تعریف کے قابل ہوگا کہ وہ جو کچھ کر سکتا تھا،اس نے کیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ بہت سے مہمان آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صحابہؓ میں تقسیم کر دیا۔ ایک صحابی اپنے حصہ کے مہمان کو اپنے گھر لے گئے اور بیوی سے پوچھا کھانا ہے؟ اس نے جواب دیا کھانا تو اب کوئی نہیں صرف بچوں کے لیے کسی قدر ہے۔ انہوں نے بیوی سے کہا کہ میں تو آنحضرت صلعم کا ایک مہمان لے آیا ہوں۔ اس لیے بچوں کو سلا دو اور جب میں مہمان کو لاؤں۔تو کسی طرح چراغ گُل کر دینا اور گھر میں روشنی کا سامان بھی نہ رکھنا کیونکہ مہمان اکیلا کھانا نہیں کھائے گا اور مجھے بھی اس کے ساتھ کھانا پڑ ے گا۔ چنانچہ جب مہمان اندر آیاتو چراغ کسی طرح گل کر دیا گیا۔ صحابی نے مہمان سے معذرت کی کہ اب چراغ روشن نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اندھیرے میں ہی کھانا کھالیں۔ کھانا سامنے رکھا گیا۔ صحابی یونہی اندھیرے میں منہ سے آواز پیدا کرتے رہے۔ گویا کھانا کھا رہے ہیں جس سے مہمان نے قیاس کیا کہ وہ بھی کھاناکھا رہے ہیں اور خود سیر ہو کر کھایا۔ خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ واقعہ الہام کے ذریعہ بتایا اور تعریف کی۔
پس یہ ضروری نہیں کہ تم اگر اپنے مہمان کو پلاؤ نہیں کھلا سکتے توضرور پلاؤ ہی کھلاؤ۔ بلکہ تمہارا صرف یہ فرض ہے کہ تم اس کو جو کچھ کھلا سکتے ہو وہ کھلاؤ اور تمہارا وہی کچھ مہمان کے پیش کرنا خدا کے نزدیک قابل تعریف فعل ہو گا جس کی تمہیں استطاعت ہے۔ پس
انسان کا فرض اکرام ضیف کے مسئلہ میں یہ ہے کہ وہ اپنے مقدور بھر کوشش کرے۔
یہ تو وہ باتیں ہیں جوانسان کے اختیار کی نہیں اور جلسہ پر آنے والے مہمانوں کے متعلق بھی بعض ایسی باتیں ہیں جو فی الحال ہماری استطاعت سے بڑھ کر ہیں۔ مثلاً یہ کہ چاہئے کہ مہمان کے لیے جو جگہ ہو وہ فراخ ہو، اچھی ہو، اور اس کی ضروریات کے مطابق ہو۔ مگر ہم اپنے مہمانوں کے لیے اتنی جگہ مہیا نہیں کر سکتے۔ ہمارے گھروں میں ان دنوں میں کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ ایک ایک مکان میں دس دس بیس بیس آدمی بھرے ہوتے ہیں۔ یا ہمارے ملک کے لوگ چارپائی پر سونے کے عادی ہوتے ہیں۔ مگر ہم اتنی چارپائیاں مہیا نہیں کر سکتے۔ پھر یہ بھی کہ مہمان کے آگے اچھے سے اچھا کھانا رکھا جائے، لیکن ہم اس فرض کو بھی ادا نہیں کرسکتے۔ ہماری موجودہ مالی حالت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ پس یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں کرسکتے۔ اس لئے اس کی وجہ سے ہم پر کوئی الزام نہیں آتا، مگر بعض باتیں ایسی ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ اگر ہم ان کو نہیں کرتے تو سمجھا جائے گا کہ جو کچھ ہم کرنہیں سکتے تھے۔ اگر کر سکتے تو وہ بھی نہ کرتے۔
وہ کیا باتیں ہیں جو ہم کرسکتے ہیں
یہ ہیں کہ ہم خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ اگر کسی کی کوئی چیز گم ہوگئی ہو تو ہم اس کو تلاش کرنے میں مدد دیں۔ یا کسی نے کسی جماعت سے ملنا ہے تو اس کا پتہ بتانا چاہیئے۔ یا کسی کو کسی منتظم سے ملنا ہے تو اسے ملائیں۔ یاکسی کو حکیم کی یاکسی دکان کے معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ تو اس کی تلاش میں مدد دیں۔ اگر تم ان باتوں کو کرو۔ تو وہ جونہیں کر سکتے ان کا بھی ثواب ملے گا اور سمجھا جائے گا کہ اگروہ چیزیں تمہارے قبضہ میں ہوتیں تو تم کرتے اور اگر یہ نہ کرو۔ تو پتہ لگے گا کہ اگر تمہارے پاس وہ چیزیں ہوتیں تو ان کو بھی نہ کرتے۔
یہ سوال ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے علاقوں کے لوگ یا بچے جن کو اسلام کا پتہ نہیں قیامت کے دن ان سے کیا سلوک ہوگا۔
مسلمان محققین اسی طرف گئے ہیں کہ یہ دیکھا جائے گا کہ جن باتوں پر وہ ایمان لا سکتے تھے ان پر لائے ہیں کہ نہیں اوران پر عمل کیا کہ نہیں۔ مثلاً کسی کے پاس حضرت مسیح ؑکی خبرنہیں پہنچی، رسول کریمؐ کی پہنچی اور اس نے آپؐ کو مان لیا تو سمجھا جائے گا کہ اگر مسیح کے وقت کی خبر پہنچتی تو انہیں بھی مان لیتا۔ یا خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس کو ایمان تھا کہ نہیں۔ بعض احادیث سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے گا کہ وہ صداقتوں کو قبول یا ردّ کریں۔
پس اس موقع پر خوش خلقی اور ہمدردی ظاہر کرواور اس طرح ان امور کے متعلق بھی ثواب حاصل کرو جو اس وقت تمہارے مقدور میں نہیں۔ پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے نفس کو ماریں۔ اور عادت ڈالیں کہ وہ مشقت برداشت کر سکے۔ تھوڑے تھوڑے کاموں سے ہی بڑے کام ہوا کرتے ہیں۔ پہلے دن جب مدرسہ میں لڑکا جاتا ہے تو قاعدہ پڑھتا ہے۔ اور وہ بھی دوتین حرف اور اس کے بعد اس کو چھٹی دی جاتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ وہ خوب عادی ہو جاتا ہے اور آخر پڑھنے والے انسان کی ایسی حالت ہوتی ہے اور بہت سے لوگوں کو اور میری بھی ہے کہ اگر مطالعہ نہ کیا جائےتو بیمار ہو جائیں۔ ان کے لیے صحت اور راحت یہی ہوتی ہے کہ وہ پڑھیں اور اپنا علم بڑھائیں۔ ایک دوست تھے بہت مخلص اور بڑے عالم جو اب بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ ان کی حالت غریبانہ تھی۔ جو علم کے ساتھ کسی قدر خصوصیت رکھتی ہے۔ بڑے متوکل علی اللہ تھے۔ بعض دفعہ ہفتہ ہفتہ فاقہ پر گزرتا تھا۔ لوگ ان کے چہرے سے دیکھتے تھے مگر وہ اس حال میں بلند آواز سے بولتے تھے کہ لوگ ان کو بھوکا نہ خیال کریں۔ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اولؓ نے ان سے دریافت کیا۔ کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے آپ کا خیال تھا کہ روپیہ وغیرہ کے متعلق ہو۔ تو آپ مدد کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ایک مکان ہو جس میں نادر کتابیں بھری ہوں اور مجھ کو اس میں بند کر دیا جائے اور لوگ مجھے بھول جائیں میں اس میں سے تب نکلوں جب سب کتابیں پڑھ لوں تو انسان کی پھر یہ حالت ہوتی ہے۔ مگر یہ پہلے دن نہیں ہوتی ہاں آہستہ آہستہ ہوتی ہے
نفس کی اصلاح کا بھی یہی طریق ہے کہ آہستہ آہستہ اس کو عادی بنایا جائے۔ ایک ہی دفعہ نفس نہیں مرتا۔ بلکہ آہستہ آہستہ مرتا ہے۔
پہلے کسی خاص بات کے لیے پھر زیادہ کے لیے۔ پھر کسی قدر وقت کے لیے۔ پھر زیادہ کے لیے مطیع کرو حتی کہ وہ وقت آئے کہ ہمیشہ کے لیے مطیع ہو جائے جس طرح طالب علم کے لیے پہلے حروف ہوتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ علوم۔ اسی طرح اصلاح نفس کے لیے بھی سبق ہیں۔ جو بتدریج وہ پڑھتا ہے۔
پس
اپنے مہمانوں کو آرام پہنچاؤ۔ جہاں تک پہنچا سکو۔ اور اس لیے خدمت مہمان کرو کہ خدا کا حکم ہے اس سے ثواب ہوگا۔
نیز اس لیے بھی کہ اس سے اپنے نفس کی تربیت ہوتی ہے۔
یاد رکھو ہر ایک میزبان اپنے مہمان کے لیے نمونہ نہیں ہوتا۔ مگر تم ان کے لیے نمونہ ہو کیونکہ تم اس بستی میں رہتے ہو، جو ام القریٰ ہے۔ اگر اس میں رہنے والے تم لوگ دوسروں سے ماں باپ جیسی شفقت نہ کر سکو تو کم از کم بڑے بھائی جتنی تو شفقت ضرور کرنی چاہیئے۔ جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ تمہیں دیکھتے ہیںاور تمہارا نمونہ پکڑتے ہیں۔ پس تم اخلاق دکھاؤ تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ کہیں کہ اسلام کا اخلاق سے تعلق ہی نہیں۔ یاد رکھو کبھی کوئی مصلح درندہ اور وحشی نہیں ہوتا۔ اگر تم نمونہ عمدہ نہ دکھاؤ گے تو لوگوں پر بُرا اثر پڑے گا۔ تمہارا ایسا نمونہ ہونا چاہیئے کہ وہ آئیں اور تمہاری حالت سے سبق سیکھیں۔ ایک دوست نے قادیان کو شفاخانہ کہا ہے، لیکن اگر یہاں مریض آئیںاور مریض ہی رہیں حتی کہ مرجائیں۔ تو یہ شفاخانہ نہیں موت خانہ ہو گا۔ شفاخانہ وہ ہوتا ہے جس میں نئے مریض آئیں اور پہلے شفا پا کر نکل جائیں۔ تم یہاں چند دن کے لیے نہیں آئے۔ اس لیے تم اپنے کو تندرست ثابت کرو۔ پس قادیان کی مثال شفاخانہ کی نہیں بلکہ مدرسہ کی ہے۔ یہاں لوگ علوم و معارف اور اخلاق سیکھتے ہیں اگر باہر والے تم سے زیادہ جانتے ہیں توتم نے کچھ نہ سیکھا۔ پس اپنے کو زیادہ قابل، زیادہ مہذب با اخلاق ہمدرد ثابت کرو کیونکہ اگر یہ نہیں تو خدا پرستی تو الگ رہی ابھی تم نے انسانیت کو بھی حاصل نہیں کیا۔ تم وہ چیزیں حاصل کرو اور ثبوت دو کہ تم نے وہ چیزیں حاصل کی ہوئی ہیں تاکہ لوگ دیکھیں کہ تم نے بے فائدہ اپنے گھروں کو نہیں چھوڑااور تمہاری تبدیلی دوستوں پر اثر ڈالے۔
یہ میری مختصر نصیحت ہے۔ اس کو قبول کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو ۔
( الفضل ۲۳؍ دسمبر ۱۹۲۰ء )