حضرت چو ہد ری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ (قسط نمبر 2)
وقت کی پابندی
وقت کی پابندی بھی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں وصف تھا۔ آپ زندگی کے معمولات میں ہمیشہ اس بات کا بہت خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرماتے بلکہ عملی طور پر اس کی تربیت بھی دیتے تھے۔ آپ نے ایک بار لندن میں تعلیم القرآن کلاس جاری کی جس میں نوجوان طلبہ شامل ہوا کرتے تھے۔ کلاس کا ایک وقت مقرر تھا اور پہلے روز ہی آپ نے سب کو واضح طور پر ہدایت کر دی کہ وقت کی پابندی کی جائے۔ چنانچہ آپ کا طریق یہ تھا کہ وقت سے چند منٹ پہلے تشریف لاتے، وقت ہوجانے پر کمرے کا دروازہ بند کروا دیتے اور دیر سے آنے والوں کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی۔ اس ڈسپلن کی وجہ سے سب طلبہ ایک دو روز میں ہی وقت کے پابند ہوگئے۔
حضرت چوہدری صاحب ؓجب جنرل اسمبلی کے صدر مقرر ہوئے تو وہاں بھی آپ نے اجلاس ٹھیک وقت پر شروع کرنے کی روایت قائم کی۔ اس طرح آپ نے اسمبلی کے ممبران کو جو بالعموم تاخیر سے آیا کرتے تھے، پابندیٔ وقت کا عملی سبق سکھایا۔ وقت کی پابندی کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ ایک دوست نے سنایا کہ ایک بار کراچی میں غالباً طلباء یا خدّام نے اپنے ایک اجلاس میں آپ سے درخواست کی کہ ‘‘اچھے مقرر کے اوصاف‘‘ کے عنوان پر تقریر کریں۔ آپ نے بہت سے اوصاف کا ذکر کیا اور تفاصیل بیان کیں۔ آخری بات یہ بیان فرمائی کہ اچھے مقرر کی خوبی یہ ہے کہ اسے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو کہ اس کی تقریر کا وقت کب ختم ہوتا ہے۔ آپ نے یہ فرمایا اور کرسی پر بیٹھ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی تقریر کے لئے مقررہ وقت پورا ہو گیا تھا!
لندن قیام کے دوران میں نے آپ کا یہ معمول دیکھا کہ آپ نمازیں مسجد میں آکر ادا فرماتے۔ ہم نے باہمی طور پریہ طے کر لیا تھاکہ میں نماز کے لئے مسجد جاتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب ؓکے فلیٹ کی گھنٹی بجا دیا کروں تاکہ آپ کو مصروفیات کے دوران یاددہانی ہوجائے۔ آپ وضو کر کے سنتوں یا نوافل کی ادائیگی کے بعد بالعموم ٹھیک وقت پر مسجد تشریف لے آتے بلکہ نماز سے چند منٹ پہلے آکر مسجد فضل میں پہلی صف میں دائیں کونے میں کرسی پربیٹھ جاتے اور نماز شروع ہونے تک ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ اگر دوست کم ہوتے تو نماز شروع ہونے کے وقت آپ اپنی کرسی خود اُٹھا کر صف کے کنارے پر رکھ لیتے اور نماز میں شامل ہوجاتے۔
بعض اوقات حضرت چوہدری صاحب ؓکے آنے میں کچھ تاخیر بھی ہو جاتی۔ اس صورت میں ہم سب آپ کے آنے کا انتظار کرتے اور آپ کے آنے پر نماز پڑھی جاتی۔ ایک روز ایک بے تکلف دوست نے چوہدری صاحبؓ سے یہ سوال کر دیا کہ چوہدری صاحب! آپ تو وقت کے بہت پابند ہیں اور پابندئ وقت میں آپ کی مثال بیان کی جاتی ہے لیکن یہ کیا بات ہے کہ بعض اوقات آپ نماز کے لئے دیر سے آتے ہیں؟ حضرت چوہدری صاحب اس سوال سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا : بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو معاف کر دیتا ہے لیکن دنیا کے لوگ معاف نہیں کرتے!
کفایت اور بچت کی خوبی
اب میں حضرت چوہدری صاحبؓ کی زندگی کا ایک اور نادر پہلو بیان کرنے لگا ہوں جس کو خود میں نے بارہا دیکھا اور آپ کے اکثر دوست احباب بھی اس کے چشم دید گواہ ہوں گے۔ اس کا تعلق کفایت اور بچت کی خوبی سے ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب نہانے کے صابن کی ٹکیہ چھوٹی رہ جاتی ہے جس کو پنجابی زبان میں چپّر کہتے ہیں تو قریباً سب لوگ ہی اس کو بیکار سمجھتے ہوئے پھینک دیتے ہیں لیکن چوہدری صاحبؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ اس چپّر کو اور صابن کی نئی ٹکیہ کو پانی لگا کر دونوں ہاتھوں سے دبا کر جوڑ لیتے اور پھر اس صابن کو استعمال کرتے۔ اگر کوئی اس بات پر کچھ تعجب یا حیرت کا اظہار کرتا تو آپ یہ سیدھی سادھی دلیل دیتے کہ جس چپّر سے کل تک تم نہاتے ہو ئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے تو آج کیوں اسے استعمال کرتے ہوئے تمہیں شرم آتی ہے۔ میں نے خود کئی بار آپ کو (بعض صورتوں میں) دو رنگ کے صابنوں کو بھی جوڑتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس تناظر میں ہونے والا ایک واقعہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ ایک روز حضرت چوہدری صاحبؓ نماز ظہر کے لئے مسجد فضل تشریف لائے تو آپ نے بالکل نئے سلیپر پہنے ہوئے تھے جو آپ کے پاؤں میں بہت اچھے لگ رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہو کرجاتے ہوئے جب آپ نے وہ سلیپر پہنے تو ایک بہت بے تکلّف دوست نے ان سلیپروں کو بہت حیرت سے دیکھا اور ایک خاص انداز میں کہنے لگے :
’’چوہدری صاحبؓ! یہ تو نئے سلیپرہیں!‘‘ چوہدری صاحبؓ ان کے اس تبصرہ کو خوب سمجھ گئے اور مسکراتے ہوئے فرمایا:
’’نئے صابن سے پُر انا صابن تو جوڑا جاسکتا ہے لیکن نئے سلیپر کے ساتھ پُرانا سلیپر نہیں جُڑ سکتا!‘‘
سادہ طرزِ زندگی
ایک دفعہ حضرت چوہدری صاحبؓ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں دوپہر کے کھانے کے لئے کسی قریبی سادہ سے ریسٹورنٹ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے آپ کی خواہش کے مطابق مناسب جگہ تلاش کر لی جو مسجد سے قریب ہی گیرٹ لین (Garrat Lane) پر تھی۔ ایک روز نماز کے بعد ہم دونوں پیدل روانہ ہوئے اور چند منٹوں میں منزل پر پہنچ گئے۔ یہ چھوٹا سا ریسٹورنٹ بہت صاف ستھرا تھا۔ چوہدری صاحبؓ کو پسند آیا۔ آپ تشریف فرما ہوئے تو میں نے کاؤنٹر پر جا کر ریسٹورنٹ کے مالک کو حضرت چوہدری صاحبؓ کا تعارف بھی کروادیا اور کھانے کا آرڈر بھی دے دیا۔ فرائی کی ہوئی مچھلی چوہدری صاحبؓ کو بہت مرغوب تھی۔ مالک نے بڑے اہتمام سے مچھلی فرائی کی اور لوازمات کے ساتھ بہت ادب سے پیش کی۔ چوہدری صاحب کو کھانا بہت پسند آیا اور آپ نے شوق سے تناول فرمایا۔ واپس آنے لگے تو ریسٹورنٹ کے مالک نے آپ کا شکریہ بھی ادا کیا اور پُر تپاک انداز میں الوداع کہا۔ چوہدری صاحبؓ کو یہ سارا انتظام بہت پسند آیا جو آپ کی سادگی اور بے تکلّفی کا شاندار نمونہ تھا۔ واپس بھی ہم دونوں پیدل آئے۔ راستہ میں حضرت چوہدری صاحبؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھانا بہت مزیدار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موقعہ دیا تو پھر بھی کبھی یہاں آئیں گے۔ لیکن پھر ایسا موقعہ نہ بن سکا۔
حضرت چوہدری صاحبؓ کو اردو بولتے وقت جگہ جگہ انگریزی الفاظ ملانے کی عادت نہ تھی۔ آپ حتی الامکان خوداس کا اہتمام فرماتے اور دوسروں کو اس کی تلقین فرماتے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک نوجوان نے آپ سے بات کرتے ہوئے یہی طریق اختیار کیا۔ جب اس نے اردو انگریزی کو ملا جلا کر بات کی تو چوہدری صاحبؓ نے اسے بڑے خوبصورت انداز میں سمجھایا۔ فرمایا :دیکھو! مجھے اردو بھی آتی ہے اور انگریزی بھی۔ تم جس زبان میں بات کرنا چاہتے ہو بڑے شوق سے کرو لیکن دونوں زبانوں کو خلط ملط نہ کرو۔ میں نے دیکھا کہ سننے والوں پر وقتی طور آپ کی نصیحت کا اثر تو ضرور ہوتا لیکن جلد ہی ان کی پختہ عادت ان پر غالب آجاتی۔ مگر چوہدری صاحب اصلاح کے اس جہاد کا عَلَم ہمیشہ بلند رکھتے۔
ایک یادگار دعوت
ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے جن کی رہائش لندن سے باہر ایک مضافاتی بستی میں تھی، حضرت چوہدری صاحبؓ کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔ چوہدری صاحبؓ عام طور پر رات گئے تک دعوتوں کے سلسلہ کو پسند نہیں فرماتے تھے کیونکہ اس سے سونے اور جاگنے کے اوقات پر اثر پڑتا تھا۔ تاہم اس دوست کے پُر خلوص اصرار پر آپ رضامند ہو گئے۔ ان دنوں جماعت کی طرف سے یہ تحریک جاری تھی کہ گھر پر دعوتوں کے موقع پر ایک یا دو زیر تبلیغ دوستوں کو ضرور بُلا لیا جائے تاکہ دعوت الی اللہ کا فریضہ بھی ساتھ ساتھ ادا ہوتا رہے۔ اس روز بھی میزبان نے اپنے ایک انگریز نوجوان دوست کو بُلایا ہوا تھا۔ ان کو چوہدری صاحبؓ کے ساتھ بٹھایا گیا اور سارا وقت تعارف و اسلام احمدیت کے حوالہ سے ٹھوس بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ جب کھانے اور دعا کے بعد چلنے کا وقت آیا تو میزبان دوست نے خواہش کی کہ چوہدری صاحبؓ کے ساتھ سب کی ایک اجتماعی تصویر ہوجائے۔ چوہدری صاحبؓ تصویر کھنچوانے کے شوقین نہ تھے جب بھی کوئی آپ کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کرتا تو آپ اکثر یہی فرماتے تھے کہ میں کھڑا ہوں یا بیٹھا ہوا ہوں۔ تم نے فوٹو کھینچنی ہے تو کھینچ لو۔ میں تکلّفات کا قائل نہیں ہوں۔
اس روز صورت یہ تھی کہ وقت کافی ہوچکا تھا اور ابھی لندن واپسی کا سفر بھی تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ جلد از جلد روانگی ہو۔ صاحبِ خانہ کے اصرار پر تصویر کے لئے راضی تو ہو گئے لیکن بہت جلدی میں تھے۔ سب دوست چوہدری صاحبؓ کے گرد جمع ہوگئے۔ سب نے ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں سوائے اس انگریز مہمان کے۔ فوٹو کے بعد اُس مہمان کو احساس ہوا کہ صرف میں ہی ننگے سر ہوں۔ مجھے بھی ٹوپی کے ساتھ تصویر بنوانی چاہیے۔ اس نے اِس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت چوہدری صاحبؓ اکرامِ ضیف کی وجہ سے انکار نہ کر سکے۔ اب اس مہمان کے لئے مناسب ٹوپی کی تلاش شروع ہوئی۔ ٹوپی سر پر رکھی۔ یہ اس بیچارے کے لئے پہلا تجربہ تھا۔ پہلے تو آئینہ کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھا اور پھر صاحبِ خانہ سے پوچھنے لگے کہ کیا یہ اچھی لگتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ سارا وقت چوہدری صاحب ؓکو بہت ہی طویل لگ رہا تھا۔ بالآخر جب وہ انگریز نوجوان ٹوپی ٹھیک ٹھاک کرنے کے بعد چوہدری صاحب ؓکے ساتھ کھڑا ہوا تو چوہدری صاحبؓ نے اس نوجوان کو ایک ہی جامع فقرہ میں ساری بات سمجھا دی۔ آپ نے بڑے مشفقانہ انداز میں فرمایا:
LOOK YOUNG MAN! DON’T WORRY ABOUT YOUR CAP. WHAT IS UNDER THE CAP THAT MATTERS!
اس برجستہ نصیحت سے سب بہت لطف اندوز ہوئے اور مہمان دوست نے بھی اس کو بڑے اچھے رنگ میں لیا۔
اندازِ خطابت
حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایک پُر تاثیر زبان عطا کی تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں آپ نے پُر زور خطابات فرمائے اور اپنی خداداد ذہانت و فراست اور قوت استدلال کا لوہا منوایا۔ انگریزی زبان پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا۔ بات کرنے کا انداز بہت مؤثر ہوتا اور سننے والوں کے دل پر نیک اثر ہوتا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت چوہدری صاحبؓ کو یہ ارشاد بھی فرمایا ہوا تھا کہ وہ ہالینڈ میں قیام کے دوران ہر ماہ ایک بار لندن آکر جماعت کی تربیت کے لئے کچھ وقت دیا کریں۔ چنانچہ آپ تشریف لاتے، تربیتی اور تعلیمی کلاس بھی ہوتی اور ایک خطبہ جمعہ بھی۔ یہ خطبہ بالعموم انگریزی زبان میں ہوتا۔ احباب اور بالخصوص نوجوان خدّام اس سے بھر پُور استفادہ کرتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار آپ خطبہ جمعہ کے لئے کھڑے ہوئے تو ابتداء میں فرمایا کہ میں عام طور پر تو خطبہ جمعہ انگریزی میں بیان کرتا ہوں لیکن آج میں خطبہ اردو میں دوں گا۔ وجہ یہ بتائی کہ جو خاص بات میں احباب جماعت کے ذہن نشین کروانا چاہتا ہوں وہ بات میں انگریزی میں بیان نہ کر سکوں گا۔ یہ آپ کی عاجزی اور انکساری کی ایک مثال ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انگریزی زبان میں یدِطولیٰ عطا فرمایا تھا۔ غالباً ایک وجہ یہ بھی ہو گی کہ انگریزی میں الفاظ کا ذخیرہ اتنا وسیع نہیں جتنا عربی یا اردو میں ہے۔ حضرت چوہدری صاحب ؓکئی بار ہلکے پھلکے انداز میں یہ بھی فرمایا کرتے تھےکہ انگریزی روحانیت کی زبان نہیں اور بہت سے ایسے روحانی معارف اور دقیق مضامین ہیں جن کے بیان کے لئے انگریزی میں مناسب اور صحیح الفاظ نہیں ملتے۔
حضرت چوہدری صاحبؓ کی مجالس بہت مفید اور پُر لُطف ہوتی تھیں۔ علمی نکات، معرفت کی باتیں اور موقع کی مناسبت سے ہلکے پھلکے لطائف اور واقعات بھی بیان فرماتے اور بڑے پُر لُطف انداز میں۔ ایک بار چوہدری صاحبؓ نے بتایا کہ انہیں مشرقی افریقہ کے سفر میں نیروبی جانے کا اتفاق ہوا۔ آپ کو دعوت ملی کہ وہاں کی پنجابی ادبی انجمن کے اجلاس میں شامل ہوں اور تقریر بھی کریں۔ چوہدری صاحبؓ نے بیان فرمایاکہ اس دعوت پر جاتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ یہ لوگ ہیں تو پنجابی لیکن انگریزی کی چھاپ سے آزاد نہ ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس پنجابی ادبی انجمن کے اجلاس میں ہر مقرر نے انگریزی میں تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ جب آخر میں میری باری آئی اور میں نے تقریر کا آغاز پنجابی زبان میں کیا تو حاضرین کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ چوہدری صاحبؓ نے ٹھیٹھ پنجابی زبان میں اپنا پُرلُطف خطاب مکمل کیا تو ایک سکھ دوست نے بر ملا کہا کہ ’’اج تے سواد آگیا!‘‘
بیان کردہ ایک لطیفہ
حضرت چوہدری صاحبؓ کا بیان کردہ ایک دلچسپ واقعہ ذہن میں آیا ہے وہ بھی بیان کر دیتا ہوں۔ چوہدری صاحبؓ ایک موقعہ پرجب تاشقند تشریف لے گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے آپ کو دعوت پر مدعو کیا۔ مدعوین میں مفتی تاشقند بھی تھے جو بہت عظیم الجثہ تھے۔ کھانا شروع ہوا تو بعض شرکاء نے محسوس کیا کہ مفتی صاحب موصوف تو میدانِ ضیافت کے بڑے تیز رفتار شاہسوار ہیں۔ اس تیزی کو دیکھ کر حاضرین ضیافت میں سے کسی نے طنزاً مفتی صاحب سے مسئلہ کے رنگ میں دریافت کیا کہ جناب مفتی صاحب! یہ ارشاد فرمائیں کہ جب یہ کہنا ہو کہ فلاں شخص پوری طرح سیر ہو گیا ہے تو یہ کون سا موقع ہوتا ہے؟ یا کیسے اس بات کا پتہ لگ سکتا ہے کہ کوئی شخص واقعی اب سیر ہو گیا ہے؟ مفتی صاحب بڑے تجربہ کار اور جہاں دیدہ انسان تھے۔ طنزیہ سوال کا اشارہ خوب سمجھ گئے اور بڑے اعتماد سے جواب دیا کہ اس بارہ میں لوگوں کے اپنے اپنے تجربات ہو سکتے ہیں۔ میں تو اپنے طویل تجربہ کی روشنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی شخص کے بارہ میں سیر ہونے کا لفظ صرف اس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب یا تو اس کے سامنے کا کھانا پوری طرح ختم ہوجائے یا وہ خود ختم ہو جائے! چوہدری صاحب یہ واقعہ کچھ اس دلچسپ انداز میں بیان فرماتے کہ ہر بار سننے کا ایک نیا لُطف آتا تھا۔
باقاعدگی
حضرت چوہدری صاحبؓ کی زندگی کا ایک عنوان باقاعدگی تھا۔ ہر کام بہت سلیقہ سے اور خوبصورت انداز میں کرتے۔ آپ کا دستخط کرنے کا انداز بھی بہت منفرد تھا۔ بہت آہستگی اور عمدگی سے دستخط کرتے جس کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا کہ اس شخص کی ساری زندگی بھی اسی خوبی اور عمدگی سے بسر ہو رہی ہے۔ ہالینڈ سے جب اختتام ہفتہ پر آپ لندن آتے تو آپ کا معمول یہ تھا کہ عالمی عدالتِ انصاف میں اپنے دفتر سے چلتے ہوئے ایک بہت مختصر سا فون کرتے اور سلام کے بعد فرماتے :راشد صاحب! میں روانہ ہونے لگا ہوں آپ بھی روانہ ہو جائیں۔ یہ فون سن کر میں بالعموم اسی وقت یا چند منٹ بعد مطار کے لئے روانہ ہوجاتا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی آپ اپنا مختصر ترین بریف کیس اٹھائے باہر تشریف لے آتے اور بعض اوقات تو یوں ہوتا کہ میرے مطار پر پہنچنے سے پہلے ہی چوہدری صاحب ؓتشریف لاکر انتظار فرما رہے ہوتے۔ مطار سے آتے یا جاتے وقت چوہدری صاحب کا دل پسند راستہ رچمنڈ پارک (Richmond Park) ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک قدرتی طرز کا خوبصورت اور پُر فضا پارک ہے جو مسجد فضل سے زیادہ دور بھی نہیں اور مطار کے راستہ میں واقعہ ہے۔ چوہدری صاحبؓ کو اس رچمنڈ پارک سے گزرنا بہت مرغوب تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس پارک کی تازہ ہوا اور پارک میں آزادانہ گھومنے پھرنے والے ہزاروں ہرنوں اور بارہ سنگوں کا نظارہ بہت اچھا لگتا ہے۔ سیر بھی ہوجاتی ہے اور سفر بھی طے ہو جاتا ہے۔
بے تکلف اندازِ گفتگو
حضرت چوہدری صاحبؓ کے ساتھ بے تکلف گفتگو کی مجالس بھی کیا عجب مجالس تھیں۔ بہت شفقت سے محبت بھری گفتگو فرماتے۔ آپ کی باتوں میں دینی اور روحانی امور کا تذکرہ بھی ہوتا، پُر مغز علمی گفتگو بھی ہوتی۔ اپنے ذاتی واقعات بھی بیان فرماتے جو بہت نصیحت آموز اور معلوماتی ہوتے۔ لطائف بھی سناتے۔ واقعات بیان کرتے ہوئے ان کی معین تفصیلات حیرت انگیز وضاحت سے بیان فرماتے۔ تاریخ، دن، مقام، جہاز اور موسم تک کا ذکر ہوتا۔ آج بھی سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ آپ یہ سب تفاصیل کس طرح یاد رکھتے تھے۔ کئی واقعات مختلف مجالس میں بیان فرماتے تو ان میں کبھی اعادہ بھی ہو جاتا لیکن تفاصیل میں تضاد نہ ہوتا۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ کسی کے سوال پوچھنے پر ناراض نہ ہوا کرتے تھے بلکہ موقع کے مطابق اس کا مختصر یا مفصل جواب بہت خوش دلی سے دیتے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک روز جبکہ ہم دونوں ہی کھانے کی میز پر بیٹھے تھے تو اچانک میرے ذہن میں ایک عجیب سوال آیا اور میں نے فوراً ہی پوچھ لیا۔ میں نے عرض کیا کہ چوہدری صاحبؓ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ بہت علوم عطا کئے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو کیا نہیں آتا! میرا یہ سوال سن کر حضرت چوہدری صاحبؓ مسکرائے اور فرمایا کہ آپ نے خوب سوال سوچا ہے۔ ایسا سوال اس سے پہلے کسی نےمجھ سے نہیں پوچھا۔
ذرا سا توقف کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ کی یہ بات بالکل سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس عاجز ناچیز کو بہت نوازا ہے اور میرے وجود کا ذرہ ذرہ ہمیشہ اس کے حضور شکر گزاری میں جھکا رہتا ہے۔ لیکن چند باتیں ایسی بھی ہیں جو مجھے نہیں آتیں۔ ان میں سے ایک تو ڈرائیونگ ہے اور دوسری ٹائیپنگ ہے۔ ان دو باتوں کا آپ نے جلدی سے ذکر فرمایا اور ساتھ ہی فوراً یہ بھی فرمایا کہ میرے مولا کا مجھ پر یہ احسان ہے کہ ان دونوں باتوں کے نہ جاننے کے باوجود مجھے ساری زندگی کبھی کوئی دقّت یا کام میں روک پیدا نہیں ہوئی۔ پھر بڑی تفصیل سے بیان فرمایا کہ میری زندگی سفروں میں گزری اور گزر رہی ہے۔ جب بھی، جہاں بھی، مجھے کسی جگہ جانے کی ضرورت پڑی تو میرے مولا نے اپنے اس بندہ کو نہ صرف کار مہیا فرمادی بلکہ اس کے ساتھ ڈرائیور بھی۔ مجھے ڈرائیونگ نہ جاننے کی وجہ سے کبھی بھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ پھر فرمایا کہ اسی طرح مجھے ساری زندگی لکھنے لکھانے کا کام رہا اور یہ میری زندگی کی اہم ترین مصروفیت رہی ہے۔ میرے مولا نے مجھ پر یہ فضل کیا اور اس کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کہ جب بھی میں نے کوئی خط یا مضمون ٹائپ کروانا ہوتا تو نہ صرف مجھے کوئی نہ کوئی ٹائپسٹ مل جاتا بلکہ اکثر صورتوں میں تو پوری دفتری سہولیات میسر آجاتیں اور میری ہر ضرورت اللہ کے فضل سے بغیر کسی دقّت کے پُوری ہوتی رہی اور آج بھی میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ محبت بھرا سلوک جاری ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ سب کچھ بیان کرتے وقت آپ کی آواز بار بار بھرّا جاتی اورآپ جذباتِ شکر سے مغلوب ہوکر آبدیدہ ہو جاتے!
سیرت کے مخفی گوشے
اب میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی سیرت کا ایک ایسا پہلو بیان کرنا چاہتا ہوں جس سے شاید بہت ہی کم لوگ واقف ہوں۔ میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان باتوں کا چشم دید گواہ ہوں۔ یہ واقعات زیادہ تر 1971ء اور 1972ء کے ہیں۔ حضرت چوہدری صاحبؓ کا قیام ایک مختصر سے فلیٹ میں ہوتا تھا جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ میرا قیام اسی منزل پر ساتھ والے دوسرے فلیٹ میں تھا (میری فیملی پاکستان میں تھی)۔ پروگرام کچھ اس طرح طے کیا ہوا تھا کہ چوہدری صاحب ایک معین وقت پر درمیانی دروازہ سے تشریف لائیں گے اور پھر ہم ایک ہی میز پر اکٹھے ناشتہ بھی کریں گے۔ میں مقررہ وقت سے ذرا پہلے درمیانی دروازے کو کھول دیتا اور چوہدری صاحبؓ رات کے گاؤن میں ملبوس عین وقت پر تشریف لے آتے۔ میں نے بھی گاؤن پہنا ہوتا۔ ہم دونوں کچن میں جا کر ناشتہ کی تیاری میں مصروف ہو جاتے۔
یہاں یہ ذکر کر دوں کہ پہلے روز ہی میں نے نہایت ادب سے اور پُر زور اصرار سے یہ درخوا ست کی کہ ناشتہ کی تیاری کی خدمت میرے سپرد رہنے دیں۔ یہ بات میرے لئے بہت باعث برکت و سعادت ہوگی۔ آپ تشریف رکھیں اور میں ناشتہ تیار کرکے آپ کے سامنے لے آؤں گا لیکن حضرت چوہدری صاحبؓ نے بڑی قطعیت سے فرمایا کہ نہیں ایسے نہیں بلکہ میں بھی ناشتہ کی تیاری میں پوری طرح شامل ہوں گا۔ میرے لئے اس ارشاد کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت چوہدری صاحبؓ میرے ساتھ ناشتہ کی تیاری میں بھر پُور شامل ہوتے پھر کپ، پرچیں، اور پلیٹیں وغیرہ اٹھا کر ساتھ والے کمرے میں لے جاتے۔ وہاں ہم دونوں مل کر ناشتہ کرتے۔ بعد میں میرے اصرار کے باوجود آپ برتن دھونے میں بھی میرے ساتھ شریک ہوتے۔ یہ لمحات میرے لئے بہت مشکل ضرور ہوتے لیکن الامر فوق الادب کے مطابق کچھ اور ممکن نہ تھا۔
قصہ ایک مالٹے کا
ایک روز بہت دلچسپ واقعہ ہوا۔ میں بازار گیا تو ایک دوکان پر کافی بڑے سائز کے خوشنما مالٹے نظر آئے۔ میں نے خرید لئے اور ناشتہ کی میز پر رکھ دئے۔ اگلے روز حسب معمول حضرت چوہدری صاحبؓ تشریف لائے تو ناشتہ شروع کرنے سے پہلے آپ نے ایک مالٹا اپنے ہاتھ میں لیا اور مجھ سے دریافت فرمایا : راشد صاحب! کیا آپ آدھا مالٹا کھائیں گے؟ میں نے نا سمجھی اور ایک گونا بےتکلفی سے کہہ دیا کہ نہیں۔ اس پر چوہدری صاحب ؓ نے یہ کہتے ہوئے مالٹا واپس رکھ دیا کہ پھر میں بھی نہیں کھاتا کیونکہ اس طرح باقی آدھا مالٹا ضائع ہوجائے گا۔ وجہ دراصل یہ تھی کہ چوہدری صاحبؓ کو شوگر کے مرض کی وجہ سے ڈاکٹری ہدایت یہ تھی کہ ایک چھوٹا مالٹا صبح کے وقت کھا سکتے ہیں یا مالٹا بڑا ہو تو اس کا نصف کھا لیا کریں۔ مجھے اس ہدایت کا علم نہ تھا۔ بہرحال اس روز تو لا علمی میں یہ غلطی ہو گئی۔ اگلے روز ناشتہ پر چوہدری صاحبؓ نے پھر ایک مالٹا اٹھا کر بالکل وہی بات دہرائی تو میں نے فوراً کہا کہ جی ضرور کھاؤں گا۔ فرمایا کہ اچھا پھر اس مالٹے کو کاٹ لیتے ہیں آدھا خود لیا اور آدھا مجھے دے دیا۔ مجھے آپ کے ہاتھ سے آدھا مالٹا بھی مل گیا اور ایک مستقل سبق بھی!
ڈاکٹری ہدایات کی پابندی
جس دَور میں مَیں نے حضرت چوہدری صاحب ؓکو دیکھا آپ کی غذا بہت تھوڑی اور منتخب ہوا کرتی تھی۔ آپ کو شوگر کا عارضہ تھا جو کم و بیش چالیس سال تک لاحق رہا لیکن آپ علا ج کے سلسلہ میں ڈاکٹری ہدایات کی بہت سختی سے پابندی کرنے والے تھے۔ پُوری پُوری احتیاط فرماتے اور کسی کے زور دینے پر بھی ہدایت کے بر خلاف کو ئی چیز استعمال نہ کرتے تھے۔ یہی آپ کی صحت کا راز تھا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو لمبی اور فعال زندگی سے نوازا۔ آپ کے ڈسپلن اور ڈاکٹری ہدایات کی سختی سے پابندی کو دیکھتے ہوئے آپ کے بعض بے تکلف ساتھی یہ تبصرہ بھی کرجاتے کہ چوہدری صاحبؓ کو شوگر نہیں ہوئی بلکہ چوہدری صاحبؓ شوگر کو ہوگئے ہیں! یہ تبصرہ بعض اوقات آپ کے کانوں میں بھی پڑ جاتا۔ یہ سن کر آپ کے چہرہ پر ایک ہلکی اور باوقار مسکراہٹ پھیل جاتی لیکن آپ کے طریق عمل میں کوئی فرق نہ آتا۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ کی نصیحت
آپ کو گرم دودھ میں cocoaپاؤڈر ڈال کر پینا بہت مر غوب تھا۔ اس کی وجہ آپ یہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ جب میں پہلی بار یورپ کے لئے روانہ ہونے والا تھا تو میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی خدمتِ اقدس میں ملاقات، دعا اور عمومی راہنمائی کے لئے حاضر ہوا۔ اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح اوّل ؓ نے آپ کو جو نصائح فرمائیں ان میں سے ایک کوکو کے استعمال کے بارہ میں تھی۔ آپ ؓنے فرمایا کہ تم انگلستان جارہے ہو جو ایک سرد ملک ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہاں کی سردی سے محفوظ رہنے کے لئے شراب پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہم طبیب ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ فرمایا کہ اگر تمہیں سردی کا دفاع کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو کوکو استعمال کرنا۔ اس میں غذائیت بھی ہے اور سردی کے بد اثرات سے بھی بچاتی ہے۔ یہ نصیحت ہمیشہ آپ نے یاد رکھی اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔
ناشتہ خود بنایا
ایک روز آپ ناشتہ کے لئے تشریف لائے تو فرمایا آج میں چاہتا ہوں کہ سارے کا سارا ناشتہ خود تیار کروں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی یہ خواہش ہے تو ضرور بنائیں۔ چنانچہ چوہدری صاحبؓ نے دودھ گرم کرنے والے برتن میں دودھ ڈالا۔ پھر ایک ڈبل روٹی لے کر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے اور دودھ میں ڈال دئیے۔ پھر اس میں دو انڈے توڑ کر ڈالے اور آخر میں حسب پسند شہد ڈالا اور ان سب چیزوں کو اچھی طرح پکا لیا۔ آج بھی یہ بات لکھتے ہوئے یہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ چوہدری صاحبؓ نے ہاتھ میں ایک چمچہ پکڑا ہوا ہے اور اس کو آہستہ آہستہ برتن میں ہلا رہے ہیں کہ کہیں کھانا نیچے نہ لگ جائے۔ چند منٹوں میں حلوہ کی طرح کا کھانا تیار ہوگیا اور پھر ہم دونوں نے مل کر ایک ہی برتن سے کھایا۔ واقعی کھانا بہت مزیدار تھا۔
ایک برتن سے ناشتہ
ایک روز بڑا ہی دلچسپ واقعہ ہوا۔ حضرت چوہدری صاحبؓ اور میں کچن میں ناشتہ تیار کر رہے تھے۔ جب میں نے انڈے فرائی کر لئے اور ان کو ایک پلیٹ میں ڈالنے لگا تو چوہدری صاحبؓ جو میرے بائیں طرف ساتھ ہی کھڑے یہ سب دیکھ رہے تھے آپ نے میرا بازو کہنی کے اُوپر سے پکڑا اور فرمایا :راشد صاحب! کیا کرنے لگے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ انڈے فرائی ہو گئے ہیں ان کو پلیٹ میں ڈالنے لگا ہوں تاکہ دوسرے کمرے میں جا کر ہم ان سے ناشتہ کریں۔ آپ نے فرمایا: لیکن اس پلیٹ کو دھونا کس نے ہے؟ میں نے عرض کی کہ خود ہی دھونا ہے اس پرآپ نے فرمایا :پلیٹ کو جو دھونا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہم فرائینگ پین (Frying Pan) میں سےہی انڈا کھا لیں! میں نے عرض کیا کہ جیسے آپ پسند فرمائیں۔ چنانچہ میں وہ فرائینگ پین اسی طرح اُٹھا کر ڈائیننگ روم (Dining Room) میں لے آیا اوریوں یہ سعادت ایک بار پھر میرے حصہ میں آئی کہ میں نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی کے ساتھ ایک ہی برتن سے ناشتہ کیا۔
بھر پور زندگی
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت چوہدری صاحبؓ نے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ نہایت کامیاب، بھر پُور اور مصروف زندگی گزاری۔ دنیاوی اور سیاسی مصروفیات میں بھی دینی پہلو کو ہمیشہ مقدم رکھتے۔ نمازوں کی بر وقت ادائیگی کا غیر معمولی تعہد سے اہتمام فرماتے۔ وقت سے بھر پُور فائدہ اُٹھاتے۔ ذکر الٰہی سے اپنے اوقات کو سجاتے۔ آپ نے زندگی بھر قلمی اور لسانی جہاد کیا۔ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جو بہت مقبول ہوا۔ متعدد کتب تصنیف کیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ اور اپنی والدہ ماجدہ مرحومہ کے بارہ میں نہایت ایمان افروز کتب لکھیں۔ اپنے سوانح حیات بھی انتہائی عاجزی اور خاکساری کے انداز میں نہایت تفصیل سے لکھے۔ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی تحریرات کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں تو آپ نے دنیاوی مناصب سے معذرت کرتے ہوئے اپنے آپ کو کلیتاً دینی خدمات کے لئے وقف کردیا تھا اور یہ سلسلہ زندگی کے آخر تک جاری رہا۔ آپ کی یہ خدمات ایک مستقل صدقہ جاریہ کا حکم رکھتی ہیں۔ جن دنوں آپ تالیف و تصنیف اور ترجمہ کے کاموں میں مصروف تھے اور آپ کا بیشتر وقت اسی کام میں صرف ہوتا تھا۔ آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں دن بھر کام میں مصروف رہتا۔ رات کو بھی دیر تک اس کا سلسلہ جاری رہتا اور بالآخر جب تھک کر سونے کا ارادہ کرتا ہوں تو میں اپنا قلم رکھ دیتا ہوں اور اپنے آپ سے یوں مخاطب ہو تا ہوں: ’’ظفر اللہ خان! اب تُو بہت تھک گیا ہے۔ اب توکچھ آرام کر لے۔ آج تمہیں اللہ تعالیٰ نے جو ہمت دی اس کے مطابق تو نے کام کر لیا۔ اب سو جاؤ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے تمہیں مزیدمہلت دی تو باقی کام کل کر لینا۔ فرمایا کرتے تھے کہ یہ کہتے ہوئے میں بستر پر دراز ہوجاتا ہوں۔ کیا ہی صوفیانہ اور ایمان افروز انداز ہے سونے کا!
ایک فارسی مصرعہ آپ بہت کثرت سے اپنی گفتگو میں استعمال فرمایا کرتے تھے کہ ’’کارِ دنیا کسے تمام نکرد‘‘ کہ دنیا کے کام تو اتنے ہیں کہ کبھی بھی کسی نے سب کام مکمل نہیں کئے۔ یہ بات بالکل درست ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضرت چوہدری صاحبؓ نے وقت کو بھر پُور طور پر استعمال کرنے اور نفع رساں کاموں میں خرچ کرنے میں ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی ہے۔ آپ زندگی کے ہر دن کو اور وقت کے ہر لمحہ کو اللہ تعالیٰ کی نعمت یقین کرتے اور بہترین رنگ میں صرف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے۔ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے آپ اکثر اوقات ’’ مہلت‘‘ کا لفظ استعمال فرماتے جو اس عارفانہ بیان میں خوب سجتا تھا۔ سونے کے حوالہ سے ایک اور بات یاد آئی۔ حضرت چوہدری صاحبؓ کی گفتگو میں شکرِ نعمت کا مضمون بہت کثرت سے آتا تھا سونے کے حوالہ سے آپ بارہا ذکر فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو بے شمار احسانات فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ سر تکیہ پر رکھتے ہی مجھے نیند آجاتی ہے۔ اور اس طرح میرا کوئی وقت ضائع نہیں جاتا۔ کئی بار یہ بھی بیان فرمایا کہ جب میں کار میں سفر کر رہا ہوتا ہوں اور کار ٹریفک لائٹ پر ذرا سی دیر کے لئے رُکتی ہے تو بسا اوقات اتنی دیر میں بھی میری آنکھ لگ جاتی ہے اور کار چلنے پر بیدار ہو جاتا ہوں۔
سفر آخرت کا بیان
اب مضمون کے آخر میں مَیں حضرت چوہدری صاحبؓ سے اپنی دو آخری ملاقاتوں کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک آپ کی زندگی میں ہوئی اور ایک وفات کے بعد۔ جب میں 1983ء میں دوسری بار لندن آیا تو اس وقت آپ لندن میں ہی قیام پذیر تھے لیکن یہ پروگرام پُوری طرح طے کر چکے تھے کہ اب میں نے اپنی زندگی کے بقیہ دن پاکستان میں گزارنے ہیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں چلتے پھرتے پاکستان جانا چاہتا ہوں تابوت میں بند ہو کر نہیں۔ میرے لندن آنے کے چند روز بعد 19 نومبر 1983ء کو آپ کی پاکستان واپسی کا پروگرام بن چُکا تھا اور احباب سے الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا۔ محترم چوہدری صاحب بالعموم ہر کسی سے محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ الوداعی ملاقاتوں میں تو یہ کیفیت اور بھی نمایاں تھی۔ بڑی عمر کے احبابِ جماعت اور نوجوانوں کے علاوہ بچوں سے بھی بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔ لیکن عام طور پر بچوں کو گود میں بٹھانے کی صورت میں نے نہیں دیکھی۔ ہمارا بیٹا عزیزم عطاء المنعم راشد ان دنوں گیارہ ماہ کا تھا میں اسے اُٹھا کر چوہدری صاحبؓ سے ملوانے لے گیا کہ پھر نہ معلوم زندگی میں ایسا موقع دوبارہ مل سکے یا نہ۔ حضرت چوہدری صاحبؓ نے اسے اُٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لیا اوراس کی خوش قسمتی کہ وہ کچھ دیر آپ کی شفقت اور دعاؤں سے فیضیاب ہوتا رہا۔ اس نادر موقع کی ایک تصویر کسی دوست نے لے لی لیکن افسوس کہ اب معلوم نہیں کہ وہ کون دوست تھے اور یہ تصویر اب کہاں ہے۔
19 نومبر 1983ء کو آپ نے لندن کے مطار ہیتھرو (Heathrow) سے پی آئی اے کے ذریعہ لاہور کی پرواز پر سفر کیا۔ مطار کا لفظ میں نے اس مضمون میں کئی بار خاص طور پر اس وجہ سے بھی لکھا ہے کہ حضرت چوہدری صاحبؓ کا یہ ایک پسند یدہ لفظ تھا۔ ائیر پورٹ کی بجائے آپ ہمیشہ مطار کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔ آپ کو الوداع کہنے والوں میں یہ عاجز بھی شامل تھا۔ اس موقعہ پر آپ سے معانقہ کی سعادت ملی جو ایک الوداعی معانقہ بن گیا۔ خوش قسمتی سے اس موقع پر لی گئی تصویر اب بھی موجود ہے ۔
آپ کی وفات یکم ستمبر 1985ء کو لاہور میں ہوئی۔ جماعت احمدیہ برطانیہ نے، جو چوہدری صاحبؓ مرحوم و مغفور کی از حد ممنون احسان جماعت ہے، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے اس موقعہ پر تین افراد جماعت پر مشتمل ایک وفد جنازہ میں شمولیت کے لئے پاکستان بھیجا۔ یہ عاجز بھی اس وفد میں شامل تھا۔ آپ کا جسدِ خاکی محترم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب کے مکان میں تھا جہاں آپ کی وفات ہوئی تھی۔ تعزیت کے لئے آنے والے احبابِ جماعت و غیر از جماعت احباب کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ہم اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں آپ کا جسدِ خاکی رکھا ہوا تھا۔ سفید چادروں میں ملبوس یہ مردِ درویش ایک عجیب شان کے ساتھ آسودۂ خواب تھا۔ سینہ پر کلمہ طیبہ لا الہ الّا اللہ محمّد رسول اللہ کا بیج اس وقت بھی بڑی شان سے جگمگا رہا تھا جس کی عظمت کی خاطر آپ نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو زندگی بھر وقف کئے رکھا۔
اس نفسِ مطمئنہ کے پُر نور چہرے کے دیدار کے بعد ہم نے لاہور اور ربوہ میں دو بار آپ کی نماز جنازہ میں شمولیت کی تو فیق پائی۔ بعد ازاں جب حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی اجازت سے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے اندر قطعۂ خاص میں ہوئی تو اس موقع پر بھی اس عاجز کو تدفین میں حصّہ لینے کی سعادت نصیب ہوئی اور قبر تیار ہونے پرمٹی دی اور آخری دُعا میں بھی شریک ہوا۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ ایک نہایت بابرکت اور کامیاب زندگی گزار کر اس دُنیا سے رُخصت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے قربِ خاص میں مقام ِمحمود عطا فرمائے۔ آپ ؓخود تو رُخصت ہوگئے لیکن آپؓ کی یادیں آج بھی زندہ ہیں اور ان کا نیک تذکرہ ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
٭…٭…٭
السلام علیکم ورحمہ اللہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ذندگی کے دلچسپ واقعات پڑھ کر بہت اچھا لگا مزید واقعات بھی لکھتے رہیے گا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
جناب عطاالمجیب راشد صاحب نے جناب چودھری ظفر اللہ خان صاحب رضوی اللہ تعالیٰ عنہ کی مبارک اور کامیاب زندگی کے چند واقعات بہت دلنشین پیرائے میں بیان کیے ھیں ۔جو ھمارے دلوں میں اترتے چلے جاتے ھیں۔ چودھری صاحب رضوی اللہ تعالیٰ عنہ کی سادہ مگر دینی اور دنیوی طور پر کامیاب زندگی ھماری نوجوان نسلوں کے لئے مشعل راہ ھے۔ اللہ تعالیٰ محترم عطاالمجیب راشد صاحب کی اس پرخلوص کاوش کو قبول فرمائے آمین ۔ ان سے درخواست ھے کہ اس سلسلہ کو جاری رکھیں اور اگر وقت ملے تو مزید اس طرح کی یادیں الفضل کے قارئین کے ساتھ شیئر کیجیے۔ جزاک اللہ۔