خلاصہ تقریر: خلافت کی بابرکت رہنمائی میں لجنہ اماءاللہ کی ترقی (انگریزی)
جلسہ سالانہ یوکے کے دوسرے دن کے صبح کے اجلاس مستورات کی پہلی تقریر محترمہ فرزانہ یوسف صاحبہ نے ’’خلافت کی بابرکت رہنمائی میں لجنہ اماءاللہ کی ترقی‘‘ کے عنوان پر کی۔
انہوں نے کہا کہ آج خلافت کی بابرکت رہنمائی میں لجنہ اماء اللہ کی ترقی کے موضوع پر اس شاندار روحانی اجتماع سے خطاب کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی ترقی اس قدر وسیع ہے کہ اس مختصر تقریر میں گذشتہ ۱۰۰ سالوں میں ان ترقیات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے جو خلفائے کرام کی رہنمائی میں حاصل ہوئیں۔ہم ان خواتین کے مسائل کو جانےبغیر لجنہ اماء اللہ کی ترقی کا صحیح معنوں میں اندازہ نہیں لگا سکتے جن کو خلافت کی بابرکت رہنمائی میسر نہیں۔ معاشرے میں خواتین کی ترقی کئی دہائیوں سے میڈیا میں بحث کا موضوع رہی ہے۔ایک ہفتہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کے بارے میں کوئی کہانی نہ پیش کی جاتی ہو۔عورتیں اپنی آواز سنانے، مساوات اور تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں۔ وہ انصاف اور مساوات چاہتی ہیں اور جب ان کی جائز اپیلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہے تو وہ ناراض ہوجاتی ہیں۔ ایک طرف دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں احتجاج کرنے والی خواتین کی خبریں اور انصاف کے لیے ان کے مایوس کن بیانات گردش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، خواتین کے ایک دلکش امیج کو خواتین کی ترقی کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ خواتین کو دکھایا جانے والاجعلی feminism، سرسبز اور پرتعیش نظر آتا ہے، لیکن بہت سی خواتین کے لیے حقیقت ان میں سے کسی بھی چیز سے بہت دور ہے۔
اب تک خواتین کے لیے انصاف کی فراہمی میں اس قدر واضح کمی ہے کہ اقوام متحدہ نے اس سال خواتین کے عالمی دن کو خواتین کے لیے مساوات اور برابری کے موضوع کے لیے وقف کر دیا۔اقوام متحدہ کی تشویش حقیقت پر مبنی ہے۔ اسلام احمدیت سے باہر خواتین آج بھی روحانی، اخلاقی، فکری اور معاشی ترقی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
اسلام نے عورتوں کو روشن خیالی، انفرادی آزادی دی اور معاشرے کی زنجیروں سے آزاد کر کے ان کی حقیقی عزت اور تقدس کو بحال کیا ہے۔اسلام نے عورتوں کو جو آزادی دی ہے اس کی وجہ سے خلافت کی بابرکت رہنمائی کے ذریعے لجنہ اماء اللہ کی ترقی دوچندہو گئی ہے۔اسلام سے پہلے عورتیں اندھیرے، محرومی اور مایوسی میں زندگی بسر کرتی تھیں۔ لڑکیوں کو لعنت سمجھا جاتا تھا، عورتوں کو جائیداد سمجھا جاتا تھا اور غلاموں سے کم تر سمجھا جاتا تھا۔انسانی حقوق سے بھی محروم تھیں۔اسلام نے ان ناانصافیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے عورتوں کی روحانی، فکری، اخلاقی اور معاشی حیثیت کو بلند کیا اور انہیں حقوق دیے۔اسلام نے خواتین کو وراثت کے حقوق، تعلیم کے حقوق، تحفظ، مساوات اور بااختیار بنانے کے حقوق ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے دیے۔ جبکہ مغرب کو اب احساس ہوا ہے۔
اسلام نے عورتوں کی روحانی، فکری، اخلاقی اور معاشی معیار کو اس قدر بلند کیا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسلام میں عورت کے مقام کی گواہی مسلم خواتین کے ان بے نظیر تاریخی واقعات سے بھی ملتی ہے، جو اسلامی تاریخ میں عورت کا بلند مقام ظاہر کرتےہیں۔
سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت بھی ایک عورت ہی تھیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہؓ جو کہ ایسا بلند روحانی مقام رکھتی ہیں کہ انہیں ام المومنین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ دین کا نصف علم عائشہ صدیقہؓ سے سیکھو۔جن کا حافظہ اس قدر زیادہ تھا کہ ہزاروں احادیث ان سے مروی ہیں۔ اور مردوعورت دونوں کو اسلام سکھانے والی کہلاتی ہیں۔
حضرت ام سلمہ اسماءؓ نے مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریر میں ایسا ملکہ رکھتی تھیں کہ انہیں خطیبۃ النساء کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو عظمت کا شاندار لباس عطا کیا ہے۔اسلام نے خواتین کے لیے ایک بہترین اکسیر فراہم کیا ہے اور خلافت اس کے اظہار کا ذریعہ ہے۔خلافت اور اسلامی نظام کی بحالی کے بغیر احمدی مسلم خواتین اور لجنہ اماء اللہ کی ترقی ناقابل تصور تھی۔لجنہ خلیفہ وقت کی ہدایات اور خلافت کی اطاعت کی وجہ سےترقیات کی چوٹی کی طرف گامزن ہیں اور انہیں اندھیروں میں ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں جن کا حل اسلام نے پہلے ہی دنیا کو پیش کر دیا ہے۔
مقررہ نے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس پیش کیا اور کہا کہ خلافت کی اطاعت ہی لجنہ کی ترقی کی بنیاد رہی ہے۔
اپنی اہلیہ حضرت امۃ الحئی ؓکے ساتھ دینے پر حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ اماء اللہ کا قیام ۲۵؍ دسمبر ۱۹۲۲ء کو فرمایا جس کی پہلی ۱۴؍ ممبران تھیں اور ۱۷ اہم مقاصد بیان فرمائے جن میں اتحاد، تجدید، اخلاق اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے اہم فرائض شامل ہیں۔ تب سے لجنہ اماءاللہ اسلام کی خدمت میں ہمیشہ کے لیے سرگرم ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک اسلام کی ترقی عورتوں کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں مدرسۃالخواتین کا افتتاح کیا جس کا مقصد خواتین کی تعلیم اور ہنر وغیرہ سکھانا تھا۔دینیات کلاس کا بھی آغاز فرمایا جس میں خواتین کو قرآن،حدیث،فقہ،تاریخ، اسلام کے سنہری واقعات، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا علم سکھایا جاتا تھا، اس کے علاوہ تقریر کرنے کا ہنر بھی سکھایا جاتا تھا۔
۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے ناصرات الاحمدیہ کا قیام فرمایا جو کہ لجنہ اماء اللہ قادیان کے تحت ہی ایک تنظیم ہے۔تاکہ لڑکیوں کو کم عمری سے ہی دین کا علم سکھایا جا سکے۔ بچے کم عمر میں جلدی سیکھتے ہیں تو ان کی اخلاقی تربیت بھی زیادہ اعلیٰ رنگ میں ہوتی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے مجلس شوریٰ میں عورتوں کو نمائندگی کا حق دیا تاکہ وہ اپنے حقوق کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ بات کرسکیں، یہ اس لیے تھا کہ عورت کا کردار اسلام کی ترقی کے لیے ضروری سمجھا گیا۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔لجنہ اماء اللہ کے قیام سے اب تک تعلیمِ قرآن کے لیے خلفاء کی خصوصی توجہ رہی۔ آج خلافت احمدیہ کی رہنمائی میں لجنہ دنیا بھر میں کلاسز اور کورسز کے ذریعہ اشاعت تعلیمِ قرآن کا فریضہ سر انجام دے رہی ہیں۔ اسی سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ کی رہنمائی سے یوکے میں عائشہ اکیڈمی کا قیام ہوا۔جہاں ورکشاپس اور کلاسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ لجنہ کے علمی معیار کو بڑھانے کے لیے ریفریشر کورسز میں دینی معلومات اور روحانی معیار کو بڑھانے کے طریق بتائے جاتے ہیں۔
خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں بھی خلفائے کرام نے خصوصی توجہ کی۔ قادیان اور ربوہ میں سکول کالجز کا قیام ہوا، ۱۹۰۹ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے قائم کردہ مدرسة البنات کا حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اجرا فرمایا۔ ۱۹۰۸ء میں سر ولیم ولسن نے امپیریل گزٹ آف انڈیا میں لکھا کہ آخری مردم شماری کے مطابق انڈیا میں خواتین کی 0.6 فیصد شرح خواندگی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے توجہ کی اور دینی و دنیاوی تعلیم کو یقینی بنایا۔
آج احمدی خواتین ڈاکٹرز، ٹیچرز، بزنس ویمن اور جرنلسٹ بن کر انسانیت کی خدمت بجا لا رہی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی قائم کردہ نصرت جہاں سکیم کے تحت متعدد احمدی خواتین ٹیچرز و ڈاکٹرز نے پسماندہ ملکوں میں خدمات بجالائیں۔کئی خواتین انسانیت کی خدمت کی خاطر جماعتی سکولز اور ہسپتالوں میں خدمت بجا لاتی ہیں۔ خواتین کے معاشی استحکام کےلیے خلیفۂ وقت کی رہنمائی سے اس وقت لڑکیوں کے لیے دستکاری سیکھنے کے لیے کئی ادارے قائم ہیں۔ جہاں سے سیکھ کر وہ اپنا کاروبار کر رہی ہیں اور اپنا گھر بار سنبھال رہی ہیں۔ اور اس طرح ان کو مالی قربانی کرنے کی توفیق بھی مل رہی ہے۔لجنہ اماء اللہ نے ۱۹۲۶ء میں مسجد فضل لندن، پھر مبارک مسجدہالینڈ اور ڈنمارک کی مسجد نصرت جہاں کے لیے مالی قربانی پیش کی۔حضرت خلیفة المسیح الرابعؓ نے ۲۰۰۳ء میں مریم شادی فنڈ کی بنیاد رکھی۔ اس ضمن میں لجنہ نے نمایاںمالی و عملی خدمات بجالائیں۔صد سالہ جوبلی کے موقع پر لجنہ اماء اللہ یوکے سیرالیون میں میٹرنٹی ہسپتال کےقیام کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہی ہیں جہاں احمدی خواتین ڈاکٹر خدمات بجا لائیں گی۔
خلافت احمدیہ کے زیرسایہ لجنہ اماء اللہ اسلام کی ایک زبردست آواز بن چکی ہے۔ ایم ٹی اے پر، سوشل میڈیا پر، ریڈیو پر خواتین اور ان کے حقوق کے لیے روشنی فراہم کررہی ہے لجنہ اماء اللہ کے پیس سمپوزیم میں سینکڑوں خواتین شامل ہوتی ہیں۔خلافت احمدیہ کی رہنمائی میں لجنہ اماء اللہ آزاد رہنا، معاشرے میں حیادار لباس، انسانیت کے لیے خدمت کے مواقع فراہم کرنا، ماں، بہن بیٹی کے طور پر مردوں کے سایہ کے بغیر بھی چلنا سکھاتی ہے۔
لجنہ اماء اللہ کو اس بات پر فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ خادمائیں تبلیغ اسلام میں کوشاں ہیں۔ اس تنظیم میں شامل ہو کر تقویٰ کی شاہراہ پر چلنا آسان ہے۔ لجنہ کی کئی نسلوں نے خلفاء کی دعائیں سمیٹی ہیں اور ان دعاؤں کا پورا ہونا مشاہدہ کیا ہے۔ جس کی ایک جھلک پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
خلافت امید کی وہ کرن ہے جولجنہ اماء اللہ کو تحفظ اور خدائی ہدایت کی پوشاک عطا کرتی ہے۔ لجنہ اماء اللہ کا اس کے علاوہ کوئی مطمح نظر نہیں کہ وہ آئندہ نسل کے راستی کے معیار بلند کریں۔ لجنہ قومیں بناتی ہے یعنی ہم قومیں بنانے والی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انورکی دعاؤں کا وارث بنائے اور ہمیں ہمارے اہداف کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنے گھروں، شہروں قوموں اور پوری دنیا میں روحانی انقلاب لانے والا بنائے۔