حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

بیان فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

18؍ جون 1913ء کو جب حضرت مصلح موعودؓ نے ہفت روزہ ‘‘الفضل’’ جاری کیا تو اس کی اغراض کے ضمن میں فرمایا کہ اس میں ایک صفحہ تاریخ اسلام کے لیے وقف رہے گا۔ اس سلسلہ میں آپؓ نے بانیٔ اسلام آنحضرت ﷺ کی سیرت کے بیان کو مقدّم جان کر صحیح بخاری کے حوالے سے آپؐ کی سیرت ہر ہفتے بیان کرنی شروع کی۔ لیکن 1914ء میں خلیفۃ المسیح منتخب ہونے کے بعد کچھ عرصہ یہ سلسلہ تعطل کا شکار رہا۔ 22؍ اکتوبر 1914ء سے آپؓ نے اس سلسلہ کو دوبارہ شروع کیا لیکن کچھ عرصہ جاری رہنے کے بعد خلافت کی دیگر بے پناہ ذمہ داریوں کے سبب آپ مزید نہ لکھ سکے۔ لیکن جو کچھ سیرت النبیؐ کے سلسلہ میں آپؓ نے تحریر فرمایا وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ ادارہ الفضل انٹرنیشنل گاہے بگاہے ان متبرک تحریرات سے کچھ حصے قارئین کے استفادہ کی غرض سے شائع کرنے کی توفیق پا رہا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک۔

بسم اللہ الر حمٰن الرحیم نحمدہٗ و نصلّی علیٰ رسولہٖ الکریم

تمہید

تا ریخ کے بڑے بڑے پہلوؤں میں سے ایک بہت بڑا پہلو تا ریخ بنانے والوں کا حال بھی ہو تا ہے کہ وہ کس قسم کے لوگ تھے۔اگر تاریخی واقعات ہمیں یہ علم دیتے ہیں کہ فلاں فلاں با توں کا انجام نیک یا بد نکلتا ہے۔تو تاریخ کے بنانے والوں کی سیرت ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ کس قسم کی سیرت کے لوگوں سے کیسے کیسے واقعات سرزَد ہو تے ہیں اس لیے تا ریخ اسلام کے باب میں سب سے پہلے میں نےیہی مناسب سمجھا ہے کہ تاریخ اسلام کے با نی کی سیرت بیان کروں کہ جس پر سب مسلمان جا ن و دل سے فدا ہیں اور جس کی نسبت خود اللہ تعالیٰ فر ماتاہے کہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب:22) پس تا ریخ اسلام کو پڑھ کر جو نتا ئج انسان نکال سکتا ہے اورجو جو فوائد اس سے حاصل کر سکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر اس پا ک انسان کی سیرت پر غور کر کے نفع اٹھا سکتا ہے۔

سیرت نبوی ﷺ کے لکھنے کے مختلف طریق ہیں۔اوّل تو یہ کہ عام تا ریخوں سے لکھی جا وے۔ دوسرے یہ کہ احادیث سے جمع کی جا وے۔ تیسرےیہ کہ قرآن شریف سے اقتباس کی جاوے۔ پہلاما ٔخذ تو بہت ادنیٰ ہے کیونکہ اس میں دوست دشمن کی را ئے کی تمیز کر نا ایک مشکل بلکہ محال کام ہے۔دوسرا ما ٔخذیعنی حدیث سے واقعات کا جمع کر نا زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ مؤرّخین کی طرح محّدثین ہر ایک سنی سنائی بات کو نہیں لکھ دیتے بلکہ روایت کو آنحضرت ﷺتک برابر چلا تے ہیں اور پھر روایت کر نے والوں کے چال چلن کو خوب پر کھ کر ان کی روایت نقل کر تے ہیں۔تیسرا طریق قرآن شریف سے آنحضرت ﷺ کی سیرت لکھنے کا ہے اور یہ سب سے اعلیٰ ، اکمل اور تمام نقصوں سے پاک ہے لیکن یہ کام بہت ذمہ دا ری کا ہے اس لیے سر دست میںنے پہلےاور تیسرے ماخذکی بجا ئے دوسرے ما ٔخذ کو اختیار کیا ہے۔اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو کسی وقت قرآن شریف سے بھی آنحضرت ﷺ کی سیرت لکھنے کا ارادہ ہے لیکن چو نکہ اختصار اور صرف اعلیٰ درجہ کی روایات کا درج کر نا ہی مقصود ہے اس لیے احادیث میں سے بھی میں نے صرف بخاری کو چنا ہے اور یہ مختصرسیرت صرف بخاری جیسی معتبر کتاب سے لی ہے اور اس کے سوا کسی اَور حدیث سے مدد نہیںلی۔

باوجود اس کےکہ صرف بخا ری کی احادیث سے جو اَصَحُّ الکُتُب ہے میں نےیہ سیرت اختیار کی ہے پھر بھی اختصارپراختصار سے کام لیا ہے اور اس کو صرف رسول کریمﷺ کی سیرت کا ایک باب سمجھنا چاہیے ورنہ اس بحربے کنار کو عبور کر نا تو کچھ آسان کام نہیں۔چونکہ پیاروں کی ہر ایک بات پیاری ہو تی ہے اور ان کی شکل و شباہت،چال ڈھال اور لباس وخورونوش کا طریق بھی دلکش اور محبت افزا ہو تا ہے اس لیے ابتدا میںمَیں انہی با توں کوبیان کروں گا۔سیرت کے سا تھ اگر صورت اور عادات بھی مل جاویں تو وہ آدمی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔

پہلا باب

آپ ﷺ کا حلیہ۔لباس۔عمر۔ اور بعض دیگر طریقِ عمل

رسول کریم ﷺ(فِدَاہُ نَفْسِیْ) مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔آپؐ کی پیدا ئش سے پہلے آپؐ کے والد عبد اللہ فوت ہو چکے تھے۔آپؐ کو آپؐ کی والدہ آمنہ اور دادا عبد المطلب نے پرورش کیا۔لیکن یہ دونوں بھی آپؐ کی صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے جس کے بعد آپؐ کے چچا ابو طالب آپؐ کے نگران رہے۔آپؐ نے تریسٹھ سال کی عمر پا ئی اور سا ری عمر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کر نے میں اور اس کے نام کو دنیا میں بلند کر نے میں خرچ کی۔دنیا میںنہ کو ئی ویسا پیدا ہؤا اور نہ ہو گا۔تمام انسانی کمالات آپؐ پر ختم ہو گئے۔تقویٰ کی سب را ہیں آپؐ نے طے کیں اور محبت الٰہی کے تمام دروازوں میں سے گزرے۔حتّٰی کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو خاتم الانبیاء کا خطاب دیا اور ہمیشہ کے لیے اپنے دربار کی رسا ئی کے لیے آپؐ کی اتباع کو شرط قرار دیا۔

آپﷺ کا حلیہ

آپؐ میانہ قامت تھے نہ بہت لمبے اور نہ پستہ قد۔آپؐ کا رنگ بہت خوبصورت تھا نہ تو بالکل سفید جیسے سرد ممالک کے لوگوں کا ہو تا ہے اور نہ گندم گوں۔آپؐ کے بال نہ تو گھونگرالے تھے اور نہ بالکل سیدھے بلکہ کسی قدر خم دار تھے۔آپؐ کے با لوں کا رنگ کسی قدر سرخی مائل تھااور بڑھا پے میںکچھ بال کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہو گئے تھے با قی بال کالے ہی رہے۔سر کے بال آپؐ لمبے رکھتے تھے جو کانوں کی لو تک آتے تھے۔آپؐ ہمیشہ بالوں میں کنگھی کر تے اور آخر عمر میں مانگ بھی نکالتے تھے۔سر میں تیل یا خوشبو لگا نا بھی آپؐ کی عادت میں داخل تھا۔آپؐ کا جسم بہت نازک اور ملائم تھا۔آپؐ کے جسم میں سے خوشبو آتی تھی۔آپؐ کا سینہ چوڑا تھا اور دونوں کندھوں کے درمیاں بہت فاصلہ تھا۔آپؐ کے ہا تھ پاؤں بہت موٹے تھے اور ہتھیلیاں بہت چوڑی تھیں۔آپؐ سوتی کپڑے کو اور خصو صاًدھاری دار کو زیادہ پسند فر ما تے تھےا ور اسی قسم کے کپڑے میں آپؐ دفن بھی کیے گئے تھے لیکن در حقیقت جس قسم کا کپڑا ہو تا آپؐ اسے استعمال کر لیتے۔اپنے آقا کی ہر ایک نعمت کا شکر کر تے۔

بات کر نے کا طریق

حضرت انس ؓفر ما تے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اکثر اوقات بات تین دفعہ دہراتے تا کہ لو گ اچھی طرح سمجھ جاویں اور سلام بھی تین دفعہ کر تے۔اسی طرح حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ بات ایسی آہستگی کے سا تھ کر تے کہ اگر کوئی چاہےتو آپؐ کے لفظ گن لے اور جس طرح دوسرے لو گ جلدی جلدی بات کر تے ہیں آپ ؐ ایسا نہ کر تے تھے۔

کھا نے پینے کے متعلق

آپؐ تما م طیّب اشیاء کھا تے تھے لیکن اس بات کا لحاظ رکھتے تھے کہ وہ صدقہ نہ ہوں۔حتّٰی کہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺفر ما یا کر تے تھے کہ میں بعض دفعہ گھر جا تا ہوں اور وہاں بستر پر کو ئی کھجور پڑی دیکھتا ہوں تو پہلےتو کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر اس خیال سے کہ کہیں صدقہ نہ ہو پھینک دیتا ہوں۔اس بات سے اس وقت کے مسلمانوں کو عبرت حاصل کر نی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ ان کا رسولﷺصدقہ سے کس قدر پر ہیز کر تا تھا۔اب تو بعض لوگ اچھا بھلا مال رکھتے ہو ئے بھی صدقہ کے لینے میں مضائقہ نہیں کر تے۔حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ کو ئی جب کو ئی چیز آپؐ کو دیتا آپؐ پو چھتے۔اگر ہدیہ ہوتی تو خود بھی استعمال فرماتے ورنہ آس پاس کے غرباء میں تقسیم کر دیتے۔
آپؐ کی خوراک ایسی سا دہ تھی کہ اکثر کھجور اور پا نی پر گزارہ کرتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کے انصار ہمسائے دودھ تحفہ بھیجتے تو اکثر ہم لوگوں کو پلادیتے۔لیکن باوجود اس قدر سا دگی کے طیّبات سے پر ہیز نہ تھا اور جھوٹے صوفیوں کی طرح آپؐ طیّبات کو ترک نہ کر بیٹھے تھے بلکہ آپؐ عمدہ سے عمدہ غذائیں جیسے مرغ وغیرہ بھی کھا لیتے تھے۔پا نی پیتے وقت آپؐ کی یہ عادت تھی کہ تین دفعہ بیچ میں سا نس لیتے اور یکدم پا نی نہ چڑھا جاتے۔ نہ صرف اس میں آپؐ کا وقار پا یا جا تا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ آپﷺصحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔گو شت کو آپؐ پسند فرماتے تھے لیکن اس کا زیا دہ استعمال نہ تھا کیونکہ سا دہ زندگی کی وجہ سے آپؐ کھجور اور پا نی پر ہی کفا یت کر لیتے۔ایک صحابی ؓ یہ بھی بیان کر تے ہیں کہ ایک دفعہ آپؐ کے سامنے کدّو پکا کر رکھا گیا تو آپؐ نےاسے بہت پسند فرمایا۔ان تمام کھانوں کے ساتھ آپؐ اصل مالک کو نہ بھولتے بلکہ خدا کا نام لے کر کھانا شروع کر تے اور دا ئیں ہا تھ سے کھا تے اور اپنے آگے سے کھاتے اور جب کھا چکتے تو فرماتے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا غَیْرَ مَکْفِیٍّ وَلَا مَوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا (بخاری کتاب الاطعمہ باب مایقول اذا فرغ من طعامہ)سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔بہت بہت تعریفیں پاک تعریفیں۔برکت والی تعریفیں۔ایسی تعریفیں کہ جو ایک دفعہ پر بس کر نے والی نہ ہوں۔جو چھوڑی نہ جاویں۔جن کی ہمیشہ عادت رہے ۔ اے ہمارے ربّ ۔ یعنی مولا تیرا شکر تو میں بہت بہت کر تا ہوں پرتو بھی مجھ پر رحم کر اور آج کے انعام پر ہی بس نہ ہوجائے بلکہ تو ہمیشہ مجھ پر انعام کرتا رہ اور میں ہمیشہ تیرا شکر کرتارہوں۔اس دعا پر غور کرو اور دیکھو کہ کھانا کھا تے وقت آپؐ کے دل میں کیا جو ش موجزن ہوں گے اور کیا کیا شکر کا دریا پھوٹ کر بَہ رہا ہوگا۔پھر اس پر بھی غور کرو کہ لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنۃٌ یعنی تمہارے لیے رسول کریمﷺ ایک بہتر سے بہتر نمونہ ہے جس کی تمہیں پیروی کر نی چاہیے۔

………………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button