بدرسوم ۔گلے کاطوق
وحید احمد رفیق
قسط نمبر7۔ (آخری)
عورتوں کا مردوں سے ہاتھ ملانا
ایک مرتبہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیاگیا کہ کیا کوئی عورت اپنے خاوندکے بھائیوں ، کزن یا اپنے کزن سے ہاتھ ملاکر السلام علیکم کرسکتی ہے؟
اس پر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ہاتھ ملانا ایک ایسی عادت ہے جو مغربی معاشرے کی وجہ سے ہمارے ہاں رواج پکڑ گئی ہے اور اس میں تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ احتیاط برتی جائے ۔گھر میں بزرگ ہوتے ہیں ۔ ان کے بچے ہوتے ہیں۔ بزرگ ان کو پیار سے گلے لگاتا ہے ،بعض دفعہ سرپر ہاتھ پھیرتاہے۔کسی کے ذہن میں وہم وگمان بھی نہیں گذرسکتا کہ اس تعلق میں کسی قسم کی کوئی قباحت ہے اور یہ ہمارے ملک میںخصوصاً گھر کے بزرگوں کے پاس جا کے سر کو آگے کرنا یہ رواج پایاجاتا ہے۔ اس کی کیاسند ہے؟ یہ مَیں نہیں جانتا۔مگر جس رنگ میں یہ رائج ہے کبھی اس سے کبھی کوئی بدی پھوٹتی ہوئی ہمیں نظر نہیں آئی۔مگر جس ماحول کا یہ ذکر کررہے ہیں کہ گھر میں کزنز وغیرہ ہوں او ر اس سے ہاتھ ملاتے پھریں۔اس سے بہت بدیاں پھیل سکتی ہیں۔اور یہ آغاز ہے خلا ملا کا ۔اس لیے میرے نزدیک تو اس کو سختی سے منع کرناچاہیے ۔سختی سے روکنا چاہیے ۔ رسم کو اگر آپ رواج دیں گے تو معاشرہ میں بہت سی بدیاں پیدا ہوجائیں گی۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے رکھے۔
سَر کے اشارے سے ہاتھ کے اشارے سے آپس میں احترام کو ظاہر کرتے ہیں ۔اتناہی کافی ہے اور رفتہ رفتہ آپ کے معاشرے کی خوبیاں ان میں پھیلنی شروع ہوجائیں گی۔‘‘
(مجلس عرفان 6 مئی1994 ء ۔ روزنامہ الفضل5 اکتوبر 2002 ء )
قبروں پر پھول لگانا
سوال ہوا کہ اس بات میں کیا مصلحت ہے کہ ہم قبروں کے ارد گرد پھول لگاتے ہیں لیکن قبروں کے اوپر پھول نہیں رکھ سکتے؟
اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’قبروں پر پھول لگانا سنت نہیں ہے۔سادہ مٹی کی قبر ہونی چاہیے مگرسجاناکسی چیز کو باغات اورپھول یہ رسول اللہ ﷺ کو پسند تھے ۔اس لیے ارد گرد جو روشیں ہیں ان پر پھول لگادیتے ہیں۔ اس کا کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ قبروں پر نہیں ہوتے۔ وہ علاقے کو سجانے کی خاطر ہوتے ہیں۔‘‘
(لجنہ سے ملاقات 6 فروری2000ء روزنامہ الفضل 25 نومبر 2000 ء )
عرسوں وغیرہ میں شامل ہونا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-
’’انسان توجہ کرے تو اس کو پتہ لگتاہے کہ جو لوگ صُمٌّ بُکْمٌ ہوکرسجادہ نشینوں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہیں اور عرسوں وغیرہ میں شریک ہوجاتے ہیں۔ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کونسی روشنی ہے جو خانہ کعبہ سے شروع ہوئی تھی اور تمام دنیا میں پھیلی تھی اور انہوں نے اس میں سے کس قدر حصہ لیا ہے۔ ان کو ہرگز وہ نور نہیں ملتا جو آنحضرت ﷺ مکہ سے لائے اور اس سے کُل دنیا کو فتح کیا۔آج اگر رسول اللہ ﷺ پیدا ہوں تو ان لوگوں کو جواُمّت کا دعوٰی کرتے ہیں کبھی شناخت بھی نہ کرسکیں۔کون سا طریقہ آپ کا ان لوگوں نے رکھا ہے ۔شریعت تو اسی بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت ﷺ نے دیا ہے اسے لے لے اور جس بات سے منع کیاہے اس سے ہٹے۔اب اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں ،ان کومسجد بنایا ہواہے ،عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاجِ نبوت ہے نہ طریق سنّت ہے۔ اگر منع کرو تو غیظ وغضب میں آتے ہیں اور دشمن بن جاتے ہیں ۔چونکہ یہ آخری زمانہ ہے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ۔لیکن اسی زمانہ کے فسادوں کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ میں اکیلا رہنا اور اکیلا مرجانا یا درختوں سے پنجہ مار کر مرجانا ایسی صحبتوں سے اچھا ہے۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 128-129 )
کلام پڑھ کر پھونکنا
سوال ایک دوست نے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جاوے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تاکہ اس کو شفا ہو ?
جواب حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ’’بیشک قرآن شریف میں شفا ہے۔ روحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے ۔ مگر اس طرح کے کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلاء ہے ۔ قرآن شریف کوتم اس امتحان میں نہ ڈالو۔ خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دعا کرو ۔ تمہارے واسطے یہی کافی ہے ۔ ‘‘
(البدر 25 اکتوبر 1906 ء صفحہ 4 )
گدّی نشین اور بدعات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-
’’اب اس کے مقابل پر آپ انصاف سے دیکھیں کہ آج کل گدّی والے اس ہدایت کے موافق کیا کچھ کرتے ہیں۔ اگروہ خدا کی کتاب پر عمل نہیں کرتے تو قیامت کو اس کا جواب کیا ہوگاکہ تم نے میری کتاب پر عمل نہ کیا۔اس وقت طوافِ قبر،کنجریوں کے جلسے،اور مختلف طریقے ذکر جن میں ایک اَرّہ(ایک ذکرکرنے کاطریق ہے اس کے پڑھتے وقت سینے سے آرہ چلنے کی آواز آتی ہے۔ اسی مناسبت سے اسے ارّہ کہاجاتاہے۔ناقل) کا ذکربھی ہے،ہوتے ہیں ۔لیکن ہمارا سوال ہے کہ کیا خدا بھول گیا تھا کہ اس نے یہ تمام باتیں کتاب میں نہ لکھ دیں، نہ رسول کو بتائیں۔جو رسول اللہ ﷺ کی عظمت جانتاہے اسے ماننا پڑے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فرمودہ کے باہر نہ جانا چاہیے ۔کتاب اللہ کے برخلاف جوکچھ ہورہاہے وہ سب بدعت ہے اور سب بدعت فی النّار ہے۔ اسلام اس بات کانام ہے کہ بجز اس قانون کے جومقرر ہے ادھر اُدھر بالکل نہ جاوے۔کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔بعض پیرزادے چوڑیاں پہنتے ہیں، مہندی لگاتے ہیں، لال کپڑے ہمیشہ رکھتے ہیں، سدا سہاگن ان کا نام ہوتاہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ آنحضرت ﷺ تو مرد تھے۔ اس کو مرد سے عورت بننے کی کیا ضرورت پڑی؟ہمار ااُصول آنحضرت ﷺ کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اور طریق سنّت کے سوانہیں۔ کس شے نے ان کو جرأت دی ہے کہ اپنی طرف سے وہ ایسی باتیں گھڑ لیں ۔بجائے قرآن کے کافیاں پڑھتے ہیںجس سے معلوم ہوتاہے کہ ان کادل قرآن سے کھٹا ہواہوا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتاہے جو میری کتاب پر چلنے والا ہو وہ ظلمت سے نورکی طرف آوے گا اور کتاب پر اگر نہیں چلتا تو شیطان اس کے ساتھ ہوگا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 127-128 )
فقراء کی ایجاد کردہ بدعتیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں-
’’ہماری قوم میں اکثرایسے فقیر نظر آتے ہیںجنھوں نے اسلام پر یہ داغ لگایاکہ ہزارہاایسی بدعتیںایجاد کر دیں کہ جن کاشرع شریف میںکوئی اصل صحیح نہیں پایاجاتااور ایسی بے ہودہ رسوم اور خیالات میں گرفتار ہیںکہ جن کے لکھنے سے بھی شرم آتی ہے بعض تو ہندوئوں کے جوگیوںکی طرح اور قریب قریب ان کی ایک خاص طور پر وضع اور پوشاک میں عمر بسر کرتے ہیںاور نہایت بے جا اور وحشیانہ ریاضتوںمیںجومسنون طریقوںسے کوسوںدور ہیں اپنی عمرکوضائع کررہے ہیں‘‘۔
(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 48)
دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم
قاضی ظہورالدین صاحب اکمل نے سوال کیا کہ محرم دسویں کو جو شربت وچاول وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اگر یہ للہ بہ نیت ایصالِ ثواب ہوتو اس کے متعلق حضور کا کیاارشاد ہے؟
فرمایا’’ایسے کاموں کے لیے دن اور وقت مقرر کردینا ایک رسم و بدعت ہے اور آہستہ آہستہ ایسی رسمیں شرک کی طرف لے جاتی ہیں ۔پس اس سے پرہیز کرناچاہیے ۔کیونکہ ایسی رسموں کاانجام اچھا نہیں ۔ ابتدا میں اسی خیال سے ہو مگر اب تو اس نے شِرک اور غیراللہ کے نام کارنگ اختیار کرلیاہے ۔اس لیے ہم اسے ناجائز قرار دیتے ہیں ۔جب تک ایسی رسوم کاقلع قمع نہ ہو عقائدِ باطلہ دُور نہیں ہوتے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 168 )
محرم میں تابوت نکالنا
سوال پیش ہوا کہ محرم پر جو لوگ تابوت بناتے ہیں اور محفل کرتے ہیں اس میں شامل ہونا کیسا ہے ؟
جواب حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا کہ گناہ ہے۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 169 )
پندرھوین شعبان کی بدعات
اور نصف شعبان کی نسبت فرمایاکہ یہ رسوم حلوا وغیرہ سب بدعات ہیں۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ 297 )
جھنڈ یابودی رکھنا
جَھنڈ یعنی بودی رکھی جاسکتی ہے اس کے متعلق کیاحکم ہے؟
فرمایا ’’ناجائز ہے ۔ایسا نہیں چاہیے‘‘۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 169 )
لڑکے کی بسم اللہ
ایک شخص نے بذریعہ تحریر عرض کی کہ ہمارے ہاں رسم ہے کہ جب بچے کو بسم اللہ کرائی جائے تو بچے کو تعلیم دینے والے مولوی کو ایک عدد تختی چاندی یا سونے کی اور قلم ودوات سونے یا چاندی کی دی جاتی ہے ۔ اگر چہ میں ایک غریب آدمی ہوں مگر چاہتا ہوں کہ یہ اشیاء اپنے بچے کی بسم اللہ پر آپ کی خدمت میں ارسال کروں۔
حضرت نے فرمایا کہ’’ تختی اور قلم ودوات سونے یا چاندی کی دینا یہ سب بدعتیں ہیں ۔ ان سے پرہیز کرنا چاہیے اور باوجو د غربت کے اور کم جائیداد ہونے کے اس قدر اسراف ختیار کرنا سخت گناہ ہے ۔ ‘‘
(البدر 5 ستمبر 1907 ء صفحہ 3)
سماع
ذکر آیا کہ بعض لوگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے ؟
جواب فرمایا ’’اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھانہیں۔ حسن ظن سے کام لینا چاہیے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آ نحضرتﷺ نے بھی اشعار سنے تھے۔ لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک صحابی مسجد کے اند ر شعر پڑھتا تھا ۔ حضرت عمر نے اس کو منع کیا اس نے جواب دیا مَیں نبی اکرمﷺ کے سامنے مسجدمیں شعر پڑھا کرتا تھا۔ تُو کون ہے جو مجھے روک سکے۔ یہ سن کر حضرت امیرالمومنین ؓ بالکل خاموش ہوگئے ۔
قرآن شریف کو بھی خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جوشخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیںہے۔ اور خود اس میں ایک اثر ہے ۔ عمدہ تقریر خوش الحانی سے کی جائے تو اس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ وہی تقریر ژولیدہ زبانی سے کی جائے تو اس میں کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ جس شے میں خدا تعالیٰ نے تاثیر رکھی ہے اور اس کو اسلام میں کھینچنے کا آلہ بنا یا جائے تو اس میں کیا حرج ہے ۔ حضر ت دائودؑ کی زبور گیتوں میں تھی جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ جب حضر ت دائود ؑ خدا کی منا جات کرتے تھے تو پہاڑ بھی ان کے ساتھ روتے تھے اور پرندے بھی تسبیح کرتے تھے ۔ ‘‘ (البدر 17 نومبر 1905 ء صفحہ 6-7)
سجدہ لغیر اللہ
ظہر کے وقت حضور علیہ السلام تشریف لائے تو آپ کے ایک خادم آمدہ از کشمیر نے سر بسجود ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام اُسْجُدُوْا لِآدَمَ کو اس کے ظاہر ی الفاظ پر پورا کرنا چاہا اور نہایت گریہ و زاری سے اظہار محبت کیا مگر حضورعلیہ السلام نے اسے اس حرکت سے منع فرمایا اورکہا کہ یہ مشرکانہ باتیں ہیں۔ ان سے پرہیز چاہیے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 228-229 )
مزار کو بوسہ دینا
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کو بوسہ دینے کے متعلق پوچھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا-
’’یہ جائز نہیں ۔لغو بات ہے ۔اس قسم کی حرکات سے شرک شروع ہوتاہے۔اصل چیز نبی کی تعلیم پر عمل کرنا ہے مگرلوگ اسے چھوڑ کر لغو باتوں میں جاپڑے ہیں۔‘‘
(الفضل 18 مئی 1946 ء بحوالہ فقہ احمدیہ صفحہ 266)
مُردوں سے طلب حاجت اور مشکل کشائی کی درخواست
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ جس سے انسان دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو ا س کو موجود سمیع، بصیر، خبیر، علیم، متصرف،قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعائوں کو سنتا ہے اور قبول کرتاہے مگر کیا کروں کس کو سنائوں اب اسلام میں مشکلات ہی اور آپڑی ہیں کہ جو محبت خدا تعالیٰ سے کرنی چاہیے وہ دوسروں سے کرتے ہیں اور خدا کا رتبہ انسانوں اور مردوں کو دیتے ہیں ۔ حاجت روا اور مشکل کشا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک تھی مگر اب جس قبر کو دیکھو حاجت روا ٹھہرائی گئی ہے ۔ میں اس حالت کو دیکھتا ہوں تو دل میںدرد اٹھتا ہے مگر کیا کہیں، کس کو جاکر سنائیں۔ دیکھو قبر پر اگر ایک شخص بیس بر س رہے تو اس قبر سے کوئی آواز نہیں آئے گی مگر مسلمان ہیں کہ قبروں پر جاتے اور ان سے مرادیں مانگتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں وہ قبر کسی کی بھی ہو اس سے کوئی مراد برآ نہیں ہوسکتی ۔ حاجت روا اور مشکل کشا تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہوسکتی ہے اور کوئی اس صفت کا موصوف نہیں۔ قبر سے کسی آواز کی امیدمت رکھو ۔ برخلاف اس کے اگر اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دن میں دس مرتبہ بھی پکارو تو میں یقین رکھتا ہوں اورمیرا اپنا تجربہ ہے کہ دس دفعہ ہی سنتا ہے اور دس دفعہ ہی جواب دیتا ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پکارے اس طرح پرجو پکارنے کا حق ہے ۔ ہم سب ابرار اور اخیار امت کی عزت کرتے ہیں اور ان سے محبت رکھتے ہیں ان کی محبت اور عزت کا یہ تقاضانہیں ہے کہ ہم ان کو خدا بنا لیں او روہ صفات جو خدا تعالیٰ میں ہیں ان میں یقین کرلیں کہ وہ ہماری آواز نہیں سنتے اور اس کا جواب نہیںدیتے ۔ دیکھو حضرت امام حسین ؓ کو کہ ایک گھنٹہ میں 72آدمی آپ کے شہید ہوگئے ۔ اس وقت سخت نرغہ میں تھے۔ اب طبعاً ہر ایک شخص کا کانشنس گواہی دیتا ہے کہ وہ اس وقت جب کہ ہر طرف سے دشمنوںمیں گھرے تھے ۔ اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوں گے کہ اس مشکل سے نجات مل جا ئے لیکن وہ دعا اس وقت منشاء الٰہی کے خلاف تھی اور قضاء و قدر اس کے مخالف تھی اس لیے وہ اس جگہ شہید ہوگئے ۔ اگر ان کے قبضہ و اختیار میں کوئی بات ہوتی تو انہوں نے کو ن سا دقیقہ اپنے بچائو کے لیے اٹھا رکھا تھا ۔ مگر کچھ بھی کار گرنہ ہوا ۔ اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قضاء وقدر کا سار ا معاملہ اور تصرف تام اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جو اس قدرذخیرہ قدرت کا رکھتا ہے اورحی ّ و قیّوم ہے اس کو چھوڑ کر جو مردوں اور عاجز بندوں کی قبروں پرجاکران سے مرادیں مانگتے ہیں اس سے بڑھ کر بے نصیب کو ن ہوسکتا ہے ۔ انسان کے سینہ میں دو دل نہیں ہوتے ایک ہی دل ہے وہ دو جگہ محبت نہیں کرسکتا ۔ اس لیے اگر کوئی زندوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتا ہے وہ حفظ مراتب نہیں کرتا اور یہ مشہور بات ہے ’’ گر حفظ مراتب نہ کنی زند یقی‘‘ خدا تعالیٰ کو خدا تعالیٰ کی جگہ پر رکھو اور انسان کو انسان کا مرتبہ دو ۔ اس سے آگے مت بڑھائو…… دیکھو حضرت ابراہیم ؑ کتنے بڑے عظیم الشان نبی تھے اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کا کتنابڑا درجہ و رتبہ تھا ۔ اب اگر آنحضرتﷺ بجائے خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنے کے ابراہیمؑ کی پوجا کرتے تو کیا ہو تا ۔ کیاآپ کو وہ اعلیٰ مراتب مل سکتے تھے جو آپ کو ملے کبھی نہیں ،کبھی نہیں، کبھی نہیں ۔ پھر جب ابراہیم ؑ آپ کے بزرگ بھی تھے اور آپ نے ان کی قبر پر جاکر یا بیٹھ کر ان سے کچھ نہیں مانگا اور نہ کسی اور قبر پر جاکر آپ نے اپنی کوئی حاجت پیش کی تو یہ کس قدر بیوقوفی اور بے دینی ہے کہ آج مسلمان قبروں پر جاکر ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ ‘‘
(فتاویٰ احمدیہ صفحہ 137 بحوالہ فتاویٰ حضرت مسیح موعود ؑ صفحہ نمبر104,105,106)
یَاشیخ عبدالقادر جیلانی شَیئاً لِلّٰہ کہنا
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے ایک مرتبہ چند سوالات پوچھے گئے تو آپ نے ان کے جوابات ارشاد فرمائے،جو حسبِ ذیل ہیں۔
سوال اوّل یا شیخ عبد القادر جیلانی شیئاً للہ پڑھناجائز ہے یا نہیں ؟
جواب ہرگز نہیںیہ توحید کے برخلاف ہے۔
سوال2 جبکہ غائب اور حاضر دونوں کو خطاب کرلیتے ہیں پھر اس میں کیاحرج ہے؟
جواب دیکھو بٹالہ میں لوگ زندہ موجود ہیںاگر ان کویہاںسے آواز دوتوکیاوہ کوئی جواب دیتاہے۔پھر بغداد میں سید عبدالقادر جیلانی کی قبر پرجاکرآواز دوتو کوئی جواب نہیں آئے گا۔خداتعالیٰ تو جواب دیتاہے جیساکہ فرمایا اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن 61:)مگر قبروں والوں میں سے کون جواب دیتاہے ؟پھر کیوں ایسا فعل کرے جوتوحید کے خلاف ہے۔
سوال3 جب کہ یہ لوگ زندہ ہیں پھران کومُردہ تو نہیں کہہ سکتے؟
جواب زندگی ایک الگ امر ہے ۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہماری آواز بھی سن لیں ۔ یہ ہم مانتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے نزدیک زندہ ہیں مگر ہم نہیں مان سکتے کہ ان کو سماع کی قوت بھی ہے ۔ حاضر ناظر ہونا ایک الگ صفت ہے جو خد اہی کو حاصل ہے ۔ دیکھو ہم بھی زندہ ہیںمگر لاہور یا امرتسر کی آوازیں نہیں سن سکتے ۔ خد ا تعالیٰ کے شہید اور اولیاء اللہ بے شک خدا کے نزدیک زندہ ہوتے ہیں مگر ان کو حاضر ناظر نہیں کہ سکتے ۔
دعا ئوں کا سننے والا اور قدرت رکھنے والا خدا ہی ہے ۔ اس کو یقین کرنا یہی اسلام ہے۔ جو اس کو چھوڑتا ہے و ہ اسلام کو چھوڑتا ہے ۔پھر کس قدر قابل شرم یہ امر ہے کہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی تو کہتے ہیں ۔ یا محمد (ﷺ)، یا ابابکر، یاعمرنہیں کہتے ۔ البتہ یا علی کہنے والے ان کے بھائی موجود ہیں۔ یہ شرک ہے کہ ایک تخصیص بلا وجہ کی جاوے ۔ جب خدا کے سوا کسی چیز کی محبت بڑھ جاتی ہے تو پھر انسان صُمٌ بُکُمٌ ہو جاتاہے جو اسلام کے خلاف ہے۔ جب توحید کے خلاف چلے تو پھر مسلمان کیسا؟ تعجب کی بات ہے کہ جن لوگوں کو یہ خدا کے حصہ دار بناتے ہیں خود ان کو بھی یہ مقام توحید ہی کے ماننے سے ملا تھا ۔ اگر وہ بھی ایسے ’’یا ‘‘کہنے والے ہوتے توا ن کو یہ مقام ہر گز نہ ملتا بلکہ انہوں نے خدائے تعالیٰ کی اطاعت اختیارکی۔ تب یہ رتبہ ان کو ملا یہ لوگ شیعوں اور عیسائیوں کی طرح ایک قسم کا شرک کرتے ہیں ۔
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 603-604 )
پردہ
حضر ت امّ المومنینؓ کی طبیعت کسی قدر ناساز رہا کرتی تھی۔ آپ نے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ فرمایا کہ اگر وہ ذرا باغ میں چلی جایا کریں توکچھ حرج تو نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ اس پر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ دراصل میں تو اس لحاظ سے کہ معصیت نہ ہو کبھی کبھی گھر کے آدمیوں کو اس لحاظ سے کہ شرعاً جائز ہے اور اس پر کو ئی اعتراض نہیں رعایت پردہ کے ساتھ باغ میں لے جایا کرتا تھا اور میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا ۔ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ باہر کی ہوا کھائو۔ گھر کی چار دیواری کے اندر ہر وقت بند رہنے سے بعض اوقات کئی قسم کے امراض حملہ کرتے ہیں ۔ علاوہ اس کے آنحضرت ﷺ حضرت عائشہ ؓ کو لے جایا کرتے تھے ۔ جنگلوں میں حضرت عائشہ ؓ ساتھ ہوتیں تھیں۔
پردہ کے متعلق بڑی افراط تفریط ہوئی ہے ۔ یورپ والوں نے تفریط کی ہے اور اب ان کی تقلید سے بعض نیچری بھی اسی طرح چاہتے ہیں ۔ حالانکہ اس بے پردگی نے یورپ میں فسق و فجور کا دریا بہا دیا ہے۔ اور اس کے بالمقابل بعض مسلمان افراط کرتے ہیں کہ کبھی عورت گھر سے باہر نکلتی ہی نہیں ۔حالانکہ ریل پر سفر کرنے کی ضرورت پیش آجاتی ہے ۔ غرض ہم ان دونوں قسم کے لوگوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں جو افراط اور تفریط کررہے ہیں‘‘۔
(الحکم 17 فروری 1904 ء صفحہ 5 )
عقیقہ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں-
’’ یہ لڑکے جو پیدا ہوتے رہتے ہیں بعض دفعہ ان کے عقیقہ پر ہم نے دودو ہزار آدمیوں کو دعوت دی ہے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ہماری غرض اس سے یہی تھی کہ تا اس پیشگوئی کا جو ہر ایک کے پیدا ہونے سے پہلے کی گئی تھی بخوبی اعلان ہوجاوے ۔ ‘‘
(الحکم 17 اپریل 1903 ء صفحہ 2)
عورتوں کی بدعات و شرک
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں-
’’بعض عورتیں نما ز روزہ کے ادا کرنے میں بہت کوتاہی کرتی ہیں ۔ بعض عورتیں شرک کی رسمیں بجالاتی ہیں۔ جیسے چیچک کی پوجا ۔بعض فرضی دیویوں کی پوجا کرتی ہیں۔ بعض ایسی نیازیں دیتی ہیں جن میں یہ شرط لگا دیتی ہیں کہ عورتیں کھاویں کوئی مرد نہ کھاوے۔ یا کوئی حقہ نوش نہ کھائے ۔ بعض جمعرات کو چوکی بھر تی ہیں۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سب شیطانی طریق ہیں ۔‘‘
(فتاوٰی احمدیہ جلد دوم صفحہ 11 بحوالہ فتاویٰ حضرت مسیح موعودؑ۔ صفحہ نمبر 147)
اپریل فُول
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں
’’قرآن …ایک جگہ فرماتاہے کہ جب تو کوئی کلام کرے تو تیری کلام محض صدق ہو ۔ ٹھٹھے کے طور پربھی اس میں جھوٹ نہ ہو ۔اب بتلائو یہ تعلیمیں انجیل میں کہاں ہیں۔ اگر ایسی تعلیمیں ہوتیں تو عیسائیوں میں اپریل فُول کی گندی رسمیں اب تک کیوں جاری رہتیں۔دیکھو اپریل فُول کیسی بُری رسم ہے کہ ناحق جھوٹ بولنا اس میں تہذیب کی بات سمجھی جاتی ہے۔یہ عیسائی تہذیب اور انجیلی تعلیم ہے۔ معلوم ہوتاہے کہ عیسائی لوگ جھوٹ سے بہت ہی پیار کرتے ہیں ۔ چنانچہ عملی حالت اس پر شاہد ہے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ199 )
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے میں درج ذیل ناموں سے مختلف رسوم منائی جارہی ہیں جن سے پرہیز کرنا ہر احمدی کا فرض ہے
-1 ویلنٹائن ڈے منانا
-2 برتھ ڈے منانا
-3 بسنت منانا
-4 نیاسال منانا
-5 مزاروں اور درباروں پر جانا
-6 کسی جگہ کو چھو کر اپنے جسم پر ہاتھ پھیرنا
-7 عید کارڈبھیجنا
-8 چاند رات منانا
-9 فیشن / غیر قوموں کی اندھادھند تقلید
-10 کسی بزرگ کی قبر سے مٹی/ پھول یا کوئی چیز بطورتبرّک لینا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ایک دعا
’’اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس زمانے کاامام دل کی گہرائیوں سے قبول کرنے کی توفیق عطافرمائے۔جس درد اور توجہ سے آپ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی حکومت کو دنیاپر قائم کرنے کے لیے اپنی جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں اور جس درد سے نصیحت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ویسا ہی بنادے اور جن شرائط پر آپ نے ہم سے عہد بیعت لیاہے ان کی ہم مکمل پابندی کرنے والے ہوں اور ان پر عمل کرنے والے ہوں اور ہمیشہ ان کو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں ۔ہماراکوئی عمل ،کوئی فعل ہمیں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی تعلیم کے خلاف چلتے ہوئے ملزم ٹھہرانے والا نہ ہو اور ہم ہمیشہ اپنا محاسبہ کرنے والے ہوں ۔اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔‘‘
(شرائط بیعت اور احمدی کی ذمہ داریاں صفحہ107-108)