سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

مقدمہ ڈاک و متفرقات

(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت اقدس علیہ السلام ایک اَورجگہ سچ اور راستبازی کی اہمیت کاذکرکرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:’’افسوس اس وقت لوگ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ان سے کیا چاہتا ہے؟ رَأس کلّ خطیئۃٍ نے بہت سے بچے دے دیئے ہیں۔ کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کے سارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے جس پہلو اور رنگ سے دیکھو۔ جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔جھوٹے مقدمہ کرنا توبات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لیے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے۔ اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟اﷲ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو۔اِجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ۔ (الحج:۳۱) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے جیسااحمق انسان اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکا تا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لیے جھوٹ کو بت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہو جاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے اگر کہا جاوے کہ کیوں بت پرست ہوتے ہو؟ اس نجاست کو چھوڑ دو توکہتے ہیں کہ کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔اس سے بڑھ کر اَور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنی زندگی کا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک مرتبہ امر تسر ایک مضمون بھیجا۔ اس کے ساتھ ہی ایک خط بھی تھا۔ رلیارام کے وکیل ہند اخبار کے متعلق تھا۔میرے اس خط کو خلاف قانون ڈاکخانہ قرار دے کر مقدمہ بنایا گیا۔ وکلاء نے بھی کہا کہ اس میں بجز اس کے رہائی نہیں جو اس خط سے انکار کر دیا جاوے۔گویا جھوٹ کے سوا بچاؤ نہیں۔مگر میں نے اس کو ہرگز پسند نہ کیا بلکہ یہ کہا کہ اگر سچ بولنے سے سزا ہوتی ہے تو ہونے دو جھوٹ نہیں بولوں گا۔آخر وہ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ ڈاک خانوں کا افسر بحیثیت مدعی حاضر ہوا۔ مجھ سے جس وقت اس کے متعلق پوچھا گیا تو میں نے صاف طور پر کہا کہ یہ میرا خط ہے مگر میں نے اس کو جزو مضمون سمجھ کر اس میں رکھا ہے۔مجسٹریٹ کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو بصیرت دی۔ ڈاکخانوں کے افسر نے بہت زور دیا مگر اس نے ایک نہ سنی اور مجھے رخصت کر دیا۔

میں کیونکر کہوں کہ جھوٹ کے بغیر گذارہ نہیں۔ایسی باتیں نری بیہودگیاں ہیں۔ سچ تویہ ہے کہ سچ کے بغیر گذارہ نہیں۔میں اب تک بھی جب اپنے اس واقعہ کو یاد کرتا ہوں تو ایک مزا آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس نے ہماری رعایت رکھی اور ایسی رعایت رکھی جو بطورایک نشان کے ہوگئی۔مَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ (الطلاق:۴)

یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باورکروں؟ مجھ پر سات مقدمے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی ایک میں ایک لفظ بھی مجھے جھوٹ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کوئی بتائے کہ کسی ایک میں بھی خدا تعالیٰ نے مجھے شکست دی ہو۔ اﷲ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہو سکتاہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جرأت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اُٹھ جاوے۔راستباز تو زندہ ہی مر جاویں۔‘‘ (احمدی اور غیراحمدی میں کیافرق ہے،روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۴۷۷-۴۸۰)

محکمہ ڈاک کاایکٹ

سیرت المہدی میں اس مقدمہ کے ایکٹ کی بابت ذکر ہے کہ ’’مولوی فضل دین صاحب پلیڈر قادیان نے مجھ(حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے۔ناقل) سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے یہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ محکمہ ڈاک کی طرف سے میرے خلاف مقدمہ ہوا تھا۔جس میں فیصلہ کا سارادارومدارمیرے بیان پر تھا یعنی اگر میں سچ بول کر صحیح صحیح واقعہ بتا دیتا تو قانون کی رُوسےیقیناً میرےلئےسزامقدرتھی اوراگر جھوٹ بول کرواقعہ سے انکار کر دیتا تو محکمہ ڈاک کسی اور ذریعہ سے میرے خلاف الزام ثابت نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ میرے وکیل نے بھی مجھے یہ مشورہ دیا کہ اگر بچنا چاہتے ہیں تو انکار کردیں مگر میں نے یہی جواب دیا کہ خواہ کچھ ہو جاوے میں خلاف واقعہ بیان نہیں کروں گا اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو نہیں بچاوٴں گا۔وغیرہ وغیرہ۔مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت صاحبؑ کے اس بیان کے خلاف بعض غیر احمدیوں نے بڑے زور شور کے ساتھ یہ شائع کیا ہے کہ یہ ساری بات بناوٹی ہے۔ڈاک خانہ کا کوئی ایسا قاعدہ نہیں ہے جو بیان کیا جاتا ہے اور گویا نعوذباللہ یہ سارا قصہ مقدمہ کا اپنی راست گفتاری ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔وَاِلَّا ڈاکخانہ کا وہ قاعدہ پیش کیا جائے۔مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس اعتراض کی فکر تھی اور میں نے محکمہ ڈاک کے پرانے قوانین کی دیکھ بھال شروع کی تو ۱۸۶۶ء کے ایکٹ نمبر۱۴ دفعہ ۱۲ و ۵۶ اور نیزگورنمنٹ آف انڈیا کے نوٹیفکیشن نمبر ۲۴۴۲ مورخہ۷؍دسمبر ۱۸۷۷ء دفعہ ۴۳میں صاف طور پر یہ حوالہ نکل آیا کہ فلاں فعل کا ارتکاب جرم ہے جس کی سزا یہ ہے یعنی وہی جو حضرت صاحب نے لکھی تھی‘‘(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۳۱۵)

خاکسارکے ایک بہت ہی عزیزاور محنتی رفیق کارجواس سیرت پراجیکٹ کے معاونین میں سے ایک ہیں۔انہوں نے بہت محنت اور تلاش سے یہ ایکٹ اور نوٹیفیکیشن تلاش کیاہے۔فجزاہ اللہ احسن الجزاء

12.

Proof-sheets marked as such may be sent by the Letter-Post at the rates prescribed for newspapers, provided the contents be correctly certified on the cover by the signature in full of the sender; otherwise the same shall be charged with postage at the rate which would be charged on an unstamped letter of equal weight.

43.

Every person who shall, for the purpose of defrauding the Post Office Revenue, wilfully certify by writing on any official or other letter or packet delivered at any Post-Office for conveyance by post, that which is not true in respect of such letter or packet or in respect of the whole of its contents, or shall knowingly send or deliver, or attempt to send or deliver, for conveyance by Post, any letter or packet with any such false certificate thereon; and every person who shall knowingly send or permit to be sent by Post, under colour or pretence of an official communication, any letter, paper, writing or other enclosure of a private nature, shall, for every such offence, be punished with a fine not exceeding five hundred rupees.

56.

All fines imposed under the authority of this Act, for offences punishable by fine only, by any Criminal Court or by any Assistant to a Magistrate or Deputy Magistrate, may, in case of non-payment thereof, be levied by distress and sale of the goods and chattels of the offender, by warrant under the hand of any of the above-named Officers. In case any such fine shall not be forthwith paid, any such Officer may order the offender to be apprehended and detained in safe custody until the return can be conveniently made to such warrant of distress, unless the offender shall give security to the satisfaction of such Officer for his appearance at such place and time as shall be appointed for the return of the warrant of distress, and such Officer may take security by way of recognizance or otherwise. If upon the return of such warrant, it shall appear that no sufficient, distress can be had whereon to levy such fine, and the same shall not be forthwith paid, or in case it shall appear to the satisfaction of such Officer, by the confession of the party or otherwise, that he has not sufficient goods and chattels whereupon such fine or sum of money could be levied if a warrant of distress were issued, any such Officer, by warrant under his hand, may commit the offender to prison, there to be imprisoned only, or to be imprisoned and kept to hard labour, according to the discretion of such Officer, for any term not exceeding two calendar months where the amount of the fine shall not exceed fifty rupees, and for any term not exceeding four calendar months where the amount shall not exceed one hundred rupees, and for any term not exceeding six calendar months in any other case;the commitment to be determinable in each of the cases aforesaid on payment of the amount.

(A Collection of The Act Passed by the Governor General of India Council in the year 1866)

حیات احمد جلد اول کے صفحہ نمبر۳۶۲ میں یہ ایکٹ نمبر۱۴ زیردفعہ۱۶ و۵۶ لکھا ہے۔ دفعہ۱۶ درج ذیل ہے۔

16.

Where there is no Banghy-Post established on any line of road, parcels, books and other articles shall be received and transmited by the Letter-Post, and shall be charged with postage acccording to the scale in Section 13 or 14 of this Act, as the case may be, if it be certified in writing, on such parcel, book-packet or other article under the full signature and address of the sender, that it does not contain any letter or other written communication on which a higher rate of postage is chargeable under any Section of the Act.

نوٹیفیکیشن نمبر ۲۴۴۲ مجریہ The gazette of India,8th December 1877 میں نہیں ہے صرف نوٹیفیکیشن نمبر ۲۴۵۰ کا تعلق ڈاکخانہ جات سے ہے۔وہ بھی یہاں درج کیا جاتا ہے:

No.2450:

Under the provision of Sections 20, 21and22 of the Post Office Act of 1866, the Governor General in Council is pleased to direct that the additional postage chargeable under Section 24 of the said Act upon any letter or other article re-directed at any Post Office or forwarded conveyed by post from any place to which it shall have been conveyed by Post, shall not be charged upon any such letter or other articles which may be so re-directed or forwarded on or after the 1st January 1878.

(Index to the gazette of India, July to December 1877 )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button