کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ہمارا کام صرف بات پہنچا دینا ہے

اس اقتباس کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

یاد رکھو کہ تلوار انسان کے ظاہر کو فتح کر سکتی ہے مگر دل کبھی تلوار سے فتح نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ وہ انوار تھے جن میں خدا کا چہرہ نظر آتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ایسے ایسے خارق عادت نشانات دکھائے تھے کہ خود خدا ان لوگوں کے سامنے آموجود ہوا تھا اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے جلال اور جبروت کو دیکھ کر گناہ سوز زندگی اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی تھی۔

اب پھر وہی وقت ہے اور ویسا ہی زمانہ۔ پس اس وقت بھی خداکی ہستی کا یقین اسی ذریعہ سے ہو گا جس ذریعہ سے ابتداء میں ہوا تھا۔ اسلام وہی اسلام ہے لہٰذا اس کی کامیابی اور سرسبزی کے بھی وہی ذریعے ہیں جو ابتداء میں تھے۔ اب بھی ضرورت ہے تو اس بات کی کہ خدا کے چہرہ نما ہیبت ناک اقتداری نشانات ظاہر ہوں اور یقین جانو کہ کوئی شخص گناہ سے پاک نہیں ہو سکتا جب تک خدا تعالیٰ کی معرفت کامل نہ ہو۔ یہ گناہ اور طرح طرح کے معاصی جو چاروں طرف دنیا میں بھرے پڑے ہیں ان کے دُور کرنے کے واسطے صرف خشک ایمان کافی نہیں۔ کیا وہ خوف خدا جیساکہ چاہیے دنیا میں موجود ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ اصل میں انسان نفس امّارہ کی زنجیروں میں ایسا جکڑا ہوا ہے جیسے کوئی چڑیا کا بچّہ ایک شیر کے پنجے میں۔ جب تک اس نفس کے پنجے سے نجات نہ پا جاوے تب تک تبدیلی محال ہے اور گناہ سے بچنا مشکل۔ مگر دیکھو اگر ابھی ایک ہیبت ناک زلزلہ آ جاوے اور درودیوار اور مکان کا چھت لرزنے لگے تو دلوں پر ایک ایسی ہیبت طاری ہو گی اور ایسا خوف دلوں پر چھا جائے گا کہ اس وقت گناہ کا خیال تک بھی دلوں میں نہ رہے گا۔ ایک خطرناک مہلک مرض کے وقت جو حالت انسان کی ہوتی ہے وہ امن اور آرام و آسائش کی زندگی میں ہر گز ممکن نہیں۔

انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ کی تجلیات اور زبردست نشانوں کا محتاج ہے۔ ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسی راہ پیدا کر دے کہ انسان کا ایمان خدا تعالیٰ پر تازہ اور پختہ ہو جاوے اور صرف زبان تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ایمان کا اثر اس کی عملی حالت پر بھی ظاہر ہو جاوے اور اس طرح سے انسان سچا مسلمان ہو جاوے۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں الہاماً یہ فرمایا؎

چو دور خروی آغاز کردند

مسلماں را مسلماں باز کردند

یہ خدا کا کلام ہے۔ آج کل اگر عمیق نظر سے اور غور سے دیکھا جاوے تو زبانی ایمان ہی کثرت سے نظر آوے گا۔ پس خدا کا یہی منشاء ہے کہ لفظی اور زبانی مسلمانوں کو حقیقی مسلمان بنایا جاوے۔ یہودی کیا توریت پر ایمان نہیں لاتے تھے؟ قربانیاں نہ کرتے تھے؟ مگر خدا تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیجی اور کہا کہ تم مومن نہیں ہو بلکہ بعض نمازیوں کی نماز پر بھی لعنت بھیجی ہے جہاں فرمایاہے:وَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ۔ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ۔

(الماعون:6-5)

یعنی لعنت ہے ایسے نمازیوں پر جو نماز کی حقیقت سے بےخبر ہیں۔ صلوٰۃ اصل میں آگ میں پڑنے اور محبت الٰہی اور خوف الٰہی کی آگ میں پڑ کر اپنے آپ سے جل جانے اور ماسوی اللہ کو جلا دینے کا نام ہے۔ اور اس حالت کا نام ہے کہ صرف خدا ہی خدا اس کی نظر میں رہ جاوے اور انسان اس حالت تک ترقی کر جاوے کہ خدا کے بلانے سے بولے اور خدا کے چلانے سے چلے۔اس کی کل حرکات اور سکنات اس کا فعل اور ترکِ فعل سب اللہ ہی کی مرضی کے مطابق ہو جاوے، خودی دور ہو جاوے۔

غرض یہ باتیں ہیں اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے تو۔ مگر جب تک خدا کسی کے دل کے دروازے نہ کھولے۔ کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ دلوں کے دروازے کھولنا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے۔اِذا اَرادَ اللّٰہ بِعَبدٍ خَیرًا اقام واعظًا فی قلبہٖ۔جب انسان کے اچھے دن آتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انسان کی درستی اور بہتری منظور ہوتی ہے تو خدا انسان کے دل میں ہی ایک واعظ کھڑا کر دیتا ہے۔ اور جب تک خود انسان کے اندر ہی واعظ پیدا نہ ہو۔ تب تک بیرونی وعظوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ مگر وہ کام خدا کا ہے۔ ہمارا کام نہیں ہے۔ ہماراکام صرف بات کا پہنچا دینا ہے۔ ما علی الرسول الا البلاغ۔تصرف خدا کا کام ہے۔ ہم اپنی طرف سے بات کو پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم پوچھے جاویں کہ کیوں اچھی طرح سے نہیں بتایا۔ اسی واسطے ہم نے زبانی بھی لوگوں کو سنایا ہے۔ تحریری بھی اس کام کو پورا کر دیا ہے۔ دنیا میں کوئی کم ہی ہو گاجو اَب بھی یہ کہہ دے کہ اس کو ہماری تبلیغ نہیں پہنچی یا ہمارا دعویٰ اُس تک نہیں پہنچا۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 313تا315۔ ایڈیشن 1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button