شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
(گذشتہ سے پیوستہ)حضرت ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں :
“جب میں 1900ء میں پہلی دفعہ قادیان میں آیا تو حضور ان دنوں میں صبح اپنے باغ کی طرف سیر کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ چنانچہ جب حضرت صاحب باغ کی طرف تشریف لے گئے تو میں بھی ساتھ گیا اور حضور نے شہتوت منگوا کر درختوں کے سائے کے نیچے خدام کے ساتھ مل کر کھائے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 389)
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ آپؑ کے ہمراہ اپنی پہلی سیر کے بارہ میں لکھتے ہیں :
“… سیّد فضل شاہ صاحب (مرحوم)حافظ حامد علی صاحب (مرحوم)اور عاجز راقم ہمراہ ہوئے۔ کھیتوں میں سے اور بیرونی راستوں میں سے سیر کرتے ہوئے گاؤں کے شرقی جانب چلے گئے۔”
(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ 4)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :
“عصر کی نماز کے بعد بڑی مسجد میں آپ چہل قدمی فرماتے رہا کرتے اور عموماً سیر کو تشریف لے جایا کرتے اس سیر میں لالہ ملاوامل لالہ شرمپت رائے ساتھ ہوتے اور اگر کوئی اور شخص موجود ہوتا تو وہ بھی شریک ہو جاتا تھا۔ یہ سیر علی العموم جانب بُوٹر ہوتی تھی اور کبھی بٹالہ بسرائے وغیرہ کی طرف بھی۔”
(حیاتِ احمد جلد دوم مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ94)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“(آپؑ) سیر کو اکثر سورج نکلے تشریف لے جایا کرتے تھے اور گھر سے نکل کر احمدیہ چوک میں کھڑے ہو جاتے اور جب تک مہمان جمع نہ ہو لیتے کھڑے رہتے اور اس کے بعد روانہ ہوتے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 525)
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں :۔
“سردیوں کے دنوں میں 8 یا 9 بجے کے قریب اور گرمیوں میں صبح ہی سیر کو چلے جاتے اور دو اڑھائی میل تک ہوا خوری کے لیے جاتے اور اس عرصہ میں واقعات جاریہ اور مذہبی معاملات پر تبادلہ خیالات ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تفریح مگر نہایت پاک اور بے ضرر تفریح کی باتیں بھی ہوتی رہتی تھیں ۔”
(حیاتِ احمد جلد اول مصنفہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ228)
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ
“میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمٰن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قادیان آئے ہوئے تھے ۔کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں ۔ حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔ چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 436)
“صبح کو حضرت سیر کے واسطے تشریف لے گئے ۔ خدام ساتھ تھے۔ حافظ محبوب الرحمٰن صاحب جو کہ اخویم منشی حبیب الرحمٰن صاحب رئیس حاجی پورہ اور بھائی جان منشی ظفر احمد صاحب کے عزیزوں میں سے ہیں ساتھ تھے۔ حضرت نے حافظ صاحب کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ
یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور میں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز اُن سے قرآن شریف سُنا کریں گے ۔ مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ ، صحیح ، خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے والا ہوتو اس سے سُنا کروں ۔
پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کرکے حضرت نے فرمایا کہ آج آپ سیر میں کچھ سنائیں ۔
چنانچہ تھوڑی دور جاکر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے سورہ دہر پڑھی جس کے بعد آپ سیر کے واسطے آگے تشریف لے گئے ۔”
(ملفوظات جلد9صفحہ256-255)
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحبؓ نے بیان کیا کہ
“ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سب دوست اس موضوع پر ایک مضمون لکھیں ۔ کہ مذہب کیا ہے اور کامل مذہب کیسا ہونا چاہیے۔ کچھ دنوں کے بعد بہت سے مضامین آگئے اور بہت سے مقامی اور بعض بیرونی دوست خود سُنانے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس پر آپ نے کبھی مسجد میں اور کبھی سیر میں ان مضامین کو سُننا شروع کر دیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب۔ میاں معراج الدین صاحب عمر۔ خواجہ جمال الدین صاحب کے مضمون اور بہت سے دیگر احباب کے مضامین سُنائے گئے۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں حضرت صاحب نے اپنا مضمون بھی سُنایا۔ مگر اپنا مضمون غالباً سیر میں سُنایا کرتے تھے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 546)
سیرمیں بعض احبا ب نے اپنے اپنے رؤیا سنائے آپ نے فرمایا کہ خواب بھی ایک اجمال ہوتا ہے اور اس کی تعبیر صرف قیاسی ہوتی ہے ۔
(ملفوظات جلد5 صفحہ 218)
“سیر میں برلبِ سٹرک خودرو بوٹیوں کی طرف اشارہ کرکے اور حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کو مخاطب کرکے حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ دیسی بوٹیاں بہت کار آمد ہوتی ہیں مگر افسوس کہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔
حضرت مولوی صاحب نے عرض کیا کہ یہ بوٹیاں بہت مفید ہیں ۔ گندلوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ ہندو فقیر لوگ بعض اسی کو جمع کر رکھتے ہیں اورپھراسی پر گذارا کرتے ہیں ۔ یہ بہت مقوی ہے اور اس کے کھانے سے بواسیر نہیں ہوتی ۔ ایسا ہی کنڈیاری کے فائدے بیان کئے جو پاس ہی تھی۔”
(ملفوظات جلد9صفحہ255-254)
“آج جمعہ کا دن ہے۔حضرت اقدس کا معمول ہے کہ جمعہ کو سیر کو تشریف نہیں لے جاتے۔بلکہ نماز جمعہ کی تیاری کے لیے مسنون طریق پر غسل،حجامت،تبدیلی لباس،حناوغیرہ امور میں مصروف رہتے ہیں ۔اس لیے سیر کو تشریف نہیں لے گئے۔”
(ملفوظات جلد 3صفحہ 391)
حسب معمول سیر کے لیے تشریف لائے۔آتے ہی فرمایا کہ
“آج ہی کے دن سیر ہے کل سے ان شاء اﷲ روزہ شروع ہوگا۔تو چار پانچ دن تک سیر بند رہے گی تا کہ طبیعت روزے کی عادی ہو جائے اور تکلیف محسوس نہ ہو۔”
(ملفوظات جلد 4صفحہ249)
بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے سیر میں کچھ دن توقف
ایک روز آپؑ نے فرمایا:
“اب دو تین دن سیر بند رہے گی۔کیونکہ آج کل بارشیں نہیں ہوتیں ۔اس لیے راستہ میں خاک بہت اڑتی ہے اور اسی سے میں بیمار ہو گیا تھا۔
ایک صاحب نے کہا کہ چونکہ لوگ حضور کے آگے چلتے ہیں ۔اس لیے خاک اڑ کرآپ پر پڑتی ہے۔لیکن اس مجسمۂ رحمت انسان نے جواب دیا کہ نہیں ۔بارش کے نہ ہونے سے یہ تکلیف ہے۔(اﷲ اﷲ کیا رحم ہے اور حسن ظن ہے کہ اپنے احباب کو ہر گز ملزم نہیں ٹھہراتے)”
(ملفوظات جلد 4صفحہ394)
ایک روز مجلس قبل از عشاء میں فرمایا:
“اب بارش ہونے کی وجہ سے گرد و غبار کم ہوگیاہے ۔ ایک دو دن ذرا باہر ہوآویں۔( یعنی سیر کو جایا کریں)”
(ملفوظات جلد5صفحہ47)
حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے بیان کیا کہ
“ایک دن جب سیر کو جانے سے قبل حضور علیہ السلام چوک متصل مسجد مبارک میں قیام فرما تھے۔ تو آپ نے خاکسار کو فرمایا۔ کہ مولوی صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ)کو بلا لاؤ۔ خاکسار بلا لایا۔ سیر میں جب مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیچھے رہ جاتے تو حضور علیہ السلام سے عرض کیا جاتا کہ حضور! مولوی صاحب پیچھے رہ گئے ہیں ۔ تو حضور علیہ السلام صرف قیام ہی نہ فرماتے بلکہ بعض اوقات مولوی صاحب کی طرف لوٹتے بھی تاکہ مولوی صاحب جلدی سے آ کر مل جائیں ۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ ایسا نظارہ میں نے بھی متعدد دفعہ دیکھاہے۔ مگر واپس لوٹنا مجھے یاد نہیں بلکہ میں نے یہی دیکھا ہے کہ ایسے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السَّلام انتظار میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت خلیفہ اولؓ بہت آہستہ چلتے تھے اور حضرت صاحب بہت زود رفتار تھے۔ مگر اس زود رفتاری کی وجہ سے وقار میں فرق نہیں آتا تھا۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 581)
“حسب معمول حضرت اقدسؑ سیر کے لیے باہر تشریف لائے اور نواب محمد علی خان صاحب کے مکان کے آگے آکر تھوڑی دیر نواب صاحب کا انتظار فرماتے رہے جب نواب صاحب تشریف لائے تو روانہ ہوئے۔”
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 84)
حضرت سیّد محمد علی شاہ صاحب نے بیان کیا کہ
“ایک مرتبہ میرے ایک شاگرد نے مجھے شیشم کی ایک چھڑی بطور تحفہ دی۔ میں نے خیال کیا کہ میں اس چھڑی کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کروںگا چنانچہ خاکسار نے قادیان پہنچ کر بوقت صبح جبکہ حضور سیر سے واپس تشریف لائے وہ چھڑی پیش کر دی۔ حضور کے دستِ مبارک کی چھڑی میری پیش کردہ چھڑی سے بدرجہا خوب صورت و نفیس تھی لہٰذا مجھے اپنی کوتہ خیالی سے یہ خیال گزرا کہ شاید میری چھڑی قبولیت کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ مگر حضور نے کمال شفقت سے اُسے قبول فرما کر دُعا کی۔ بعد ازاں تین چار روز تک حضور علیہ السلام میری چھڑی کو لے کر باہر سیر کو تشریف لے جاتے تھے جسے دیکھ کر میرے دل کو تسکین و اطمینان حاصل ہوا۔ پھر حضور بدستورِ سابق اپنی پُرانی چھڑی ہی لانے لگے اور میری پیش کردہ چھڑی کو گھر میں رکھ لیا۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 549)
حضرت مولوی رحیم بخش صاحب ساکن تلونڈی ضلع گورداسپور بیان کرتے ہیں کہ
“جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر براہین احمدیہ کی طباعت دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے۔ تو کتاب کی طباعت کے دیکھنے کے بعد مجھے فرمایا۔ میاں رحیم بخش چلو سیر کر آئیں۔ جب آپ باغ کی سیر کر رہے تھے تو خاکسار نے عرض کیا کہ حضرت آپ سیر کرتے ہیں ۔ ولی لوگ تو سُنا ہے شب و روز عبادتِ الٰہی کرتے رہتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا۔ ولی اللہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک مجاہدہ کش جیسے حضرت باوا فرید شکر گنج۔ اور دوسرے محدّث جیسے ابوالحسن خرقانی ۔محمد اکرم ملتانی۔ مجدّد الف ثانی وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کے ولی بڑے مرتبہ کے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے بکثرت کلام کرتا ہے۔ مَیں بھی ان میں سے ہوں ۔ اور آپ کا اس وقت محدثیت کا دعویٰ تھا۔ اور فرماتے تھے کہ محدّث بھی ایک طرح نبی ہوتا ہے۔ اس کی وحی بھی مثل وحی نبی کے ہوتی ہے۔ اور آیت وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤی اَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ(الحج:53)الخ میں نبی کے ساتھ ایک قرأت میں محدّث کا لفظ بھی آیا ہے۔ اور اس کی وحی محفوظ ہوتی ہے۔”
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 789)
……………(جاری ہے)
٭…٭…٭