اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ (ایک تجزیہ)(قسط نمبر 8 )
احمدیوں کے خلاف قتل ِ مرتد کے فتوے سے ملک میں بغاوت تک کا خون ریز سفر
اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں ایک مطالبہ کا بار بار ذکر ملتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی طرح یہ معلوم ہوجائے کہ پاکستان میں احمدی کہاں کہاں ہیں؟ کون کون احمدی ہے؟Identifyکا لفظ بار باراستعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی جب بھی احمدی اپنی معمول کی زندگی گزارنے کے لئے یا ملازمت کی تلاش کے لئے نکلیں تو ہر مرحلہ پر واضح ہو جائے کہ یہ شخص احمدی ہے۔کوئی تو امتیازی نشان ایسا ہو کہ راہ چلتے بھی معلوم ہو سکے کہ یہ احمدی جا رہا ہے۔ اور اس فیصلہ میں بار بار لکھا گیا ہے کہ احمدیوں کی کسی طرح ایک مکمل اور صحیح لسٹ بن جائے۔ حکومت عقائد کی چھان بین کا کوئی ایسا سائنسی طریقہ دریافت کرے کہ مکمل طور پر علم ہوجائے کہ ہر شہری کے عقائد کیا ہیں اور اس طرح احمدیوں کی صحیح تعداد بھی معلوم ہوجائے۔اور اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ نادرا(Nadra) کا ریکارڈ نا مکمل ہے اور اس میں سارے احمدی شامل نہیں ہیں۔
احمدیوں کو شناخت کرنے اور لسٹ بنانے کا مطالبہ
ایک Amicus Curiae [وہ ماہر ین جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے]نے اس مطالبہ کا جواز قرآن ِ کریم سے پیش کرنے کی کوشش میں کہا:
"While taking guidance from the verse 10 of Surah Mumtahinah, the learned amicus curiae has contended that the Islamic State can examine any of its individuals to identify the veracity of claim about his religion.” (page 27(
ترجمہ : سورۃ ممتحنہ کی آیت10 سے راہنمائی لیتے ہوئے فاضل ماہر نے کہا کہ اسلامی ریاست کسی بھی فرد کے عقائد کے بارے میں دعاوی کی سچائی جاننے کےلئے تحقیقات کر سکتی ہے۔
اس آیت میں یہ مضمون نہیں بیان ہوا کہ ریاست ہر کسی کے عقائد کی چھان بین شروع کر سکتی ہے۔ اس آیت ِ کریمہ میں یہ بیان ہوا ہے کہ جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کا امتحان کر لیا کرو اور اگر وہ واقعی مومن ہوں تو انہیں کفار کی طرف مت لوٹاؤ۔
یہ تو ظاہر ہے کہ اُس وقت مکہ کے مشرکین اور مدینہ کی اسلامی ریاست کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی تھیں اور ان حالات میں اگر دشمن کی ریاست سے کوئی عورت مدینہ آجاتی تو احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ ا س سے سوالات کر لئے جائیں کہ یہاں آنے کا مقصد کیا ہے؟اس کی مصلحت ظاہر ہے ۔ اس آیت ِ کریمہ کا اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں کہ اسلامی ریاست کو یہ اختیار ہے کہ اپنے شہریوں کے عقائد کے بارے میں کرید کرید کر چھان بین کرتی پھرے ۔ یہ اسی طرح تھا جس طرح موجودہ دور میں جب ایک ملک سے کوئی دوسرے ملک جائے خواہ مکمل امن کی حالت میں ایسا کیا جائے تو ویزا دینے سے قبل بنیادی سوالات کئے جاتے ہیں ۔البتہ یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اس آیتِ کریمہ پر کس طرح عمل کیا جاتا تھا۔تفسیر ِ ابن ِ کثیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہوا ہے۔
"حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ حضور ان عورتوں کا امتحان کس طرح لیتے تھے ؟ فرمایا کہ اس طرح کہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ اپنے خاوند سے ناچاتی کی وجہ سے نہیں چلی آئی۔صرف آب و ہوا اور زمین تبدیل کرنے کے لئے بطور سیر و سیاحت نہیں آئی ۔ کسی دنیا طلبی کی وجہ سے نہیں آئی ۔بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اسلام کی خاطر ترک ِ وطن کیا ہے اور کوئی غرض نہیں ہے۔”
[تفسیر ِ ابن ِ کثیر اردو ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی جلد 6، ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ2009ءصفحہ301]
اس روایت سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں عقائد کی تفصیلات کا جائزہ لینے کا ذکر نہیں ہے۔کیونکہ ان سوالات میں تو یہ ذکر ہی نہیں کہ یہ دریافت کیا جاتا ہو کہ آنے والی عورت کے عقائد کیا ہیں؟
درخواست گزاروں کے وکیل نے احمدیوں کے بارے میں استدعا کی:
"Therefore, a direction to maintain separate database (as prayed in Clause "b” of Prayer clause of Writ Petition is extremely essential.”(page 10)
ترجمہ : چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جیساکہ درخواست گذارbنے استدعا کی ہے ان کی علیحدہ فہرست بننے کی ہدایت دینا نہایت ضروری ہو گیا ہے۔
ایک Amicus Curae[عدالت کے مددگار ماہر] نے تجویز دی
Before induction of persons in sensitive institutions a thorough investigation about their faith may be conducted with the help of the religious experts and psychiatrists (page 20)
ترجمہ: حساس اداروں میں ملازم رکھنے سے پہلے درخواست دہندہ کے ایمان کی تفصیلی تحقیق مذہب کے ماہرین اورماہرینِ نفسیات سے کروالینی چاہیے۔
عدالت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہ کوئی احمدی اس لسٹ سے باہر نہ رہ جائے فیصلہ میں لکھا
"State of Pakistan, needs to reconcile these figures by adopting certain procedures and evolving scientific measures to know exact number of this minority.” (page 167)
ترجمہ: ان اعداد و شمار میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئےپاکستان کی ریاست کو چاہیے کہ ایسے طریقے وضع کرے اور ایسے سائنسی طریقے تیار کرے کہ اس اقلیت کی معین تعداد معلوم ہوجائے۔
اور صفحہ 169پر یہ تشویش ظاہر کی گئی کہ حلیے سے اندازہ نہیں ہوتا کہ کون احمدی ہے؟ گویا کوئی تو امتیازی نشان ہونا چاہیے۔
شناخت کرنے اورمکمل فہرستیں بنانے پر اصرار کیوں؟
آخر ماہرین ِ نفسیات سے مدد لے کر اور سائنسی طریقوں سے پرکھ کر یہ سب کچھ معلوم کرنے کی اتنی شدید خواہش کیوں ہے کہ احمدی کون ہے؟ چنانچہ یہ تسلی بھی دی گئی کہ ہم احمدیوں کی صحیح فہرست اس لئے تیار کر رہے ہیں تاکہ اُن کے حقوق کی حفاظت بخوبی کر سکیں۔جیسا کہ صفحہ 30پر ایک Amicus Curiaeکی یہ رائے درج ہے
"In order for the State to provide protection to minorities – not only their person or property but also to their religion conscience and religious practices – and to ensure that they have adequate freedom to lead their lives according to the dictates of their creed, inevitably requires their identification to the State.”
ترجمہ: اقلیتوںسےوابستہ افراد کی، ان کی جائیدادوں کی، ان کے مذہبی ضمیر کی اور ان کی مذہبی رسومات کی حفاظت کے لئےاور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ انہیں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی کافی آزادی حاصل ہو، یہ ضروری ہے کہ ریاست کو ان کی شناخت ہو۔
اب یہ سوال لازماََ اُٹھے گا کہ ریاست ان کے حقوق کی حفاظت کس طرح کرے گی؟ چنانچہ 1984ء کے حالات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس منصوبہ کی بھی کچھ جھلک نظر آ جاتی ہے۔چنانچہ اس فیصلہ کے صفحہ 76 پر لکھا ہے کہ 27اپریل 1984ء کو تحریک ِ ختم نبوت کا راولپنڈی میں اجلاس ہوا جس میں اس تحریک نے اپنے آٹھ مطالبات پیش کئے۔
باقی مطالبات کا جائزہ بعد میں لیا جائے گا، فی الحال ان مطالبات میں سےچوتھا مطالبہ ملاحظہ ہو
"Implementation of recommendation of the Council of Islamic Ideology regarding Qadianis. (The Council proposed death penalty for an apostate.)”
ترجمہ: قادیانیوں کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل کیا جائے ۔[اس کونسل نے مرتد کی سزا کے لئے سزائے موت کی تجویز دی تھی۔]
جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کا یہ بھی ایک دیرینہ مطالبہ ہے۔ کچھ دیر کے لئے یہ بحث چھوڑتے ہوئے کہ پیدائشی احمدیوں کو بھی کس طرح مرتدین میں شمار کرتے ہیں؟ پہلے یہ ملاحظہ کریں کہ یہ سفارش کسی مولویوں کے مدرسہ کی نہیں تھی، کسی جلسہ میں جذبات سےبے قابو مقرر کی نہیں تھی بلکہ ‘ اسلامی نظریاتی کونسل ‘کی تھی۔یہ ‘اسلامی نظریاتی کونسل ‘ کیا ہے؟یہ کونسل آئین ِ پاکستان کی شق نمبر 228تا231کے تحت قائم کی جاتی ہے اور اس کا کام حکومت اور پارلیمنٹ کو یہ مشورہ دینا ہے کہ مختلف قوانین کو کس طرح اسلامی قوانین سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے یا اسلامی احکامات کی روشنی میں کس طرح قانون سازی کی جا سکتی ہے۔اُس وقت ملک میں جنرل ضیاء صاحب کا مارشل لاء لگا ہوا تھا ۔ اور یکلخت اسلامی نظریاتی کونسل کو خود یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہ مسئلہ چھیڑ دیتی ، حقیقت یہ ہے کہ اُ س وقت خود حکومت کی وزارت ِ دفاع نے یہ سوال اسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا کہ اگر دفاعی سروس کے دوران کوئی شخص احمدی ہو جائے تو پھر اس پر کیا ردِ عمل ہونا چاہیے۔
(Persecution of Ahmadis in Pakistan. An objective study , by Mujeeb-ur-Rahman p 21)
یہاں اگر یہ موہوم امید پیدا ہو کہ یہ تو اُن لوگوں کے لئے ہے جو خود احمدی ہوئے تھے اور ان کا اثر اُن پر نہیں پڑے گا جو کہ پیدائشی احمدی ہیں ۔ تو اس کا حل بھی ایک Amicus Curiaeیعنی حسن مدنی صاحب نے تجویز فرمایا ہے ۔ اس فیصلہ کے صفحہ 20پر اُ ن کی یہ رائے درج ہے۔
"The learned Amicus Curiae has also contended that non-Muslims in an Islamic State are not entitled to pose themselves as Muslims and if they do so, it falls within the ambit of high treason, and disloyalty to the State of highest order. The learned Amicus Curiae in this regard has cited examples of treatment meted to Zanadiqa by the forth righteous Caliph Hazrat Ali (R.A).”
ترجمہ: فاضل ماہرنےیہ رائے بھی دی کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلم کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ مسلمانوںجیسے انداز اپنائے ۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ انتہائی غداری اور ریاست سے بغاوت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور فاضل ماہر نےاس سلسلہ میں چوتھے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زندیقوں سے جو سلوک کیا تھا ، اس کی مثال دی۔
[جماعت کے مخالف علماء کے نزدیک زندیق کی سزا موت ہے ۔ ]
یہ ظاہر ہے کہ اگر یہ سوچ لے کر قانون سازی کی جائے اور فیصلے کئے جائیںایسی اندھیر نگری میںہراحمدی کی روزمرہ کی زندگی بھی ‘سنگین غداری شمار ہوگی۔
اس طرح کی فہرستیں کب بنائی جاتی ہیں؟
اس طرح کی فہرستیں اور لسٹیں کہاں بنائی جاتی ہیں؟ ہمیں دنیا کی تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بد قسمتی سے گزشتہ سو برس میں دنیا میں کئی ملکوں میں تعصب اس حد تک بڑھا کہ Genocide[قتل ِ عام یا نسل کشی ] کے منصوبے بنائے گئے۔اور کئی ممالک میں اس کو عملی جامہ بھی پہنایاگیا۔خواہ وہ جرمنی کی نازی پارٹی کا holocaustہو ، خواہ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل ِ عام ہو، یا روانڈا اور برونڈی میں قبائلی تفریق کی بنا پر ہونے والا قتل ِ عام ہو ۔گزشتہ سو ڈیڑھ سو سال میں کروڑوں لوگوں کو اس طرح بربریت سے قتل و غارت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دور میں ماہرین نے سائنسی طور پر اس عمل کا تجزیہ کیا ہے۔ اور ادارے Genocide Watchنے اس تحقیق کو مشتہر بھی کیا ہے۔ اور یہ طے کیا کہ دس مراحل میں یہ عمل اپنی منحوس تکمیل کو پہنچتا ہے۔ یہ تفاصیل Genocide Watchکی سائٹ پر موجود ہیں۔ہر پڑھے لکھے کو ان کا مطالعہ کرناچاہیے۔ اس عمل کا پہلا مرحلہ Classificationہے ۔ یعنی مذہب کو یا نسل کو یا کسی اور چیز کو بنیاد بنا کر معاشرے کو خود تقسیم کیا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ Symbolizationہے۔ یعنی جس گروہ کے خلاف نفرت انگیزی کی جانی ہو اسے کوئی نام دیا جاتا ہے جس سے نفرت وابستہ کر دی جاتی ہے۔چھٹا مرحلہ Preperationیعنی تیاری کا ہوتا ہے۔ اورآٹھواں مرحلہPersecutionکا ہے۔ اس کے متعلق Genocide Watchکا کہنا ہے۔
"Victims are identified and separated out because of their ethnic or religious identity. Death lists are drawn up. In state sponsored genocide, members of victim groups may be forced to wear identifying symbols.”
ترجمہ : نشانہ بننے والوں کوشناخت کیا جاتا ہے اور دوسروں سے نسل یا مذہب کی بنیاد پر علیحدہ کر کے شناخت کیا جاتا ہے۔ اور موت کی فہرستیں بنائی جاتی ہیں ۔ جس قتل ِ عام کی سرپرستی ریاست کر رہی ہو اس میں نشانہ بننے والے گروہوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ دوسروںسے علیحدہ کرنے والے امتیازی نشان پہنیں۔
اس ادارے کا انتباہ ہے کہ جب یہ مرحلہ آئے تو یہ ایک ایمر جنسی ہے ۔ فورًا اس کی روک تھام کو حرکت میں آنا چاہیے۔
http://genocidewatch.org/genocide/tenstagesofgenocide.html۔ accessed on
5.9.2018
پاکستان میں قتل ِ مرتد کے مسئلہ کی ابتدا
جماعت احمدیہ کے ایک مخالف مولوی شبیر عثمانی صاحب تھے جو کہ پاکستان کی مرکزی اسمبلی کے ممبر بھی تھے۔ آزادی سے قبل 1924ءمیں جب افغانستان کے بادشاہ امیر امان اللہ نے عقیدہ کی بناء پر ایک احمدی مولوی نعمت اللہ صاحب کو سرِ عام سنگسار کیا تو ہندوستان میں اس موضوع پر بحث چھڑ گئی۔ اس مرحلہ پر شبیر عثمانی صاحب نے اس سزائے موت کے دفاع کے لئے اس موضوع پر ایک کتابچہ تحریر کیا کہ نعوذُ باللہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔پاکستان بننےکےصرف اڑھائی سال کےبعد جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے اس کتابچہ کے مصنف کی اجازت سے اس کو شائع کیا۔اور مخالفین ِ جماعت نے جلسوں میں یہ اپیلیں شروع کیں کہ لوگ اسے پڑھیں اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق اس کی اشاعت کے بعد پاکستان میں احمدیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اور جلسوں میں باقاعدہ لوگوں نے کھڑے ہوکر اعلان شروع کئے کہ وہ فلاں فلاں احمدی کو خود قتل کریں گے۔
[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ءصفحہ 18،21،24]
اور جون 1951ءمیں جماعت ِ اسلامی کے بانی مودودی صاحب نے بھی ایک کتاب ‘’’ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں‘‘’ لکھ کر مرتد کے لئے قتل کی سزا تجویز کی۔ملاحظہ کریں کہ یہ سب کچھ اُ س وقت کیا جا رہا تھا جب پاکستان کو بنے صر ف اڑھائی تین سال ہوئے تھے ۔ ابھی پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔مالی مسائل ہوں یا ملک کے دفاع کا مسئلہ ہو ملک ہر طرف سے مسائل میں گھرا ہوا تھا اور ابھی ملک کا آئین بھی نہیں بنا تھا اور ان احباب کو فکر کیا پڑی ہے؟ کہ مرتد کو قتل کردو۔بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ جنوری1950میں بھارت میں آئین بن کر پارلیمنٹ سے منظور ہو کر نافذ ہو چکا تھا اور پاکستان میں بجائے اس کے کہ ملک کو آئین دے کر آگے بڑھتے یہ بحث شروع کر دی گئی کہ مرتد کو قتل کرنا ہے کہ نہیں ۔ اس کے جو نتائج برآمد ہوئے وہ سب جانتے ہیں۔
قرآن ِ کریم سے دلائل
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ مولوی شبیر عثمانی صاحب اور مودودی صاحب نے قرآن ِ کریم سے اس نظریہ کے حق میں کیا دلائل دیئے تھے؟شبیر عثمانی صاحب نے اپنے کتابچہ کے پہلے 26صفحے تو احمدیوںکو مرتد ثابت کرنے میں صَرف کئے۔ پھر ذکر شروع ہوا کہ قرآن ِ کریم میں کہیں ذکر آیا ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے ؟ تو پہلے یہ دعویٰ پیش کیا گیا کہ یوں تو بہت سی آیات سے قتل ِ مرتد ثابت ہوتا ہے اور پھر صفحہ30 پر لکھتے ہیں کہ ایک آیت ایسی ہے جس سے بالکل واضح ہو جاتاہے کہ یقینی طور پر [نعوذُ باللہ ] قرآن ِ کریم میں مرتد کی سزا قتل بیان ہوئی ہےاور یہی اسلام میں حکم بیان ہوا ہے کہ مرتد کو قتل کرنا لازمی ہے۔ملاحظہ کریں کہ کون سی آیت پیش کی گئی ۔
وَإِذْ قَالَ مُوسىٰ لِقَوْمِهٖ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوْا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوْا أَنْفُسَكُمْ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ ۔۔۔ (البقرة55:)
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم یقینًا تم نے بچھڑے کو [معبود] بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا۔پس توبہ کرتے ہوئے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہو اور اپنے نفوس کو قتل کرو ۔یہ تمہارےلئے تمہارےپیدا کرنے والےکے نزدیک بہت بہتر ہے۔‘‘
شبیر عثمانی صاحب کے نزدیک بنی اسرائیل کے ان لوگوں کو حکم دیا گیا تھا جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی کہ وہ اپنے اُن رشتہ داروں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی ۔جماعت ِ احمدیہ کے نزدیک اپنے نفوس کو قتل کرنے سے مراد یہ ہے کہ اپنے نفوس کو مارو یعنی اپنے گناہوں سے توبہ کرو ۔البتہ دیگر علماء میں سے بہت سے اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردو۔اس بحث کو اگر ایک طرف رہنے دیں تو بھی یہاں مسلمانوں کو کوئی حکم دیا ہی نہیں گیا۔یہاں تو ایک مخصوص موقع پر بنی اسرائیل کو ایک حکم دینے کا ذکر ہے۔اور اُن کو بھی کوئی عمومی حکم نہیں کہ جب بھی کوئی مرتد ہو تو اُسے قتل کردو۔ شبیر احمد عثمانی صاحب اس کا یہ حل تجویز کرتے ہیں۔
"کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ موسوی شریعت کا ہے۔ امت ِ محمدیہ کے حق میں اس سے تمسّک نہیں کیا جا سکتا۔لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پہلی امتوں کو جن شرائع اور احکام کی ہدایت کی گئی ہے اور قرآن نے اُن کو نقل کیا ہے وہ ہمارے حق میں بھی معتبر ہیں اور ان کی اقتدا کرنے کا امر ہم کو بھی ہے جب تک کہ خاص طور پر ہمارے پیغمبر اور ہماری کتاب اس حکم سے ہم کو علیحدہ نہ کردیں۔”[الشھاب مصنفہ شبیر احمد عثمانی ،ناشر ادبی کتب خانہ ملتان صفحہ33و34]
اگر شبیر احمد عثمانی صاحب کا استدلال قبول کیا جائے تو پھر قرآن ِ کریم کی ایک آیت ہےوَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسىٰ وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّأَلِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَ اجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً۔[یونس 88]
ترجمہ: اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی کی کہ تم دونوں اپنی قوم کے لئے مصر میں گھر تیار کرو اور اپنے گھروں کو قبلہ رُخ رکھو ۔۔۔
اس طرح تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ مسلمانوں پر بھی فرض ہے کہ اپنے گھروںکو قبلہ رُخ بنائیں۔
اسی طرح قرآن ِ کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو فرمایا يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ۔۔۔ [المائدہ 22]
ترجمہ: اے میری قوم ارض ِ مقدس میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے۔۔۔
اگر شبیر احمد عثمانی صاحب کا نظریہ تسلیم کیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ فلسطین جا کر آباد ہو جائیں۔
1953 ءکے فسادات ِ پنجاب پر بننے والی تحقیقاتی عدالت میں بھی’’ ‘ الشہاب‘‘’ کو پیش کیا گیا تھا۔ اس کتابچہ کے پیش کردہ نظریات پر تحقیقاتی عدالت کا تبصرہ یہ تھا:
"ارتداد کے لئے سزائے موت بہت دور رس متعلقات کی حامل ہے ۔ اور اس سے اسلام مذہبی جنونیوں کا دین ظاہر ہوتا ہے جس میں حریت ِ فکر مستوجب ِ سزا ہے۔قرآن تو بار بار عقل و فکر پر زور دیتا ہے۔رواداری کی تلقین کرتاہے اورمذہبی امور میں جبر و اکراہ کے خلاف تعلیم دیتا ہے۔لیکن ارتداد کے متعلق جو عقیدہ اس کتابچے میں پیش کیا گیا ہے وہ آزادی ِ فکر کی جڑ پر ضرب لگا رہا ہے کیونکہ اس میں یہ رائے قائم کی گئی ہے کہ جو شخص پیدائشی مسلمان ہو ۔یا خود اسلام قبول کر چکا ہو ۔ وہ اگر اس خیال سے مذہب کے موضوع پر فکر کرے کہ جو مذہب اسے پسند آئے وہ اسے اختیار کر لے وہ سزا کا مستوجب ہو گا۔اس اعتبار سے اسلام کامل ذہنی فالج کا پیکر بن جاتا ہے ۔ اور اگر اس کتابچہ کا یہ بیان صحیح ہے ۔کہ عرب کے وسیع رقبے بارہا انسانی خون سے رنگین ہوئے تھے تو اس سے یہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ عین اس زمانے میں بھی جب اسلام عظمت و شوکت کے نقطہ عروج پر تھا اور پورا عرب اس کے زیر ِ نگین تھا ۔اس ملک میں بے شمار ایسے لوگ موجود تھے جو ا س سے منحرف ہو گئے تھے اور انہوں نے اس کے نظام کے ماتحت رہنے پر موت کو ترجیح دی تھی۔۔۔۔اس کتابچے کے مصنف نے جو یہ نتیجہ نکالا ہے وہ اس نظیر پر مبنی ہے جو عہد نامہ عتیق کے فقرات 62،72،82میں مذکور ہے۔ اور جس کے متعلق قرآن کی دوسری صورت کی چوّنویں آیت میں جزوی سا اشارہ کیا گیا ہے۔اس نتیجے کا اطلاق اسلام سے ارتداد پر نہیں ہو سکتا ۔ اور چونکہ قرآن ِ مجید پر ارتداد پر سزائے موت کی کوئی واضح آیت موجود نہیں ۔اس لئے کتابچہ کے مصنف کی رائے بالکل غلط ہے۔ "
[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات ِ پنجاب 1953ء صفحہ237و238]
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں قرآن ِ مجید سے قتل ِ مرتد کی کیا دلیل بیان کی ہے۔مودودی صاحب اپنی کتاب میں قتل ِ مرتد کی دلیل کے طور پر یہ آیات پیش کرتے ہیں۔
إِنْ تَابُوْا وَأَقَامُوْا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْاٰيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (التوبہ12) وَإِنْ نَّكَثُوْا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ (التوبة13)
ترجمہ: پس وہ اگر توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں ۔ اور ہم ایسے لوگوں کی خاطر نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے سرغنوں سے لڑائی کرو ۔ یقیناََ وہ ایسے ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حیثیت نہیں [پس ان سے لڑائی کرو ۔اس طرح] ہو سکتا ہے وہ باز آ جائیں۔
مودودی صاحب نے اس آیت میں عَہدوں اور قسموں کو توڑنے سے مراد مرتد ہونا لیا ہے۔ جبکہ اس سے قبل کی آیات میں ان مشرکین کا ذکر چل رہا ہے جنہوں نے جزیرہ عرب میں مسلمانوں سے معاہدے کئے ہوئے تھے ۔ ان کے معاہدات کی مدت پوری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اور یہ بھی ذکر چل رہا ہے کہ یہ مشرک تم سے عہد کرتے ہیں اور پھر بار بار اپنے عہد توڑتے ہیں۔ اور یہ بیان ہے کہ اگر پھر بھی وہ ایمان لے آئیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ۔ لیکن اگر وہ بد عہدی کریں تو ان کے سرغنوں سے لڑائی کرو۔اس کے علاوہ بھی اگر مودودی صاحب کا نظریہ قبول کیا جائے تو بھی یہاں سرغنوں سے لڑائی کرنے کا حکم ہے ، ہر مرتد کو قتل کرنے کا جواز نہیں نکل سکتا۔[ارتداد کی سزا اسلامی قانون میں ، مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی ناشر مرکزی مکتبہ جماعت ِ اسلامی پاکستان جون 1951ءصفحہ9و10]
یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ تفسیر ِ ابن ِ کثیر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت درج ہے کہ اس آیت میں خاص مخاطب مشرکینِ قر یش ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے مراد مشرکین لیے تھے مرتدین نہیں لیے تھے۔[تفسیر ِ ابن ِ کثیر جلد اردو ترجمہ از مولانا محمد جونا گڑھی ، ناشر فقہ الحدیث پبلیکیشنز مارچ 2009ءجلد3صفحہ234]صرف ایک آیت لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْن [دین میں جبر نہیں] ہی ایسے تمام وساوس کی تردید کے لئے کافی ہے۔
اور ایک اور آیت ِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں :
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ اٰمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوْا ثُمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيْلًا(النساء138:)
ترجمہ: یقیناََ جو لوگ ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر ایمان لائے۔ پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے۔
اگر مرتد کی سزا موت تھی تو ایمان کے بعد انکار کرنے کے نتیجہ میں تو سزائے موت کا ذکر ہونا چاہیے تھا نہ کہ پھر ایمان لانے اور پھر انکار کرنے اور پھر کفر میں بڑھنے کا۔
اس سلسلہ میں دیگر آیات اور احادیث ِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بحث کی تفصیل جاننے کے لئے سلسلہ احمدیہ کی مندرجہ ذیل تین کتب کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
1۔ اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت
خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ بر موقع جلسہ سالانہ یُوکے 27 جولائی1986ء
2۔قتل ِ مرتد۔
مصنفہ حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ عنہ
3۔اسلام میں ارتداد کی سزا مصنفہ مکرم روشن دین تنویر صاحب
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا انتباہ
لیکن اس مرحلہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا یہ انتباہ پیش کرنا ضروری ہے جو حضور نے اس خطاب سے قبل فرمایا تھا
"حال ہی میں اس ضمن میں مغربی استعمار کے زیر ِ اثر مسلمان قوموں میں بعض ایسے نظریات کو عمدًا ایک منصوبے کے تحت فروغ دیا جا رہا ہے جس کے نتیجہ میں یہ جنگ ملکوں ملکوں کی جنگ نہیں رہے گی بلکہ ہر مسلمان ملک کے اندر ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جائے گی ۔ ان حربوں میں سب سے بڑا حربہ قتل ِ مرتد کا عقیدہ ہے اور وہ تمام اسلامی ممالک جو بالخصوص امریکہ کے زیر ِ نگیں ہیں اور امریکہ کی حمایت علی الاعلان کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی میں اپنے نظام ِ حیات کو تشکیل دے رہے ہیں، ان ممالک میں یہ نظریہ بڑی شدت سے اُٹھایا جا رہا ہے اور اس پر وسیع پیمانے پر عملدرآمد کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔اس لئے میں نے آج ضروری سمجھا کہ قتل ِ مرتد کے موضوع پر اسلام کی سچی، حقیقی اور دائمی اور انتہائی حسین تعلیم آپ کے سامنے رکھوں تاکہ جہاں تک آپ کا بس چلے اس انتہائی کریہہ اور خوفناک سازش کا اپنے اپنے دائرہ کار میں اور اپنی اپنی حدود میں مقابلہ کریں۔”
[اسلام میں ارتداد کی سزا کی حقیقت ، خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ 27 جولائی 1986ءناشر نظارت اشاعت ربوہ پاکستان صفحہ3]
شاید اُ س وقت جلد بازی میں یہ اعتراضات کئے گئے ہوں کہ چونکہ اس قانون سے احمدی خطرہ محسوس کر رہے ہیں اس لئے اس مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔لیکن ہم ایسی کتب کے حوالوں کے ساتھ جن کے مصنفین کا جماعت ِ احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ اس میدان میں بین الاقوامی طور پر سند مانے جاتے ہیں ، وہ حقائق پیش کریں گے جن سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ انتباہ حرف بحرف پورا ہوا ۔ اور وقت پر اس سے نصیحت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ تمام عالم ِ اسلام نے شدید نقصان اُٹھایا اور اللہ رحم کرے یہ نقصان اب تک جاری ہے۔
دوسرے فرقوں کے خلاففتاویٰ اور قتل و غارت
سب سے پہلے تو یہ غلط فہمی دور ہونی ضروری ہے کہ شدت پسندوں نے اس فتنے کو صرف جماعت ِ احمدیہ کے خلاف استعمال کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ 1984 میں جنرل ضیاء نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف آرڈیننس نافذ کیا اور اس کے ایک دو سال کے بعد ہی پاکستان میں بہت سے مدرسوں نے اہل ِ تشیع کے کفر کے فتاویٰ دینے شروع کئے اور ان میں وہ مدارس شامل تھے جو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بھی سرگرم رہے تھے۔ان میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور جامع اشرفیہ لاہورسرِفہرست تھے۔ اور یہ فتویٰ دیا کہ ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا تک ناجائز ہے۔
(Sectarian War , by Khalid Ahmed , published by Oxford Publishers 2013p 90-91)
یہ عمل صرف نمایاں مدارس کے فتاویٰ تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انتباہ فرمایا تھا جلد ہی ان کو مرتد قرار دے کر ان کا خون خرابہ شروع ہو گیا ۔اور1986ءمیں دہشتگردوں نے با قاعدہ فوج کشی کرکے پارا چنار اور گلگت میں شیعہ حضرات کا قتل ِ عام کیا ۔ اسی طرح یہ خونی تاریخ پاکستان میں بار بار دہرائی گئی مثلاََ بلوچستان میں ہزارہ شیعہ احباب کو بار بار قتل و غارت اور مظالم کا نشانہ بننا پڑا۔
(Sectarian War , by Khalid Ahmed , published by Oxford Publishers 2013p98&99, 202-207)
حقیقت یہ ہے کہ جس ضلع سے 1974ءمیں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات کا آغاز کیا گیا تھا اسی ضلع سے تکفیر کے عمل کو نئے سرے سے وسیع کرنے کے منحوس عمل کا آغاز بھی کیا گیااور شیعہ احباب کو مرتد اور واجب القتل قرار دے کر ان پر قاتلانہ حملے شروع کرائے گئے ۔مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں:
"اور پنجاب کے وسطی شہر جھنگ میں با اثر شیعہ جاگیرداروں کے خلاف ایک مقامی خطیب مولانا حق نواز جھنگوی نے بعض عقائد کی وجہ سے شیعہ فرقہ کی تکفیر کا نعرہ بلند کر دیا۔اگر چہ بر صغیر میں دیوبندی اور اہل ِ حدیث مکاتب ِ فکر کی طرف سے اہل ِ تشیع پر کفر کے فتاویٰ ملتے ہیں جبکہ دیگر مکاتب ِ فکر بھی ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتاویٰ جاری کرتے رہے ہیں لیکن ان فتاویٰ کی روشنی میں قتل و غارت گری کا بازار کہیں گرم نہیں ہوا تھا۔جھنگ میں فرقہ وارانہ فسادات نے زور پکڑا اور اطراف کے لوگ قتل ہونے لگے۔”
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ29)
پہلے کفر کے فتوے ، پھر ارتداد اور واجب القتل ہونے کے فتوے ۔یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو پھر رکنے میں نہیں آتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے۔ اسی کتاب میں پھر مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں۔
"فرقہ وارانہ جنگ پاکستان میں اپنا رنگ دکھانے لگی اور ایک دوسرے کو قتل کرنے کا سلسلہ طویل ہوتا گیا ۔جنگ میں سپاہ ِ صحابہ کے سربراہ مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل کے بعد فرقہ وارانہ فسادات شدت اختیار کر گئے۔جھنگ کے اہل ِ تشیع جاگیر داروں اور آباد کار سنّیوںکے درمیان قتل و غارت کا سلسلہ آہستہ آہستہ پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لینے لگا۔”
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ31)
یہ شدت پسندی صرف زبانی کفر کے فتاویٰ تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ پھوٹ ڈالنے کی اس مہم نے ایسا خوفناک رنگ اختیار کیا کہ جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مجاہد حسین صاحب نے اپنی کتاب میں ایک اشتہار کی نقل شائع کی ہے جو پاکستان میں کھلم کھلا لگایا گیا۔ اس میں ایک شدت پسند تنظیم نے اہل ِ تشیع احباب کو یہ دھمکی دی ہے کہ وہ اسلام کی آڑ میں دین ِ اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اب انہیں ان میں سے ایک راستہ اختیار کرنا ہو گا ۔ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں، یا جزیہ دیں، یا یہاں سے ہجرت کر جائیں ۔ ورنہ ان کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور ان کی عورتوں کو کنیزیں بنا لیا جائے گا۔ اور ان کے بچوں کو غلام بنا کر یا تو مسلمان کر لیا جائے گا یا پھر ان سے بیگار لیا جائے گا۔
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ101)
اس دیدہ دلیری سے خوف و ہراس کی فضا قائم کی جا رہی ہے کہ پنجاب کے بعض علاقوں میں اہل ِ تشیع افراد کے گھر وں میں ایسے خطوط بھی بھیجے گئے جن میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ کافر ہیں۔ یا تو وہ اسلام کی طرف لَوٹ آئیں ۔ ورنہ ان کے مردوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو جلایا جائے گا ۔ ان کی عورتوں کو کنیزیں اور ان کے بچوں کو غلام بنایا جائے گا اور ان کی جائیدادوں کو مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے گا۔
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ءصفحہ103)
جماعت احمدیہ کے اشد مخالف اور سابق وزیر ِ اعلیٰ پنجاب کے مشیر اور پاکستان علماء کونسل کے صدر طاہر اشرفی صاحب نے اعتراف کیا کہ انہیں بعض شائع ہونے والے فتاویٰ دکھائے گئے جن میں لکھا تھا کہ شیعہ اور قادیانی عورتیں تمہاری لونڈیاں ہیں ، ان کے اموال مالِ غنیمت کے طور پر حلال ہیں اور ان کو قتل کرنا فرائض ِ دینی میں شامل ہے۔
)A Debate on Takfeer and Khurooj, Editor Safdar Sial , Printed by Narratives Publication 2012,p 102)
اگر ابھی بھی کسی پڑھنے والے کے دل میں یہ خوش فہمی موجود ہے کہ یہ کفر و ارتداد اور قتل و غارت کے فتوے صرف احمدیوں اور شیعہ احباب تک محدود رہ جائیں گے تو محض خام خیالی ہوگی ۔ مجاہد حسین صاحب لکھتے ہیں:
"پنجاب میں تحریک ِ طالبان کے ورثاء جو تتر بتر شیعہ تنظیموں کو تقریباََ شکست ِ فاش دے چکے ہیں، اب ان کے اگلے اہداف بریلوی مسالک کی تنظیمیں ہیں جبکہ پنجاب میں دیوبندیوں کے درمیان بھی واضح تقسیم دیکھی جا سکتی ہے جو تیزی کے ساتھ حیاتی اور مماتی کی عقیدہ جاتی شناختوں کو واضح کر رہے ہیں۔۔۔۔”
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین، ناشر سانجھ لاہور مارچ 2011ء صفحہ275)
"اگر ان سخت گیر اسلام کے نفاذ کے داعیوں کے خصوصی اجتماعات یا خطبات کو سنا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شدت ِ جذبات کا کیا حال ہے۔ان خطبات میں صوفیاء کے مزاروں اور خانقاہوں پر زائرین کے جانے کو شرک سے تعبیر کیا جاتا ہے اور مشرک کو بد ترین شخص قرار دیا جاتا ہے ، جس کی سزا موت سے کہیں زیادہ ہے۔”
(پنجابی طالبان ، مصنفہ مجاہد حسین ، ناشر سانجھ لاہور مارچ2011ص296)
پاکستان میں جگہ جگہ خانہ جنگی کی بنیا دقتل ِ مرتد کے فتاویٰ تھے
یہ سلسلہ صرف اس مرحلہ پر نہیں رک جاتا کہ مختلف فرقوں کو کافر قرار دیا گیا اور اس بناء پر انہیں مرتد اور پھر واجب القتل قرار دیا گیا اور ملک میں خون خرابہ شروع ہو گیا۔جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خبردار فرمایا تھا یہ سلسلہ اس سے بہت آگے چلتا ہے۔پھر یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ ملک کی حکومت کیا مسلمان ہے یا کافر ہے ؟ ملک کی عدلیہ کیا اسلام پر کاربند ہے یا کفر پر کاربند ہے؟ ملک کی فوج کیا اسلامی احکامات پر عمل کر رہی ہے ؟ یا کافروں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے؟یہ آئین کیا اسلامی ہے یا اس کی بنیاد کفر کے نظریات پر ہے ؟ جب پاکستان میں تنگ نظر طبقہ نے یہ سوالات اُٹھا دیئے تو پھر ان کو حل کرنے کے لئے ملک سے باہر سے کچھ علماء بلائے گئے جنہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ یہ سب تو کافر ہو چکے ہیں۔بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس طبقہ نے ’’’ قواعد التکفیر‘‘ ‘ شائع بھی کئے تاکہ مسلمانوں کو کافر اور مرتد قرار دینے کا کام منظم طریق پر آگے بڑھایا جا سکے۔ جب یہ مسلمان کافر ہوگئے تو یقینی طور پر مرتد ہیں۔ اور مرتد کی سزا قتل ہے ۔چنانچہ ان دہشت گردوں نے یہ اعلان کیا کہ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ان مرتدوں کو قتل کی شرعی سزا دیں ۔اور اس کو بنیاد بنا کر ملک کے مختلف حصوں میںجن میںخاص طور پر سوات اور وزیرستان شامل ہیں بغاوت اور خانہ جنگی شروع کر دی گئی۔ اس موضوع پر بہت سی تحقیقات سامنے آ چکی ہیں لیکن اس ضمن میں خاص طور پر سید سلیم شہزاد صاحب کی کتاب”Inside Alqaeda and Taliban beyond Bin Laden and 9/11″ کا ایک باب Takfeer and Khroojجو اس کتاب کے صفحہ 124تا155پر ہے خاص طور پر مطالعہ کے قابل ہے۔
اسی طرح سوات میں بغاوت اُٹھاتے وقت صوفی محمد صاحب نے فتویٰ دیا کہ جمہوریت بھی کفر ہے۔اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سب وہ مقامات ہیں جہاں بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔
(Inside Alqaeda and the Taliban beyond Bin Laden and 9/11 by Syed Saleem Shehzad published by Pluto Press 2011, p174)
جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بے بنیاد الزام تراشی شروع کی گئی کہ احمدی تو عیسائیوں اور یہودیوں کے ایجنٹ ہیں ۔ لیکن آخر تان اس پر ٹوٹی کہ پاکستان میںیہ فتویٰ بھی داغا گیاکہ چونکہ حکومتِ پاکستان کے یہودی اور عیسائی ممالک سے تعلقات ہیں ، اس لئے یہ حکومت بھی کافر اور مرتد ہے۔اور چونکہ فوج نے دہشتگردی کے اڈوں پر حملہ کیا ہے ، اس لئے پاکستان کی فوج بھی کافر اور مرتد ہے۔اس سے بھی دل نہیں بھرا تو یہ فتویٰ جاری ہوا کہ سارے حکومتی ادارے طاغوتی ہیں۔شاید یہ وہم اُٹھے کہ پاکستان کا آئین تو بچ گیا۔[جی وہی آئین جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔]تو یہ خبر بھی سن لیں کہ یہ فتویٰ بھی جاری ہو چکا ہے کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد ہی کفر پرہے۔
)A Debate on Takfeer and Khurooj, Editor Safdar Sial , Printed by Narratives Publication 2012,p 111& 112, 89)
اور اس طرح کفر و ارتداد کے فتوے لگا کر اپنے کارندوں کو قائل کیا گیا کہ ان کے خلاف جنگ ضروری ہو گئی ہے کیونکہ مرتد تو واجب القتل ہے اور یہ کافر اور مرتد ہیں ۔ اور اس طرح ملک میں جگہ جگہ بغاوت کھڑی کی گئی اور خانہ جنگی شروع ہو گئی اور وسیع علاقے ایک لمبا عرصہ حکومت کی عملداری سے باہر نکل گئے۔ہزاروں پاکستانیوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا۔ اس کے علاوہ شام اور عراق میںISISکی اور نائیجیریا میں بوکو حرام کی فتنہ پردازی دیکھ لیں ۔ ان سب کی بنیاد کفر وا رتداد کے فتوے اور ان کی بنیاد پر شروع کیا جانے والا نام نہاد ’’جہاد‘’ تھا۔جو انتباہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1986ءمیں فرمایاتھا، ساری دنیا اس کی صداقت ملاحظہ کر رہی ہے۔اب جبکہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالم ِ اسلام کی سر زمین ان فتاویٰ کی وجہ سے خون سے رنگ دی گئی ہے، ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس مرحلہ پر ایک عدالتی فیصلہ میں اس مسئلہ کی آگ کو کیوں بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔؟
…………
(جاری ہے۔باقی آئندہ)