اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان (فروری، مارچ ۲۰۲۴ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب)
معجزانہ بچاؤ…ایک احمدی اقدام قتل سے محفوظ
بیریانوالہ۔ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ۔فروری۲۰۲۴ء: بیریانوالہ میں رہنے والے ایک احمدی صبح ۷بجے اپنے گھر سے نکلے تو ان کی ملاقات ان کے ایک غیر احمدی واقف کار صدام نامی شخص سے ہوئی۔صدام نے ان پر گولیاں برسا دیں۔ ایک گولی ان کی ٹانگ پر لگی۔خوش قسمتی سے انہیں زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ گولیاں برسانے کے بعد حملہ آور موقع سے فرار ہو گیا۔ ان زخمی احمدی کو گوجرہ ہسپتال لے جایا گیاجہاں وہ زیرِ علاج رہے۔اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔اس کے بعد پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا لیکن وہ تا حال مفرور ہے۔اس واقعے کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس واقعے سے دو روز قبل مخالفین نے ایک میٹنگ کی اور اس میں منصوبہ بنایا کہ ا پنے مقاصد کو حاصل کر نے کے لیے اس احمدی کو منظر سے ہٹانا بہت ضروری ہے۔ اور اسی منصوبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہ اقدام قتل کیا گیا۔
چنیوٹ میں انتہائی جارحانہ کانفرنس
دعوت و ارشاد کے مرکز میں ۶۲ویں فاتح مباہلہ کانفرنس منعقد کی گئی جس کی صدارت مولوی الیاس چنیوٹی نے کی۔کانفرنس میں ۲۰۰ سے زائد لوگ شریک ہوئے اور انتہائی جارحانہ انداز رکھنے والے مولویوں نے اس میں تقاریر کیں۔ ان مولویوں میں عصمت اللہ بندیالوی،شاہ نواز فاروقی،نعمان ضیاء فاروقی اور مسرور نواز جھنگوی شامل ہیں۔ایک احمدی کے مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے ان مولویوں نےکہا کہ سپریم کورٹ عدلیہ کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے لیکن بدقسمتی سے عدلیہ نے اس مقدمہ میں انتہائی غیرمنصفانہ رویہ اپنایا ہے۔ہمارے بزرگوں نے ختم نبوت اور ناموس رسالت کے لیے اپنی عزتوں کی قربانی دی ہے۔اور ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ سپریم کورٹ کو سوچنا چاہیے کہ اس فیصلے سے قادیانی فائدہ اٹھائیں گے۔ مسلمان ختم نبوت کے رکھوالے ہیںاور اس کےلیے ہر قربانی کےلیے تیار ہیں۔اور اپنے بزرگوں کی پیروی کریں گے۔ اس کے بعد انہوں نے احمدیت مخالف قرارداد منظور کی جس کا لب لباب یہ ہے کہ آئین پاکستان کے مطابق احمدی غیر مسلم اقلیت اور غیر قانونی جتھہ ہے۔یہاں موجود یہ مجلس حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس اسلام مخالف اور ریاست مخالف گروہ کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے۔اس مجلس کو سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے پر سخت تشویش ہے۔ اور ساتھ یہ مجلس یورپی یونین کی ناجائز مداخلت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہے۔گوکہ سپریم کورٹ کے تعلقات عامہ کے شعبہ نے اس فیصلے سے متعلق شکوک کو رفع کر نے کی کوشش کی ہے لیکن ہم ان کی شرارتوں سے خوب واقف ہیں اور یہ کہ وہ کیسے قرآن کے اپنے تراجم دنیا بھر میں پھیلا رہےہیں۔اور ساتھ ہی وہ اس فیصلے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔اور ہم امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس مقدمے کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے ان باتوں کومد نظر رکھے گی۔
ایک احمدی کو محض عقیدے کی بنا پر شہید کر دیا گیا
حاصل پور ضلع بہاولپور۔۴؍مارچ۲۰۲۴ء:مقامی صدر جماعت طاہر اقبال چیمہ کوایک ظالمانہ اور شدت پسندانہ حملے میں شہید کر دیا گیا۔موصوف اپنے اہل خانہ کے ساتھ انتہائی محبت کا تعلق رکھنے والے وجود تھے۔ بوقت شہادت ان کی عمر۵۴؍سال تھی۔انہیں اپنے گاؤں کی طرف جاتے ہوئے دو حملہ آوروں نے نشانہ بنایا۔دونوں حملہ آوروں نے ان کو پہلے گالی گلوچ کی اور پھر ان پر گولیاں برسا دیں۔ شہید مرحوم زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق ِحقیقی سے جا ملے۔مولویوںکے احتجاج کے باعث پولیس کو یہ مقدمہ اور قاتل دونوں محکمہ انسداد دہشتگردی کے سپرد کرنا پڑے۔ یہ بات سالہا سال سے مذہبی انتہا پسندوں اور شدت پسندوں کے ساتھ نرمی کے سلوک روا رکھے جانے کے باعث صوبے میں قانون کے نفاذ کی مخدوش صورتحال کی عکاس ہے۔ شہید مرحوم نے اپنے سوگواروں میں اہلیہ اور تین جوان بچے چھوڑے ہیں۔
اس شہادت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے احمدیوں کو کس قسم کے خطرات کا سامنا ہے اور یہ کہ اس وقت ہمیں کس قدر عفو و درگزر، برداشت اور معاشرے میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس نے ابتدائی طور پر اس واقعے کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی۔ ڈان نیوز سے بات کر تے ہوئے ڈی پی او نے کہا کہ یہ واقعہ مذہبی نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل ہے۔تاہم شہید مرحوم کی شہادت کو مختلف ذرائع ابلاغ نے نشر کیاجن سے حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔مثلاً Voice.pkنے کہا کہ ڈی پی او اب اپنے غیرت کے نام پر قتل والے بیان سے مکر رہا ہے۔ اسی طرح Voice.netنے اس شہادت کے تانے بانے لشکر جھنگوی سے جوڑے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں حملہ آور لشکر جھنگوی کے ایک مدرسے سے تعلیم یافتہ تھے۔
اسسٹنٹ کمشنر کوٹلی نے احمدیوں پر پابندی عائد کر دی
کوٹلی۔ اا؍مارچ ۲۰۲۴ء:اے سی کوٹلی آزاد جموں کشمیر نے تتہ پانی اور گوئی کے احمدیوں سے ملاقات کی۔ اس سے قبل وہ مخالفین احمدیت سے ایک ملاقات کر چکا تھا۔بعدازاں اس نے فریقین کو اکٹھا کیا۔ اس موقع پر ایس ایچ او تھانہ گوئی بھی موجود تھا۔ اے سی نے فیصلہ سنایا کہ کوئی بھی قادیانی یا احمدی اپنی ’عبادت گاہ ‘کے مینارے اور محراب تعمیر نہیں کرے گا۔ ایسا اس لیے ہے تا کہ مساجد سے ان کا فرق ہو سکے۔احمدیوں کی مساجدپر کلمہ یا کوئی بھی قرآنی آیت نہیں لکھی جائے گی۔ قادیانی احمدی خود کو مسلمان نہیں کہیں گے۔ قادیانی احمدی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہا جائے گا۔ ان کے باہر بیت الذکر لکھا جائے گا۔اسی طرح قادیانی احمدی قبرستان کے باہر بھی کچھ ایسا آویزاں کیا جائے گا جس سے فرق واضح ہو۔سب سے پہلے موجود بیت الذکر کا محراب ڈھانپا جائے گا تا کہ کوئی مسلمان اس سے دھوکا نہ کھائے۔او راس کو اس طرح سے تبدیل کیا جائے گا کہ کوئی بھی شخص غلطی سے اس میں داخل نہ ہو سکے۔اسی طرح قادیانی احمدی قبروں کے کتبوں کو بھی ڈھانپا جائے گا اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا تو ان کتبوں پر لکھی تمام اسلامی عبارات کو ہٹایا جائے گا۔ قادیانی احمدی شخص کو کسی بھی سکول کالج میں اسلامیات یا اس سے متعلقہ کوئی بھی مضمون پڑھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔کسی بھی قادیانی احمدی کو غیر از جماعت کے لیے کنواں بنانے کی اجازت نہیں ہو گی جب تک کہ وہ مقامی کونسل،ضلع کونسل اور ڈی سی سے اجازت نہ لےلے۔کوئی بھی متمول قادیانی احمدی کسی بھی غیر احمدی کی کوئی بھی مالی امداد چھپ کر یا کھلے عام نہیں کرے گا۔نہ ان کے لیے مالی فائدے کی کوئی سکیم متعارف کروائے گا۔کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ان کو مقامی کونسل،ضلعی کونسل یا انتظامیہ سے اجازت لینا ہو گی۔ قادیانی احمدی طلبہ کو کوئی بھی مضمون پڑھنے کی اجازت ہو گی۔ اسلامیات اور اس سے متعلقہ مضامین بھی۔ قادیانی احمدی افراد کو ریاست کی جانب سے دی گئی تمام سہولیات حاصل ہوں گی بشمول تعلیم،صحت،جان ومال کا تحفظ اور کاروبار کرنے کے مواقع۔ قادیانی احمدی افراد کو اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے اور اپنی زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہو گی۔اشتعال انگیزی اور نفرت پر مبنی خطبات اور خطابات پر مساجد اور بیت الذکر میں مکمل پابندی ہو گی۔ تاہم ختم نبوت کے موضوع پر تقاریر کی اجازت ہو گی۔سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کے اشتعال انگیز موادکی تشہیر مکمل طور پر منع ہو گی اسی طرح فریقین ا یک دوسرے کے خلاف کسی بھی قسم کی اشتعال انگیز گفتگو،نعرے بازی،گالی گلوچ یا لعن طعن سے گریز کریں گے۔ اسی طرح فریقین کی جانب سے کسی بھی غیر قانونی یا غیر اخلاقی حرکت پر جوابی کارروائی کی بجائے تحریری طور پر انتظامیہ کو آگاہ کرنا ہو گا۔فریقین کی جانب سے کی گئی کوئی بھی شکایت انتظامیہ کو ارسال کی جائے گی اور فریقین پر قانون کا یکساں اطلاق ہو گا۔ یہ پابندیاں اور ضوابط گوئی اور تتہ پانی دونوں پر لاگو ہوں گے۔
ہماری رائے: اے سی کا یہ حکم آئین پاکستان میں معین حقوق کے سراسر منافی اور ان کے برعکس ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بین الاقوامی شہری حقوق کی ادائیگی کے کنونشن کے مخالف ہے۔یہ بات واضح ہےکہ اے سی کے اس حکم کو رد کیا جانا چاہیے اور اسے آئین کے سراسر خلاف قرار دیا جانا چاہیے۔
احمدی طالبعلم کا روزہ زبردستی تڑوایا گیا
کیسراں ضلع اٹک۔۲۶؍مارچ ۲۰۲۴ء: ایک احمدی طالبعلم قائد اعظم پبلک سکول میں زیر تعلیم ہے۔ اس کے ساتھ پڑھنے والے غیر احمدی طلبہ نے اس کے احمدی ہونے کی وجہ سے اس کا روزہ زبردستی تڑوا دیا۔جب اس کی والدہ نے سکول کے پرنسپل کو اس بات کی شکایت کی تو بجائے معاملہ کو حل کرنے اور مذہبی مساوات کو قائم کرنے کے پرنسپل نے انتہائی ناگواری کا اظہار کیا اور معاملےکو مزید بگاڑ دیااور دھمکی دی کہ وہ سکول سے احمدی طلبہ کو نکال دے گا۔احمدی طلبہ ابھی تو اسی سکول میں زیر تعلیم ہیں لیکن سکولوں کے اند ر اس قسم کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔
کوٹلی آزاد جموں کشمیر میں احمدیوں کی قبر وں کے کتبے مسمار کر دیے گئے
۷ اور ۸؍مارچ کی شب چند نامعلوم افراد نے برموچ گوئی ضلع کوٹلی میں آٹھ احمدی احباب کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے اور ان کا ملبہ اپنے ساتھ ہی لے گئے۔ اگلی صبح جب احمدیوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے پولیس کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔ پولیس موقع پرپہنچی اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا۔اسی طرح کا ایک واقعہ ۱۲؍مارچ کو پیش آیا جب ایک بدبخت نے پٹیارا میں دو احمدی احباب کی قبروں کے کتبے مسمار کر دیے اور ان کا ملبہ اپنے ساتھ لے گیا۔ان میں سے ایک قبر نائک غلام شفیع کی تھی جنہوں نے اپنے ملک کے دفاع میں ۳۳؍سال قبل سیاچن کے محاذ پر شہادت پائی تھی۔کوٹلی میں اس وقت احمدیوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔اور اس کا سب سے بڑا سبب قانون پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔
ایک غیر منصفانہ حکم نامہ
کوٹلی آزاد جموں کشمیر۔مارچ ۲۰۲۴ء:ضلع محکمہ تعلیم کے افسر نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے کہ ۱۹۷۴ء کے آئین کے تحت احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ چنانچہ کوئی بھی احمدی استاد آئندہ سے عربی نہیں پڑھا سکتا۔ ساتھ ہی اس نے ضلع بھر کے تمام غیر مسلم اساتذہ کی فہرست بھی منگوائی ہے۔ افسر کا یہ عمل آئین کے سراسر منافی اور اقلیتی اساتذہ کے تحفظ کو غیر یقینی بنانے والا ہے۔
ایک مقدمے کے متعلق کچھ تفصیل
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مبنی دو رکنی بینچ نے ایک احمدی عہدیدار کی ضمانت منظور کر لی۔ اس وقت تک وہ اپنے اوپر لگے الزام سے ہونے والی سزا سے دوگنازیادہ عرصہ سزا بھگت چکے ہیں۔اس فیصلے نے سپریم کورٹ اور احمدیوں کے خلاف غصے کی ایک لہر چلا دی۔ پنجاب حکومت،جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کر دی۔ اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر نگرانی سپریم کورٹ کا ایک تین رکنی بینچ اس پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ایکسپریس میڈیا گروپ نے ۲۸؍مارچ ۲۰۲۴ء کو اس مقدمے کی تفصیلات پر ایک رپورٹ شائع کی جو یوں ہے۔قادیانی شہری کی ضمانت کا مقدمہ۔علماء سے دو ہفتے کے اندر اندر رائے مانگ لی گئی۔اسلام آباد۔سپریم کورٹ نے قادیانی شہری کی ضمانت کے معاملے میں علماء سے دو ہفتے کے اندر تحریری رائے مانگ لی ہے۔جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ اگر اس فیصلے میں کوئی غلطی ہے تو ہمیں آگاہ کریں ہم اس کو درست کر لیں گے۔ جارحیت اور ہتھیار اٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ایک مذہبی معاملے کو انتہائی احتیاط اورمعاملہ فہمی سے حل کیا جانا چاہیے۔ہم علماء سے کوئی قانونی رائے نہیں مانگ رہے۔ ہم ان سے شریعت کے لحاظ سے وضاحت مانگ رہے ہیں کیونکہ اس معاملے میں ان کا علم زیادہ ہے۔ ہمیں بتائیں کہ اسلام میں ایک مسلمان کی تعریف کیا ہے۔علماء اس فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کے حوالے سے اپنی رائے دیں۔ مقررہ وقت کے بعد دی گئی کوئی بھی رائے نظر انداز کر دی جائے گی۔دیوانی مقدمات میں تو بہت سے فریق بن سکتے ہیں لیکن فوجداری مقدمات میں صر ف مدعی،مدعا علیہ اور حکومت ہی فریق بن سکتے ہیں۔ پھر بھی ہم علماء کی رائے سنیں گے۔رائے موصول ہونے تک مقدمہ کی سماعت کو ملتوی کیا جاتا ہے۔
فیصل آباد کے ہسپتال کے باہر نفرت انگیز اشتہار
فیصل آباد۔۱۶؍مارچ ۲۰۲۴ء:فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال کے باہر احمدیوں کے خلاف انتہائی تحقیر آمیز اور اشتعال انگیز اشتہارات آویزاں کیے گئے۔سپریم کورٹ کے ایک احمدی کو ضمانت دینے کے ردِ عمل کے طور پر یہ اشتہارات آویزاں کیے گئے۔مذہبی انتہا پسندوں کو کسی بھی طور سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا اور وہ انتہائی غیظ وغضب کا اظہارکر رہے ہیں۔ساتھ ہی وہ اس فیصلے کو اسلام اورآئین کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ اس فیصلے کی گونج سوشل میڈیا پر سنائی دی جہاں چیف جسٹس کو بے توقیر کیا جارہا ہے۔یہ اشتہار پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے آویزاں کیے گئے۔ یہ اشتہار یوں تھے۔قادیانیت ایک کینسر ہے۔ مسلمان اس کو پھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ قادیانیت کی حمایت اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔چیف جسٹس کا فیصلہ قادیانیت کی حمایت اور آئین کے خلاف جا رہا ہے۔
یہ اشتہار پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رویے اور احمدیوں کے خلاف تفریق کے عکاس ہیں۔ ترجمان جماعت احمدیہ نے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کس طرح ایسے اشتہارات کی اجازت دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی یہ عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی ایک مذموم کوشش ہے۔
انتظامیہ کی مداخلت کے باعث یہ اشتہارات ۱۶؍مارچ کی رات کو اتار دیے گئے تھے۔ لیکن یہ واقعہ اس امتیازی سلوک کا غماز ہے جس کا روزانہ کی بنیاد پر احمدیوں کو پاکستان میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
(مرتبہ:مہر محمد داؤد)