نماز تراویح
20؍اکتوبر1907ءکو درس قرآن شریف کے بعد ایک نووارد صاحب نے حضرت حکیم الامت (مولانا نورلدینؓ)سے استفسار کیا کہ نماز تراویح کی نسبت آپ کیا فرماتے ہیں؟۔
حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ میرے خیال میں ماہ رمضان میں ایک تو روزوں کا حکم ہے۔ دوسرے حسب طاقت دوسروں کو کھانا کھلانے کا۔ تیسرے تدارس قرآن کا۔ چوتھے قیام رمضان کا۔ کیا معنی نماز میں معمول سے زیادہ کوشش۔
صحابہؓ میں تین طریقے قیامِ رمضان کے رائج تھے۔ بعضے تو بیس رکعتیں باجماعت پڑھتے تھے۔ بعضے آٹھ رکعتیں۔ اور بعض صرف تہجد ہی گھر میں پڑھ لیتے۔ اس پر نووارد صاحب نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو نماز تراویح کا پڑھنا تین چار دن سے زیادہ ثابت نہیں ہوتا اس لئے بعض لوگ اسے بدعتِ عمریؓ کہتے ہیں۔ حضرت حکیم الامّت نے فرمایا کہ خواہ آنحضرتؓ نے صرف ایک دن ہی نماز تراویح پڑھی ہو سنّت تو ہوگئی۔ دوام نہ کرنے سے سنّت تو نہیں ٹوٹتی۔ ہاں فرضیت ثابت نہیں ہوتی مگر سنّت پر عمل کرنا بھی تو چاہیے اور یہ جو آپ نے بدعتِ عمری کہی ہے اس میں حرج کیا ہے۔ چلو بدعتِ عمریؓ ہی سہی۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ(التوبۃ101:) اس آیت سے عمرؓ کی اتباع کا بھی تو حکم ہے۔ ان کے سینکڑوں احکام کی اتباع جو صحابہ رضی اللہ عنہم کرتے تھے تو صرف اسی واسطے کہ اللہ کریم کا حکم ہے۔ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔
اس پر صاحب موصوف بولے کہ آپ کا اپناعمل کس طرح سے ہے؟ حضرت حکیم الامّت نے فرمایا کہ اپنے فتویٰ کے برخلاف عمل مَیں کس طرح کر سکتا ہوں۔ تراویح کے متعلق میرا فتویٰ تو یہی ہے جو میں نے بتا دیا۔ اگر کوئی عمدہ قرآن پڑھنے والا ہو تو اس کے پیچھے بیس رکعت بھی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی آٹھ رکعت بھی پڑھ لیتا ہوں اور کبھی صرف تہجد ہی پڑھتا ہوں۔ یہاں تو کُّل سنّت صحابہ کی پوری کی جاتی ہے…۔
(ارشادات نور جلد اوّل صفحہ 345-346)
٭…٭…٭