جماعت کے لیے نصیحت
مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم دشمن کے مقابلہ پر صبر اختیار کرو۔ تم گالیاں سُن کر چُپ رہو۔ گالی سے کیسا نقصان ہوتا ہے۔ گالی دینے والے کے اخلاق کا پتہ لگتا ہے۔ مَیں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تم کو کوئی زد و کوب بھی کرے تب بھی صبر سے کام لو۔ یہ یاد رکھو کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کے دل سخت نہ ہوتے تو وہ کیوں ایسا کرتے۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ ہماری جماعت امن جُو ہے۔ اگر وہ ہنگامہ پرداز ہوتی تو بات بات پر لڑائی ہوتی اور پھر اگر ایسے لڑنے والے ہوتے اور ان میں صبر و برداشت نہ ہوتی تو پھر ان میں اور ان کے غیروں میں کیا امتیاز ہوتا؟
ہمارا مذہب یہی ہے کہ ہم بدی کرنے والے سے نیکی کرتے ہیں۔ یہی گھر جو سامنے موجود ہے اس کے متعلق میرے لڑکے مرزا سلطان احمد نے مقدمہ کیا تھا۔ باوجودیکہ میرے لڑکے نے مقدمہ کیا تھا اور یہ سخت ایذا دینے والے دشمن تھے مگر مَیں نے کہا کہ میں اظہار نہیں دوں گا۔ کیا اس وقت مَیں نے سلطان احمد کی رعایت کی تھی یا اُن کی؟ اور اُن کی دشمنیوں کا خیال رکھا یا ان کے ساتھ نیکی کی؟ یہ ایک ہی بات نہیں۔ جب جب ان کو میری مدد کی ضرورت ہوئی مَیں نے اُن کو مدد دی ہے اور دیتا رہتا ہوں۔ جب ان کو مصیبت آئی یا کوئی بیمار ہوا تو مَیں نے کبھی سلوک یا دوا دینے سے دریغ نہیں کیا۔ایسی حالت میں کہ ہم ان سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی سختیوں پر صبر کرتے ہیں تم اُن کی بد سلوکیوں کو خدا پر چھوڑ دو۔ وہ خوب جانتا ہے اور اچھا بدلہ دینے والا ہے۔ مَیں تمہیں بار بار کہتا ہوں کہ ان سے نرمی کرو اور خدا تعالیٰ سے دعا کرو۔ مگر یہ بھی یاد رکھو کہ دعائیں منظور نہ ہوں گی جب تک تم متقی نہ ہو اور تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کی دو قسم ہیں۔ ایک علم کے متعلق دوسرا عمل کے متعلق۔ علم کے متعلق تو مَیں نے بیان کر دیا کہ علومِ دین نہیں آتے اور حقائق معارف نہیں کھلتے جب تک متقی نہ ہو اور عمل کے متعلق یہ ہے کہ نماز۔ روزہ اور دوسری عبادات اس وقت تک ناقص رہتی ہیں جب تک متقی نہ ہو۔
اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں۔ اور دوسرے نوعِ انسان سے ہمدردی کرو۔ اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زاد ہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہو گا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔ قیامت نزدیک ہے۔ تمہیں اُن تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو اُن سے بہت دُکھ اُٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اُن کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پُل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہیے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔
یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان کسی کا مقابلہ کرتا ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے جیسے مقدمات میں ہوتا ہے۔ اس لیے آرام اسی میں ہے کہ تم ایسے لوگوں کا مقابلہ ہی نہ کرو۔ سدِّ باب کا طریق رکھو اور کسی سے جھگڑا مت کرو۔ زبان بند رکھو۔ گالیاں دینے والے کے پاس سے چپکے سے گذر جاؤ گویا سُنا ہی نہیں اور ان لوگوں کی راہ اختیار کرو جن کے لیے قرآن شریف نے فرمایا ہے وَ اِذَا مَرُّوْا بِا للَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا۔ اگر یہ باتیں اختیار کر لو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کے سچے مخلص بن جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی رپورٹ کی حاجت نہیں۔ وہ خود دیکھتا ہے اور سُنتا ہے اگر تم تین ہو تو چوتھا خدا ہوتا ہے۔ اس لیے خدا کو اپنا نمونہ دکھاؤ۔
اگر تمہارے نفسانی جوش اور بد زبانیاں ایسی ہیں جیسے تمہارے دشمنوں کی ہیں پھر تم ہی بتاؤ کہ تم میں اور تمہارے غیروں میں کیا فرق اور امتیاز ہوا؟ تمہیں تو چاہیے کہ ایسا نمونہ دکھاؤ کہ جو مخالف خود شرمندہ ہو جاوے۔ بڑا ہی عقلمند اور حکیم وہ ہے جو نیکی سے دشمن کو شرمندہ کرتا ہے۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 130۔131۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
…………………………………