شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کیا کھاتے تھے؟
میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپؑ کے کھانے کا صر ف قوّت قائم رکھنا تھا نہ کہ لذت اور ذائقہ اُٹھانا اس لیے آپؑ صرف وہ چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپؑ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں اور جن سے دماغی قوّت قائم رہتی تھی تاکہ آپؑ کے کام میں حرج نہ ہوعلاوہ بریں آپ کوچند بیماریاں بھی تھیں ۔جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پرہیز بھی رکھنا پڑتا تھا مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے اور اگرچہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا تھا کہ آج آپ کیا کھائیں گے مگر جہاں تک ہمیں معلو م ہے خواہ کچھ پکاہوآپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے اور کبھی کھانے کے بد مزہ ہونے پر اپنی ذاتی وجہ سے خفگی نہیں فرمائی بلکہ اگر خراب پکے ہوئے کھانے اور سالن پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لیے اور یہ کہہ کر کہ مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا۔
روٹی آپؑ تندوری اور چولہے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے۔ڈبل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اوربکرم بھی استعمال فرما لیا کرتے تھے۔بلکہ ولائتی بسکٹوں کو بھی جائز فرماتے تھے اس لیے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے کیونکہ بنانے والوں کا ادعاتو مکھن ہے اور پھر ہم ناحق بد گمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں ۔مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی۔کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہو گئی تھی علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقر خانی اور قلچہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کرتے تھے آپ کسی کو رد نہ فرماتے تھے۔
سالن آپؑ بہت کم کھاتے تھے۔گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپؑ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی یہ دال ماش کی یا اوڑدھ کی ہوتی تھی جس کے لیے گورداسپور کاضلع مشہور ہے۔سالن ہر قسم کا اور ترکاری عام طور پر ہر طرح کی آپؑ کے دسترخوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیّب جانور کا آپ کھاتے تھے۔پرندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لیے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو تیتر ، فاختہ وغیرہ کے لیے شیح عبدالرحیم صاحب نو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کرتے تھے۔مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیے تھے۔بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے۔اور بنی اسرائیل میں اس کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی۔حضورؑ کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیامگر آپ نے فرمایا کہ جائز ہے۔جس کا جی چاہے کھا لے مگر حضور ﷺ نے چونکہ اس سے کراہت فرمائی اس لیے ہم کو بھی اس سے کراہت ہے۔اور جیسا کہ وہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اسے اپنے قریب نہ آنے دیا۔
مرغ کا گوشت ہر طرح کاآپؑ کھا لیتے تھے۔سالن ہو یا بھنا ہوا۔کباب ہو یا پلاوٴ۔مگر اکثر ایک ران پر ہی گذارہ کر لیتے تھے۔اور وہی آپؑ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بچ بھی رہا کرتا تھا۔پلاوٴ بھی آپؑ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گدازاور گلے ہوئے چاولوں کااور میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکوالیا کرتے تھے۔مگر گڑکے اور وہی آپ کو پسند تھے۔عمدہ کھانے یعنی کباب،مرغ ،پلاوٴ یا انڈے اور اسی طرح فیرنی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوا یا کرتے تھے جب ضعف معلوم ہوتا تھا۔جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے تھے اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گذارہ کر لیتے۔دودھ ،بالائی،مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روغن تک صرف قوّت کے قیام اور ضعف کے دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں ۔
بعض لوگوں نے آپؑ کے کھانے پر اعتراض کیے ہیں ۔مگر اُن بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض لگے ہوئے ہیں اور باوجود ان کے وہ تمام جہان سے مصروف پیکار ہے۔ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے۔اصلاح امّت کے کام میں مشغول ہے۔ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے۔دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی اُن کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا۔وہی پروف درست کرتا اور وہی اُن کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے۔پھر سینکڑوں مہمانوں کے ٹھہرنے اُترنے اور علیٰ حسب مراتب کھلانے کا انتظام۔مباحثات اور وفود کا اہتمام۔نمازوں کی حاضری۔مسجد میں روزانہ مجلسیں اور تقریریں ۔ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات۔پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو۔مقدمات کی پیروی۔روزانہ سینکڑوں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے اورپھر گھر میں اپنے بچوں اور اہل بیت کو بھی وقت دینا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعائیں ۔غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لیے قوّت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کرے تو کون بیوقوف اور نا حق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے۔کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت کے لیے اس کا استعمال نہیں کرتے۔پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی نیت اور کام کرنے والے کے لیے تو وہ فرض ہے۔حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لیے وہی کھانے تعیش میں داخل ہیں ۔
اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاوٴں کو صرف بطور قوت لایموت اور سدِّ رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لذائذ حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے۔خدا تعالیٰ ہر مومن کوبد ظنی سے بچائے …
میوہ جات آپؑ کو پسند تھے اور اکثر خدام بطور تحفہ کے لایا بھی کرتے تھے۔گاہے بگاہے خود بھی منگواتے تھے۔پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور،بمبئی کا کیلا،ناگپوری سنگترے، سیب ،سردے اور سرولی آم زیادہ پسند تھے۔باقی میوے بھی گاہے ماہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے۔گنّا بھی آپ کو پسند تھا۔
شہتوت بیدانہ کے موسم میں آپؑ بیدانہ اکثر اپنے باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سب رفیقوں کے اسی جگہ بیدانہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے ۔
بازاری مٹھائیوں سے بھی آپؑ کو کسی قسم کا پرہیز نہ تھا نہ اس بات کی پرچول تھی کہ ہندو کی ساختہ ہے یا مسلمانوں کی۔لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے۔مٹھائی بچوں کے لیے ہوتی تھی کیونکہ وہ اکثر حضور ہی کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے۔میٹھے بھرے ہوئے سموسے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لیے منگوا رکھتے کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں اچھی بنتی تھیں ۔
ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپؑ کو اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا اور آپ دریافت فرما لیا کرتے تھے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے۔چنانچہ مولوی محمد علی ایم۔اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا۔تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لیے دودھ ،چائے ،بسکٹ،مٹھائی، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اورپھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا بھی لیا۔تب آپ کو تسلّی ہوتی۔اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملازمانِ لنگر خانہ نے تغافل تو نہیں کیا۔بعض موقع پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کے لیے سالن نہیں بچا یا وقت پر ان کے لیے کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اس کے لیے اُٹھوا کر بھجوا دیا۔
بار ہا ایسا بھی ہو اکہ آپؑ کے پاس تحفہ میں کوئی چیز کھانے کی آئی یا خود کوئی چیز آپؑ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی یا خراب ہوگئی۔اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا۔یہ دنیا دار کا کام نہیں ۔
ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طورپر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں ۔اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی نو وارد یا مرید با اخلاص نے لاکر حاضر کر دی۔
آپؑ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی۔پان البتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کے لیے یا کبھی گھر میں سے پیش کردیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے۔یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خراش ہو ئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے …
ہاتھ دھونا وغیرہ
کھانے سے پہلے عموماً اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے۔اور سردیوں میں اکثر گرم پانی استعمال فرماتے۔صابن بہت ہی کم بر تتے تھے۔کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے۔بعض ملانوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہر گز نہ تھی۔کلی بھی کھانا کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے۔
رمضان کی سحری کے لیے آپؑ کے لیے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کرتے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پراٹھا ہوا کرتا تھا۔اگرچہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے۔
کھانے میں مجاہدہ(حصہ اوّل)
اس جگہ یہ بھی ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کیے ہیں اور ایک موقع پر متواتر چھے ماہ کے روزے منشاء الٰہی سے رکھے اور خوراک آپؑ کی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کر نے کے بعد ہو تی تھی۔اور سحری بھی نہ کھاتے تھے اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دے دیا کرتے تھے۔تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو مگر اپنی جماعت کے لیے عام طورپر آپ نے ایسے مجاہدے پسند نہیں فرمائے بلکہ اس کی جگہ تبلیغی اور قلمی خدمات کو مخالفانِ اسلام کے برخلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا۔پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہش مند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے ؟
لنگر خانہ میں آپؑ کے زمانہ میں زیادہ تر دال اور خاص مہمانوں کے لیے گوشت پکا کرتا تھا۔مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقع ہو تو آپ عام طور پر اس دن گوشت یا پلاؤ یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ غربا کو بھی اس میں شریک ہو نے کا موقع ملے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 447)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعودؑ کھانوں میں سے پرندہ کا گوشت زیادہ پسند فرماتے تھے۔شروع شروع میں بٹیر بھی کھا تے تھے لیکن جب طاعون کا سلسلہ شروع ہو ا تو آپ نے اس کاگوشت کھانا چھوڑدیا کیونکہ آپ فرماتے تھے کہ اس میں طاعونی مادہ ہوتا ہے۔مچھلی کا گوشت بھی حضرت صاحب کو پسند تھا۔ناشتہ باقاعدہ نہیں کرتے تھے۔ہاں عمومًا صبح کو دودھ پی لیتے تھے۔خاکسار نے پوچھا کہ کیا آپ کو دودھ ہضم ہو جاتاتھا ؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ہضم تو نہیں ہوتا تھا مگر پی لیتے تھے۔والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ پکوڑے بھی حضرت صاحب کو پسند تھے۔ایک زمانے میں سکنجبینکا شربت بہت استعمال فرمایا تھا مگر پھر چھوڑ دی۔ایک دفعہ آپ نے ایک لمبے عرصہ تک کو ئی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی صرف تھوڑے سے دہی کے ساتھ روٹی لگا کر کھا لیا کرتے تھے۔کبھی کبھی مکی کی روٹی بھی پسند کرتے تھے۔کھانا کھاتے ہوئے روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے جاتے تھے کچھ کھاتے تھے کچھ چھوڑ دیتے تھے۔کھانے کے بعد آپ کے سامنے سے بہت سے ریزے اُٹھتے تھے۔ایک زمانہ میں آپ نے چائے کا بہت استعمال فرمایاتھامگر پھر چھوڑدی۔والدہ صاحبہ نے فرمایا حضرت صاحب کھانا بہت تھوڑا کھاتے تھے اور کھانے کا وقت بھی کو ئی خاص مقرر نہیں تھا۔صبح کا کھانا بعض اوقات بارہ بارہ ایک ایک بجے بھی کھاتے تھے۔شام کاکھانا عموماً مغرب کے بعد مگر کبھی کبھی پہلے بھی کھالیتے تھے۔غرض کوئی وقت معین نہیں تھا ،بعض اوقات خود کھانا مانگ لیتے تھے کہ لاؤ کھانا تیار ہے تو دے دو پھر میں نے کام شروع کرنا ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 56)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب جب بڑی مسجد میں جاتے تھے تو گرمی کے موسم میں کنویں سے پانی نکلوا کر ڈول سے ہی مُنہ لگا کر پانی پیتے تھے اور مٹی کی تازہ ٹِنڈیا تازہ آبخورہ میں پانی پینا آپ کو پسند تھا۔اور میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب اچھے تلے ہوئے کرارے پکوڑے پسند کرتے تھے کبھی کبھی مجھ سے منگوا کر مسجد میں ٹہلتے ٹہلتے کھا یا کرتے تھے۔اور سالم مرغ کا کباب بھی پسند تھا چنانچہ ہوشیار پور جاتے ہوئے ہم مُرغ پکوا کر ساتھ لے گئے تھے۔مولی کی چٹنی اور گوشت میں مونگرے بھی آپ کو پسند تھے۔گوشت کی خوب بھُنی ہوئی بوٹیاں بھی مرغوب تھیں ۔چپاتی خوب سِکی ہوئی جو سِکنے سے سخت ہو جاتی ہے پسندتھی۔گوشت کا پتلا شوربہ بھی پسند کر تے تھے جو بہت دیر تک پکتا رہا ہو۔حتیّٰ کہ اس کی بوٹیاں خوب گل کر شوربہ میں اس کا عرق پہنچ جاوے۔سکنجبینبھی پسند تھی۔میاں جان محمد مرحوم آپکے واسطے سکنجبین تیار کیا کرتا تھا۔نیز میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ یہ بھی فرمایا تھا کہ گوشت زیادہ نہیں کھانا چاہیے جو شخص چالیس دن لگا تار کثرت کے ساتھ صرف گوشت ہی کھاتا رہتا ہے اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔دال ،سبزی ترکاری کے ساتھ بدل بدل کر گوشت کھانا چاہیے بھیڑکا گوشت نا پسند فرماتے تھے۔میٹھے چاول گُڑ یعنی قند سیاہ میں پکے ہوئے پسند فرماتے تھے۔ابتدا میں چائے میں دیسی شکر (جو گُڑ کی طرح ہوتی ہے)ڈال کر استعمال فرماتے تھے۔شوربہ کے متعلق فرماتے تھے کہ گاڑھا کیچڑ جیسا ہم کو پسند نہیں ۔ایسا پتلا کرنا چاہیے کہ ایک آنہ کا گوشت آٹھ آدمی کھائیں۔اس وقت ایک آنہ کا سیر خام گوشت آتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 167)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے بیان کرتے ہیں :
“بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ والد صاحب باہر چوبارے میں رہتے تھے۔وہیں ان کے لیے کھانا جاتا تھا اور جس قسم کا کھانا بھی ہوتا تھا کھا لیتے تھے۔کبھی کچھ نہیں کہتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 189)
………………………………………(باقی آئندہ)