حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات جمعہ میں بیان فرمودہ بعض تاریخی مقامات کا جغرافیائی تعارف
خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سریہ زید بن حارثہ ؓ،غزوہ سویق اور غزوہ بدر الموعد کا ذکر فرمایا۔خطبہ جمعہ میں مذکور سریہ اور غزوات سے متعلقہ مقامات کا مختصر جغرافیائی تعارف پیش خدمت ہے۔
سریہ حضرت زید بن حارثہؓ بطرف العیص
جمادی الاولیٰ ۶؍ ہجری کو رسول کریم ﷺنے حضرت زید بن حارثہؓ کوسترسواروں کے ساتھ شام سے آنے والے کفار کے تجارتی قافلے کو روکنے کےلیے عیص مقام کی طرف بھجوایا۔ صحابہ کرامؓ نے مدینہ کی مغربی جانب قریباً ۸۰؍ کلومیٹر دور بحر احمر کی طرف اس قافلے کو روکا۔ اٹلس سیرت النبی ﷺکے مطابق عیص ، رابغ شہر کے شمال میں تقریباً۳۰؍ کلومیٹر میں ثنیۃ المَرّة کے نواح میں ہے۔یہاں زنابۃ الاعیص نامی چشمہ تھا جس کے ارد گرد کثرت سے کیکر کے درخت تھے۔جس کی وجہ سے اس کو عیص کہتے تھے۔موجودہ نقشے کے مطابق العیص شہر مدینہ سے ۲۱۵؍ کلومیڑ دور ہے اور رابغ اور ینبع کے شمال میں کافی فاصلے پر ہے۔عہد نبوی ﷺ میں عیص کے اطراف میں ساحل سمندر کے ساتھ جہینہ قبیلہ آباد تھا۔اس سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو عیص شہر کی سمت بھجوایا۔ اُس علاقے میں عیص شہر معروف تھا، اسی مناسبت سے اسے سریہ عیص کہا گیا۔تاریخ کے مطابق اس سے قبل بھی رسو ل اللہ ﷺ نےایک ہجری میں عیص کی جانب سیف البحر مقام پر حضرت حمزہؓ کی قیادت میں ایک سریہ بھجوایا تھا جس کا ابو جہل کے قافلے سے آمنا سامنا بھی ہوا مگر جہینہ قبیلے کے سردار مجدی بن عمرو کی مداخلت کی بنا پر ان دونوں قافلوں میں جنگ نہیں ہوئی تھی۔
یتیب پہاڑ
غزوہ بدر میں عبرتناک شکست کے بعد ابو سفیان نے قسم کھائی کہ جب تک مسلمانوں سے بدلہ نہ لے، وہ خوشبو وغیرہ نہیں لگائے گا اور غسل نہیں کرے گا۔چنانچہ بدر کے چند مہینے بعد ذوالحجة ۲ ہجری میں ابو سفیان ۴۰؍ یا ۲۰۰؍ سواروں کے ساتھ خاموشی سے نجد کی طرف سے لمبا رستہ لیتا ہوا مدینہ کی طرف آیا اور وادی قناة کے قریب یتیب پہاڑ کے دامن میں قیام کیا۔(عموماً لوگ مدینہ کی مغربی جانب یعنی وادی عتیق کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوتے تھے)ابن ہشام نے اس پہاڑ کا نام ثیئب لکھا ہے۔ بعض کتب میں اس کانام تیب اور تیأب بھی لکھا ہے۔یہ مسجد نبویؐ سے تقریباً۱۸ سے۲۰ کلومیٹر دور اُحد پہاڑ کے مشرقی جانب ہےاور متوسط اونچائی والا پہاڑ ہے۔ اس کو مدینہ کی مشرقی سرحد بھی کہا جاتا تھا اور یہ العاقول کی طرف سے آنے والے سیلاب سے مدینہ کو بچاتا تھا۔ وادی الخنق اس پہاڑ کے جنوب میں ہے۔
عَرِیض/عُرَیض چرا گاہ
عریض مدینہ کی مشرقی جانب ایک چراگاہ تھی جس کا مسجد نبوی سے فاصلہ تقریباً ساڑھے چار کلو میٹر تھا۔ یہ چرا گاہ حرة کے بیرونی جانب تھی۔مدینہ کے لوگ اپنے جانور اس جگہ چراتے تھے۔ابو سفیان نے اس جگہ حملہ کر کے دو مسلمانوں کو شہید کیا اور درختوں کو آگ لگائی۔موجودہ زمانے میں یہ تمام جگہ مدینہ کی شہری آبادی میں شامل ہے اور لوگوں کے مکانات یہاں تعمیر ہیں۔
وادی قناة
قناة مدینہ اور احد پہاڑ کے مابین مدینہ سے ملحقہ ایک وادی ہے جس میں ایک برساتی نالہ بھی ہے۔ عام طور پر یہ وادی خشک ہی رہتی ہے۔ اس وادی کے ساتھ بنو حارثہ ،بنو عبد الاشہل اوربنو زعوراء آبا د تھے۔یہ وادی تیأب /یتیب پہاڑ کے قریب سے شروع ہو کر مدینہ کی طرف آتی ہے۔ اس کے دامن میں ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں کےساتھ پڑاؤ ڈالا۔
قَرْقَرْ الکُدْر
جب رسول اللہﷺ کو ابوسفیان کے چراگاہ پر حملے کا علم ہوا تو آپ ۲۰۰ سواروں کے ساتھ ۵؍ذو الحجة کو نکلے اور ابو سفیان کا پیچھا کرتے کرتے قرقرالکدر مقام تک آئے۔معجم البلدان کے مطابق یہ جگہ معدن کے نواح میں ارخصیة کے قریب میں واقع تھی۔ یہاں بنو سلیم کا ایک چشمہ یا کنواں تھا۔مدینہ سے اس جگہ کا فاصلہ آٹھ ڈاک چوکیوں کے برابر تھا جو تقریباً ۱۵۰؍کلومیٹر بنتا ہے۔قرقر سے مراد ہے ہموار زمین اور الکدر سے مرادمٹیالے(خاکستری) رنگ کے پرندے ہیں۔ یہاں پانی کی وجہ سے پرندے آتے تھے تو اس علاقے کو قرقر الکدر کہا جانے لگا۔چند روایات کے مطابق رسول اللہﷺ محرم ۳؍ہجری میں دوبارہ پھراس مقام پر بنو سلیم سے مقابلہ کرنے کےلیے تشریف لائے۔ ارخصیہ کے متعلق معجم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ بئر معونہ کے قریب ایک بستی تھی۔بعض کتب میں اس کا نام ارحفیہ بھی ملتا ہے۔ روایات کے مطابق غزوہ بدر کے فوراً بعد رسول اللہﷺ کو اطلاع ملی کہ بنو سلیم اور غطفان مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ آپﷺ اسی مقام (قر قر الکدر)پر دشمن کے سد باب کے لیے تشریف لائے۔ مسلمان لشکر کو دیکھ کر دشمن تتّر بتّر ہو گیا۔اس غزوہ کو غزوہ بنو سلیم یا غزوہ قرقر الکدر کہتے ہیں۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر ۲۹؍ستمبر ۲۰۲۳ءکے خطبہ میں فرمایا۔ یہ خطبہ الفضل انٹرنیشنل،۲۰؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔
مرّ الظھران
احد کے روز ابو سفیان مسلمانوں کو اگلے سال بد ر کے مقام پر دوبارہ جنگ کا چیلنج دے کر گیا۔ چنانچہ۴ہجری میں رسو ل اللہ ﷺ ۱۵۰۰ صحابہؓ کے لشکر کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ ابو سفیا ن اپنے لشکر کے ساتھ مکہ سے نکلا اور نواحی وادی مر الظھران کے قریب مجنة میں قیام پذیر ہوا۔معجمالبلدان کے مطابق مرّ ایک بستی کا نام ہے اور ظھران وادی کا نام ہے۔ اس وادی میں متعدد چشمے اور نخلستان ہیں۔ بنو اسلم ،ہذیل اور غاضرہ قبائل یہاں آباد ہیں۔وادی مر الظھران مکہ سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔اس وادی کا دوسرا نام وادی فاطمہ بھی ہے۔یہ وادی طائف کے قریب سے شروع ہو کر جدہ کی طرف جاتی ہے۔
مجنة
مجنة مر الظھران کے نواح میں ایک مقام تھا۔ یہاں قدیم زمانے میں عکاظ کے میلے کے۱۰؍ روز بعد بازار لگتا تھا۔ ایک قول کے مطابق یہ مکہ سے ایک ڈاک چوکی یعنی ۱۸ سے ۲۰ کلومیٹر دور واقع تھا۔ یہ جگہ عسفان شہر سے پہلے تھی۔ابو سفیان کا لشکر یہاں چند روزقیام کرنے کے بعد واپس لوٹ گیا۔