مجلس سوال و جواب
مرتبہ منیر احمد شاہین۔مربی سلسلہ
سوال کیا احمدیوں کے نزدیک غیراحمدی لوگ مسلمان نہیں؟
جماعت احمدیہ کے مخالف علماء نے عوام الناس کو بہت سے ایسے سوالات احمدیت کے خلاف سکھائے ہیں جو جذباتی نوعیت کے ہیں۔ واقعاتی نہیں ہیں۔ اور اس سے ان کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو احمدیت سے متنفّر کیا جائے۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ احمدیوں کے نزدیک غیراحمدی لوگ مسلمان ہیں یانہیں؟
30مارچ 1986ء کو لندن میں منعقدہ ایک مجلس سوال و جواب میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا
’’اَمرِ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام کے خلاف کُفر کافتویٰ دینے میں مولویوں نے پہل کی ہے۔سارے ہندوستان کے مسلمان علماء کُفرکافتویٰ دیتے چلے گئے یہاں تک کہ مکّہؔ اَورمدینہؔپہنچے وہاں سے بھی فتوے لے آئے اَوربارہ سال تک حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے صبربھی کیااَورنصیحت بھی کی اَوریہ فرمایاکہ حضرتِ اَقدس رسولِ اَکرم ﷺکافتویٰ ہے کہ اَگرتم مسلمانؔ کی تکفیر سے باز نہیں آئو گے تویہ تکفیرتم پراُلٹ جائے گی۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب من کفّر اخاہ بغیر تأویل فھو کماقال)
اِسی لئے مَیں تمہیں warning دے رہا ہوںاَورجب وہ باز نہیں آئے پھرآپ نے اِعلان کیاکہ اَب میں اِعلان کرتا ہوں کہ جوشخص مجھے کافرسمجھتا ہے آنحضرت ﷺکے فیصلہ کے مطابق اَب مَیں مجبورہوںیہ کہنے پرکہ تمہاری تکفیرتم پراُلٹ گئی ہے۔پہلی دفعہ جماعت احمدیہؔ کی طرف سے تکفیرکااِعلان اُس وقت ہوا ہے اَوراِس بُنیاد پرہوااَوراُس کے بعد حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے فرمایاکہ جوشخص یہ اِعلان کرتا ہے کہ مرزاؔ صاحب ، کافرنہیں ہے، مسلمان ہے۔ وہ کافرنہیں بنتا۔آج بھی یہی اِعلان ہے ۔اِس لئے ایک مؤقف ہمارااِس طرح سمجھنے کی کوشش کریں۔
دوسرا ایک بڑانُمایاں فرق ہے ۔ جب آپ ہمیں کافرکہتے ہیں اَورسارے مسلمان کافرکہہ رہے ہیں تو آپ ہمیں حضرت محمدمصطفیﷺکاکافرکہہ رہے ہیں۔ جو واقعہ کے خلاف ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺپردِل وجان سے اِیمان لاتے ہیں ۔آپؐ کے دین کے عاشق ؔآپؐ کے اَدنیٰ غلامؔ،قرآنِ کریم کے تابع، سُنّت کے تابع، دعویٰ ہمارا یہ ہے۔ آپ کہتے ہیں نہیں جھوٹ بولتے ہو۔تم آنحضرت ﷺکے کافر ہو۔اِس لئے ہمارے دعوے کے خلاف آپ بات کررہے ہیں ۔ یہ اِنصاف نہیں ہے۔
ہم جن معنوں میں آپ کوکافر کہتے ہیں، آپ کے دعوے کے مطابق کہتے ہیں۔ اِس لئے آپ کوشکوہ کِس بات کاہے؟ہم کہتے ہیں اِمام مہدیؔ کے کافرہیں۔اَب آپ بتایئے کہ ہمارے لئے اَوررستہ کون سا ہے باقی؟جس کوہم نے اِمام مہدیؔ مانایاہم جھوٹ بول رہے ہیں یاسچ بول رہے ہیں تیسری توشکل ہی کوئی نہیں ۔ ہم نے سچا سمجھ کے مانا ہے۔اِس میں توکوئی شک نہیں وَرنہ اِس رستہ پراتنی مصیبتیں کیوں اُٹھاتے؟پاکستانؔ میں ہم سے جوہورہا ہے وہ کوئی جھوٹی قوم تو بَرداشت نہیں کرسکتی۔ہم نے یقیناً سچّا سمجھ کے مانا ہے۔توجواِمام مہدیؔ کوسمجھتا ہوکہ اِمام مہدیؔ آگیااَورسچّا ہے۔ اُس کے منکر کواِمام مہدیؔ کامنکر نہ کہے گاتوکیا کہے گا؟کوئی صورت ہے اِس کے سوا تیسری ہمارے لئے؟‘‘
حضور رحمہ اللہ نے محی الدین نامی ایک مولانا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا
’’اُنہوں نے مجھ سے یہی سوال کیاکہ آپ مجھے صاف بتائیں کہ آپ ہمیں کیا سمجھتے ہیں؟مَیں نے کہاآپ پہلے مجھے ایک بات کاجواب دیں۔مَیں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کوصاف صاف بتا دُوں گا۔کہتے کیا؟ مَیں نے کہا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک تواِمام مہدیؔ نہیں آیاناں؟جب اِمام مہدیؔ آجائے گاتوجوشخص اِمام مہدیؔ کوجھوٹا کہے گاآپ اُس کوکیا کہیں گے؟کہتے مَیں توکافرؔ کہوں گا۔تومَیں نے کہا پھرمجھ سے وہ توقّع کیوں نہیں رکھتے؟آپ تواِتنے مَردِ مومنؔ ہیںکہ اِمام مہدیـؔ کے منکرکوکافر کہتے ہیں اَورمجھ سے یہ توقّع رکھتے ہیں کہ مَیں جس کواِمام مہدیؔ سمجھتا ہوں اُس کے کافرـؔ کومومن کہوں؟یہ کون سااِنصاف ہے؟اِس لئے بحث یہ ہے کہ ہم آپ کے دعوے کے خلاف نہیں کہتے۔اَگرہم غلط ہیں توآپ کوفخرکرنا چاہئے کہ ہمیں ایک جھوٹے کاکافر کہا گیا ہے۔پھرتوغُصّہ کی بات ہی کوئی نہیں۔‘‘
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
اسی مجلس میں ایک دوسرے سائل نے کہا ’’ کیا اَب مسیحِ موعود ؑ کے آنے کے بعد صرف کلمہ طیّبہ کاپڑھنا ناکافی ہوگیا ہے؟‘‘
حضورؒ۔’’ نہیں۔‘‘
سائل۔’’ کیا کسی شخص کواَپنے آپ کومسلمان کہنے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ کلمہ طیّبہ کا اِقرار کرے؟‘‘
حضورؒ۔’’ جزاکم اللہ ! آپ نے ہمارے دِل کی بات کہہ دی۔‘‘
سائل۔’’ توپھرعرض یہ ہے کہ اَبھی آپ نے یہ فرمایاکہ جوشخص مسیحِ موعودؑ کااِقرار نہیں کرتا، اُن کونہیں مانتاتوظاہرہے کہ وہ کیسے مسلمان ہوسکتا ہے؟‘‘
حضورؒ۔’’ نہیں ، یہ نہیں مَیں نے کہا۔ دیکھیں آپ میرے مُنہ میں بات نہ ڈالیں۔‘‘
سائل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اِس کے صاف معانی یہ ہیں کہ اَب مسیحِ موعودؑ کے آنے کے بعد سے صرف کلمہ طیّبہ کاپڑھنا کافی نہیں ہے۔بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ مسیحِ موعودؑ کوتسلیم کیاجائے۔ اُس پراِیمان لایا جائے۔‘‘
حضورؒ۔’’ مَیں اِس کے کئی جواب دے سکتا ہوں۔بڑی واضح بات ہے ۔کلمہ طیّبہ پڑھ کے اِنسان مسلمان ہوجاتا ہے۔ آپ کواَورمجھے اِتّفاق ہے اِس با ت پر، لیکن اَگر ملائکہ کااِنکارکردے توپھربھی مسلمان رہے گا؟اَگرایک نبی کابھی اِنکارکردے پھربھی مسلمان رہے گا؟بتائیے؟
حضورؒ نے فرمایا دیکھیں! sloganism سے مسئلے حل نہیں ہوتے ۔ جودینی معاملات ہیں اِن کافہم سے معاملہ حل کرنا چاہئے۔غورسے معاملہ حل کرنا چاہئے۔کلمہ طیّبہ کے بعد اِنسان مسلمان ہوجاتا ہے ۔ لیکن اِیمان کی جتنی شرائط ہیںاُن کوپورا کرنا ضروری ہے ۔کلمہ طیّبہ پڑھنے کے باوجوداَگرکوئی شخص اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلَآئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ
(ترمذی کتاب الایمان باب ماجآء فی وصف جبرائیل)
اِن پانچ چیزوں میں سے کسی ایک کابھی یااِن کے اجزاء میں سے کسی ایک جزو کابھی اِنکارکردے توسارے مسلمان علماء کامتفقہ عقیدہ ہے ۔ سُنّت سے یہی چلا آرہا ہے کہ وہ سچّا صحیح مسلمان نہیں کہلاسکتا۔ اِس لئے اِسْلَام دُوْنَ الْاِسْلَامْکے مسائل شروع سے ہی اُمّت میں چلے آرہے ہیں۔کُفْردُوْنَ الْکُفْرکے مسائل شروع سے چلے آرہے ہیں۔
جہاں تک جماعت اَحمدیہ ؔ کامؤقف ہے ۔وہ بڑا واضح ہے کہ جوشخص کلمہ طیّبہ پڑھتا ہے اُس کوہم غیرمسلم نہیں کہہ سکتے۔ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔لیکن اَگر اُس سے اُترکراِن چیزوں میں سے کسی کااِنکار کرے تو کُفر کی کوئی نہ کوئی چیز اُس میں ثابت ہوجائے گی۔ اُس کے باوجود اُسے ہم غیرمسلم نہیں کہیں گے ۔جو شخص کلمہ طیّبہ کااِقرار کرلے اَورکہے کہ مَیں مسلمانؔ ہوں۔ آج تک کبھی کِسی اَحمدیؔ نے اُسے غیرمسلم نہیں کہا۔ حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی کتابیں اُٹھا کے دیکھ لیں۔ وہاں فرق ہے۔ایک ہے اِصطلاح کافرکہنے کی۔ ایک ہے غیرمسلم۔ اِن دونوں اِصطلاحوں میں زمین آسمان کافرق ہے۔ اِس لئے اَگرچہ مسلمان علماء ایک دوسرے کو سارے کافر کہتے چلے آئے ہیں ، آج تک کہتے ہیں ۔ مگر غیرمسلم نہیں کہتے۔ کیا وجہ ہے ؟ کیوں نہیں کہتے تھے؟ اِس لئے کہ اُن کوعلم تھا، جوپہلے علماء گذرے ہیں وہ سطحی علم رکھنے والے لوگ نہیں تھے۔وہ بُزرگ تھے ،اَولیاء اللہ تھے ۔ غلطیاں اُن سے ہوئیںلیکن اِسلام کی بُنیادوں کوسمجھتے تھے۔ قرآنِ کریم نے کافرؔ کہنے اَورغیرمسلمؔ کہنے میں ایک نُمایاں فرق کیا ہے ۔ قرآنِ کریم آنحضرت ﷺ کومخاطب کرکے فرماتا ہے کہ یہ اعرابیؔ لوگ جوکہتے ہیں کہ ہم اِیمان لے آئے ۔ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْاتُواِن سے کہہ دے کہ تم اِیمان نہیں لائے ۔ اِیمان لانا تودَرکنارلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِی قُلُوْبِکُمْ(الحجرات15:) اُن کے دِلوں میں اِیمان نے جھانک کے بھی نہیں دیکھا۔ سِرے سے اِیمان ہے ہی نہیں،اِس کے باوجود تم اِن کوکہہ دوکہ تمہیں اَپنے آپ کومسلمانؔ کہنے کامَیں حق دیتا ہوں۔تم کہتے ہو اَسْلَمْنَا ٹھیک ہے بے شک کہتے پھرو۔ پس یہ عظیم الشّان ایک مذہب ہے اِسلام کاجوہرایک پہلو پر حاوی ہے۔جوشخص یہ دعویٰ کرے کہ مَیں مسلمان ہوںقرآن اَورسُنّت سے ثابت ہے اُس کوغیرمسلم کہنے کاکوئی حقّ نہیں ۔ اِسلام میں رہتے ہوئے کُفر کی کوئی بات کہے تواُس کودُوْنَ الْاِسْلامْ کافر کہنے کا حقّ ہے۔اِس کی سندؔ قرآن سے بھی ملتی ہے اَورحدیث ؔسے بھی ملتی ہے ۔ مَیں آپ کووضاحت کر کے بتاتا ہوں۔
آنحضرت ﷺفرماتے ہیں کہ ایک مسلمان جب چوری کرتا ہے توکافر ہوجاتا ہے اَورمسلمان بھی کہا اُسے ، ایک مسلمان جب زنا کرتا ہے توکافر ہوجاتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب المظالم والغصب باب النھی بغیراذن صاحبہٖ)۔
اِسی اُصول کے پیشِ نظرمسلمان علماء ایک دوسرے کے اُوپرکُفر کے فتوے دیتے رہے مگرغیرمسلم نہیں کہا۔وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے اِ س کی اِجازت ہی نہیں دی شروع سے۔ قرآن آپ ؐ پرنازل ہوا تھا،نہ کہ ایرے غیرے پر،کِسی اَورپرہوا ۔قرآن کامفہوم آپؐ بہترسمجھتے تھے اِس لئے آپؐ کایہ کہنا کہ فلاں کافر ہوگیا، فلاں کافر ہوگیایہ اَپنی جگہ لیکن اُس کے باوجود ایک موقعہ پرجبکہ جنگ میں ایک صحابی نے ایک دشمن کو زیرکیا جب وہ اُسے قتل کرنے لگاتودشمن نے مِنّت کی کہ دیکھومَیں مسلمان ؔ ہوتا ہوں ۔ مَیں کلمہ پڑھتا ہوں۔تم چھوڑ دو مجھے اَورکلمہ پڑھا اُس نے ، اُس (صحابی)نے اِس کے باوجود قتل کردیا۔آنحضرت ﷺکی خدمت میں حاضرہوکراُس نے بڑے فخر سے عرض کیا کہ اِس طرح مقابلہ ہوا۔ مَیں نے اُسے زیرکیااَوراُس نے ڈر کے مارے کہہ دیاکہ مَیں کلمہ پڑھتا ہوں۔مَیں نے کہا اَب تومَیں نہیں چھوڑ سکتا۔تم ڈر گئے ہو۔اَورقتل کردیا۔ وہ یہ روایت کرتے ہیں کہ مَیں نے اَپنی ساری زندگی میں آنحضرت ﷺ کواِتناناراض نہیں دیکھا جتنااُس دِن وہ مجھ پرناراض ہوئے۔ ایک رَوایت میں آتا ہے کہ آپؐ باربار یہ کہتے تھے کہ قیامت کے دِن جب وہ کلمہ تمہارے خلاف گواہی دے گاتوتم کیا جواب دوگے؟پھرآپ ؐنے فرمایاکہ تم نے اُس کادِل پھاڑ کے کیوں نہ دیکھ لیاکہ وہ مُنہ سے کہتا تھایا دِل سے کہتاتھا؟
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر بعد قولہٖ لاالٰہ اِلّا اللہ)
اِس لئے جوشخص اَپنے آپ کومسلمان کہے یاکلمہ پڑھ لے اُس کوغیرمسلم کہنے کاکسی کو کوئی حقّ نہیں ہے ۔نہ جماعت اَحمدیہؔ کوہے، نہ کِسی اَورجماعت کوہے۔اِس لئے ہم آپ کے اِقرار کے خلاف کبھی فتویٰ کوئی نہ دیتے ہیں نہ آج تک کبھی دیا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں، لیکن مسلمان رہتے ہوئے اِمام مہدؔی کاآپ نے اِنکارکیا جس کوہم اِمام مہدیؔ سمجھتے ہیں۔اِس لئے اِمام مہدی کے منکرپروہی فتویٰ ہے جوآپ کے علماء کافتویٰ ہے۔متفق علیہ فتویٰ تھا۔
اِمام مہدیؔ کی ضرورت کیا ہے ؟ سوال یہ ہے ۔ اَگراِمام مہدی آئے گاتوآپ کوغورکرنا چاہئے کہ آئے گاکِس کام کے لئے؟ایک طرف خدااُس کومقرر کرے ۔ چودہ سوسال ہوگئے ہیں آپ کے نزدیک اَبھی بھی نہیں آیا۔کل آجائے فرض کریںتودوسری طرف اِنکارکی اِجازت دے دے۔ عقل کے خلاف بات ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک عظیم الشّان دینی تحریک کی خاطر خداتعالیٰ کسی کواِمام بنائے اَورماننے والوں سے کہہ دے کہ تم اِس کابے شک اِنکارکروفرق ہی نہیں پڑتا۔ ہماری positionمجبوری کی position ہے۔یاہم جھوٹے ہیں کہ اِن کواِمام مہدیؔ سچّا سمجھ رہے ہیں ۔ سچّا سمجھتے ہیں توہمارے پاس چارہ ہی کوئی نہیں ۔ جواِمام مہدیؔ کا، جس کوہم اِمام مہدیؔ کہتے ہیں، جواُس کامنکر ہے ہم اُسے اِمام مہدیؔ کاکافر کہیں گے۔ لیکن غیرمسلم نہیں کہیں گے۔ آپ ہمیں غیرمسلم کہتے ہیں یہ زیادتی ہے ۔ اِس کی قرآن کوئی اجازت نہیں دیتا۔