حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام کا دعا میں سوز وگداز
خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کے فرمان کے ساتھ کامیابی کے وعدے بھی دیے تھے۔ ان وعدوں نے آپ کو دعائیں مانگنے سے بے نیاز نہیں کیا۔ بلکہ زیادہ جھکا دیا۔ آپ انتہائی سوزوگداز اور اضطرار سے پروردگار کے مجیب ہونے پر حق الیقین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے خود کو آستانۂ الوہیت پر گرائے رکھتے۔ دعا آپؑ کااوڑھنا بچھونا تھا۔ آپؑ کی دعا کی کیفیت مشاہدہ کرنے والوں کا بیان دل پر خاص اثر چھوڑتاہے۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ آپؑ کی دعا کا طریق بیان فرماتے ہیں: جب حضرت صاحب مجلس میں بیعت کے بعد یاکسی کی درخواست پر دعا فرمایا کرتے تھے تو آپ کے دونوں ہاتھ منہ کے نہایت قریب ہوتے تھے اور پیشانی اور چہرہ مبارک ہاتھوں سے ڈھک جاتاتھا اور آ پ آلتی پالتی مار کر دعا نہیں کیاکرتے تھے بلکہ دوزانو ہوکر دعا فرماتے تھے۔ اگر دوسری طرح بھی بیٹھے ہوں تب بھی دعا کے وقت دوزانو ہو جایاکرتے تھے۔ یہ دعا کے وقت حضورکا ادبِ الٰہی تھا۔(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۶۱۔ روایت نمبر ۷۳۶)’’حضرت مولانا مولوی عبدالکریمؓ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ بیت الدُّعا کے اُوپر میرا حجرہ تھا اور مَیں اُسے بطرزِ بیت الدُعا استعمال کیا کرتا تھا۔اِس میں سے حضرت مسیح موعود ؑکی حالت دُعا میں گریہ و زاری کو سنتا تھا۔ آپ کی آواز میں اس قدر دَرد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پِتّہ پانی ہوتا تھااور آپ اس طرح پر آستانۂ الٰہی پر گریہ و زاری کرتے تھے جیسے کوئی عورت دردِزِہ سے بیقرار ہو۔ وہ فرماتے تھے کہ مَیں نے غور سے سنا تو آپ مخلوقِ الٰہی کے لئے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دُعا کرتے تھے کہ الٰہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو جائیں گے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا۔ یہ خلاصہ اور مفہوم حضرت مولانا سیالکوٹی صاحبؓ کی روایت کا ہے۔اِس سے پایا جاتا ہے کہ باوجودیکہ طاعون کا عذاب حضرت مسیح موعودؑ کی تکذیب اور انکار ہی کے باعث آیا مگر آپ مخلوق کی ہدایت اور ہمدردی کے لئے اِس قدر حریص تھے کہ اِس عذاب کے اُٹھائے جانے کے لئے باوجودیکہ دُشمنوں اور مخالفوں کی ایک جماعت موجود تھی۔ رات کی سُنسان اور تاریک گہرائیوں میں رو رو کر دُعائیں کرتے تھے۔ ایسے وقت میں جبکہ مخلوق اپنے آرام میں سوئی ہے یہ جاگتے تھے اور روتے تھے۔ القصہ آپ کی یہ ہمدردی اور شفقت علیٰ خلق اللہ اپنے رنگ میں بے نظیر تھی۔‘‘(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ ۴۲۸-۴۲۹)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کہ ہر مجلس میں اور ہر موقع پر حضرت صاحب کے قریب ہو کر بیٹھوں۔ بعض دفعہ جب کوئی دوست حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں دعا کی تحریک کرتے اور حضور اس مجلس میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو میں بہت قریب ہو کر یہ سننے کی کوشش کرتا کہ حضور کیا الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔ باربار کے تجربہ سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودؑ ہر دعامیں سب سے پہلے سور ہ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے اور بعد میں کوئی اور دعا کرتے تھے۔(سیرت مسیح موعودؑ از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ۵۲۱)
حضرت اقدسؑ کی دعاؤں میں عجز و انکسار کا عالم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری آزمائشیں اور تکالیف دور کر دے اور ہمارے دلوں کو ہر قسم کے غم سے نجات دے دے اور ہمارے کاموں کی کفالت فرما اور اے ہمارے محبوب! ہم جہاں بھی ہوں ہمارے ساتھ ہو اور ہمارے ننگوں کو ڈھانپے رکھ اور ہمارے خطرات کو امن میں تبدیل کر دے۔ ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا ہے اور اپنا معاملہ تیرے سپرد کر دیا ہے۔ دنیا و آخرت میں تو ہی ہمارا آقا ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اے رب العالمین میری دعا قبول فرما۔‘‘(ترجمہ از عربی عبارت۔ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۸۲)
آپؑ کی اپنے دور کے علماء کے بارے میں دعا
فرمایا: ’’اے میرے رب! اے میرے رب! میری قوم کے بارہ میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارہ میں میری تضرعات کو سن۔ میں تیرے نبی خاتم النبییّن و شفیع المذنبینؐ کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں۔ اے میرے رب! انہیں ظلمات سے اپنے نور کی طرف نکال اور دوریوں کے صحرا سے اپنے حضور میں لے آ۔ اے میرے رب! ان لوگوں پر رحم کر جو مجھ پر لعنت ڈالتے ہیں اور اپنی ہلاکت سے اس قوم کو بچا جو میرے دونوں ہاتھ کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کے دلوں کی جڑوں میں ہدایت داخل فرما۔ ان کی خطاؤں اور گناہوں سے درگزر فرما۔ انہیں بخش دے اور انہیں معاف فرما۔ ان سے صلح فرما۔ انہیں پاک و صاف کر اور انہیں ایسی آنکھیں دے جن سے وہ دیکھ سکیں اور ایسے کان دے جن سے وہ سن سکیں اور ایسے دل دے جن سے وہ سمجھ سکیں اور ایسے انوار عطا فرما جن سے وہ پہچان سکیں۔ اور ان پر رحم فرما اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس سے درگزر فرما کیونکہ یہ ایسی قوم ہیں جو جانتے نہیں۔ اے میرے ربّ مصطفیٰﷺ اور آپ کے بلند درجات کے صدقے اور ان کے صدقےجو راتوں کے اوقات میں قیام کرنے والے مومنین اور دوپہر کی روشنی میں غزوات میں شریک ہونے والے نمازیوں اور جنگوں میں تیری خاطر سوار ہونے والے مجاہدین اور ام القریٰ مکہ مکرمہ کی طرف سفر کرنے والے قافلوں کا واسطہ! تو ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے درمیان صلح کروا۔ تو ان کی آنکھیں کھول دے اور ان کے دلوں کو منور فرما۔ انہیں وہ کچھ سمجھا جو تو نے مجھے سمجھایا ہے اور ان کو تقویٰ کی ر اہوں کا علم عطا کر۔ جو کچھ گزر چکا وہ معاف فرما۔ اور آخر میں ہماری دعا یہ ہے کہ تمام تعریفیں بلند آسمانوں کے پروردگار کے لئے ہی ہیں۔ ‘‘(ترجمہ از عربی عبارت۔ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد۵ صفحہ۲۳۔۲۲)
سب سے عمدہ دعا
فرمایا: ’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہوں سے نجات حاصل ہو کیونکہ گناہوں ہی سے دل سخت ہو جاتا اور انسان دنیا کا کیڑا بن جاتاہے۔ ہماری دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہم سے گناہوں کو جو دل کو سخت کر دیتے ہیں دُورکردے اور اپنی رضا مندی کی راہ دکھلائے۔‘‘(ملفوظات جلد۴ صفحہ۳۰، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
’’اے رب العالمین! تیرے احسانوں کامیں شکر نہیں کر سکتا۔ تو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بے غایت مجھ پراحسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تامیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خاص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے عمل کرا جن سے تو راضی ہو جائے۔ میں تیرے وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتاہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وار د ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل وکرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین ثم آمین۔‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر۴ صفحہ۵)
’’اے میرے محسن! اے میرے خدا! میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پرمعصیت اور پرغفلت ہوں۔ تونے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اورانعام پر انعام کیا اورگناہ پرگناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا۔ تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا۔ سو اب بھی مجھ نالائق اور پرگناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اورمجھ کو میرے اس گناہ سے نجات بخش کہ بغیر تیرے کوئی چارہ گر نہیں۔ آمین ثم آمین۔‘‘(مکتوبات احمدیہ جلد۵ نمبر۲ صفحہ۳)
’’اے خدا تعالیٰ قادروذوالجلال ! میں گناہ گار ہوں اور اس قدر گناہ کے زہر نے میرے دل اور رگ وریشہ میں اثر کیا ہے کہ مجھے رقت اور حضور نماز حاصل نہیں ہوسکتا۔ تُو اپنے فضل و کرم سے میرے گناہ بخش اور میری تقصیرات معاف کر اور میرے دل کو نرم کر دے اور میرے دل میں اپنی عظمت اور اپنا خوف اور اپنی محبت بٹھا دے تاکہ اس کے ذریعہ سے میری سخت دلی دور ہو کرحضور نماز میں میسر آوے۔‘‘(فتاویٰ مسیح موعودؑ صفحہ ۴۱)
خانہ کعبہ میں آپؑ کی طرف سے دعا کرنے کے لیے دل گداز الفاظ
’’اے ارحم الراحمین! ایک تیرا بندہ عاجزو ناکارہ پُرخطا اور نالا ئق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے ارحم الراحمین! تو مجھ سے راضی ہو اور میرے خطیئات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور اور رحیم ہے اور مجھ سے وہ کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق ا ور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور موت اور میری ہر ایک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار۔ اور اپنے ہی کامل محبّین میں اٹھا‘‘(مکتوبات احمد یہ جلد۵ صفحہ ۱۷-۱۸)
خدا تعالیٰ نے خود آپؑ کو کچھ دعائیں سکھائیں
رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحَمْنِییعنی ’’اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پررحم فرما۔‘‘ اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جواسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی۔‘‘(تذکرہ صفحہ۴۴۲-۴۴۳)
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِ مُحَمَّدٍ۔(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۲۰۸)
’’یا حفیظُ یا عزیزُ یا رفیق‘‘۔ یعنی اے حفاظت کرنے والے، اے عزت والے اور غالب، اے دوست اور ساتھی! فرمایا ’’رفیق خدا تعالیٰ کا نیا نام ہے جو کہ اس سے پیشتر اسمائے باری تعالیٰ میں کبھی نہیں آیا۔‘‘(البدر جلد۲ نمبر۵۳ صفحہ۲۸ مورخہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۰۳ء)
الفاظ کا چناؤ پگھلے ہوئے دل کا غماز ہے۔ اور رحمت کو جوش میں لاتا ہے۔ آپؑ اس کی اہمیت سے خوب واقف تھے فرماتے ہیں: ’’دعا کے لیے رقّت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کوجنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے… اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو، دعاکرو تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو‘‘(ملفوظات جلد۱ صفحہ۵۳۸، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے باربار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہوگا دعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا۔(ملفوظات جلد۵ صفحہ۳۶ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
’’میں اپنے ذاتی تجربہ سے بھی دیکھ رہاہوں کہ دعاؤں کی تاثیرآب و آتش کی تاثیر سے بڑھ کر ہے بلکہ اسباب طبعیہ کے سلسلہ میں کوئی چیز ایسی عظیم التاثیر نہیں جیسی کہ دعا ہے۔‘‘(برکات الدعا، روحانی خزائن جلد۶ صفحہ۱۱)
آپؑ کو یہ یقین کامل تھا کہ’’دعا ایسی چیز ہے کہ خشک لکڑی کو بھی سرسبز کرسکتی ہے اور مردہ کو زندہ کر سکتی ہے اس میں بڑی تاثیریں ہیں۔‘‘(ملفوظات جلد۵صفحہ۱۲۱،ایڈیشن۱۹۸۴ء)
’’خدا نے مجھے دعاؤں میں وہ جوش دیاہے جیسے سمندرمیں ایک جوش ہوتا ہے‘‘(ملفوظات جلد۳ صفحہ۱۷۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
آپؑ کی اولاد کے لیے الٰہی بشارتیں موجود تھیں لیکن اس نے آپؑ کو دعاؤں سے بےنیاز نہیں کیا تھا۔ آپؑ کی نظم نثر میں درد مندی سے اولاد کے لیے دعائیں موجود ہیں:
مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے
تری درگاہ میں عجز و بکا ہے
وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے
زباں چلتی نہیں شرم و حیا ہے
مری اولاد جو تیری عطا ہے
ہر اک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے
تری قدرت کے آگے روک کیا ہے
وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے
(درثمین اردو)
اے خداوند من گناہم بخش
سوئے درگاہ خویش راہم بخش
روشنی بخش در دل و جانم
پاک کن از گناہ پنہانم
دلستانی و دلربائی کن
بہ نگاہے گرہ کشائی کن
در دو عالم مرا عزیز توئی
وآنچہ میخواہم از تو نیز توئی
(درثمین فارسی)
ترجمہ: اے میرے اللہ! میرے گناہ بخش اور اپنی درگاہ کی طرف میری راہنمائی فرما۔ میرے دل و جان کو روشنی عطا کر اور مجھے اپنے مخفی گناہوں سے پاک کر دے۔ میر ے ساتھ محبت اور پیار کا سلوک فرما اور اپنی نگاہ کرم کے ساتھ سب عقدے کھول دے۔ دونوں جہاں میں تو ہی مجھے پیارا ہے اور میں تجھ سے صرف تجھے ہی مانگتاہوں۔