تعارف کتب صحابہ کرامؓ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط ۵۱) مسلمان عورت کی بلند شان (مصنفہ حضرت مولانا عبدالرحیم درد رضی اللہ عنہ)
حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کی پیدائش ۱۸۹۴ء میں حضرت ماسٹر قادر بخش صاحبؓ کے ہاں لدھیانہ میں ہوئی۔ آپ کا نام رحیم بخش رکھا گیا جو سلسلہ کے ابتدائی لٹریچر میں مذکور ہے۔ لیکن بعد میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا نام رحیم بخش سے بدل کر عبدالرحیم کردیا اور ’’درد‘‘تخلص عطا کیا۔
حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحبؓ نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ میں حاصل کی۔ بچپن میں آپؓ کی صحت کمزور تھی مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے آپؓ تندرست ہوگئے۔
آپؓ نے متعدد کتب اردو اور انگریزی میں تحریر فرمائیں۔ آپؓ شعر بھی کہتے تھے۔ نیز انگریزی ترجمۃالقرآن کے کام میں بھی شمولیت کی سعادت پائی۔ آپ کی متفرق زبانوں کاایک درجن کتب میںذکر ملتا ہے۔
آپ کی زیر نظر کتاب دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے جو دراصل جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء کے موقع پر ۲۶؍ دسمبر کو ربوہ میں آپ کی تقریر کا متن ہے جسے مکرم سید محمد سعید سلیم صاحب نے دارالتجلید، اردو بازار لاہور سے طبع کروایا اوراس کتاب کی طباعت ویسٹ پاکستان پرنٹنگ پریس لاہور سے ہوئی۔
مولاناموصوف نے اپنی اس کتاب کی تمہید میں یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ اسلام نے عورت پر کیا پابندیاں لگائی ہیں اور کیوں لگائی ہیں کیونکہ اس سوال کا پُرحکمت اور مدلل جواب ہی اہل مغرب اور مستشرقین کے اعتراضات کے رد کے لیے کافی ہے کیونکہ اسلام نے انفرادی اور ملی مفاد کی خاطر اخلاقی اور معاشی نظام کی بہتری کے لیے صنف نازک پر یہ پابندیاں عائد کی ہیں۔
مثلاً’’ولی کے بغیر نکاح نہیں‘‘کا معاملہ ایسا ہے جس پر عصر جدید میں بہت زیادہ اعتراض کیا جاتا ہے، اور اسے مساوات سے متصادم اور عورت کے بنیادی حقوق کے برخلاف بتایا جاتا ہے، یاد رہے کہ نکاح کا معاملہ خواہ بیوہ، مطلقہ یا کنواری کا ہو، اس نکاح کا اعلان ضروری ہے تاکہ وہ سفاح نہ بن جائے اس لیے عام طور پر ایجاب و قبول مجمع میں یا گواہوں کے سامنے کروایا جاتا ہے۔ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نکاح اور زنا میں فرق اعلان کا ہے۔ اب چونکہ ایک عورت میں شرم وحیا ایک فطرتی زیور کی طرح ہوتی ہے، اور نوجوان لڑکی کا خود مجمع میں حاضر و موجود ہوکر بولنا مشکل تر ہوجاتا ہے، اس لیے ولی اس کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو لڑکی کا سب سے قریبی رشتہ دار ہوتا ہے جس کے دل میں عام طور پر اس لڑکی کے لیے طبعًا اس کی جان و مال، عزت و ناموس کی حفاظت اور ہر پہلو سے بھلائی کا اصل اور صحیح جذبہ موجود ہوتا ہے اور اس ولی کو اپنے خاندان کی عزت کا بھی پورا پورا احساس ہوتا ہے۔
کتاب میں آگے چل کر صفحہ ۷ پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ ایک مسلمان مرد تو اہل کتاب کی عورت سے نکاح کرسکتا ہے لیکن ایک مسلما ن عورت کسی غیر مسلم سے نکاح نہیں کرسکتی ہے اور اس کی کیا وجوہات ہیں۔
کتاب کے صفحہ ۹پر تعدد ازدواج کے حوالے سے اعتراضات کا عقلی اور منقولی جواب دیا گیا ہے۔
کتاب کے صفحہ ۱۷ پر بتایا کہ اسلام کی تعلیم میں مردخود عورت کو طلاق دے سکتا ہے مگر عورت اگر خلع چاہےتو قاضی کے پاس درخواست کرسکتی ہے۔ اس پابندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب عورت کو بغیر ولی کے نکاح کا اختیار نہیں دیا گیا تو وہ خود ہی رشتہ توڑ بھی نہیں سکتی۔ وغیرہ
اسلام کی تعلیم ہے کہ ایک بیوی اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔ مصنف نے اس بارےمیں قرآنی آیات اور احادیث پیش کی ہیں۔ نیز عورت کو نشوز سے منع کیا گیا ہے۔ مصنف نے بعض ممالک کے قوانین کا حوالہ دے کر اس بابت اسلام کی تعلیم کے فطری اور من جانب اللہ ہونے کا بتایا ہے۔
صفحہ ۲۸ پر اس اہم نکتہ پر قیمتی اور مدلل مواد ہے کہ ایک عور ت کا اصل دائرہ عمل گھر ہے۔ لیکن چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اسلام نے اجازت دی ہے کہ ضرورت کے وقت عورت گھر سے باہر بھی جاسکتی ہے۔ وغیرہ
کتا ب کے صفحہ ۳۴ پر بتایا ہے کہ کیوں ایک عورت نماز میں مردوں کی امام نہیں بن سکتی ہے اور باجماعت نماز کے موقع پر امام مرد ہوتو عورتیں اگر شامل ہوں تو مرد کے برابر نہ کھڑی ہوں بلکہ الگ اور پیچھے صف بنائیں۔
حائضہ کے نماز روزہ کے متعلق فقہی احکامات کی حکمت صفحہ ۳۶ پر درج ہے۔ نیز عورت کی گواہی کے متعلق درست اسلامی تعلیم کا بیان ہے۔ اور اسی ضمن میں عورت کے میراث میں حصے کا ذکر ہے۔
عصر جدید کا ایک اور اہم موضوع کہ ایک عورت غیرمحرم سے مصافحہ نہیں کرسکتی ہے،اس کی کیا مذہبی، سائنسی اور طبی وجوہات اور حکمتیں ہیں۔
آگے چل کر مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ صفحہ ۱۰۱پر بتاتے ہیں کہ اہل مغرب کا عورتوں سے کیا سلوک رہا ہے اور اس پہلو سے باحوالہ مثالیں اور نقشہ کھینچاہے۔ رومن اور یونانی دور سے لے کر لندن کے گلی کوچوں کے واقعات بتاکر مصنف نے اسلامی تعلیم کی عظمت ثابت فرمائی ہے۔
جگ بیتی سے مدلل مواد پیش کرکے مصنف نے صفحہ ۱۱۱ پر لکھا ہے کہ ’’اس کے بعد مَیں اعتراضات کو لیتا ہوں جو اسلامی تعلیم پر یورپئین لوگوں نے کئے ہیں۔ ‘‘مثلا ًکہا گیا ہے کہ جسمانی شہوات جن میں صنفی تعلق بھی شامل ہے چونکہ حیات حیوانیہ سے تعلق رکھتی ہےاس لیے اپنی ذات ہی میں وہ ایک کمتر اور قابل شرم چیز ہے۔ وغیرہ
اس مصنوعی تصور کا جواب دینے کے بعد مصنف نے صفحہ ۱۱۴ پر تعدد ازدواج پر لیسکی کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ اسی ضمن میں پردہ پر ڈاکٹر مرڈاک کا اعتراض بھی نہایت مہارت سے حل کیا ہے۔ آگے چل کر ایک مصنف بولس صاحب کے اعتراض کا جواب ہے۔ الغرض پردہ اور تعدد ازدواج وغیرہ پر صحت، معیشت اور دیگر پہلوؤں سے ہونے والے اعتراضات اور وساوس کے فاضل مصنف نے کافی و شافی اور مدلل و باحوالہ جواب دیا ہے۔
چونکہ فاضل مصنف نے ایک لمبا وقت اس مغربی معاشرے میں تبلیغ اسلام کرتے ہوئے صَرف کیا تھا، صفحہ ۱۲۸ پر بتاتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ انگلستان میں کچھ عورتوں نے ایک تقریر کے بعد مجھ سے سوال کیا کہ کیا اسلام میں ناچنا جائز ہے…۔‘‘حالانکہ ان مخلوط محفلوں اور مغربی ناچ گانے کی خرابی کا خود اہل مغرب بھی اقرار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں محض کسی انسائیکلو پیڈیا کا مطالعہ ہی کافی ہے۔
الغرض اس قیمتی کتاب میں عورت کی عفت، صحت، عظمت اور خبر گیری میں اسلامی تعلیم کی عظمت کا بیان جاری رہتا ہے۔ اور صنفی مساوات کی خامیوں کا اظہار کرتے ہوئے فاضل مصنف نے علی الاعلان لکھا ہے کہ مغرب میں عملاً مساوات قائم نہیں ہوسکتی ہے اور ان معاشروں میں مغربی عورتوں کے لیے وہی کشمکش باقی ہے۔ خواہ اس کا اقرار کرے یا نہ کرسکے۔
اسی طرح کتاب کے صفحہ ۱۵۳ پر شروع کرکے بتایا ہے کہ عورتوں کے مساوی حقوق کی تنظیمیں اور تحریکیں تاحال عورت کی جسمانی مساوات ہی ثابت نہیں کرسکی ہیں جس سے اس شبہ کو مزید تقویت ملتی ہے کہ عورتوں کی تحریک مساوات کی حماقت ہے جس کا زیادہ نقصان خود عورتوں نے اٹھایا ہے اور غیر جانب دار مغربی مبصرین کی عورتوں کی معاشرتی زندگی کے بارہ میں اپنی تشخیص بھی یہی بتاتی ہے۔
الغرض فاضل مصنف نے انسائیکلوپیڈیاز، اخبارات و رسائل اور قدیم و جدید کتب، متعلقہ مضامین کے ماہرین اور مصنفین کے اقتباسات درج کرکے اپنے نکتہ نظر کی برتری ثابت کی ہے اور کتاب کے آخری صفحات مسلمان عورت کی بلندشان کو قرآن کریم کی آیات، احادیث اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی مدد سے خوب کھول کر بیان کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔