محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی یاد میں
محمد محمود طاہر
جماعت کے قیام کو پچاس سال ہورہے تھے اور اسی کے ساتھ سیدنا مصلح موعودؓ کی خلافت کو بھی پچیس سال بیت گئے تھے۔ یوں 1939ء کے سال دوجوبلیاں اکٹھی ہو گئی تھیں۔جماعت نے اس سال کو خصوصی اہمیت کے پیش نظر دینی روایات کے ساتھ منایا۔اس تاریخی سال کی ایک خاص بات یہ بھی ہوئی کہ مئی کا مہینہ تھا اور اس کی 9 تاریخ، خاندانِ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میں ایک بچے کی ولادت ہوئی۔حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ کے آنگن میں ایک خوبصورت پھول کھلاجس نے اپنی خوشبو سے گلشن احمدیت کو رونق بخشی اور ایک خادم دین اور نافع الناس وجود بن کر تاریخ احمدیت کا ایک روشن با ب ٹھہرا۔گلشن احمدیت کی رونق میں اضافہ کرنے والا یہ خوبصورت پھول محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب تھے جن کا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے روحانی اور جسمانی رشتہ بھی تھا ۔آپ نے ان دونوں رشتوں کی لاج رکھی اور اپنی تمام عمر سایہ خلافت میں اس کے سلطانِ نصیر بن کر گزار دی۔ یہ عظیم المرتبت ہستی 5اور 6 فروری 2018ء کی درمیانی رات راضیۃً مرضیۃً کی حالت میں اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملی۔ اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب عفی عنہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس وجود اور روشن چراغ تھے۔آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑ پوتے، حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے پوتے اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آپ کی شادی سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہمشیرہ محترمہ صاحبزادی امۃالقدوس بیگم صاحبہ سابق صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان سے ہوئی۔
محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کو بزرگ والدین کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی تربیت میں پروان چڑھنے کا موقع ملااور آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی شفقت و محبت اور تربیت سے وافر حصہ پایا۔حضرت مصلح موعودؓ آپ اور آپ کے بڑے بھائی محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور آپ کی بہنوں کا اپنے بچوں کی طرح خیال کرتے تھے۔ یوں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی نگرانی میں پرورش پائی اور انہی نیک اور دینی روایات کو لے کر آپ آگے بڑھے اور جماعتی روایات کے امین بنے رہے۔
ایم اے پولیٹیکل سائنس کرنے کے بعد 1962ء میں آپ نے خدمت دین کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ اس طرح آپ کی خدمات سلسلہ کا دائرہ 56سال تک محیط رہا۔یہ خدمات غیر معمولی انتظامی صلاحیت والی بھی تھیں۔ علمی نوعیت کی بھی تھیں۔ ذیلی تنظیموں کی قیادت بھی کی۔ 1974،1984،2010ء کے مشکل اورابتلاء کی صورتحال میں صف اوّل کے مجاہد کے طور پر سایہ خلافت میں احباب جماعت کو مشکل حالات سے نکالنے کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ خلفائے سلسلہ کی قربت اور اعتما د حاصل رہا اور خلافت کے سلطانِ نصیر کا کردار ادا کیا۔آپ نے اپنی خدمات کا آغازریویو آف ریلیجنز کے مینجنگ ایڈیٹر سے کیا۔ پھر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ وحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ میں بطور ناظر تعلیم ، ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ،ناظر دیوان ،صدر مجلس کا رپرداز اور محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کی وفات کے بعد صدر صدر انجمن احمدیہ ،ناظر اعلیٰ و امیر مقامی مقرر ہوئے جس پر آپ تادم واپسیں فائز رہے۔ان خدمات کے علاوہ آپ صدر مجلس وقف جدید انجمن احمدیہ، صدر خلافت لائبریری کمیٹی، صدر تبرکات کمیٹی ،ممبر مجلس افتاء، صدر بیوت الحمد سوسائٹی، مینجنگ ڈائریکٹر الشرکۃالاسلامیہ، نائب افسر جلسہ سالانہ، ڈائریکٹر طاہر فائونڈیشن، ممبر الفضل بورڈاور اس کے علاوہ متعدد بورڈز و کمیٹیز کے ممبر کے طور پر بھی خدمت کی توفیق ملی ۔
ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور انصاراللہ مرکزیہ و پاکستان میں بھی تقریباً نصف صدی خدمات کی توفیق ملی۔ دونو ں تنظیموں کے صدر رہنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ 2009ء آپ کا مجلس انصار اللہ کی صدارت کاآخری سال تھا اور میری تنظیم انصار اللہ میں آمد کا پہلا سال تھا۔ خاکسارکو آپ کی صدارت میں بطور قائد تربیت انصار اللہ پاکستان کام کرنے کی توفیق ملی۔الحمد للہ ۔
محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔آپ کی طبیعت میں رعب و دبدبہ بھی تھا اور لاچار و مجبور لوگوں کے لئے انتہائی نرم گوشہ رکھتے ہوئے دل پسیج جاتا تھا ۔خدمت دین اورخدمت خلق یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال تک پہنچی ہوئی شخصیت تھے۔مجھے گزشتہ تین دہائیوں سے آپ کی شخصیت کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ لوگ جو اپنا دوسروں پر اثر جما دیتے ہیں،جن کی قوت مؤثر ہ اپنا طلسماتی کام دکھاتی ہوئی دوسروں پر اپنا اثر ڈال کر ان پر نقش ہو جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی جو ہر آپ کی شخصیت میں تھا۔آواز میں رعب تھا لیکن ذکر حبیب پر یہی آواز گلوگیر ہو جاتی تھی۔آپ کی شیر کی طرح گرج بھی سننے کا موقع ملا اور ایک درد مند دل سے اٹھنے والے رقّت آمیز بول بھی سننے کو ملے جو طبیعت پر گہرے نقوش چھوڑ جاتے تھے۔
اس قد آور شخصیت کے ساتھ گزرنے والے کئی لمحات یقیناً سرمایہ زیست ہیںاور میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ آپ کی گوناں رفاقت نصیب ہوئی اور اس پہاڑ جیسی شخصیت کے مشاہد ہ کا موقع ملا۔ آپ کا ذکر خیر کر نا جہاں ایک قرض ہے وہاں میرے لئے باعث اعزاز بھی ہے۔ میں 1990ء میں جامعہ سے فارغ التحصیل ہو کر میدان عمل میں آیا تو نظارت اصلاح و ارشاد مقامی جانے کا رقعہ حدیقۃ المبشرین سے ملا۔ یہاں ان دنوں محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بطور ناظر خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ یوں آپ کے ساتھ براہ راست آمناسامنا ہونے کا یہ پہلا موقع میسر آیا تھا۔ آپ کی بارعب اور پُر کشش شخصیت متاثر کئے بغیر نہ رہ سکی۔ اگرچہ میری میدان عمل میں آپ کے زیر سایہ یہ رفاقت صرف دو ماہ ہی رہی اور پھر مجھے وکالت تعلیم کے تحت ابلاغیات کی اعلیٰ تعلیم کے لئے یونیورسٹی بھجوا دیا گیالیکن آئندہ زندگی میں آپ کی کئی لحاظ سے رفاقت نصیب ہوئی۔ میرا روزنامہ الفضل میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر تقرر ہوا تو محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بھی ممبر الفضل بورڈ تھے ۔ اس دوران آپ سے بہت مواقع پر رہنمائی لینے کا موقع ملا اور تقریباً سولہ سال بطور ممبر الفضل بورڈ آپ کی رفاقت رہی۔ میرا طاہر فائونڈیشن میںتقرر ہوا تو آپ اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میںبھی شامل تھے، میری انصاراللہ آمد پر آپ نے میرا انتخاب بطور قائدتربیت کیا۔ نظارت اشاعت میں خدمت کا موقع ملا تو یہاں بھی کئی مسودات کے حوالہ سے آپ سے راہنمائی کاموقع ملااور پھر نظارت اصلاح و ارشادرشتہ ناطہ میں بھی آپ نے مختلف اوقات میں روابط کا موقع پیدا کئے رکھا۔یوں میںان تین دہائیوںمیں آپ کی شخصیت کا عینی شاہدہوں۔
آپ کی شخصیت کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 9فروری 2018ء میں اتنی خوبصورتی سے کھینچا ہے گویا دریا کو کوزہ میں بند کر دیا ہے۔ یہ خطبہ جمعہ یقیناً محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی سیرت و سوانح کا عظیم الشان بیان اور آپ کی خدمات کے لئے شاندار خراج تحسین ہے۔ارشاد نبوی ﷺ کہ اُذْکُرُوْا مَوْتَاکُمْ بِالْخَیْر کے تحت محترم صاحبزادہ مرزاغلام احمد صاحب کے بعض محاسن و محامد کا تذکرہ تحدیث نعمت کے طور پر کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اسم بامسمّیٰ
حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا نام غلام احمد رکھا تھا۔آ پ خود بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بچپن میں فرمایا تھا کہ تمہارا نام تو غلامِ احمد ہے لیکن ہم تمہیں احمد کہہ کے پکاریں گے کیونکہ ابھی حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانہ کو زیادہ عرصہ نہیں گذرا۔
یوں آپ میاں احمد کے نام سے مشہور ہوگئے ۔آپ حقیقت میں اسم بامسمّٰی بنے ۔آپ نے اپنے نام’’ غلام احمد‘‘ کوحقیقت میں سچا کر دکھایا ۔ تمام عمر اپنے اس نام کی لاج رکھی۔آپ احمد عربی ﷺ کے بھی غلام تھے اور احمد ہندی علیہ السلام کے بھی چاکر تھے کیونکہ آپ نے ساری زندگی وفا کے ساتھ خدمت دین میں گزار دی ۔یوں آپ نے اپنے نام کو سچا کر دکھایا۔
جماعتی تاریخ اور روایات کے امین
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو جماعت احمدیہ کی تاریخ اور روایات پر عبور حاصل تھا۔روایات صحابہ اور ان کے خاندانوں کا تعارف آپ کو ودیعت کیا گیاتھا ۔آپ جماعتی روایات کاخاص اہتمام کرتے اور انہیں روایات سلسلہ کو اپنی گفتگو اور خطابات کا موضوع بھی بنایا کرتے تھے تاکہ نئی نسل ان روایات کی حفاظت کرسکے۔
ذکر حبیب اورحالاتِ صحابہ کے ماہر
حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت طیبہ کا بیان اور سیرت کے مختلف پہلوئوں کاتذکرہ آپ کی ایک بڑی خوبی تھی۔ اسی طرح صحابہ مسیح موعودؑ کا تذکرہ بھی بڑے ذوق اور شوق سے فرمایا کرتے۔ مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑکی طرف اپنی صدارت انصاراللہ کے زمانہ میں بہت زور دیا کرتے تھے۔ اسی طرح صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے حالات او ر ان کی روایات پڑھنے کے بارہ میں احباب کو توجہ دلاتے۔ آپ کا یہ ذوق اور جنون اس قدر تھا کہ آپ نے سیرت مسیح موعودؑ اور سیرت صحابہ پر موجود کتب کی اشاعت میں بھی ذاتی دلچسپی کے ساتھ حصہ لیا ۔چنانچہ آپ کے دور صدارت انصار اللہ میں ’’اصحاب احمد ‘‘کی اشاعت نو ہوئی اور 313 صحابہ حضرت مسیح موعودؑ پر آپ نے کتاب مرتب کروائی۔ سیرت و روایات صحابہ پر مبنی دیگر کئی کتب کی اشاعت بھی آپ نے کروائی۔ یوںروایات صحابہ اور روایات سلسلہ کے امین ہونے کا عملی ثبوت ہمیں دیا۔
قادیان سے پیار اور آخری سفر میں اطاعت نظام کی اعلیٰ مثال
مسیح آخر الزمان کی مقدس بستی قادیان سے آپ کو بہت پیار تھا۔ مقامات مقدسہ کی تاریخ کے بارہ میں آپ کا علم سند رکھتا تھا۔ آپ نے اس علم کو اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ہر سال آپ اپنے خاندان کے بچوں اور دوسرے زائرین کے گروپس کو بھی مقامات مقدسہ کے بارہ میں معلومات بڑی دلچسپی کے ساتھ فراہم کیا کرتے تھے۔
جلسہ سالانہ قادیان 2017ء میں بھی آپ کو جانے کا موقع ملا۔ خاکسار کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی۔ اس موقع پر آپ کی سیرت کے ایک اور پہلو کا مشاہدہ کرنے کابھی موقع ملاکہ اس بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں آپ نے اٹاری سے قادیان اور قادیان سے اٹاری کا سفر جماعتی انتظام کے تحت چلنے والی بسوں میںہی کیا حالانکہ آ پ کے لئے بس کی سیڑھیاں چلنا بہت مشکل مرحلہ تھا لیکن آپ نے فرمایا کہ جس سواری کا نظام جماعت نے انتظام کیا ہواہے اسی انتظام کے تحت ہمیںقادیان جانا اور وہاں سے آنا ہے۔چنانچہ آپ اور آپ کے خاندان کے افراد انہی بسوں میں گئے اور انہیں میں واپس آگئے۔ یہ آپ کی اطاعت نظام کی شاندار مثال ہے۔
مثالی برادران
پچھلی چار دہائیوں سے ہم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمدصاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمدصاحب کو ایک ساتھ دیکھتے رہے۔ مختلف دنیاوی حالات اور وقت گذرنے کے ساتھ اس میں کو ئی تبدیلی نہیں آئی ۔الحمدللہ کہ دونوں بھائیوں نے سلسلہ سے بھی وفا کے اعلیٰ معیار قائم کئے اور آپس میں بھی وفا کی مثال بن گئے اور خُلدِ بریں میں بھی ایک ساتھ ہونے میں دیر نہ کی اور جلدچھوٹا بھائی بڑے بھائی جان کے ساتھ جاملا۔
ہمدردی خَلق کا جوش
دکھی انسانیت کی ہمدردی آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو تھا ۔مصائب و آلام سے گزرنے والے لوگ داد رسی اور مدد کے لئے آپ کے پاس آتے۔ مختلف النوع حاجتمند آپ کے ہاں حاضر رہتے تھے۔ ان سب کی ضروریات پوری کرنے کے لئے آپ ذاتی و ممکنہ جماعتی ذرائع اختیار کرتے ہوئے ان کے کام آتے اور جب تک ان کی ضرورت پوری نہ ہو جاتی آپ بے چین رہتے۔بیوت الحمد سوسائٹی کے لئے آپ کی لمبی خدمات تھیں ۔اس سکیم کے ذریعہ بھی آپ کو سینکڑوں خاندانوں کی سکونتی ضروریات براہ راست اپنی نگرانی میں پوری کر نے کی توفیق ملی۔ علمی ضرورتمند بھی آپ کے پاس حاضر ہوتے۔ جماعتی معلومات اور تاریخ کے آپ انسائیکلوپیڈیا تھے ۔علمی جستجو رکھنے والوں کی علمی پیاس بجھانے کے لئے ہمہ تن ہشاش بشاش ہوکر حاضر رہتے ۔روزنامہ الفضل میں خدمت کے دوران مجھے کئی شخصیات کی وفات پراور کئی اہم جماعتی تقریبات کی رپورٹنگ کا موقع ملتارہا۔ اس کے لئے جب بھی راہنمائی کے لئے حاضر ہوا آپ کو ہر وقت راہنمائی کے لئے تیار پایا۔آپ چونکہ جماعتی روایات کے امین تھے اس لئے رپورٹنگ پر آپ کی نظر تاریخی راہنمائی کاکام کرتی تھی۔ آپ کی نگرانی میں مجھے کئی مضامین لکھنے کا بھی موقع ملا ۔ماہنامہ انصار اللہ شہدائے لاہور نمبر میری
ادارت میں 2010ء میں شائع ہوا تھا۔مجھے اس کے لئے آپ کا انٹرویو لینے کا بھی موقع میسر آیا جوکہ شہدائے لاہور نمبر کی زینت بنا ۔ سانحہ28مئی2010ء کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو سنبھالنے کے لئے آپ جماعت کے مرکزی نمائندہ ونگران کی حیثیت سے کئی دن لاہو ر میںہی قیام پذیر رہے اور شہداء کی تجہیز و تکفین اور ان کے پسماندگان کی خبرگیری اور احباب جماعت لاہور کی ڈھارس بندھانے کا کام بھی آپ کی تاریخی خدمت ہے۔ اس سانحہ عظیم کے موقع پر آپ کی قائدانہ صلاحیتیں، قوت فیصلہ، جذبہ خدمت، جذبہ ہمدردی اور احباب جماعت سے محبت کا دلکش پہلو کھل کر مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
تربیت اولاد
خدام الاحمدیہ مرکزیہ اور انصار اللہ مرکزیہ و پاکستان میں آ پ کو احباب جماعت کے تربیتی مسائل خوش اسلوبی سے حل کرنے کے جہاں مواقع میسر آئے ۔وہاں آپ نے اپنا ذاتی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی اولاد کی اعلیٰ دینی روایات کے ساتھ تربیت کی۔ اس تربیت کا ہی ثمرہ ہے کہ آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمات دینیہ میں پیش پیش ہے۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزافضل احمد صاحب ناظر تعلیم کے طور پر خدمت کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ دوسرے بیٹے مکرم مرزاناصر انعام احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ برطانیہ کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم آپ کے بیٹے مکرم مرزا نصیر احسان احمد صاحب نیشنل سیکرٹری مال کے طور پر خدمت بجا لارہے ہیں۔ آپ کے داماد مکرم سید محمود احمد صاحب ابن مکرم سید میر مسعود احمد صاحب بھی واقف زندگی اور ناظر صحت کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔آپ کی اہلیہ محترمہ صاحبزاد ی امۃالقدوس بیگم صاحبہ کو بھی تقریباً نصف صدی لجنہ اماء اللہ مرکزیہ و پاکستان میںخدمات کی توفیق ملی اور کئی سال صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان رہیں۔ یوں آپ کا گھر دینی خدمت گاروں کا گھرانہ ہے۔ آپ شجر سایہ دار بھی تھے اور پھلدار بھی۔خدمت کی یہ لو جو آپ کے سینئہ صافی میںتمام عمرمنور رہی یہ شمع اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی اولاد میں بھی روشن ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد کو مقبول خدمات دینیہ کی توفیق دے اور آپ کی نیک روایات کو زندہ رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔آمین
آخری خطاب اور درسِ وفا
مورخہ 4 فروری 2018ء کو ایوان محمود میں خدام الاحمدیہ مقامی ربوہ کی علمی و ورزشی ریلی کی تقریب تقسیم انعامات میں مجھے بھی شمولیت کا موقع ملا جس کے مہمان خصوصی محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب تھے۔ یہ آپ کی آخری پبلک میٹنگ اور صدارت تھی ۔آپ نے اپنے خطاب میں محترم محمد شفیق قیصر صاحب مرحوم کا ذکر خیر کیاکہ وہ کس قدر جماعتی وفا اور اطاعت کا مظاہرہ کرنے والے واقف زندگی تھے۔ وہ اپنی ذات اور بیوی بچوں کی پرواہ کئے بغیر خلیفہ وقت کے ارشادات پر انتہائی مشکل حالات میں بھی جماعت کی خدمت کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے تھے اورپھر اسی راہ میںانہوں نے جان کا نذرانہ بھی پیش کر دیا۔
ا س درسِ وفا کے وقت محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب پر رقت طاری ہو گئی اورآپ نے پُر نم آنکھوں سے ہمیں یہ سبق دیا کہ دربار خلافت سے اٹھنے والی ہر آواز پر دیوانہ وار لبیک کہتے چلے جائو اور زندگی کے آخری لمحہ تک وفا کے ساتھ خدمت سلسلہ کرتے جائو۔
یقیناً محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے زندگی کی آخری سانسوں تک سلسلہ کی خدمت اور خلافت سے وفاکی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔ اپنے پیاروں میں جگہ عطا فرمائے اور جماعت کو ایسے وفاداراور سلطان نصیر عطا کرتا چلا جائے اور ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔
٭…٭…٭