جرمنی کے شہر Lindau میں بین الاقوامی ادارے Religion for Peace کی دسویں پنج سالہ اسمبلی کا انعقاد
دنیا کے ایک سو پچیس ممالک سے مسلم،مسیحی ،ہندو،بدھ مت،بہائی،صوفی ازم،یہودیت سمیت سارے مذاہب کے نمائندگان کی شرکت
٭…جرمنی کے صدر ِمملکت، نوبل انعام یافتہ شخصیات، ممالک کے سفراء سمیت متعدد شرکائے کانفرنس کوانفرادی طور پر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا تعارف
٭…دنیا میں قیامِ امن کے لیے امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز (Man of Peace)کے معرکہ آرا مجموعہ لیکچرز، کتاب World Crisis and the Pathway to Peace کی تقسیم
نیویارک میں اقوام متحدہ کی بلڈنگ کے بالمقابل ایک انٹرنیشنل ادارہ ریلیجن فار پیس (Religion for Peace)کے نام سے قائم ہے جس کی حیثیت نہ صرف اقوامِ متحدہ تسلیم کرتی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے دو ادارے یونیسف(UNICEF)اور یونیسکو (UNESCO)اس ادارے کے ممبر ہیں۔ اس ادارے کے قیام کی ابتدا 1961ء میں جرمنی کے شہر Lindau سے ہوئی تھی۔ Lindau ایک چھوٹا سا شہر ہے جو آسٹریا، سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کی سرحدوں کے درمیان پائی جانے والی مشہورِ زمانہ قدرتی جھیل ‘‘Lake Constance’’ کے کنارے پر واقع ہے۔ ماضی بعید میں اس شہر میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹس کے درمیان ہمیشہ ٹھنی رہی۔وہ بُرا وقت اب تاریخ کا سبق آموز باب ہے۔ ایسا بُرا وقت مذہب کی زندگی میں دوبارہ نہ آئے اور مذہب میں تشدّد کو شامل کرنے والوں کو سبق دینے کے لیے Religion for Peace کی بنیاد رکھی گئی۔ جب اس نے ادارے کی شکل اختیار کر لی تو اس کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں اقوام متحدہ کے سامنے کی بلڈنگ میں قائم کر دیا گیا۔ 90؍ ممالک اس کے ممبر ہیں جن میں اس ادارے کے ذیلی دفاتر کام کر رہے ہیں۔ یہ ادارہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے کوشاں اور بہت ساری سوشل ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کا دعویدار ہے۔ یہ ادارہ اب تک اپنا غیر سیاسی تشخص برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 1970ء سے ہر پانچ سال کے بعد یہ انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کرتے ہیں جس کو یہ ‘‘Religion for Peace Assembly’’ کا نام دیتے ہیں۔ اسمبلی کے اجلاس کے لیے ہر پانچ سال بعد مقام اور ملک تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ امسال یہ اجلاس 20؍سے 23؍ اگست تک جرمنی کے شہر Lindau میں ہوا جس میں ایک سو پچیس سے زائد ممالک سے نو سو کے قریب وفود شامل ہوئے۔ کانفرنس کے اخراجات وزارت خارجہ جرمنی نے ادا کیے۔ اسمبلی کے اجلاس میں جو تقاریر منتظمین کی طرف سے کی گئیں ان میں کہا گیا کہ تنظیم کے قیام کا مقصد امن کے لیے مذہب اور ڈپلومیسی کا ایک دوسرے کے قریب رہ کر امن کے معاہدات میں مثبت کردار ادا کرنا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے کلچرل ونگ کی ڈائریکٹر جنرل آندریا گو کن نے اپنی تقریر میں کہا کہ امید کی جاتی ہے کے پوری دنیا سے اکٹھے ہونے والے امن کے خواہش مند نمائندگان درپیش چیلنجوں کو امن سے حل کرنے کے لیے تجاویز دیں گے۔ ہم آپ کی تجاویز کے منتظر ہیں۔
اس کانفرنس کے شرکاء کا ایک تہائی حصہ خواتین پر مشتمل تھاحتیٰ کہ ویٹی کن کی طرف سے بھجوایا جانے والے وفد میں بھی صرف خواتین شامل تھیں۔ نیشنل اسمبلی تیونس کی نائب صدر مہر حناء لبادی،صدام حسین کے زمانہ میں دس سال جیل میں گزارنے والی لیلیٰ الکہافج جو اب عراق پارلیمنٹ کی ممبر ہیں اسمبلی کے اہم مقررین میں شامل تھیں۔ کانفرنس میں مسلم،مسیحی ،ہندو،بدھ مت،بہائی،صوفی ازم،یہودیت سمیت سارے مذاہب کی نمائندگی تھی۔ لوگ انفرادی حیثیت میں بھی مدعو تھے۔ سب کی رائے تھی کہ اسمبلی اجلاس کی تقاریر دنیا میں ناپید ہوتے امن کے لیے کافی نہیں۔ کانفرنس کے علاوہ بنیادی کام کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ جرمنی کے صدر نے بھی اس کانفرنس میں تقریر کی اور کہا کہ یہ بات تو ہم سب پر عیاں ہے کہ ہر مذہب کی تعلیم امن سے رہنے کی تلقین کرتی اور فساد پھیلانے سے منع کرتی ہے۔ ہم سب یہاں ایک دوسرےسے مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے جمع ہیں اور اس بات سے مکمل اتفاق رکھتے ہیں کہ مذہب کو جبر اور فساد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک سنجیدہ مسیحی ہونے کے ناطے امن کے لیے مذہب کی ضرورت میرے لیے پسندیدہ اور اہم ہے۔ بعض لوگ اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ماضی میں قوموں اور تہذیبوں کے درمیان لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ 1618ء تا 1648ء کا زمانہ اس قسم کے حالات سے بھرا پڑا ہے۔ اس شہر لنڈاو کو بھی کڑا وقت دیکھنا پڑا۔ اس کانفرنس سے دنیا کے حکمرانوں کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ مذہب کے نام پر اب دوبارہ لڑائی نہیں ہو گی۔ کیونکہ بعض حکمران اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب میں سے سیکولر توجیحات تلاش کر لیتے ہیں۔
کانفرنس کے مقررین اور حاضرین نے دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کیا۔ خصوصاً ایسٹر کے موقعے پر سری لنکا میں چرچ پر ہونے والے حملہ،نیوزی لینڈ کی مسجد میں نمازیوں کی شہادت ،امریکہ پٹسبرگ میں ہونے والی فائرنگ ودیگر۔ حاضرین نے یہ بھی کہا کہ انسانی زندگی میں مذہب کے اہم کردار کو تسلیم کرنے کہ باوجود مذہب ایک حسّاس موضوع بنتا جا رہا ہے۔ نائیجیرین کیتھڈرل کے نمائندہ John Onaiyekanنے جرمن صدر کو کانفرنس میں مدعو کرنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذہب اور سیاست کے درمیان ‘شادی کروانا’ اچھا خیال نہیں۔ اس طرح سیاسی لوگ ‘خاوند ’کا کردار ادا کرنے لگتےہیں۔ مذہب کی سب سے علیحدہ حیثیت اور شناخت قائم رہنی چاہیے۔ مشرقی تیمور کے سابق صدر کی حقیقت پسندانہ رائے میں مذہب سے زیادہ تعلق غریب عوام رکھتے ہیں جو فطرتا ًامن پسند ہوتے ہیں لیکن سیاست دان ان کو استعمال کرتے ہیں۔
سن 2020ء میں یہ تنظیم (Religion for Peace)اسمبلی کے آغاز کے پچاس سال پورے ہونے پر اسی شہر لنڈاو میں ایک بڑی تقریب منعقد کرے گی۔ اس تنظیم کے 27؍سال سیکرٹری جنرل رہنے والے Dr.William F. Vendley کی جگہ Prof. Azza Karamکو نیا سیکرٹری جنرل بنایا گیا ہے۔ ان کی پیدائش قاہرہ کی ہے اور یہ اس وقت ایمسڑڈیم کی Vrije University میں ریلیجن اور ڈویلپمینٹ کی پروفیسر ہیں۔ آپ اقوام متحدہ کےادارہ برائے کلچر اور پاپولیشن فنڈ (UNFPA) میں سینئر ایڈوائزر بھی ہیں ۔ ان کی کتاب پولیٹکل اسلام نے بہت شہرت پائی تھی جو 1996ء میں شائع ہوئی تھی اور اب متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔
کانفرنس کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں بیلجیم کے مبلغ انچارج مکرم احسان سکندر صاحب کو بھی مدعو کیا گیا اور انہوں نے شرکاء کی ایک بڑی تعداد کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دنیا میں امن کے قیام پر مشتمل لیکچرز کا مجموعہ ‘‘WORLD CRISIS AND ‘‘THE PATHWAY TO PEACE اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب ‘‘Islams Response to Contemporary Issues’’ تحفہ میں دی۔ جرمنی کے صدر کو جب احسان سکندر صاحب نے یہ کتاب پیش کی تو انہوں نے موقع پر اس کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی۔ اس کے علاوہ جرمنی کی وزارت خارجہ کے کانفرنس میں موجود افسران ، لنڈاو کے لارڈ میئر ، کانفرنس میں موجود متعدد ممالک کی اہم شخصیات کو بھی یہ کتب تحفہ میں دینے کا موقع میسر آیا اور ایک بہت بڑی تعداد میں کانفرنس کے مدعوین کو انفرادی طور پر جماعت احمدیہ سے متعارف کروایا گیا۔
٭…٭…٭