اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح (منظوم کلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)
اَے خدا اَے کارساز و عیب پوش و کردگار
اَے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار
کِس طرح تیرا کروں اے ذُوالمِنَن شکر و سپاس
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
بدگمانوں سے بچایا مُجھ کو خود بن کر گواہ
کر دیا دشمن کو اِک حملہ سے مغلوب اور خوار
کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا
مُجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار
تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم
کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب و جوار
کِرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں
ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار
یہ سراسر فضل و اِحساں ہے کہ مَیں آیا پسند
ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار
لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول
مَیں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگہ میں بار
اِس قدر مُجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم
جن کا مشکل ہے کہ تا روزِ قیامت ہو شمار
آسماں میرے لئے تُو نے بنایا اِک گواہ
چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار
تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نُصرت کے لئے
تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار
ہو گئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا
ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار
سرزمینِ ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی
جیسے ہووے برق کا اِک دم میں ہرجا اِنتشار
اِبتدا سے گوشۂ خلوت رہا مُجھ کو پسند
شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار
پر مجھے تُو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا
میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار
ہائے میری قوم نے تکذیب کر کے کیا لیا
زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار
فضل کے ہاتھوں سے اب اِس وقت کر میری مدد
کشتیٔ اسلام تا ہو جائے اِس طوفاں سے پار
یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا
اِس شکستہ ناؤ کے بندوں کی اب سُن لے پکار
اِسْمَعُوْا صَوْتَ السَّمَاءِ جَاءَ الْمَسِیْح جَاءَ الْمَسِیْح
نیز بِشنو از زمیں آمد امامِ کامگار
آسماں بارد نشان اَلْوَقت مے گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار
اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا
پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار
مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مُہر
یہ تو ہے سب شکل ان کی ہم تو ہیں آئینہ دار
ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی
سال ہے اب تئیسواں دعوے پہ از رُوئے شمار
تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں
جبکہ مَیں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار
اِس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی
پھر عجب تر یہ کہ نُصرت کے ہوئے جاری بِحار
ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں
ہر عدو پر حجّتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار
اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا
قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار
کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا مُعتقد
لیکن اب دیکھو کہ چرچا کِس قدر ہے ہر کنار
اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر
جو کہ اب پوری ہوئی بعد از مُرورِ روزگار
مَیں تو آیا اِس جہاں میں ابن مریم کی طرح
مَیں نہیں مامور از بہر جہاد و کارزار
پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں اُمید تھی
اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بیشمار
اُس زمانہ میں ذرا سوچو کہ میں کیا چیز تھا
جس زمانہ میں براہیںؔ کا دیا تھا اِشتہار
پھر ذرا سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا
کِس طرح سرعت سے شہرت ہو گئی در ہر دیار
جانتا تھا کون کیا عزّت تھی پبلک میں مجھے
کِس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار
تھے رجوعِ خلق کے اسباب مال و علم و حکم
خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عزّ و وقار
لیک اِن چاروں سے مَیں محروم تھا اور بے نصیب
ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار
باغ مُرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
مَیں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار
وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار
(براہین احمدیہ حِصّہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۲۷-۱۵۲)