چولہ بابا نانک
درّثمین اردوکی تیرہویں نظم
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین میںشامل تیرہویںنظم ‘‘چولہ بابا نانک’’ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘ست بچن’مطبوعہ نومبر1895ءسے ماخوذ ہے۔دو سو پینتیس اشعار کی یہ طویل نظم مثنوی کی ہئیت میں ہے۔نظم کی بحرمتقارب مثمن محذوف/مقصور ہے۔ یہ بحر مثنوی کی مخصوص بحروں میں سےہے۔ ‘‘شاہ نامہ فردوسی’’اسی طرح اردو کی قدیم مثنوی ‘‘کدم راؤ پدم راؤ’’ اور میر حسن کی مثنوی ‘‘سحر البیان’’بھی اسی بحر میں رقم شدہ ہیں۔
‘‘ست بچن’’کی تصنیف سے 17برس پیشتر 1878ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ایک کشف میں حضرت بابا نانکؒ کو ایک مسلمان کی شکل میں دیکھا تھا۔ حضورؑ پر ظاہر کیا گیا کہ حضرت بابا گرو نانکؒ نے بھی آپؑ کی طرح اسلام ہی کے چشمۂ صافی سے پانی پیا تھا۔
حضرت بابا نانکؒ کی یادگار ،یہ متبرک چولہ ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداس پور کے ایک گُردوارے میں محفوظ تھا۔جب حضورؑ کو اس چولے کی نسبت اطلاع ملی تو آپؑ نے اس امرکی تحقیقات کےلیے مرزا یعقوب بیگ صاحب کلانوری، منشی تاج الدین صاحب اکاؤنٹنٹ دفتر ریلوے لاہور، خواجہ کمال الدین صاحب بی۔اے اور میاں عبدالرحمٰن صاحب لاہوری کو روانہ فرمایا۔ اِن احباب سے ملنے والی رپورٹ پر آپؑ نے از خود ڈیرہ بابا نانک تشریف لےجانے اور اس چولے کو خود ملاحظہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ آپؑ استخارہ مسنونہ کے بعد 30ستمبر 1895ءکو سوموار کےروز، یکّوں کے ذریعے ،ڈیرہ بابانانک کےلیے روانہ ہوئے۔ اس تاریخی سفر میں درج ذیل دس احباب کو حضورؑ کی ہم رکابی کا اعزاز حاصل ہوا۔
1۔حضرت مولانا حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ
2۔حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیال کوٹیؓ
3۔ مولانا سید محمد احسن صاحب امروہوی
4۔ شیخ رحمت اللہ صاحب
5۔ منشی غلام قادرصاحب فصیح سیال کوٹی
6۔حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب کلانوریؓ
7۔حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ (نومسلم)
8۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ دہلوی
9۔ حضرت سیّد میر محمد اسماعیل صاحبؓ
10۔حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ
حضورؑ قریباً دس بجے صبح ڈیرہ بابانانک پہنچے اور گیارہ بجے چولہ دیکھنے کےلیے گئے۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے آپؑ کو چولہ دیکھنے کا ایسا موقع ملا کہ وہاں موجود لوگوں کے مطابق ایسا موقع کبھی کسی کو نہیں ملا تھا۔ چولے کی تمام تحریرات پر حضورؑ کو اطلاع ہوگئی۔ یہ مبارک چولہ کم و بیش تین سو رومالوں میں لپیٹ کر بڑے احترام سے رکھا گیا تھا۔ ان نفیس اور قیمتی رومالوں میں سے بعض ریشمی، سُوتی اور پشمینےکی شالیں بھی تھیں۔ یہ قیمتی رومال مختلف وقتوں میں مختلف راجاؤں اور امیروں نے چڑھائے تھے۔ حضورؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘ان رومالوں سے جو ابتداسے ہی چڑھنے شروع ہوگئے یہ یقین کیا جاتا ہے کہ جو کچھ اس چولہ کی اب تعظیم ہوتی ہے وہ صرف اب سے نہیں بلکہ اسی زمانہ سے ہے کہ جب باوا نانک صاحب فوت ہوئے۔’’
(ست بچن، روحانی خزائن جلد10، صفحہ 154)
حضورؑ کے تشریف فرما ہونے کے بعد ایک گھنٹے تک یہ رومال اتارے جاتے رہے تب جاکر یہ متبرک چولہ نمودار ہوا۔اس مبارک چولے پر آیاتِ قرآنیہ لکھی ہوئی ہیں چنانچہ اس حقیقت پر لوگوں کے اطلاع پانے کے خوف سے چولہ دکھانے والے افراد پس و پیش سے کام لیتے اور عذر کرتے ہیں۔ جس وقت حضورؑ نے چولے کی زیارت کی تب وہاں بیس کے قریب معزز آدمی موجود تھے۔ ان معززین کےاصراراور طمع دلانے پر زیارت کرانے والے افراد چولہ دکھلاتے چلے گئے۔ پہلے پہل جب تھوڑا سا پردہ اٹھایا گیا تو بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کی عبارت نہایت خوش خط قلم سے لکھی نظر آئی۔ اسی طرح لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ بہت جلی اور موٹے حروف میں لکھا نظر آیا۔ حضورؑ کے اصحاب نے نہایت حکمت کے ساتھ زیارت کرانے والے افراد کو وقفے وقفے سے خاصی رقم پیش کی جس کے بعد یہ بابرکت چولہ آپؑ کے لیے بالکل کھول کر رکھ دیا گیا۔اس چولے پرآیاتِ قرآنیہ، کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، اسمائے الٰہی اور بعض جگہ ہندسوں میں آیاتِ قرآنیہ لکھی ہوئی ہیں۔ حضورؑ نے کھلا چیلنج دیا کہ بعض مفتری جو یہ کہتے ہیں کہ چولے پر سنسکرت اور شاستری لفظ اور زبور کی آیتیں بھی لکھی ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر کوئی چولے پر وید یا اس کی شُرتی کا ذکر یا اسلام کے علاوہ کسی اَور دین کی تعریف یا قرآن شریف کے سوا کسی اور کتاب کی آیتوں کا لکھا ہونا دکھلادے تو آپؑ نےایسے شخص کے لیے تین ہزار روپے نقد انعام کا اعلان فرمایا۔
بعض آریوں کی طرف سے بغیر کسی حوالے کے صرف شرارت کے طور پر یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ چولہ، بابا نانکؒ کو ایک فتح کے بعد کسی قاضی کی جانب سے فتح کے نشان کے طور پر ملا تھا۔ حضورؑ نے اس بے بنیاد بات کا انتہائی منطقی جواب عنایت فرمایا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اس چولے پر لکھی آیات کا مضمون تو یہ ہے کہ اسلام ہی سچاہےاور حق ہے۔ محمدﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اگر باوا صاحب ان آیات کے منکر تھے تو انہوں نے اس چولے کی اس قدر کیوں عزت کی۔ آپؑ فرماتے ہیں:
‘‘بے شک وہ چولا اپنی ان تمام پاک آیتوں کے ساتھ جو اس پر لکھی ہوئی ہیں باوا صاحب کی ایک پاک یادگار ہےاور پاک ہے وہ مکان جس میں وہ رکھا گیااور پاک ہے وہ کپڑا جس پروہ آیات لکھی گئی ہیں اور پاک تھا وہ وجود جو اس کو پہنے پھرتا تھااور لعنت ہے ان پر جو اس کے برخلاف کہیں اور مبارک وہ ہیں جو چولا صاحب کے کلام سے برکت ڈھونڈہتے ہیں۔’’
(ست بچن، روحانی خزائن جلد 10، صفحہ 161)
………………………………………………………………(باقی آئندہ)