خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ۔
خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ۔ اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔
بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لیے کچھ مال چھوڑنا چاہیے۔ مجھے حیرت آتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے۔ مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ اس کا فکر کریں کہ اولاد صالح ہو طالح نہ ہو۔ مگر یہ وہم بھی نہیں آتا اور نہ اس کی پروا کی جاتی ہے۔ بعض اوقات ایسے لوگ اولاد کے لیے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پروا نہیں کرتے۔ وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بد اطواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر بدکاری اور شراب خوری میں صرف ہوتا ہے اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لیے شرارت اور بدمعاشی کی وارث ہوتی ہے۔
اولاد کا ابتلا بھی بہت بڑا ابتلا ہے۔ اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پروا ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے
وَ ھُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِیْنَ (الاعراف :197)
یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے۔ اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی۔ اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لیے لازمی ہیں۔ جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشا سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لیے کوشش کرے اور دعائیں کرے۔ اس صورت میں خود اللہ تعالیٰ اس کا تکفل کرے گا۔ اور اگر بد چلن ہے تو جائے جہنم میں۔ اس کی پروا تک نہ کرے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا ایک قول ہے کہ میں بچہ تھا۔ جوان ہوا۔ اب بوڑھا ہو گیا۔ میں نے متقی کو کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا کہ اسے رزق کی مار ہو اور نہ اس کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ تو کئی پشت تک رعایت رکھتا ہے۔
پس خود نیک بنو اور اپنی اولاد کے لیے ایک عمدہ نمونہ نیکی اور تقویٰ کا ہو جاؤ اور اس کو متقی اور دیندار بنانے کے لیے سعی اور دعا کرو۔ جس قدر کوشش تم ان کے لیے مال جمع کرنے کی کرتے ہو اسی قدر کوشش اس امر میں کرو۔
خوب یاد رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ سے رشتہ نہ ہو اور سچا تعلق اس کے ساتھ نہ ہو جاوے کوئی چیز نفع نہیں دے سکتی۔ یہودیوں کو دیکھو کہ کیا وہ پیغمبروں کی اولاد نہیں؟ ۔یہی وہ قوم ہے جو اس پر ناز کیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی۔
نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ۔ (المائدہ :19)
ہم اللہ تعالیٰ کے فرزند اور اس کے محبوب ہیں مگر جب انہوں نے خدا تعالیٰ سے رشتہ توڑ دیا اور دنیا ہی دنیا کو مقدم کر لیا تو کیا نتیجہ ہوا؟ خدا تعالیٰ نے اسے سؤر اور بندر کہا۔ اور اب جو حالت ان کی مال و دولت ہوتے ہوئے بھی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
پس وہ کام کرو جو اولاد کے لیے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیزگار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا۔ قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مِل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَ کَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا۔(الکہف:83)
ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے۔ پس اس مقصد کو حاصل کرو اولاد کے لیے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو۔ اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آ جاتے ہیں۔ بد دیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو۔ یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت کے ذریعہ جس میں حقوق شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے۔
اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لیے خواہش ہوتی ہے کیونکہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہو تاکہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون۔ سب ہی تیرے لیے تو غیر ہیں۔
اولاد کے لیے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہو۔
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 108تا 110۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭