حقیقی عید
مکرم نصیر حبیب صاحب لندن سے تحریر کرتے ہیں:
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے عید کے پر مسرت موقع پر ارشاد فرمایا :
‘‘اگر دنیا میں کوئی بڑی عید ہوئی تو وہی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک انتہائی پیارے کو کہا تم اپنے ذریعہ سے تمام جہان کو ایک جگہ جمع کرو’’۔
حضور انور کے ارشاد کو تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں تو واقعی جو انقلاب مولائے کل ختم الرسلؐ کی قوت قدسی سے برپا ہوا وہ ایسا بے مثال اور عہد آفریں تھا کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ۔ نور فرقاں کے اعجاز مسیحائی سے دماغ اور قلب کی صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہوا۔ دنیا کو نہ صرف فکری بلکہ سماجی یکتائی نصیب ہوئی اور انسانیت کو شرف عطا ہوا ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اس حقیقی عید کے پیغام کو لے کر دنیا میں صفتِ جام پھرے اور توحید کے نور سے بحر و بر جگمگا اٹھے ۔
اللہ تعالیٰ نے مخفی در مخفی اسباب کے تحت بندے کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے ۔ پیغام حق کی تیز رفتار ترسیل کے لیے مادی ذرائع کی تعمیر و تخلیق کی ضرورت تھی ۔ لہٰذا عقلی اور دماغی صلاحیتوں کی فروغ کا پیغام جو وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ میں پنہاں تھا ۔ مسلمانان سپین کے ذریعے اہل مغرب تک پہنچا اور سائنسی اور مادی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی ۔
دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے پیغام حق کی حفاظت کے لیے اور روحانی قویٰ کی تکمیل کے لیے اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ خدا تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے خلفاء کے ذریعے اس کی حفاظت اور فیض رسانی کا وعدہ فرمایا۔
حضور انور ارشاد فرماتے ہیں :
‘‘پھر ایک عید کا دن وہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو مبعوث کر کے تکمیل تبلیغ اور اشاعت دین کا ذمہ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج کر خود ذمہ لیا اور وہ دن آیا جب لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۔ (التوبۃ:33) کا ہونا مقدر تھا۔ یقینا ًشریعت اسلام کی تکمیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوئی۔ آپ کے آنے پر سب دنیا کو کہا گیا کہ اب ایسا نبی مبعوث ہوا ہے جس کے ساتھ بہت ہی وسیع خزانے ہیں۔ تم اس کے ساتھ آؤ اور جو کچھ چاہتے ہو لو۔…… یہ شریعت کے احکام پر جمع ہونے کی عید ہے اور جب سب لوگ عملی زندگی میں ایک دین پر جمع ہو جائیں گے تو اس کے نتیجہ میں جو عید ہو گی وہ اصل عید اور بڑی عید ہو گی اور اس عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔’’
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے وقت جن قوموں کے سپرد مادی انفراسٹریکچر کی تکمیل کا کام تھا وہ پورا ہو چکا تھا۔لیکن اب عقل بے باک اور سرکش ، چالاک بھی ہو چکی تھی اس زعم میں مبتلا تھی کہ اپنی زندگی کی شب تاریک کی سحر کرےگی ۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وقت اہل مغرب کو خبردار فرمایا جب برطانیہ کا لیڈر گائیڈ سٹون کہتا تھا کہ آسمان بھی گرا تو اپنی سنگینوں سے تھام لیں گے ۔ آپ ؑ نے فرمایا :
‘‘اے یورپ تو بھی امن میں نہیں ۔ اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں ۔ اے جزائز کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری حفاظت کے لیے نہیں آئے گا’’۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انتباہ کے سات سال بعد دنیا پر جنگ عظیم اول کا عذاب ٹوٹ پڑا اور
The war ripped through the fabric of society leaving millions of grieving widows, orphaned children and disabled men
History of World War I, Vol 2 page 551. Marshall Cavendish Corporation. 200
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلام کی برتری کل ادیان پر ثابت کر کے اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے تازہ بہ تازہ نشان دکھلا کر ثابت کر دیا
‘‘وہ خدا اب بھی بناتا ہےجسے چا ہے کلیم ’’
آپؑ نے انسانیت کو خبر دار کر دیا کہ اگر ہ اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیمات پر ایمان لا کر کشتی نوح میں نہیں بیٹھتی تو مادیت کا طوفان بلاخیز اسے نگل لے گا۔ انتباع کا یہ سلسلہ تاریخ احمدیت کا حصہ ہے ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ویمبلے کانفرنس میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو آپ ؓ نےلیگ آف نیشنز کے اربابِ بست و کشاد پر واضح کر دیا کہ اگر آپ اس کی بنیاد اسلام کی منصفانہ تعلیمات پر نہیں رکھتے تو آپ جنگ کی ہولناکیوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں دنیا جنگ عظیم دوم کی ہولناکیوں کا شکار ہو گئی ۔ ایک طرف دیکھیں تو انسان چاند پر بستیاں آباد کرنے کے منصوبے بنا رہا ہے لیکن دوسری طرف ایک بڑی جنگ کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہاہے ۔
ہمارے موجودہ امام حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ا لعزیز نے کئی مرتبہ دنیا کو خبردار کیا ہے کہ اگر وہ انصاف سے کام نہیں لیتے تو دنیا ایک بڑی تباہی سے نہیں بچ سکتی ۔ لیکن یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ جس پر چل کر دنیا تباہی سے بچ سکتی اور عافیت کے حصار میں داخل ہو سکتی ہے لیکن طاغوتی طاقتیں اسی اسلام کے خلاف صف آرا ہوچکی ہیں چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
‘‘آنحضرت ﷺ جو سراج منیر ہیں ان کی روشنی نے دنیا میں پھیلنا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ طاغوتی طاقتوں نے بھی بھر پور کوشش کرنی ہے ۔ وہ خاموش نہیں بیٹھیں گی اور آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بڑی شدت سے ، بہانے بہانے سے یہ لوگ اسلام اور آنحضرت ﷺ کی ذات پر حملے کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑایا جا رہا ہے ۔ ’’
(الفضل انٹرنیشنل 7؍ جون 2019ء)
مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے کے لیے خود محققین اعتراف کر تے ہیں کہ
It cannot be said that western powers were not aware of the danger of escalating instability in Iraq and Syria. A 2012 Pentagon report foresaw the possible rise of an organization such as ISIS. If the situation unravels. This is exactly what the supporting powers to the opposition want, in order to isolate the Syrian. And so, one observer concluded, American intelligence saw ISIS coming and was not only relaxed about the prospect lout, it appears, positively interested demit
(The Rise and Fall of ISIS) article author (Stephan De Spiegel Eire and Tim Swigs) published by Hague Centre for strategic studies (2017) P-158)
اور مستزاد یہ کہ اسلامی ممالک ان اسلام مخالف قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
حضور انور فرماتے ہیں :
‘‘بدقسمتی سے اسلامی ممالک کے اپنے اعمال جو کہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ تعلیم کے خلاف ہیں۔ ان مخالفین کی کوششوں کو کامیاب کر رہے ہیں۔ ’’
(الفضل انٹرنیشنل 7؍ جون 2019ء صفحہ 7)
انسان ورطہ ٔ حیرت میں گم ہو جاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح اسلامی ممالک کٹھ پتلی کی طرح ان طاغوتی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں ۔
Similarly, the success of ISIS is partly the result of the role played by Turkey. Ankara allows overseas volunteers to flock to ISIS training camps in Iraq. The same Turkish route in used by foreign experts that operate the oil infrastructure captured by ISIS. It is Turkish territory that is used to resupply ISIS and to tract their wounded. It is money from Gulf States that subsidizes ISIS activities
(Prof Efraim Inbar: How Dangerous is ISIS to Israel: The Begin –Satat center For Strategic Studies)
اس تناظر میں حضور فرماتے ہیں:
’’اسلام مخالف طاقتیں …….اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی ممالک کبھی ترقی نہ کریں اور بدقسمتی سے اسلامی ممالک کے اپنے اعمال جو کہ خد اتعالیٰ کی عطا کر دہ تعلیم کے خلاف ان مخالفین کی کوششوں کو کامیاب کر رہے ہیں۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 7؍ جون 2019ء صفحہ 7)
ایک طرف تو اسلامی ممالک کا یہ حال ہے دوسری طرف مغربی طبقے کے ارباب ِ فکر و دانش اٹھارویں صدی سے ہی اس مغالطہ میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ جس طرح بعض Species بعض Species کے مقابلہ میں زیادہ اہلیت رکھتی ہیں اسی طرح بعض اقوام بعض اقوام کے مقابلہ میں زیادہ صلاحیتوں کی مالک ہیں اور ان کے حقوق بھی زیادہ ہیں کیونکہ ان پر انسانی تہذیب کے ارتقا کا دارومدار اور انحصار ہے ۔ یہ تصور بنیاد بنا تو خوف ناک جنگوں کی جس میں کروڑوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے ۔ یہ تصور اس لیے غلط ہے کہ عالم خلق کے قوانین کا اطلاق عالم امر پر نہیں ہو سکتا۔ روح کا تعلق عالم امر سے ہے ۔
لاکھوں درود لاکھوں سلام اس بادشاہِ ہر دو سرا پر جس نے آج سے چودہ سو برس قبل خطبہ الوداع کے موقع پر یا ایھا الذین امنوا نہیں یاایھاالمسلمون نہیں بلکہ یا ایھا الناس فرمایا اور یہ حیات آفرین پیغام دیا ۔
‘‘کسی عربی کو کسی عجمی پر کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں نہ کسی سرخ کو سیاہ پر اور نہ کسی سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے سوائے تقویٰ کے ’’۔
آج اگر دنیا تباہی کے ہولناک طوفان سے بچ سکتی ہے تو اسی حیات آفریں پیغام کی تاثیر سے ۔ اہل مغرب کے دانشوروں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے ۔
We in the west need to diverts ourselves of some of our old prejudice. Perhaps our place to start in with the figure of Muhammad. ……… but who had genius of a profound order and founded a religious and cultural tradition that was not based on the sword-despite the western myth- and whose name Islam signifies peace and reconciliation
Muhammad: KAREN ARMSTRONG: Great British 1991 Page266
اس حیات آفریں پیغام کی تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کی جماعت کے سپرد کیا ہے ۔
حضور انور ارشاد فرماتے ہیں:
‘‘اگر حقیقی عید کا کرنا اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے تو پھر ہمیں اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ کس طرح ہم اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمارے لیے جو لائحہ عمل تجویز فرمایا ہے اس پر عمل کر کے ہم جلد سے جلد اس حقیقی عید کو لانے کے سامان کر سکتے ہیں، اس کام کو صحیح رنگ میں سرانجام دے سکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہمارے سپرد کیا ہے۔’’
اللہ کرے وہ وقت جلد آئے کہ
؎ حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفٰے ؐ ہو
٭…٭…٭