از افاضاتِ خلفائے احمدیت

اپنے دشمن کے معاملہ میں بھی عدل کو نہ چھوڑو

حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

قرآن کریم یہ اعلان کرتا ہے کہلا اکراہ فی الدین (سورۃ البقرہ : 287)ترجمہ : دین میں کوئی جبر نہیں ہے ۔

یہ حکم نہ صرف اس الزام کو رد کر رہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے بلکہ مسلمانوں کو یہ بتا رہا ہے کہ ایمان لانا ایک ایسا معاملہ ہے جو بندہ اور اس کے خدا کے درمیان ہے ۔ جس میں کسی طرح سے بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے ۔ ہر انسان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کی اجازت ہے ۔ لیکن اگر مذہب کے نام پر جاری سرگرمیاں دوسروں کے لیے ضرر رساں ہو جائیں اور ملکی قانون کے خلاف ہوں تب اس ملک کے قانون نافذ کرنے والے ان کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں کیونکہ اگر کسی مذہب میں کوئی ظالمانہ فعل کیا جا رہا ہے تو وہ ہرگز کسی ایسی تعلیم کا حصہ نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کے کسی بھی نبی نے دی ہو۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قیام امن کے لیے یہ ایک بنیادی اصول ہے ۔

اگرکوئی معاشرہ ، گروہ یا حکومت آج آپ کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میںحارج ہے اور کل کو حالات آپ کے حق میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کبھی بھی اپنے دل میں ان کے لیے کوئی کینہ یا نفرت نہ رکھیں ۔ آپ کو کبھی انتقام کا خیال نہیں آنا چاہیے بلکہ آپ کا فرض عدل و انصاف کا قیام ہے ۔ قرآن کریم فرماتا ہے:

ترجمہ : ‘‘اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جائو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز ا س بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو ۔ انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ با خبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔’’ (سورۃ المائدہ :9)

یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرہ میں امن قائم کرتی ہے ۔ فرمایا کہ اپنے دشمن کے معاملہ میں بھی عدل کو نہ چھوڑو۔ ابتدائی تاریخِ اسلام بتاتی ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیا گیا تھا اور عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے گئے تھے ۔ میں یہاں اس کی بہت زیادہ مثالیں تو پیش نہیں کر سکتا مگر تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے ان لوگوں سے کوئی انتقام نہیں لیا تھا جنہوں نے آپ ؐ کو شدید تکالیف دی تھیں ۔ آپ ؐ نے نہ صرف انہیں معاف کر دیا تھا بلکہ اجازت دی تھی کہ وہ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں ۔ آج بھی امن صر ف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب دشمن کے لیے بھی تمام تقاضے پورے کیے جائیں ۔ اور ایسا صرف مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر تمام جنگوں میں بھی کیا جانا چاہیے۔ اس طرح جو امن حاصل ہو گا در حقیقت وہی پائیدار امن ہو سکتا ہے ۔

گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئی ہیں ۔ ان کی جو بھی وجوہات تھیں اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ عدل کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کیا گیا تھا۔ او ر پھر وہ آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہوتی تھی دراصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسری مرتبہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے ۔ وہ جنگیں او ردیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں ۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورت حال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں ۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اصول عطا فرمائے ہیں ۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے ۔ کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے ۔ کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہو س اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے ۔ یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتا ہے ۔ خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کرکے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی افواج کےہاتھوں سے ہو ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دنیا مدد کے لیے آجاتی ہے ۔بہر حال اس کا نتیجہ جو بھی ہو آنحضرت ﷺ نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ صحابہ ؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر کیونکہ بصورتِ دیگر اس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اسے خدا کے عذاب کا مورد بنادے گا ۔ پس اس پر رحم کرتے ہوئے اسے بچانے کی کوشش کرو۔ یہ وہ اصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے ۔ اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے :

ترجمہ : ‘‘اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروائو ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسرے کے خلاف سر کشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کےفیصلہ کی طرف لوٹ آئے ۔ پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کروائو اور انصاف کرو۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے ۔ ’’

(سورۃ الحجرات : 10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button