مکتوب

مکتوب شمالی امریکہ (مارچ ۲۰۲۴ء)

(فرحان احمد حمزہ قریشی۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

(مارچ ۲۴ء کے دوران شمالی امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات کا خلاصہ)

امریکہ کے محکمہ انصاف نے Appleکمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا

مؤرخہ ۲۱؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ انصاف نے iPhone (آئی فون) بنانے والی کمپنی Apple کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ امریکی محکمہ انصاف کا دعویٰ ہے کہ Apple نے iPhone کے ذریعے ایک ایسا ڈیجیٹل نظام یا ecosystem قائم کر دیا ہے جو اجارہ داری کے مترادف ہے اور عام صارفین اور دیگر کمپنیوں کے بعض حقوق کو پامال کررہا ہے۔ Appleنے ایک طرح سے اپنی مصنوعات کے استعمال کرنے والوں کو iPhone اور اس سے متعلقہ سافٹ ویئر وغیرہ کو استعمال کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔

مقدمہ میں جن اہم باتوں کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ Apple نے cloud gaming کی apps کو محدود کیا ہے جس کی وجہ سے iPhone پرgame کھیلنے والوں اور بنانے والوں کو دقتیں پیش آ رہی ہیں۔ محکمہ انصاف نے دوسرا دعویٰ یہ کیا ہے کہ iPhone اور android فون استعمال کرنے والوں کے باہم ٹیکسٹ میسیجنگ میں کچھ روکیں حائل ہیں اور ان کی security میں خلل ہے۔ اور ان کے علاوہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ایسیsmartwatches جو Apple نے نہیں بنائیں اُن کا iPhone کے ساتھ رابطہ جان بوجھ کر کمزور کیا گیا ہے تاکہ صارفین Apple Watch خریدنے پر مجبور ہوں۔

Apple نے اس مقدمہ کے جواب میں بیان دیا ہے کہ وہ اس کا بھر پور مقابلہ کریں گے۔ تاہم تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ مقدمہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس کے نتائج پوری ٹیکنالوجی انڈسٹری پر اثر انداز ہوں گے۔

(بحوالہ The Vergeنیز The New York Times)

اقوامِ متحدہ کی قرار داد کو امریکہ نے ویٹو نہ کیا

اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۵؍مارچ کو غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرار داد پیش کی۔ چنانچہ ۱۵؍ اراکین میں سے ۱۴؍نے اس قرارداد کی حمایت کی اور اس طرح پہلی بار غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد اقوامِ متحدہ میں منظور ہوئی۔ اگرچہ اس قرار داد کی ووٹنگ میں امریکہ نے حصہ نہ لیا تاہم پچھلےتین بار کی طرح امریکہ نے اس قرار داد کو ویٹو بھی نہ کیا۔

اس قرار داد کی منظوری کے بعد اسرائیل کے وزیرِاعظم نیتن یاہو نے امریکہ سے ناراضگی کا اظہار کیا اور اسے اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹنے کا ملزم ٹھہرایا۔ ان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’’افسوس کے ساتھ امریکہ نے اس نئی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، جس میں ایسی جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جو یرغمالیوں کی رہائی پر منحصر نہیں۔‘‘ (بحوالہ BBC اردو)

فلسطینیوں کے حقوق کے حمایتیوں کے مطابق قرارداد کی منظوری ایک قسم کی تبدیلی تو ہے لیکن اس کے ذریعے ابھی تک امریکہ سے اسرائیل کواسلحہ بھجوانے کا سلسلہ روکا نہیں گیا۔ (بحوالہ الجزیرہ انگریزی)

بالٹی مور کا اہم پُل حادثہ میں گر گیا

۲۶؍ مارچ کی صبح کو بوقت قریباً ڈیڑھ بجے میری لینڈ(Maryland) سٹیٹ کے شہر بالٹی مور (Baltimore) کے Francis Scott Key (فرانسس سکاٹ کی) پُل کے ستون کے ساتھ ایک بحری جہاز حادثاتی طور پر ٹکرایا جس کے نتیجے میں پُل۸؍ معماروں سمیت دریا میں گر گیا۔ ان ۸؍معماروں میں سے ۶؍ہلاک ہو گئے۔

تحقیقات کے مطابق بحری جہاز کی بجلی کا نظام اچانک بےکار ہو گیا اور کشتی بانوں کا جہاز پر اختیار نہ رہا۔بجلی کے نظام کی بے کاری کی فوری اطلاع متعلقہ افسران کو کر دی گئی تھی جس کی بنا پر پولیس نےپُل پر گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیا تھا۔ لیکن وہ آٹھ تعمیر کار پہلے سے ہی پُل پر موجود تھے اور اس حادثہ سے پہلے ان کو وہاں سے نکالا نہ جا سکا۔

جہاز کے ٹکرانے اور پُل کے گر جانے کے بارہ میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔

یہ پُل جسے عرف عام میں Key Bridge بھی کہا جاتا ہے مارچ ۱۹۷۷ء میں تعمیر کیا گیا۔ اور اس کی لمبائی ۱.۶؍میل تھی۔ اُس زمانے میں اس کی تعمیر کا خرچہ ۶۰؍ملین ڈالر تھا۔اس پُل پر سے روزانہ ۳۰ ہزار لوگ گزرتے تھے۔ نیز یہ بات بھی قابلِ بیان ہے کہ بالٹیمور کی بندرگاہ امریکہ میں بین الاقوامی cargoسامان کی نویں بڑی بندرگاہ ہے۔ اور اس بندرگاہ کے ساتھ پندرہ ہزار سے زائد نوکریاں براہِ راست منسلک ہیں۔

امریکی صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اس پُل کی ازسرِ نو تعمیر کا خرچ برداشت کرنے کے لیے تیار ہے۔

(بحوالہ CNN)

کینیڈا کےسابق وزیر اعظم برائن ملرونی انتقال کر گئے

کینیڈا کے اٹھارھویںوزیر اعظم عزت مآب برائن ملرونی (Brian Mulroney) مؤرخہ ۲۹؍فروری ۲۰۲۴ء کوبعمر ۸۴؍سال انتقال کر گئے۔ ان کا جنازہ ۲۳؍ مارچ کو مانٹریال کے مشہور اور تاریخی چرچ Notre-Dame Basilica میں ہوا جس میں موجودہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے علاوہ کینیڈا کی معروف اور مؤثر شخصیات نے شرکت کی۔

ملرونی کینیڈا کے اہم ترین وزرائے اعظم میں سے تھے جن کے دور میں کینیڈا نے ترقیات کی نئی منازل کو عبور کیا۔ مثلاً کینیڈا اور امریکہ کے درمیان مفت تجارتی معاہدہ (Free Trade Agreement) ہوا جو عام طور پر free tradeکے نام سے معروف ہے۔ یہ معاہدہ ۱۹۸۷ء میں عمل میں آیا اور دنیا بھر کے تجارتی معاہدوں میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔اس معاہدہ کی بنا پر بعد میں ملرونی کی کوششوں سےنافٹا (NAFTA) یعنی شمالی امریکہ کا باہم مفت تجارتی معاہدہ قائم ہوا۔اس کے تحت کینیڈا، امریکہ اور میکسیکو کا آپس میں تجارت کرنا آسان ہو گیا اور اس سے اکانومی مضبوط ہوئی۔

ان معاہدوں کے علاوہ ملرونی کے دور میں حکومتی خسارے کو ختم کرنے کے لیے GST یعنی گورنمنٹ سیلز ٹیکس شروع کیاگیا۔ اُس زمانے میں یہ سات فیصد ٹیکس اس قدر نا مقبول تھا کہ ایک موقع پر ملرونی نے اُس وقت کے امریکی صدر کلنٹن سے کہا کہ آج کل صرف میرے اہل خانہ ہی میری حمایت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ ٹیکس حکومتِ کینیڈا کے لیے اس قدر مفید ثابت ہوا کہ بعد میں آنے والے وزیر اعظم نے اس کو برقرار رکھا۔ (بحوالہ CBC News اورThe Canadian Press)

ملکی سطح پر ادویات فراہم کرنے کا منصوبہ

۲۹؍فروری کو کینیڈا کے وفاقی وزیر صحت مارک ہالینڈ نے ملکی سطح پر ادویات فراہم کرنے کے منصوبے کی تفاصیل کا اعلان کیا۔ اس منصوبہ کے ذریعے کینیڈینز کو ادویات مفت مہیا کی جائیں گی۔ لیکن یہ منصوبہ پارلیمنٹ کی منظوری پر منحصر ہو گا۔

کینیڈا میں طبی اخراجات شہریوں کے لیے مفت ہیں لیکن دوائیوں کی مہنگائی کے پیشِ نظر حکومت کی کوشش ہے کہ ان کا خرچہ بھی شہریوں کے لیے طبی نظام(healthcare system) کے ذریعے برداشت کیا جائے تا کہ ان کے علاج میں غربت یا کوئی اور وجہ حائل نہ ہو۔

۲۰۱۹ء کی ایک خاص مشاورتی کونسل کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ء میں ہسپتالوں کے علاوہ (جہاں ادویات کے خرچ healthcare system برداشت کرتا ہے) کینیڈا میں ادویات کاکُل خرچہ ۳۳.۷؍بلین ڈالرز تک پہنچا ہوا تھا۔

چنانچہ حکومت نے ۲۰۱۹ء میں ہی ادویات کی فراہمی کا منصوبہ پیش کرنے کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ معرضِ التوا میں رہا۔ بالآخر Liberal پارٹی کی موجودہ حکومت نے دوسری پارٹی NDP کے تعاون سے یکم مارچ ۲۰۲۴ء تک منصوبہ پیش کرنے کا عہد کیا جسے انہوں نے اب پورا کیا ہے۔

ابھی تک اس منصوبے کی بہت سی تفاصیل مخفی ہیں لیکن پہلے مرحلے پر ذیابیطس اور ضبطِ تولید (birth control)کی ادویات سے شروع کیا جائے گا۔اور اس منصوبے میں insulin pumps وغیرہ بھی شامل ہوں گی۔

اس منصوبے کے کُل اخراجات ابھی تک اعلان نہیں کیے گئے۔ مشاورتی کونسل کے محتاط اندازوں کے مطابق صرف ضروری ادویات کو شامل کر کے اس قسم کے تفصیلی منصوبے کا خرچہ ۱۵.۳؍بلین ڈالرز ہو گا اور کینیڈینز کے ادویات کے اخراجات میں قریباً ۵؍بلین ڈالرز کی سالانہ بچت ہو گی۔

( CBC News بحوالہ )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button